You are currently viewing غزل

غزل

فیضان بریلوی

غزل

ہر کوئی لوٹ کے آتا ہو ضروری تو نہیں

بہتے دریا کا کنارہ ہو ضروری تو نہیں

کوئی جگنو بھی چمکتا ہوا ہو سکتا ہے

آسماں کا ہی ستارہ ہو ضروری تو نہیں

زندگی یوں ہی گزاری بھی تو جا سکتی ہے

دل میں جینے کی تمنا ہو ضروری تو نہیں

کچھ نہ کچھ ظلمت شب سے بھی منور ہوگا

روشنی سے ہی اُجالا ہو ضروری تو نہیں

ہم سے لوگوں کو کہاں راس سفر کا موسم

اور ٹھہراؤ بھی اچھا ہو ضروری تو نہیں

یونہی راتوں کوئی جاگتا ہوگا فیضان

ہر کوئی ہجر کا مارا ہو ضروری تو نہیں

تیرے ہم نام زمانے میں بہت ہیں فیضان

اس نے تجھ کو ہی پکارا ہو ضروری تو نہیں

Leave a Reply