You are currently viewing غزل

غزل

عبدالبصیر

غزل

یوں نہ ہو جاۓ نظر غیر کو اغوا کرلے

دان کر ہجر مجھے عشق میں اندھا کر لے

ہو سکے تو مرے دل کو تو بنا لے مسکن

ہو سکے تو مری آنکھوں میں بسیرا کرلے

ساری دنیا اسے منظر کی طرح دیکھتی ہے

میری آنکھوں سے کہا جاتا ہے پردہ کرلے

وہ مجھے چھوڑ کے جائے گا کہیں رستے پر

ایسی باتیں نہیں کرتے ہیں تو توبہ کرلے

مجھ کو مقصود ہے کچھ دیر کو لہجہ تیرا

پیار سے بات نہیں کرنی تو جھگڑا کر لے

بات یوں ہے کہ میں رہتا ہوں پرے دنیا سے

ایسا کچھ کر کہ مجھے شاملِ دنیا کر لے

میں نہیں چاہتا تصویر میں بھی ساتھ رہوں

ساتھ میں لی ہوئی تصویر کو آدھا کر لے

تیری محفل میں اگر ہم‌ ہیں گنہگار بصیر

ہم کو بے آبرو کر دے ہمیں رسوا کر لے

Leave a Reply