You are currently viewing غزل

غزل

ڈاکٹر احمد رئیسؔ

غزل

نام تیرا جو کوئی اور لے جل جاتے ہیں

ہم تو اک موم کی مانند پگھل جاتے ہیں

مجھ کو زلفیں تری ناگن کی طرح ڈستی ہیں

کتنے اژدر جو مجھے روز نگل جاتے ہیں

زندگی کیوں تری زلفوں سے الجھ بیٹھی تھی

تیری زلفوں کے نہیں آج بھی بل جاتے ہیں

عین ممکن ہے کہے مجھ سے وہ اک دن کچھ یوں

آ کہیں دور کہیں دور نکل جاتے ہیں

تیرے جانے سے مری جان چلی جاتی ہے

تجھ سے جو دور ہوئے کیسے سنبھل جاتے ہیں؟

لوگ کہتے ہیں کہ وہ خواب ہے دیوانے کا

دیکھنے ہم بھی کبھی تاج محل جاتے ہیں

ہم نے اس دور میں روشن کی غزل کی دنیا

مثلِ خورشید سرِ شام سے ڈھل جاتے ہیں

محورِ سوچ سے باہر بھی ہے دنیا جن کی

ہو کے بے رنگ وہ ہر رنگ میں ڈھل جاتے ہیں

سرو قامت یہ نزاکت یہ تمھاری شوخی

یہ وہ محشر ہے جو ٹالے نہیں ٹل جاتے ہیں

ہے سلامت مری ہمت ہے مرا عزم جواں

کیوں حضور؟ آپ تو بے وجہ اچھل جاتے ہیں

چڑھتے سورج کی غلامی ہے سبوں کو تسلیم

ہو بُرا وقت پھر اپنے بھی بدل جاتے ہیں

کیسا وحشت بھرا موسم ہے مرے گاؤں کا

ایک آہٹ پہ بھی ہم لوگ دہل جاتے ہیں

اجنبی جان کے ہم کو، جو نظر پھیر گئے

ہم بھی اغیار کی محفل سے نکل جاتے ہیں

جس میں بس عشق کا چرچا ہو ہمارے جاناں

ایسی اک اور نئی لے کے غزل، جاتے ہیں

غالبؔ و میرؔ کو چھوڑو کہ تری طرح رئیسؔ

شاعروں میں ہیں کئی نام جو چل جاتے ہیں

Leave a Reply