You are currently viewing غزل

غزل

فیضان رضا

غزل

کسی کے واسطے خود کو غلام مت کرنا

تم اپنی ذات کا یوں اختتام مت کرنا

اگر گراں ہے تجھے ذکر یار کی محفل

تو میرے قرب میں ہرگز قیام مت کرنا

میں تیرے واسطے لوگوں سے تلخ بولا ہوں

تو بولتا ہے کہ مجھ سے کلام مت کرنا

اگر کسی کی محبت ہے تیرے دل میں تو

درون قلب ہی رکھ اس کو عام مت کرنا

یہ سائے تجھکو ہلاکت میں ڈال دیں گے ضرور

کسی کی زلف عنبریں میں شام مت کرنا

ملے حبیب کو جس میں خوشی وہ کام اچھا

نفی حبیب کی جس میں وہ کام مت کرنا

تمام فہم و ذکا کی صلاحیت زائل

خیال یار کو ہرگز امام مت کرنا

نہ دن کی فکر نہ ہو  شام کی خبر فیضان

خیال یار میں ایسا نظام مت کرنا

***

Leave a Reply