ڈاکٹر سید عاصم بخاری
(ریسر چ فیلو،جی .سی یونی ورسٹی،لاہور)
محسن خالد محسنؔ
(لیکچرار، شعبہ اُردو،گورنمنٹ گریجوایٹ کالج،چوہنگ،لاہور)
Dr.Syed Asim Bukhari
(Research fellow, G.C University, Lahore)
Mohsin Khalid Mohsin
(Lecturer, Department of Urdu, Govt. Shah Hussain Graduate College Chung, Lahore)
غلام الثقلین نقوی کی ادبی جہات:تعارف و تجزیہ
Literary Aspects of Ghulam-ul-Saqlain Naqvi: Introduction and Analysis
ABSTRACT
The role of Ghulam-ul-Saqlain Naqvi is of significant importance in the evolution of Urdu fictional literature. He started his literary journey by writing fiction. Along with writing fiction, he wrote novels, novelettes, travelogues, humorous articles, and journalistic columns, summaries of English novels, translations, and sketches of literary and non-literary personalities under the title of “relation”. His prominent theme in fictional literature has been village-narrative. Apart from this, he also dealt with various aspects of urban life, but his recognition in Urdu fiction literature is due to his village writing. This paper contains the introduction and analysis of all the works of Ghulam al-Saqlain Naqvi, in which an attempt has been made to present the introduction and brief analysis of the works of Ghulam al-Saqlain Naqvi.Through this paper, readers, critics, and researchers will be helped to understand, evaluate, and analyze the works of Ghulam-ul-Saqlain Naqvi in chronological order.
Key words: Ghulam-ul-Saqlain Naqvi, fiction, novel, columnist, villager, Pakistani society, social consciousness, division, riots, caste, Urdu literature
خلاصہ: اُردو افسانوی ادب کے ارتقا میں غلام الثقلین نقوی کا کردار نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ اُنھوں نے اپنے ادبی سفر کاآغاز افسانہ نویسی سے کیا۔ افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے ناول، ناولٹ، سفر نامے ، مزاحیہ مضامین ، صحافتی کالم، انگریزی ناولوں کی تلخیص، تراجم اور “رابطے”کے عنوان سے ادبی و غیر ادبی شخصیات کے خاکے تحریر کئے ۔ افسانوی ادب میں اُن کا نمایاں موضوع دیہات نگاری رہا ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے شہری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بھی موضوع بنایا، لیکن اُردو افسانوی ادب میں اُن کی پہچان دیہات نگاری کی وجہ سے ہے۔ یہ مقالہ غلام الثقلین نقوی کی جملہ تخلیقات کے تعارف و تجزیہ پر مشتمل ہے جس میں غلام الثقلین نقوی کی تخلیقات کا تعارف اور مختصر تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مقالہ کے ذریعے غلام الثقلین نقوی کی تخلیقات کو زمانی ترتیب سے سمجھنے،پرکھنے اور تجزیہ کرنے میں قارئین و ناقدین اور محققین کو مدد ملے گی۔
کلیدی الفاظ: غلام الثقلین نقوی،افسانہ، ناول، کالم نگاری، دیہات نگاری، پاکستانی معاشرت،سماجی شعور، تقسیم،فسادات،ذات پات،اردو ادب
غلام الثقلین نقوی نے اُردو افسانوی ادب میں دیہات کی پیش کش کے تناظر میں پاکستانیت اور پاکستانی ثقافت کی بھی عکاسی کی ہے۔ جس کی وجہ سے انھیں پاکستانی ادب کے معمار ہونے کی بھی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے تخلیق کردہ افسانوی ادب میں گاؤں ’’خیر‘‘ کی علامت کے طور پر پیش ہوا ہے۔ تکنیکی حوالے سے غلام الثقلین نقوی نے اُردو افسانوی ادب میں افسانویت یا قصہ پن کے عنصر کو قائم رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے کرداروں کی باطنی کیفیات کو پیش کرکے اپنے فن پاروں کو علامتی، تجریدی اور کثیرالجہات معنوی وسعت سے بھی نوازا ہے۔ غلام الثقلین نقوی اخلاقی و تہذیبی نقطہ نظر سے اعلیٰ انسانی اقدارکے تحفظ کے حامی ہیں۔ وہ صحت مند معاشرے کی بقا کے لئے اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ کو ناگزیرسمجھتے ہیں۔
غلام الثقلین نقوی کے ادبی ذوق کی آبیاری کا آغاز بچپن سے ہی ہو گیا تھا ۔اِن کے والد اسکول میں مدرس تھے جو غلام الثقلین نقوی کو رات کے وقت سونے سے پہلے کہانی یا افسانہ پڑھ کر سنایا کرتے تھے ،جس کی وجہ سے غلام الثقلین نقوی کو ادب سے مانوسیت ہونے لگی ۔اُس زمانے میں مولوی ممتاز علی مرحوم کا اشاعتی ادارہ “دارالاشاعت” پنجاب بچوں کے ادب پر مبنی رسالہ ’’پھول‘‘ شائع کرتا تھا ۔یہ ادارہ ’’پھول‘‘ رسالے کے علاوہ چھوٹی چھوٹی دیدہ زیب کتابوں کی صورت میں اُردو کے داستانی ادب کو شائع کرتا تھا ۔غلام الثقلین نقوی رسالہ ’’پھول‘‘ اور بچوں کے ادب پر مبنی کتب کا مطالعہ سکول کی لائبریری میں کیا کرتے تھے۔غلام الثقلین نقوی نے دسویں جماعت تک معقول حد تک اہم افسانوں کا مطالعہ کر لیا تھا ۔اس دور کے متعلق غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’یہ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۳۹ء تک کے زمانے کی باتیں ہیں ۔اسے افسانہ نگاری میں میری تربیت کے ابتدائی دور کا نام دیا جا سکتا ہے ۔میں اسے افسانہ شناسی کہوں گا یعنی اس دور میں مجھے ادبی افسانے کی شُد بُد حاصل ہو گئی ۔‘‘ (1)
۱۹۳۹ء میں غلام الثقلین نقوی میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہو گئے۔ غلام الثقلین نقوی اپنے گاؤں” بھڑتھ سادات” سے مرے کالج جاتے ہوئے راستے کے قدرتی مناظر کا تخلیقی نظر سے مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ شہر اور گاؤں کی زندگی کے تضاد کو بھی محسوس کرتے ۔ سیالکوٹ چھاؤنی میں مقیم انگریز قوم کے معمولات کو دیکھ کر حاکم اور محکوم قوم کے رویوں کا مشاہدہ کرتے۔
اس مشاہدے کی بدولت غلام الثقلین نقوی کے فن پاروں میں رومانوی حقیقت نگاری کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں ۔کالج کے زمانے میں غلام الثقلین نقوی نے زیادہ تر انگریزی ناول پڑھے اور اُردو افسانے صرف ادبی رسالوں میں پڑھتے رہے ۔اسی زمانے میں انھوں نے” آر ۔ایل سٹیون سن ،ڈیوڈ کاپر فیلڈ ،چیخوف، موپساں ،گوگول ،ایڈگر ایلن پو ،تھیکرے ،سر آرتھر کوہلر کاوچ او رسر آرتھر کانن ڈائل “کے فن پاروں کا مطالعہ کیا اور ان مشاہیر کے فن پاروں میں برتی گئیں فنی تکنیکی خوبیوں سے فیض یاب ہوئے ۔غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’اس بے ترتیب اور بے ہدف مطالعے سے فائدہ یہ ہوا کہ میری انگریزی بہتر ہو گئی اور نقصان یہ ہوا کہ میرا مطالعہ یک جہتی ہو گیا ۔مثلاً سنجیدہ نثر (تنقید و تحقیق )سے مجھے رغبت پیدا نہ ہوئی ۔‘‘ (2)
غلام الثقلین نقوی نے جنوری ۱۹۴۲ء تا دسمبر ۱۹۴۳ء کے دو سال فیروزپور (بھارت )کی بستی ٹینکاں والی میں ملٹری اکاؤنٹس کی ملازمت کے سلسلے میں گزارے ۔اس قیام کے دوران غلام الثقلین نقوی نے منشی تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمہ کردہ جاسوسی اور مہماتی ناول اور دوسری کتابیں کرائے پر لے کر پڑھیں ۔اس کے علاوہ کرشن چندر کے افسانوی مجموعے ’’نظارے ‘‘اور ’’طلسم خیال‘‘ راجندر سنگھ بیدی کے ’’دانہ و دام ‘‘اور ’’گرہن‘‘ اور احمد ندیم قاسمی کا ’’چوپال‘‘ بھی اسی زمانے میں پڑھا ۔اس کے بعد بی۔اے کی تیاری کے دوران نصاب میں شامل انگریزی ناول ،ڈرامے ،افسانے اور شاعری کا مطالعہ کیا ۔غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’مارچ ۱۹۴۵ء میں بی۔اے کے امتحان سے فارغ ہوا تو صحیح معنوں میں پہلا افسانہ مجھ پر وارد ہوا ۔۔۔۔۔میں اپنا پہلا افسانہ بھی چھپوا نہیں سکا تھا ،لیکن میں اب یہ نتیجہ نکال سکتا ہوں کہ مارچ یا اپریل ۱۹۴۵ء تک مکتب ِافسانہ کا یہ طالب علم خود تربیتی کا دور مکمل کر چکا تھا ۔‘‘ (3)
ایم ۔اے اُردو کی تیاری کے دوران ایک بار پھر غلام الثقلین نقوی نے داستان ،ناول اور افسانے کا مطالعہ کیا ۔ پریم چند ،سلطان حیدر جوش ،مجنوں گورگھ پوری ،علامہ راشد الخیری، پنڈت سدرشن، اعظم کریوی ،علی عباس حسینی اور نیاز فتح پوری کے افسانے پڑھے۔ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۳ء تک غلام الثقلین نقوی کا تدریس کے سلسلے میں کہوٹے میں قیام رہا۔
اس قیام کے دوران انھوں نے موپساں ،چیخوف، گورگی کے افسانے اور ارنسٹ ہیمنگوے کے ناول پڑھے۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۲ء تک غلام الثقلین نقوی گورنمنٹ ہائی سکول ڈسکہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔اس زمانے میں گشتی لائبریریاں چھوٹے چھوٹے شہروں میں آیا کرتی تھیں۔ ایک گاڑی مہینے میں ایک بار گورنمنٹ ہائی سکول ڈسکہ میں بھی آکر ٹھہرا کرتی تھی۔اس لائبریری کے توسط سے غلام الثقلین نقوی نے” ایڈگر ایلن پو، ہاتھارن،برٹ ہارٹ، ارنسٹ ہیمنگوے، ولیم فاکز، جان سٹین بیک ،پرل ایس بیک ،یو ڈور اویلٹی ،جان ایڈانک ،سکلر لیوس، ارسکن کالڈویل اور ولیم سرویاں “کے مزید ناول پڑھے ۔
غلام الثقلین نقوی ۱۹۶۲ء سے ۱۹۸۳ء تک مختلف کالجوں میں پڑھاتے رہے ،جہاں انھوں نے کالج لائبریریوں سے بھرپور استفادہ حاصل کیا ۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے تعارف ہوا تو غلام الثقلین نقوی نے اِن کی لائبریری سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔
غلام الثقلین نقوی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا ۔افسانے لکھنے کا شوق انھیں کالج کے زمانے ہی سے تھا ۔فن کار میں فن کے رشتے یا تو موروثی ہوتے ہیں یا اکتسابی ۔غلام الثقلین نقوی کے آباؤ اجداد میں کوئی قصہ گو یا افسانہ نگار تو موجود نہیں ،البتہ علم و ادب سے شغف سے روایت ضرور موجود ہے ۔
’’بند گلی‘‘ غلام الثقلین نقوی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے ،جو، بک ورلڈ خانم بازار ،انارکلی لاہور سے ۱۹۶۶ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا ۔دوسرا مجموعہ ’’شفق کے سائے ‘‘کے نام سے مکتبہ میری لائبریری سے جنوری ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا ۔تیسرا مجموعہ ’’نغمہ اور آگ‘‘ مکتبہ عالیہ ،لیک روڈ لاہور نے ۱۹۷۲ء میں شائع کیا ۔چوتھا مجموعہ ’’لمحے کی دیوار‘‘ پنجاب پریس نے ۱۹۷۴ء کو شائع کیا ۔پانچواں افسانوی مجموعہ ’’دھوپ کا سایہ ‘‘ماہِ ادب لاہور سے دسمبر ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا۔ چھٹا مجموعہ ’’سرگوشی‘‘ مقبول اکیڈمی لاہور نے ۱۹۹۲ء کو شائع کیا ۔
ساتواں اور آخری افسانوی مجموعہ ’’نقطے سے نقطے تک‘‘ کلاسیک ریگل چوک سے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا ۔’’میرا گاؤں ‘‘غلام الثقلین نقوی کا دیہی زندگی پر لکھا گیا ایک خوبصورت ناول ہے ۔ اسے ضیائے ادب ۴۴گل زیب کالونی سمن آباد، لاہور سے جولائی ۱۹۸۳ء میں شائع کیا گیا۔ ’’تین ناولٹ‘‘ غلام الثقلین نقوی کے تین مختصر ضخامت کے ناولٹوں کا مجموعہ ہے ،جس میں چاند پور کی نینا ،شمیرا اور شیرزمان شامل ہیں ۔یہ کتاب کاغذی پیرہن میکلوڈ روڈ نے دسمبر ۱۹۹۹ء کو شائع کی ۔
غلام الثقلین نقوی نے ۱۹۸۵ء میں عمرہ کی سعادت حاصل کی ۔اِن کے عمرے کا سفرنامہ ’’ارضِ تمنا‘‘ کے عنوان سے فیروز سنز سے ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا ۔’’ٹرمینس سے ٹرمینس تک ‘‘غلام الثقلین نقوی کے اندرونِ ملک سفرناموں کا مجموعہ ہے ،جس میں ’’کوہ باغ سر کی تسخیر‘‘،’’لاہور سے لوڈوال تک ‘‘، ’’کراچی میں چودہ روز‘‘ اور ’’لاہور سے چراٹ اور لنڈی کوتل تک‘‘ شامل ہیں ۔ اس کتاب کو مکتبہ ثنائی پریس ،سرگودھا نے ۱۹۹۶ء کو شائع کیا۔
غلام الثقلین نقوی ۱۹۸۹ء میں انگلستان گئے ۔انگلستان کا سفرنامہ انھوں نے ’’چل بابا اگلے شہر‘‘ کے عنوان سے لکھا۔اس سفر نامے کو مقبول اکادمی لاہور نے ۱۹۹۳ء کو شائع کیا۔ غلام الثقلین نقوی کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’اِک طرفہ تماشا ہے ‘‘ مکتبہ فکروخیال ۱۷۲ ستلج بلاک اقبال ٹاؤن لاہور سے ۱۹۸۵ میں شائع ہوا ۔
غلام الثقلین نقوی کی ’’تنکے تنکے‘‘ کے عنوان سے مختصر خود نوشت سوانح عمری ماہنامہ ’’محفل‘‘ میں دسمبر ۱۹۹۵ء کو شائع ہوئی ۔’’رابطے ‘‘کے عنوان سے یادداشتیں اور شخصیات کے خاکے لکھے جو بالاقساط رسالہ ’’اوراق ‘‘ کے مختلف شماروں میں اشاعت پذیر ہوئے۔ اس تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام الثقلین نقوی افسانوی ادب کے اعتبار سے ایک ہمہ جہت مصنف ہیں ۔اس کے علاوہ انھوں نے مختلف اصنافِ ادب مثلاً مزاح نگاری ، یاد نویسی، خاکہ نگاری وغیرہ میں بھی کام کیا ،لیکن ان کی بنیادی حیثیت ایک کہانی نگار کی ہے اور اس سے ان کا ادبی اختصاص قائم ہوتا ہے ۔ذیل میں ان کی تخلیقات کا مختصراً تعارف و تجزیہ جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
افسانوی مجموعے
(i) بند گلی:
’’بند گلی ‘‘غلام الثقلین نقوی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے ،جسے بک ورلڈ بازار انارکلی لاہور نے ۱۹۶۶ء میں پہلی مرتبہ شائع کیا ۔اس کتاب کے ناشر محمد علی ملک ہیں ۔غلام الثقلین نقوی نے اس مجموعے کا انتساب اپنے والد محترم کے نام کیا ہے :
’’والدِ محترم کے نام جن کے زیر سایہ میری ذہنی اور فکری تربیت ہوئی ۔
اگر سیاہ و لم، داغ لالہ زار تُو اَم دگر کشادہ جینم، گلِ بہار تو اَم غلام الثقلین نقوی ‘‘ (4)
کتاب کا تعارف ڈاکٹر سہیل بخاری نے کروایا ہے اور ساتھ مصنف کی شخصیت ،کتاب میں موجود افسانوں کے فنی محاسن ،جذبات نگاری ،حقیقت نگاری اور افسانہ نگار کے اسلوبِ بیاں پر روشنی ڈالی ہے ۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے لکھا :
’’آج ہمارے افسانچے کو کسی بھی مغربی ملک کے افسانچے کے مقابلے میں نہایت فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے ۔اس صنف ادب کے اس قدر فروغ اور قبول عام میں ہمارے معاشرے کی افتاد طبع کو بڑا دخل حاصل ہے ،جس نے اُردو میں بہت سے اچھے اچھے افسانہ نگاروں کو جنم دیا ۔غلام الثقلین نقوی کا شمار بھی انھیں میں ہوتا ہے ۔یہ ایک کہنہ مشق فنکار ہیں اور افسانہ نگاری کا رچا ہوا مذاق رکھتے ہیں ۔ پیش نظر مجموعہ ان کے فن کا آئینہ دار ہے ۔‘‘ (5)
غلام الثقلین نقوی کے افسانوی مجموعے ’’بند گلی‘‘ میں افسانوں کی تعداد تیرہ ہے ۔جن کے عنوانات حسب ِذیل ہیں :
]۱۔ تصویر ،۲۔ چنبیلی ،۳۔ سید نگر کا چوہدری ،۴۔ سنگھار میز،۵۔ شیرا نمبر دار ،۶۔ اندھیرے اجالے،۷۔ بی بی ،۸۔ بند گلی،۹۔ پی کے نگر،۱۰۔ لمحات،۱۱۔ مشین،۱۲۔ دوسرا کنارہ،۱۳۔ ڈاچی والیا موڑ مہاروے [
اس مجموعے کے مطالعے سے بنیادی بات یہ سامنے آئی ہے کہ غلام الثقلین نقوی کے افسانوں کی بنیادی جہت ’’دیہات نگاری‘‘ ابتدا میں ہی متعین ہو گئی تھی ۔’’سید نگر کا چوہدری ‘‘اور ’’شیرا نمبر دار‘‘ کرداری افسانے ہیں ۔ان کے یہ کردار دیہات کی نمائندگی اور انسانی قدروں کو اُجاگر کرتے ہیں ۔’’چنبیلی‘‘ ایک محنت کش خاکروب لڑکی کا افسانہ ہے۔غلام الثقلین نقوی نے اس افسانے میں ’’واحد متکلم‘‘ کا استعمال اس طرح کیا ہے کہ یہ افسانہ ان کی آپ بیتی محسوس ہونے لگتا ہے اور چنبیلی کی طرف سے اس ’’واحد متکلم‘‘ کی نا موسوم رغبت کو بڑی درد مندی سے اُبھارا ہے ۔اس کتاب میں غلام الثقلین نقوی ایک دیہاتی حقیقت نگار کے روپ میں سامنے آتے ہیں ۔ان کا اسلوب اتنا لطیف ہے کہ قاری ان افسانوں کی حقیقت میں گم ہو جاتا ہے۔
(ii) شفق کے سائے :
غلام الثقلین نقوی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’شفق کے سائے‘‘ ہے ،جسے مکتبہ میری لائبریری نے جنوری ۱۹۶۹ء میں شائع کیا ۔اس کا انتساب غلام الثقلین نقوی کے چھوٹے بھائی سجاد نقوی کے نام ہے ۔انتساب میں غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’اپنے عزیز بھائی سجاد حسین نقوی کے نام ۔جو مجھ سے چھوٹے ہیں ۔لیکن اُن کے محبت آمیز اصرار کی عظمت نے مجھے نہ صرف افسانہ لکھنے پر آمادہ کیا بلکہ اُن کے احساسِ فن کی نزاکت نے لکھے ہوئے افسانے کی نوک پلک سنوارنے کے لیے مجھے نئی نئی راہیں بھی دکھائیں ۔‘‘ (6)
غلام الثقلین نقوی نے پیش لفظ لکھنے پر ڈاکٹر وزیر آغا کا اور کتاب شائع کرنے پر ناشر چودھری بشیر احمد کا خلوص کے ساتھ ’’ہدیہ تشکر‘‘ کے عنوان سے شکریہ ادا کیا ہے ۔ کتاب پر ڈاکٹر انور سدید ،غلام حسین اظہر اور ڈاکٹر اے ۔بی اشرف نے فلیپ لکھ کر اپنی تنقیدی رائے کا اظہار کیا ہے ۔’’شذرہ ناشر‘‘ کے عنوان سے بشیر احمد چودھری نے کتاب پر تنقیدی رائے دی ہے ۔بشیر احمد چودھری لکھتے ہیں:
’’اِن (غلام الثقلین نقوی )کے افسانوں کو نکھرے ستھرے اسلوب اور نئے انداز فکر کی آمیزش نے ایک نئی چھب دی ہے ۔‘‘ (7)
کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے اور افسانہ نگار کے افسانوں کی بنت میں مخفی پہلوؤں کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے ۔پیش لفظ اپنی ماہیئت کے اعتبار سے خاصے کی چیز ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا نے پیش لفظ میں ’’شفق کے سائے‘‘ کے بنیادی موضوعات کی نشان دہی کرنے کے لیے پہلے ان کے افسانوں سے چند اقتباسات پیش کیے ہیں :
’’دونوں کواٹروں کے درمیان قد آدم دیوار حائل تھی ۔[نہ ترکی نہ تازی ] گھر کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔[گل بانو ]نہیں وہ تم ہی تو تھیں ۔ذرا مجھے پہچانو تو سہی ۔نہیں تم مجھے پہچان نہ سکو گی ۔میرے اور تمھارے درمیان دھول کی ایک سنہری دیوار حائل ہو گئی تھی ۔میں اس دیوار کو پار کر کے تم تک نہ پہنچ سکا تھا۔‘‘ [سنہری دھول]‘‘ (8)
یہ اقتباسات پیش کرنے کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :
’’غلام الثقلین نقوی کے افسانوں سے یہ چند اقتباسات برف کی ایک بہت بڑی سِل سے ٹوٹی ہوئی چندقاشیں ہیں اور سِل ایک مخفی داستان کی طرح ان تمام چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے پسِ پُشت ایستادہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ سِل تو روپ بدل کر افسانہ نگار کی ہر کہانی میں بڑے التزام کے ساتھ اُبھرتی اور کرداروں کو وجود میں لاتی ہے ۔اس روپ کو نقوی صاحب نے ایک دیوار کی صورت میں دیکھا ہے ۔ یہ دیوار محض سنگ و آہن کی دیوار نہیں ۔اس کے متعدد علامتی پہلو بھی ہیں۔۔۔۔۔ کبھی ایک لمحہ بن کر دو دِلوں کے درمیان آ کھڑی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کبھی تقدیر ،سماج یا انسانی انا کا لباس پہن لیتی ہے ۔‘‘ (9)
ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ پیش لفظ تجزیاتی نوعیت کا ہے، جس میں غلام الثقلین نقوی کے فن اور شخصیت کو پرکھنے کی سعی کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے افسانہ نگار کی ذات میں موجود ناسٹیلجیا کے تناظر میں ان کے افسانوں کو پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔غلام الثقلین نقوی بار بار اپنے بچپن اور جوانی کی یادوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور خوب صورت کرداروں کے ساتھ سطح پر آتے ہیں۔ لمحے کی دیوار نے غلام الثقلین نقوی کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔
آپ گاؤں کی معصوم زندگی کو چھوڑ کر شہر میں آ بسے ۔شہری ماحول نے غلام الثقلین نقوی کی مجروح روح پر مرہم نہیں رکھا ۔ غلام الثقلین نقوی روح کو وقتی سکون دینے کے لیے اکثر لمحے کی دیوار پھلانگ کر ماضی کی گم گشتہ یادوں کی طرف مراجعت کرتے نظر آتے ہیں ۔معنوی طور پر یہ ’’دیوار‘‘ ایک ایسی علامت ہے جو غلام الثقلین نقوی کے کرداروں کے علاوہ اِن کی اپنی زندگی میں بھی موجود ہے اور مختلف صورتوںمیں ان کے افسانوں میں سما گئی ہے ۔یہ پیش لفظ غلام الثقلین نقوی کی اپنی داخلی دریافت کا درجہ رکھتا ہے ۔اس افسانوی مجموعے میں بارہ افسانے شامل ہیں، جن کے نام درج ذیل ہیں :
]۱۔ گل بانو ،۲۔ شفق کے سائے ،۳۔ شبنم کی ایک بوند،۴۔ نہ ترکی نہ تازی ،۵۔ خون بہا،۶۔ سودا ،۷۔ سنہری دھول ،۸۔ شاطی ،۹۔ تلوار کی دھار،۱۰۔ دو دھارے،۱۱۔ تیکھا موڑ،۱۲۔ دیوار [
ان افسانوں میں غلام الثقلین نقوی دیہات سے شہر کے مشاہدے کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور یہ ان کے فن میں ایک اہم قدم ہے ۔
(iii) نغمہ اور آگ :
غلام الثقلین نقوی کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’نغمہ اور آگ ‘‘ ہے ۔اس کا انتساب قومی ہیرو سوار محمد حسین شہید کے نام ہے ۔غلام الثقلین نقوی انتساب میں لکھتے ہیں :
’’سوار محمد حسین شہید نشانِ حیدر کے نام ‘‘ (10)
اس مجموعے کو مکتبہ عالیہ ،لیک روڈ لاہور نے شائع کیا ۔تاریخ اشاعت ۱۹۷۲ء ہے ۔اس مجموعے کا تعارف غلام الثقلین نقوی نے خود ’’چند لفظ اور‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے ۔غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’اس تمہید کا آغاز اور خاتمہ صرف دو لفظوں پر ہو سکتا ہے …وطن سے محبت اور جذبۂ سرفروشی کی تحسین…میں نے ’’نغمہ اور آگ ‘‘کے افسانے انھی دو لفظوں کی تفسیر کے لیے لکھے ۔‘‘ (11)
اس مجموعے کے تمام افسانوں کا تعلق ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ سے ہے ،جن میں غازیوں اور شہیدوں کی بہادری اور بے مثال قربانی کو بڑے خو ب صورت انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ غلام الثقلین نقوی نے ان افسانوں کے ذریعے پاک فوج کے غازیوں اور شہیدوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔غلام الثقلین نقوی اس مجموعے کی اشاعت کے جواز کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’وطن کے سپاہی نے وطن کی تاریخ کے صفحوں پر اپنے لہو سے نئے نئے عنوان لکھے ۔میں نے ان میں سے کچھ داستانوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے ۔چنانچہ اس مجموعے کی اشاعت کا سب سے بڑا جواز بھی یہی ہے ۔ہو سکتا ہے کہ یہ افسانے قومی ادب کا جزو جانفرا بن کر زندہ رہیں ۔ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔تاہم میں نے اپنا فرض بجا لانے کی ایک حقیر سی سعی تو کی ہے ۔میں اسے اپنا سرمایۂ حیات سمجھتا ہوں ۔‘‘ (12)
غلام الثقلین نقوی رجائیت پسند ادیب ہیں ۔تعارف میں غلام الثقلین نقوی نے اپنی قوم کے مورال کو بڑھانے کی کوشش کی ہے اور انھیں جنگی تباہی کے بعد نئے پاکستان کی تعمیر نو کا درس دیا ہے ۔ غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’شکست و فتح عارضی چیزیں ہیں لیکن قومیں زندہ رہتی ہیں اور جو قومیں بحران میں سے گزر کر زندہ رہیں اپنی تعمیر نو کے بعد زیادہ پائیدار اور مضبوط ہوتی ہیں ۔‘‘(13)
تعارف کے دوسرے حصے میں غلام الثقلین نقوی نے اس مجموعے میں شامل افسانوں پر روشنی ڈالی ہے ۔
اس حوالے سے لکھتے ہیں :
’’اس مجموعے کا پہلا افسانہ میں نے ستمبر ۶۵ء میں لکھا تھا ۔اس افسانے کا ہیرو دیہات کا رہنے والا ہے۔۔۔۔۔ میں نے اس افسانے میں اسی ماحول کی ترجمانی کی ہے ۔اسی طرح ’’نغمہ اور آگ‘‘ کا شاعر مزاج اور حق پرست سپاہی بھی دیہات سے تعلق رکھتا ہے ۔اس کی شاعرانہ حق پرستی آگ سے گزرتی ہے تو کندن ہو جاتی ہے اور تب افسانے کے رُوپ میں ڈھل جاتی ہے ۔۔۔۔۔سبز پوش پر مجھے ناز ہے ۔یہ میرے اس روزانہ سفر کی یاد گار ہے جو جنگِ ستمبر کے دوران مجھے شاہدرہ گاؤں سے سنٹرل ٹریننگ کالج تک کرنا پڑتا تھا ۔۔۔۔۔میرا خیال تھا کہ ’’جلی مٹی کی خوشبو‘‘ ستمبر ۶۵ء کی جنگ کا آخری افسانہ ہو گا لیکن اس مجموعے کا خاتم افسانہ ’’ایک سپاہی کی ڈائری ‘‘ہے ۔‘‘ (14)
کتاب پر فلیپ ڈاکٹر انور سدید نے لکھا ہے اور اس میں افسانہ ’’جلی مٹی کی خوشبو‘‘ پر تنقیدی رائے دی ہے ۔
اس افسانوی مجموعے میں سات افسانے شامل ہیں :
]۱۔ کافوری شمع ،۲۔ نغمہ اور آگ،۳۔ ڈیک کے کنارے،۴۔ سبز پوش،۵۔ اے وادی ٔ لولاب،۶۔ جلی مٹی کی خوشبو ،۷۔ سپاہی کی ڈائری [
(iv) لمحے کی دیوار:
غلام الثقلین نقوی کا چوتھا افسانوی مجموعہ ’’لمحے کی دیوار‘‘ پنجاب آرٹ پریس سے ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا۔ اس کا انتساب رفیق خاور کے نام ہے ۔’’لمحے کی دیوار‘‘ غلام الثقلین نقوی کے افسانوی مجموعہ ’’شفق کے سائے‘‘ کے بعد شائع ہوا ، لیکن زمانوی ترتیب کے حوالے سے اسے ’’بند گلی ‘‘ کے بعد اور ’’شفق کے سائے ‘‘سے پہلے شائع ہونا تھا۔ لہٰذا اس مجموعے کے افسانوں کو مصنف کے فنی ارتقاء میں درمیانی کڑی کی اہمیت حاصل ہے ۔
ڈاکٹر انور سدید اس مجموعے کا تعارف کرواتے ہوئے غلام الثقلین نقوی کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’غلام الثقلین نقوی اپنے نام کے بوجھل پن کے با وصف اُردو ادب میں شعریت اور لطافت کا نمائندہ ہے ۔اس کی صنف اگر شاعری ہوتی ،تو یہ دونوں اوصاف شاید ایک عام قاری کی خصوصی توجہ نہ کھینچتے ،لیکن اس نے چونکہ نثری ادب کی صنف کو ترسیل مطالب کا ذریعہ بنایا ہے اور اس صنف ادب میں شعریت اور لطافت کے دلآویز نقوش ترتیب دیے ہیں ۔اس لیے قاری ان سے شدت سے متاثر ہوا ہے …تاہم میرے مفروضے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نقوی نے اپنے افسانے کی اساس مجروح کرتے ہوئے اس دلکش کینوس کو محض نثر میں شعریت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ نقوی صاحب کے پیش نظر بنیادی مقصد کہانی بیان کرنا ہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ پلاٹ ،کردار اور زمانے پر اپنی گرفت بڑی مضبوطی سے قائم رکھتا ہے ۔قاری کو کہانی کی ابتدا سے انجام تک واقعات کے ایک منطقی سلسلے سے باخبر ہی نہیں کرتا ،بلکہ اسے ایک نقطے پر لا کر جوڑ دیتا ہے ،جہاں افسانہ نگار کا مشاہدہ قاری کے گہرے تجسس کو بیدار کر دیتا ہے ۔‘‘ (15)
ڈاکٹر انور سدید کا یہ پیش لفظ غلام الثقلین نقوی کو اِن کے افسانوں کے باطن سے دریافت کرنے کی کاوش کے ساتھ ساتھ اِن کی فنی بصیرت اور اِن کے افسانوں کے داخلی مفاہیم کی پہلو داری کی تفہیم میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اس افسانوی مجموعے میں درج ذیل افسانے شامل ہیں :
]۱۔ ہم سفر ،۲۔ کرامت،۳۔ خدا حافظ،۴۔ وہ لمحہ،۵۔ گاؤں کا شاعر،۶ کاغذی پیرہن،۷۔ رام کی لیلا،۸ دیا [
(v) دھوپ کا سایہ :
غلام الثقلین نقوی کا پانچواں افسانوی مجموعہ ’’دھوپ کا سایہ ‘‘ہے ۔اسے ماہِ ادب ،اُردو بازار لاہور نے دسمبر ۱۹۸۶ء میں شائع کیا ۔اس افسانوی مجموعے کا انتساب غلام الثقلین نقوی نے لمحوں کے نام کیا ہے ۔انھوں نے لکھا :
’’اُن لمحوں کے نام جو لفظوں کی گرفت میں نہ آ سکے ۔‘‘ (16)
کتاب کا دیباچہ غلام الثقلین نقوی نے ’’افسانہ اور میں ‘‘کے عنوان سے خود لکھا ہے ۔اس میں مصنف نے اپنے ادبی ذوق ، ادبی مطالعہ اور افسانہ نگاری کی ابتدا کے بارے میں بتایا ہے ۔نیز رسالہ ’’استقلال‘‘، ’’ہمایوں‘‘ ،’’ادب لطیف ‘‘اور ’’اوراق‘‘ جیسے ادبی رسالوں میں اپنے افسانوں کے چھپنے اور اُن پر شائع ہونے والے تنقیدی مضامین کا ذکر کیا ہے ۔ غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’پہلا افسانہ جو پندرہ روزہ ’’استقلال‘‘ میں چھپا اس کا عنوان’’بھول‘‘ تھا او رتاریخ اشاعت یکم اگست ۱۹۴۸ء ہے ۔۔۔۔۔میری کہانی نے اسی ماحول سے جنم لیا جس میں مَیں نے زندگی گزاری ۔میری کہانی نے اُسی زمانے کی عکاسی کی جس کا میں ایک جزو ہوں ۔۔۔۔۔میرے افسانے میں پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے ساتھ میری ’’کومِٹ منٹ‘‘ واضح طور پر محسوس ہوئی ہے ۔قیام پاکستان کے وقت میں نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا ، وہ ابھی تک وجود میں نہیں آیا ۔‘‘(17)
اس افسانوی مجموعے کے افسانوں کی تعداد تیرہ ہے ۔افسانوں کے نام درج ذیل ہیں :
]۱۔ الصبی ،۲۔ میلا برقع،۳۔ ایک ٹیڈی پیسہ،۴۔ پلاسٹک کے پھول،۵۔ بجلی اور راکھ،۶۔ باپ بیٹے ،۷۔ نہیں جی،۸۔ کوڑا گھر،۹۔ دھوپ کا سایہ ،۱۰۔ ایک کھیل ایک کہانی،۱۱۔ شکار،۱۲۔ گندا نالہ اور آنسو ،۱۳۔ ایک پتھر اور [
اس کتاب کے افسانوں میں غلام الثقلین نقوی زمینی حقائق سے ماورائی تصورات کی طرف بڑھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ان کا افسانہ ’’الصبی‘‘ اس کی ایک خوب صورت مثال ہے جس میں پیدائش سے پہلے ماں کے پیٹ میں مرجانے والا بچہ زندگی بھر غلام الثقلین نقوی کا تعاقب کرتا رہتا ہے اور آخر یہ افسانہ لکھ کر انھیں آسودگی حاصل ہوتی ہے ۔ ’’کوڑا گھر‘‘ میں نچلے معاشرتی طبقے کی عکاسی دیہاتی مزاج سے کی گئی ہے اور ہمدردی کا قیمتی جذبہ اُجاگر کیا گیا ہے ۔
(vi) سرگوشی :
غلام الثقلین نقوی کا چھٹا افسانوی مجموعہ ’’سرگوشی‘‘ ہے جسے مقبول اکیڈمی ،لاہور نے ۱۹۹۲ء کو شائع کیا۔ اس مجموعے کا انتساب غلام الثقلین نقوی نے اپنی شریک حیات کے نام لکھا ہے ۔انتساب میں لکھتے ہیں :
’’اپنی رفیقۂ حیات کی پچاس سالہ رفاقت کے نام‘‘ (18)
اس افسانوی مجموعے کا دیباچہ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے ۔دیباچے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے صاحبِ افسانہ کی کم و بیش ساری جہتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے :
’’انھوں (غلام الثقلین نقوی )نے مغربی فکشن کا مطالعہ کرنے اور وہاں کے غالب میلانات سے آگاہ ہونے کے باوجود تقلید اور تتبع کے رجحان پر تین حرف بھیجتے ہوئے اپنی کہانیوں کو وطن کی مٹی سے کشید کیا ہے ۔۔۔۔۔ ان کے ہاں بنیادی موضع مٹی کی خوشبو ،موسم کا مزاج اور دھرتی پر پڑنے والا بادل کا سایہ ہے ۔۔۔۔۔ غلام الثقلین نقوی نے دیہات کے کرداروں کو بڑی نفاست ،خلوص اور جذبے کے تحت پیش کیا ہے ۔۔۔۔۔ یہ نہیں کہ غلام الثقلین نقوی محض دیہات نگار ہیں ۔انھوں نے عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ شہروں میں بھی گزارا ہے ۔لہٰذا وہ شہری زندگی کے مفسر ،شاہد اور نباض ہیں ۔غلام الثقلین نقوی کے فن کا سب سے امتیازی وصف یہی ہے کہ وہ قاری کو کہانی کے سیلِ رواں میں بہا لے جاتا ہے ۔‘‘ (19)
اس افسانوی مجموعے میں بیس افسانے شامل ہیں :
]۱۔ راکھ ،۲۔ دوسرا قدم،۳۔ لمحے کی موت،۴۔ سرگوشی ،۵۔ پکنک،۶۔ وہ،۷۔ لونگ والی،۸۔ گلی کا گیت،۹۔ بلیو بوائے،۱۰۔ بڈھا دریا ،۱۱۔ دی ہیرو،۱۲۔ نیلے آنچل،۱۳۔ زرد پہاڑ،۱۴۔ زلیخا ،۱۵۔ اندھا کنواں،۱۶۔ چھدرا سایہ ،۱۷۔ سائبان والا دن،۱۸۔ ایک بوند لہو کی،۱۹۔ بے یقینی کا عذاب،۲۰۔ قلم [
مرزا ادیب نے ’’سرگوشی‘‘ کے افسانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’مَیں ۔۔۔۔۔ان کے بیشتر افسانوں کا مطالعہ کر چکا ہوں اور مَیں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ’’سرگوشی‘‘ کا افسانہ نگار بند گلی اور دوسرے مجموعوں کے مصنف سے بڑی حد تک الگ تھلگ نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔ سرگوشی کا مصنف اس غلام الثقلین نقوی سے کئی قدم آگے بڑھ چکا ہے جس نے ماضی میں پانچ افسانوی مجموعے دیے ہیں ۔‘‘ (20)
مرزا ادیب کی اس رائے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ غلام الثقلین نقوی کا فن ’’بند گلی‘‘ کے بعد مائل بہ ارتقاء رہا اور انھوں نے معاشرے کو پختہ نظر سے دیکھا تو نئے حقائق آشکار کیے ۔دیہات میں زندگی کے کافی سال گزارنے کے بعد جب وہ شہر میں آ بسے تو اِنھیں شہری زندگی کے مستور حقائق اور اَسرار سے آگاہی ہوئی ۔جب انھوں نے شہری زندگی کی نبض پر ہاتھ رکھا تو شہری زندگی کے جسمانی اور نفسیاتی عارضوں کا ادراک حاصل کیا جنھیں انھوں نے اپنے بیشتر افسانوں میں کبھی سیدھے سادے اور کبھی علامتی انداز میں پیش کیا ۔’’سرگوشی‘‘ کے افسانوں پر علامتی اسلوب غالب ہے لیکن غلام الثقلین نقوی کی علامتیں گورکھ دھندا نہیں بنتیں بلکہ وہ علامت کے استعمال سے افسانے کو کثیر المعانی بنا دیتے ہیں ۔افسانہ ’’سرگوشی‘‘ اس کی بہترین مثال ہے ۔
(vii) نقطے سے نقطے تک :
’’نقطے سے نقطے تک ‘‘غلام الثقلین نقوی کا ساتواں اور آخری افسانوی مجموعہ ہے جسے کلاسیک ،ریگل چو ک دی مال ،لاہور نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شائع کیا۔اس مجموعے کا انتساب غلام الثقلین نقوی نے اپنے بچوں کے نام کیا ہے۔ انتساب میں غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’عزیزان ظہیر ،عفت ،صغیر ،نصیر اور مشیر کے نام جن سے توقع ہے کہ اس مجموعے کو اپنے والد کی طرف سے برگِ سبز است تحفۂ درویش سمجھ کر قبول کریں گے ۔‘‘ (21)
دیباچہ سجاد نقوی نے لکھا ہے ۔سجاد نقوی نے دیباچے میں غلام الثقلین نقوی کی سابقہ تمام ادبی فتوحات کا اجمال سے تذکرہ کر کے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔سجاد نقوی لکھتے ہیں :
’’نقوی صاحب کی ادبی فتوحات میں ناول ،ناولٹ ،سفرنامے ،زندہ اور مرحوم شخصیات کے خاکے ، تنقیدی مضامین ،انشائیہ نمامضامین ،صحافتی کالم اور بہت کچھ شامل ہے مگر ان کی پہلی محبت ’’اُردو افسانہ‘‘ ہے ۔۔۔۔۔’’نقطے سے نقطے تک ‘‘کے پیشتر افسانے بھی نقوی صاحب کے دیہات نگاری کے اولین میلان کی یاد دلاتے ہیں ۔ان میں گڑ کی ڈلی ،نیلے پربت ،نقطے سے نقطے تک اور اپنا گھر ،بدلتے ہوئے حالات میں دیہات کی معنی خیز عکاسی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ناقدین ’’ادب عالیہ‘‘کو ہیومنزم (انسان دوستی) سے مشروط کر تے ہیں ۔۔۔۔۔مجموعے کے اگر سارے افسانے نہیں تو کم از کم اللہ معافی، زمزمۂ محبت ،اللہ ہو ،دارالامان، پہیا اور اپنا گھر ادب عالیہ کی اس شرط پر پورے اترتے ہیں ۔‘‘ (22)
اس افسانوی مجموعے کے آغاز میں ’’دو تین باتیں اور ‘‘کے عنوان سے غلام الثقلین نقوی رقم طراز ہیں :
’’۱۹۸۶ء میں میرا افسانوی مجموعہ ’’دھوپ کا سایہ ‘‘شائع ہوا تو میں نے اسے آخری مجموعہ قرار دیا۔ حالانکہ اس کے بعد ایک مجموعہ ’’سرگوشی‘‘ کے عنوان سے چھپا …اب اس مجموعے کو مَیں آخری مجموعہ سمجھ کر شائع کر رہا ہوں ۔اگر اس کے بعد کوئی افسانہ لکھا بھی گیا تو کسی مجموعے کی صورت ،منصۂ شہود پر نہیں آ سکتا ۔اس مجموعے سمیت اب تک میرے افسانوں کے کل ساتھ مجموعے شائع ہوئے جو ستاسی (۸۷) افسانوں پر مشتمل ہیں ۔تجرباتی دور کے پانچ سات افسانے جو میں نے کسی مجموعے میں شامل نہیں کیے ،اس میں شامل کر بھی لیتا تو سنچری پھر بھی پوری نہ ہوتی ۔‘‘ (23)
غلام الثقلین نقوی کی یہ تحریر ایک لحاظ سے اِن کی افسانہ نگاری کے پورے فن پر نظر ڈالنے کی ایک آخری کاوش ہے ، لیکن اس کے بعد بھی غلام الثقلین نقوی کا قلم چلتا رہا اور وہ ’’نوائے وقت‘‘ میں صحافتی کالم لکھتے رہے ۔قریباً اَسّی(۸۰) سال کی عمر میں بھی ان کے ہاں لکھنے کی لگن موجود تھی ،جب کہ انھیں احساس تھا کہ اب وہ افسانوں کا کوئی اور مجموعہ ترتیب نہ دے سکیں گے ۔اس افسانوی مجموعے میں چودہ افسانے شامل ہیں ۔ان افسانوں کے لکھنے کی تاریخ بھی اس کتاب میں درج ہے:
]۱۔ اللہ معافی،۲۔ نیلے پربت ،۳۔ زمزمۂ محبت،۴۔ نقطے سے نقطے تک،۵۔ اللہ ہو یوسف ؑکھوہ ،۶۔گُڑکی ڈَلی،۷۔ ماسی حاجن اور چوہا چور،۸۔ معجونِ سنگ دانۂ مُرغ،۹۔ دارالامان،۱۰۔ پہیا ،۱۱۔ اپنا گھر،۱۲۔ ترقی کا میراج ،۱۳۔ چاچا بوٹا موٹروے پر،۱۴۔ پلیٹ فارم پر کھڑا اکیلا مسافر [
ناول نگاری
۲۔ ناول ’’میرا گاؤں‘‘
’’میرا گاؤں‘‘ غلام الثقلین نقوی کا دیہی سماج پر لکھا گیا ایک خوب صورت اور شاہکار ناول ہے ۔اسے ضیاء ادب ، ۴۴ گل زیب کالونی ،سمن آباد ،لاہور نے جولائی ۱۹۸۲ء کو شائع کیا ۔اس کے انتساب میں غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’صائمہ ،عظمیٰ اور زُہَیر عباس کے نام !اس توقع پر کہ آج سے بیس سال بعد جو نسل آئے گی ،وہ اس کے نمائندے ہوں گے ،اور اس ناول کی وساطت سے اُن کا تعلق اپنے دادا ابّا اور اپنے گاؤں بھڑتھ سادات سے قائم رہے گا جہاں سے دُور نیلم کی دیواریں نظر آتی ہیں اور سکون اور عظمت کی علامت بن کر دل میں اُتر جاتی ہیں ۔‘‘(24)
صائمہ اور عظمیٰ غلام الثقلین نقوی کی پوتیاں اور زُہَیر پوتا ہے ۔یہ تینوں غلام الثقلین نقوی کے بڑے بیٹے ڈاکٹر ظہیر الحسن نقوی کے بچے ہیںجنھیں غلام الثقلین نقوی نے آنے والی نئی نسل کے نمائندے کہا ہے ۔
’’میرا گاؤں‘‘ کا دیباچہ غلام الثقلین نقوی نے ’’لاہور سے چک مراد تک‘‘ کے عنوان سے خود لکھا ہے ۔دیباچے میں ناول کے آغاز اور اختتام کے بارے میں غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’اس ناول کا پہلا لفظ میں نے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۰ء کو لکھا ۔۲۵ /اپریل ۱۹۷۵ء کو آخری لفظ وجود میں آ کر کاغذ پر ڈھلک گیا ۔ترمیم و اصلاح کے بعد اس کی تکمیل ۹ دسمبر ۱۹۷۵ء کو ہوئی ۔‘‘ (25)
غلام الثقلین نقوی کا یہ ناول بالاقساط ’’اوراق‘‘ میں چھپتا رہا اور لاہور ٹیلی ویژن سنٹر کے مقبول پنجابی سلسلہ وار ڈرامے ’’پرچھانویں‘‘ کا بنیادی خیال اسی ناول سے لیا گیا تھا ۔غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’یہ ناول میں نے عبدالرحمن کی زبان میں لکھا ہے ۔وہی اس کا مرکزی کردار ہے لیکن ناول اُس کے نہیں ’چک مراد‘ کے گرد گھومتا ہے ۔یہ چھوٹا سا گاؤں ہی اس ناول کا محور ہے ۔میں نے اس چھوٹی سی دنیا کی ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔میں نے اس تصویر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی سعی کی ہے لیکن چونکہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے ،اسے اپنے اندر رچا کر صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے ۔اس لیے شاید ’’حقیقت‘‘ کا وہ عریاں جسم آپ کو نظر نہ آئے جو معروضی حقیقت نگاری کا خاصا ہوتا ہے ۔تاہم اس زندگی میں طبقاتی تصادم بھی موجود ہے اور اس کے پہلو بہ پہلو انسانی رشتوں کا وہ جذباتی آہنگ بھی جو ہمارے افسانوی ادب سے غائب ہوتا چلا جا رہا ہے ۔‘‘ (26)
3۔ تین ناولٹ:
’’تین ناولٹ‘‘ غلام الثقلین نقوی کے تین مناسب ضخامت کے ناولٹوں کا مجموعہ ہے جس میں ’’چاند پور کی نینا‘‘، ’’شمیرا‘‘ اور ’’شیر زمان‘‘ شامل ہے ۔یہ کتاب کاغذی پیرہن میکلوڈ روڈ سے دسمبر ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی ۔’’تین ناولٹ‘‘ کا انتساب تین اشخاص کے نام ہے ۔غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’مرحُومین نانی اماں، بے جی اور ماموں مسکین حسین شاہ کے نام جو بچپن اور لڑکپن میں مجھے اچھی اچھی کہانیاں سنایا کرتے تھے ۔‘‘(27)
غلام الثقلین نقوی اپنی والدہ کو بے جی کہا کرتے تھے ۔’’تین ناولٹ‘‘ کا دیباچہ سجاد نقوی نے لکھا ہے ۔سجاد نقوی لکھتے ہیں :
’’ان تین مختصر ناولوں (ناولٹوں) میں نقوی صاحب کے فن کے تدریجی ارتقاء کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔ ’’چاند پور کی نینا‘‘ اب سے چالیس سال پہلے کی تحریر ہے ۔۔۔۔۔ترتیب کے لحاظ سے ’’شیر زمان‘‘ کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے ،لیکن زمانی اعتبار سے یہ ’’چاند پور کی نینا ‘‘اور ’’شمیرا‘‘ کے درمیان کی چیز ہے ۔’’شیر زمان‘‘ کو انھوں نے دوبارہ لکھا ہے ۔۔۔۔۔پرانے مسودے میں منظر نگاری پر بہت زور دیا گیا تھا لیکن جب ’’شیر زمان‘‘ کو دوبارہ لکھا گیا تو منظر نگاری کو کہانی کے تابع کر دیا گیا ۔’’شیر زمان ‘‘کا موضوع کشمیر کی جدوجہد آزادی ہے ۔‘‘ (28)
’’چاند پور کی نینا‘‘ کا اسلوب بیان رنگینی اور شعریت کا آئینہ دار ہے ۔یہ رومانوی انداز کا ناول ہے ۔رومان اور حقیقت کے سنگم پر لکھی ہوئی یہ کہانی کافی دلکش اور خوبصورت ہے ۔’’چاند پور کی نینا‘‘ کے متعلق غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’ناولٹ ’’چاند پور کی نینا‘‘ کا اصل مسودہ گم ہو چکا ہے جو غالباً ۱۹۵۹ء میں لکھا گیا تھا ۔اگر ڈاکٹر انور سدید کو اپنی پسندیدہ تحریریں جمع کرنے کا شوق نہ ہوتا تو اس کی بازیابی میں بہت مشکل پیش آتی ۔انھوں نے رسالوں سے کاٹ کاٹ کر میرے کچھ افسانے جمع کئے تھے اور ان کی جلد بندھوالی تھی ۔یہ جلد ان کی لائبریری سے مل گئی ۔‘‘(29)
ناولٹ ’’شیر زمان‘‘ میں جذباتی مبالغے سے گریز کیا گیا ہے ۔اس کا لب و لہجہ انتہائی دلکش ہے ۔اس میں لفظی پیکر تراشی کا ایسا کمال نظر آتا ہے جیسے تصویروں کی ایک گیلری سجی ہو ۔فلیش بیک تکنیک کا نہایت عمدہ استعمال کیا گیا ہے ۔
’’شمیرا‘‘ کا کینوس دونوں ناولٹوں سے بڑا ہے ۔غلام الثقلین نقوی نے اپنے درس و تدریس سے وابستہ ہونے کے حوالے سے اسے سوانحی ناول کی دلکشی اور دلچسپی بھی عطا کر دی ہے ۔ڈاکٹر انور سدید نے لکھا :
’’ناول اور افسانے کی درمیانی کڑی ناولٹ ہے ۔اس کے نقوش تابندہ صورت میں اِن (غلام الثقلین نقوی ) کے آخری دور کی کتاب ’’تین ناولٹ‘‘ میں سامنے آئے ۔‘‘ (30)
تین ناولٹ پر ڈاکٹر انور سدید ،شاہد شیدائی اور آغا امیر حسین کاظمی نے فلیپ لکھے ۔
۴۔ سفر نامے:
(i) ارضِ تمنا :
غلام الثقلین نقوی نے ۱۹۸۵ء میں عمرہ کی سعادت حاصل کی ۔انھوں نے اپنے سفر نامۂ حجاز کی رُوداد ’’ارض تمنا‘‘ کے عنوان سے لکھی جسے کتابی صورت میں فیروز سنز لاہور نے ۱۹۸۸ء کو شائع کیا ۔انتساب میں غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
’’موتیوں کی ان لڑیوں کے نام خُرد سال فرزند جو حضرت ابراہیم ؒکی وفات پر حضورؐ کی آنکھوں سے ٹوٹیں اور اس گناہ گار کے اس دامن کے نام جس نے انھیں سمیٹ لیا ۔‘‘(31)
’’ارضِ تمنا‘‘ کا دیباچہ ڈاکٹر انور سدید نے لکھا ہے ۔دیباچے میں ’’ارضِ تمنا‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید نے ’’ارضِ تمنا‘‘ کے فنی محاسن اور سفر حجاز کے دوران غلام الثقلین نقوی کی روحانی و قلبی واردات پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔’’ارضِ تمنا‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں :
’’میں نے ان کا سفر نامہ ’’ارضِ تمنا‘‘ پڑھا تو مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں کوئی انوکھی چیز پڑھ رہا ہوں۔ بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں اور نقوی صاحب اس خواب کا تعاقب کر رہے ہیں جو ہمارے داخل کے روحانی خطّوں میں ہماری پیدائش کے وقت کلمہؑ طیبہ کی صورت میں داخل کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔نقوی صاحب عمر بھر اس خواب کی تعبیر تلاش کرنے میں سرگرداں رہے اور اس کی تلاش میں ’’ارضِ تمنا‘‘ کا سفر اختیار کیا۔‘‘(32)
ایک اور جگہ ’’ارضِ تمنا‘‘ پر رائے دیتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں :
’’میرے خیال میں ’’ارضِ تمنا‘‘ محض ارضِ حجاز کا سفر نامہ نہیں بلکہ یہ ایک ادیب کا اپنے باطن میں اور تاریخ اسلام کے روشن عہد اور زمانۂ رسالت میں چند سانس لینے کا ایک روحانی تجربہ ہے ۔نقوی صاحب کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے ہر کیفیت کو صدقِ دلی اور صدقِ بیانی سے پیش کیا ہے ۔اس لیے یہ سفر نامہ ارضِ مقدس کے دوسرے متعدد سفرناموں سے مختلف نوعیت کا سفر نامہ ہے ۔فنی سطح پر اس بات کا ادراک بھی ہوتا ہے کہ نقوی صاحب اعلیٰ صلاحیتوں کے سفرنامہ نگار ہیں اور وہ حقیقت کو متخیلہ سے خوش نظر بنانے کی سعی نہیں کرتے اس خوبی کی جتنی داد دی جائے کم ہے ۔‘‘(33)
سجاد نقوی ’’ارضِ تمنا‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’قاری سفر نامے میں پیش کردہ مناظر کا ابھی جاگتی آنکھوں سے نظارہ کر رہا ہوتا ہے کہ دفعتاً وہ خواب کی کیفیت میں چلا جاتا ہے جہاں تاریخ اسلام کا صدیوں پرانا کوئی لمحہ اسے اپنی تمام تر حسن و رعنائی کے ساتھ زندہ و تابندہ دکھائی دیتا ہے ۔‘‘(34)
غلام الثقلین نقوی کا سفر نامہ حجاز ’’ارضِ تمنا‘‘ ماہنامہ ’’اوراق‘‘ میں قسط وار چھپتا رہا اور بے حد مقبول ہوا۔ اس سفرنامے کو دیگر حجاز کے سفرناموں سے جو خوبی ممتاز اور منفرد بناتی ہے ،تاریخ کے وہ واقعات ہیں جنھیں غلام الثقلین نقوی نے کیفیت انجذاب میں دوبارہ تخلیق کیا ہے ۔
ان میں حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ ،حضور ﷺکی ہجرت کا واقعہ ،تمیم کی وادی میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ اور امام زین العابدینؓ اور حصین بن نمیر (قاتل حضرت علی اکبرؓ) کی ملاقات کا واقعہ قابل ذکر ہے۔’’ارض تمنا‘‘ غلام الثقلین نقوی کی روح کی پرواز کا بیانیہ ہے جس میں وہ مادی وجود سے بلند ہو کر ماضی کی مقدس سرزمینوں پر روحانی عمودی سفر کرتے اور دل کی طمانیت سمیٹتے ہیں ۔’’ارضِ تمنا‘‘ کے متعلق سیّد ابو الخیر کشفی لکھتے ہیں:
’’’ارضِ تمنا‘ ایک مختصر سفر نامہ ہے مگر اس کے مطالعہ سے جیسے ہمارا ایمان نئی جہات سے روشناس ہوتا ہے۔ غلام الثقلین نقوی نے ایک تخلیقی فنکار کی طرح تاریخ کو جیسے لمحۂ حال میں ڈھال دیا ہے۔ اس کتاب میں تخیل بھی ہے جو مناظر کو حقیقت کے نئے رنگوں میں ڈھالتا ہے۔ وہ ایمانی حقیقت بھی ہے جو عقیدہ پر غالب آ جاتی ہے اور توازن کو برقرار رکھتی ہے۔‘‘ (35)
ii۔ ٹرمینس سے ٹرمینس تک :
’’ٹرمینس سے ٹرمینس تک ‘‘ غلام الثقلین نقوی کے اندرونِ ملک سفرناموں کا مجموعہ ہے جس میں ’’کوہ باغ سر کی تسخیر‘‘ ،’’لاہور سے لوڈووال تک ‘‘،’’کراچی میں چودہ روز‘‘ ،’’لاہور سے چراٹ اور لنڈی کوتل تک‘‘ شامل ہیں ۔انتساب غلام الثقلین نقوی نے اپنے بھتیجے اور اس کی شریک حیات کے نام کیا ہے :
’’ڈاکٹر حامد عقیل نقوی اور ڈاکٹر روبینہ عقیل نقوی کے نام ‘‘(36)
اس کتاب کو مکتبۂ نردبان نے ثنائی پریس ،سرگودھا سے ۱۹۹۷ء کو شائع کیا ۔سجاد نقوی پیش لفظ میں رقم طراز ہیں :
’’اُردو ادب میں ایسے بہت کم ادیب ہیں جن کا ادبی گراف عمر ڈھلنے کے باوجود مائل بہ ارتقاء ہو ۔ایسے خوش قسمت ادباء میں غلام الثقلین نقوی کا نام بلا تکلف لیا جا سکتا ہے ۔نقوی صاحب کی ادبی زندگی کو شروع ہوئے آدھی صدی ہو چکی ہے ۔۔۔۔۔انھوں نے تخلیق کی شمع کو اپنے اندر کسی لمحے بھی مدھم نہیں ہونے دیا ۔۔۔۔۔’’کوہ باغ سر کی تسخیر‘‘ اور ’’لاہور سے لوڈووال تک ‘‘مطبوعہ ہیں جب کہ ’’کراچی میں چودہ روز‘‘ اور ’’لاہور سے چراٹ اور لنڈی کوتل تک ‘‘ غیر مطبوعہ سفرنامے ہیں ۔’’لاہور سے لوڈووال تک ‘‘یہ وہ سفر نامہ ہے کہ جب ’’اُردو زبان‘‘ میں شائع ہوا تھا تو اسے ملک گیر شہرت حاصل ہوئی تھی ۔ ہمارے ناقدین اور قارئین نے اسے ’’اُردو سفرنامہ‘‘ کی نہایت بلیغ پیروڈی (تحریف) قرار دیا تھا ۔ کو ہ باغ سر کی تسخیر‘‘ ماہنامہ ’’اوراق‘‘ میں چھپا تھا اور اسے بھی بے حد پسند کیا گیا تھا ۔‘‘(37)
ہمارے ہاں اندرون ملک سیر و سیاحت کو بہت کم سفرناموں میں پیش کیا گیا ہے ۔حالاں کہ مظاہر فطرت اور آثارِ قدیمہ کے اعتبار سے ہمارا ملک کسی بھی یورپی ملک سے پیچھے نہیں ہے ۔اس ملک میں اونچے اونچے پہاڑ ،سر سبز و شاداب میدان ،چشمے ،آبشاریں، نایاب درخت اور پھول ،دلکش وادیاں، مختلف تہذیبوں کے لوگ ،جغرافیائی ثقافت اور سب سے بڑھ کر وسیع و عریض سمندر ہے جس کا ساحل ملکی تجارت کے علاوہ تفریح کا وافر سامان بھی مہیا کرتا ہے ۔غلام الثقلین نقوی نے ان سب کو ایک سیاح کی آنکھ سے دیکھا ہے ۔
غلام الثقلین نقوی جو کچھ دیکھتے ساتھ ساتھ نوٹس بھی لکھتے رہتے ،اس لیے اِن کے سفرنامے حقیقت کے بہت قریب ہیں ۔’’کراچی میں چودہ روز‘‘ اور ’’لاہور سے چراٹ اور لنڈی کوتل تک‘‘ غلام الثقلین نقوی کے اس اسلوب میں لکھے گئے ہیں جو مردہ اور مستعمل لفظوں میں نئی زندگی اور تازگی کی لہر دوڑا دیتا ہے اور یہ اسلوب غلام الثقلین نقوی کی اُردو ادب میں پہچان بن گیا ہے ۔کتاب پر فلیپ ڈاکٹر وزیر آغا اور پروفیسر غلام جیلانی اصغر نے لکھے ہیں ۔
iii۔ چل بابا اگلے شہر :
غلام الثقلین نقوی ۱۹۸۹ء میں انگلستان گئے ۔غلام الثقلین نقوی کے بڑے بیٹے ظہیر الحسن نقوی کو پی ایچ۔ ڈی کرنے کے لیے برٹش کونسل سے اسکالرشپ ملا تھا اور وہ وہاں ویلز کے ایک قصبے ابیرایسٹ وتھ کی یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھے ۔بعد میں انھوں نے بیوی بچوں کو بھی وہاں بلا لیا ۔غلام الثقلین نقوی کا سب سے چھوٹا بیٹا مشیر نقوی بھی جنگ گروپ کے لندن آفس میں ملازم تھا ۔دونوں بیٹوں نے انگلستان آنے کی دعوت دی تو غلام الثقلین نقوی یہ کہہ کر ٹال مٹول سے کام لینے لگے کہ خدا کا گھر دیکھ لیا ہے اتنا ہی کافی ہے مگر اپنے دو پوتوں زہیر اور قنبر کی دوری برداشت نہ کر سکے اور سفرِ انگلستان کا فیصلہ کر لیا۔ انگلستان کا سفر نامہ انھوں نے ’’چل بابا اگلے شہر‘‘ کے عنوان سے لکھا ۔اس سفر نامے کو مقبول اکادمی لاہور نے ۱۹۹۳ء میں شائع کیا ۔
اس سفر نامے کے انتساب میں غلام الثقلین نقوی لکھتے ہیں :
“Dedicated DR HUGH THOMAS and 1.HUGH MARTIN THOMAS of WELSH PLANT BREEDING for their kindness, love and hospitality during my stay at Aberystwyth” (38)
’’یوں ایک عرصے سے میرے کچھ نہایت قریبی رشتے دار انگلستان میں مقیم ہیں لیکن کسی نے کبھی انگلستان آنے کی دعوت نہ دی تھی ۔اگر دے بھی دیتے تو کچھ ہرج نہ ہوتا ۔جو شخص لاہور سے ڈسکے کے سفر کو سفر جانتا ہو ،وہ بے چارہ خواب کے دوش پر ہی سوار ہو کر لندن پہنچ سکتا تھا ۔‘‘(39)
غلام الثقلین نقوی نے انگلستان کا سفر چھیاسٹھ سال کی عمر میں کیا ۔اس سفر کو وہ ایک خوش گوار حادثہ قرار دیتے ہیں ۔ انھوں نے لکھا :
’’عمر عزیز کے چھیاسٹھویں سال کے اختتام پر سیر و سیاحت کے لیے نکلنا ایسا ہے جیسے اس عمر میں دوسری شادی کرنا ۔۔۔۔۔لیکن کیا کیا جائے، میرے ساتھ ایسا خوشگوار حادثہ ہو ہی گیا ۔‘‘ (40)
اکبر حمیدی ’’چل بابا اگلے شہر‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’پروفیسر نقوی کا سفرنامہ پڑھ کر انگلستان کی سیر تو ہوتی ہے لیکن اس سفرنامے کے ذریعے ہم نقوی صاحب کے باطن کی سیاحت بھی کر سکتے ہیں ۔اس سفرنامے میں بیرون الفاظ تو انگلستان دکھائی دیتا ہے اور اندرون الفاظ پروفیسر نقوی اپنے بہت سے مشرقی خدوخال سمیت پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘ (41)
انگریزوں کی معاشرتی اقدار پاکستانی اقدار سے یکسر مختلف ہیں ۔وہاں عورت اور مرد کے میل جول کو برا نہیں سمجھا جاتا ۔غلام الثقلین نقوی نے وہاں جب پہلی مرتبہ ایک عورت اور مرد کو بے تکلفی سے بیٹھے دیکھا تو بہت محظوظ اور حیران ہوئے ان کا ردِ عمل ذیل کی سطور میں ملاحظہ کیجیے:
’’عین اسی لمحے اپنی جوانی کو جاگتے میں دیکھا کہ جو کبھی خواب میں بھی نظر نہ آئی تھی۔ ایک سیٹ پر ایک مرد اور ایک خاتون بیٹھے تھے ۔یہ ایک لمبوترے چہرے والی خاتون تھی جو اپنے ساتھ مرد کی آغوش میں سر رکھے یوں لیٹی تھی جیسے اس کی طبیعت خراب ہے ۔میرے منہ سے یونہی نکل گیا ۔’’یہ عورت بیمار معلوم ہوتی ہے ‘‘مشیر عباس نے کہا ’’نہیں ابا جی !۔۔۔۔۔کیسی باتیں کرتے ہیں آپ ؟‘‘ ۔۔۔۔۔ایسے نظاروں سے تو قدم قدم پر آپ کو سابقہ پڑے گا۔‘‘ میں کچھ خفیف سا ہو گیا ۔ارادہ کیا کہ اب نظر نیچی رکھوں گا ۔‘‘(42)
غلام الثقلین نقوی کے سفرنامے ’’چل بابا اگلے شہر‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں :
’’ان (غلام الثقلین نقوی ) کا قیام ویلز کے ایک یونیورسٹی ٹاؤن ایبرا ایسٹ ویسٹ میں تھا۔ اس علمی فضا میں انھوں نے انگلستان کے آسمان کو دیکھا ،زمین کو دیکھا، سمندر کو دیکھا ، پہاڑوں کو دیکھا ۔لندن جیسے معروف شہر سے دور آباد دیہاتی لوگوں کو دیکھا ۔۔۔۔۔اُردو ادب میں ایک ایسی کتاب چھپ گئی ہے جسے یوسف خاں کمبل پوش کی کتاب ’’عجائبات فرنگ‘‘ کی طرح ایک حقیقی سفرنامہ قرار دیا جا سکتا ہے اور جو آئندہ سفرنامہ لکھنے والوں کے لیے نظیر بن سکتا ہے ۔‘‘ (43)
غلام الثقلین نقوی کا یہ سفرنامہ نہایت دلکش اور شگفتہ اندازِ بیاں کا حامل ہے ۔اس میں انگریزی تہذیب کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے ۔
v ۔ طنزومزاح:
اک طرفہ تماشا ہے :
غلام الثقلین نقوی کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’اک طرفہ تماشا ہے ‘‘مکتبہ فکروخیال ۱۷۲، ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور سے ۱۹۸۵ء کو شائع ہوا۔انتساب غلام الثقلین نقوی نے اپنے سب سے چھوٹے مرحوم بھائی کے نام لکھا ہے :
’’جواد حیدر نقوی کے نام جو ہنسی کا دلدادہ تھا لیکن جسے موت نے ہنسنے کی بہت کم مہلت دی ۔‘‘ (44)
’’اک طرفہ تماشا ہے ‘‘کا پیش لفظ غلام جیلانی اصغر نے لکھا ہے ۔غلام جیلانی اصغر کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مجھے ان تمام تحریروں میں ایک ایسا تجسّس کار فرما نظر آتا ہے جو سامنے کی چیزوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا نتیجہ ہوتا ہے ۔یہ تجسس خارج کی سطح پر تو محض قوتِ مشاہدہ کو بروئے کار لاتا ہے لیکن داخلی سطح پر یہ ایک ایسا سفر ہوتا ہے جس کی اذیت یا مسرت کا اندازہ خود مسافر کو ہوتا ہے ۔غلام الثقلین نقوی کی یہ خوبی ہے کہ وہ ان دو سطحوں پر قاری کو اپنے سفر میں برابر کا شریک رکھتا ہے ،البتہ سامان (بندوق ہو یا بنڈولیر) وہ خود اُٹھاتا ہے ۔اس لیے قاری کو کسی مرحلے پر تھکاوٹ، گراں باری یا بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتا ۔ دراصل ایک شریف تخلیق کار کی یہی پہچان ہے کہ بی فاختہ کی طرح انڈا تو خود دے لیکن دوسروں کی ضیافت کے لیے ۔‘‘ (45)
’’اک طرفہ تماشا ہے ‘‘میں درج ذیل مزاحیہ مضامین شامل ہیں :
]۱۔ عینک،۲۔ بینجو ،۳۔ آخری کارتوس،۴۔ حقہ ،تہبند اور ٹیلی ویژن ،۵۔ میری پچیسویں سالگرہ،۶۔ لاہور سے لوڈووال تک،۷۔ بڑھاپا اور جلاپا ،۸۔ منکہ ایک قلم کار [
غلام الثقلین نقوی کی یہ تحریریں کسی معروف سکہ بند صنف سے تعلق نہیں رکھتیں ۔ان میں افسانے، انشائیے ، سفرنامے اور سرگزشت کے تمام اجزا غیر منظم صورت میں پائے جاتے ہیں ۔یہ ایسی ادبی نگارشات ہیں جو بے نام ہونے کے باوجود بڑی با ثروت اور دلچسپ ہیں ۔ان تمام تحریروں پر مزاح کا رنگ غالب ہے اور یہ رنگ ان کے اسلوب سے پھوٹتا ہے۔ وہ لطیفہ گوئی اور فقرہ بازی سے کام لے کر مزاح کو زبردستی مضمون کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان کے مزاح کا جادو ان کے برجستہ مکالموں ،گہرے مشاہدے اور الفاظ کے خوب صورت استعمال میں پوشیدہ ہے ۔
ڈاکٹر انور سدید نے ’’اک طرفہ تماشا ہے ‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’اک طرفہ تماشا ہے ‘‘اُن (غلام الثقلین نقوی )کے مزاح کی کتاب ہے جس میں غلام الثقلین نقوی زندگی کی بوالعجیوں کو معصومانہ حیرت سے دیکھتے اور مسکراہٹیں پیدا کرتے نظر آتے ہیں ۔‘‘ 46)
صحافتی کالم:
’’پانچواں طبقہ ‘‘غلام الثقلین نقوی کے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں چھپنے والے بے ساختہ کالموں کا کتابی صورت میں مجموعہ ہے ،جسے کلاسیک ،لاہور نے ۲۰۰۶ء میں شائع کیا ۔
کتاب کا تعارف ’’ارضِ سدید‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر انور سدید نے لکھا ہے ۔ڈاکٹر انور سدید اِس کتاب کے تعارف میں غلام الثقلین نقوی کی کالم نگاری کی طرف رغبت اور اِن کے کالموں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’فطرت نے انھیں (غلام الثقلین نقوی )نفسِ مطمنیۂ عطا کیا تھا،اِس لیے انھوں نے بازارِ حیات میں کھوٹے سکے چلانے والے خریدار کی حیثیت قبول نہ کی ،لیکن زندگی کے آخری دور میں اچانک اِنھیں احساس ہوا کہ صادق قدریں شکست و ریخت کا شکار ہو رہی ہیں اور ان کا کھرا سکہ بے وقعت اور بے قیمت ہو گیا ہے ۔اِن کے اس ردِعمل کو مَیں نے کاغذ پر لفظوں کی صورت میں اترا ہوا دیکھا تو اسے ایک ایسا بے ساختہ کالم قرار دیا جو اخبار پڑھنے والوں کی سوچ کو مہمیز کر سکتا تھا اور انھیں حقیقت کا دوسرا اصلی رُخ دِکھا سکتا تھا ۔‘‘(47)
کالم نگاری:
غلام الثقلین نقوی نے اپنی صحافتی کالموں میں ادبی، تعلیمی ،شوبز ،ملکی و بین الاقوامی سیاست، دہشت گردی، زراعت ، معاشیات ،دھوکہ، لالچ ،بجٹ ،این ۔جی ۔اوز ،انتخابات، جمہوریت ،عام شہری ،بزرگوں ،بے روز گاری اور دوسرے متنوع ملکی مسائل کو موضوع بنایا ۔غلام الثقلین نقوی نے ان کالموں میں ایک مخلص جراح کی طرح طنز کے نشتر سے اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کتاب میں ۷۸ کالم شامل ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ میں بھی حاضر تھا وہاں۔۔۔۔۔ 2۔ عوامی تعلیم اور زیر تعمیر بستیاں
3۔ شکست اور اعترافِ شکست 4۔ ڈراما کم۔۔۔۔۔ اشتہارات زیادہ
5۔ چوتھا سیز فائر 6۔ مذاکرات کی میز پر
7۔ بم دھماکے اور میں 8۔ دلہن بنی کپاس
9۔ ترقی کا ’’میراج‘‘ 10۔ بزرگوں کا پیکیج
11۔ سوا لاکھ کا کنگلا 12۔ زر، ہوسِ زر اور جلب ِزر
13۔ کتاب کلچر کا ایک آدمی 14۔ چاچا بوٹا موٹروے پر
15۔ یکم جنوری 2005ء 16۔ ساڑھے چار کنال زرعی اراضی
17۔ الٰہ دین کا چراغ(۱) 18۔ الٰہ دین کا چراغ (آخری قسط )
19۔ رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف 20۔ بھل صفائی
21۔ مختصر افسانہ اور ٹیلی ویژن 22۔ چاچا بوٹا اور حاجی مولا جٹ ایم پی اے
23۔ محمد منور! محمد منور! 24۔ بیاسی سالہ شاگرد اور ستتر سالہ اُستاد
25۔ چاچا بوٹا اور سی ٹی بی ٹی 26۔ ایک سپر مین کی آمد
27۔ علی بابا اور 40چور 28۔ اجتماعی خوف اور دعا
29۔ پانچواں طبقہ 30۔ ڈیڑھ فرلانگ لمبا فٹ پاتھ
31۔ شیخ چلی سے ایک ملاقات 32۔ کس مپرسی سے کس مپرسی تک
33۔ نور پور کلاں کا پرائمری سکول 34۔ خرجی سے ڈگی تک
35۔ آئینے کو لپکا ہے 36۔ ایک سفر کی روداد
37۔ نور پور کلاں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال 38۔ اللہ میگھا دے
39۔ دو وفادار خواتین 40۔ یو ایف اور، اور این جی او
41۔ پانچ کلے نہری اور دس گھماؤں بارانی زمین 42۔ بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد
43۔ ایک لے پالک بچہ 44۔ مجھے ان پر رحم آتا ہے
45۔ ایمن آباد سیالکوٹ روڈ 46۔ ایک ’’این جی او‘‘ اور
47۔ بلدیاتی انتخابات اور عوام 48۔ بنیادی جمہوریتوں کی کچھ یادیں
49۔ چینل نمبر تھری 50۔ ضمیر کی سزا
51۔ بزرگوں کا پیکیج 2000ء 52۔ پہلی اینٹ کا معمار
53۔ یہ نامہ بر ہمارے 54۔ وزیر اعظم کی تلاش
55۔ بچے دو ہی اچھے 56۔ بزرگوں کی عیدی
57۔ حلوہ اور حکمران 58۔ پی ایچ ڈی۔۔۔۔۔پچاس پاکستانی اور پانچ سوہندوستانی
59۔ حلال روزی کمانے والے 60۔ موازنہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف
61۔ عارف عبدالمتین۔۔۔۔۔ کمیونزم سے اسلام تک 62۔ اعداد و شمار اور انسان
63۔ یہ اکیڈیمیاں؟۔۔۔۔۔ کیا ایک ضرورت ہیں؟ 64۔ شوبز کی خبریں
65۔ پانچ روپے میں ایک لفافہ 66۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف
67۔ جمہوریت اور پاکستان 68۔ چلو نور پور کلاس چلیں
69۔ ٹاٹ سے ڈیسک تک 70۔ بستی بسنا کھیل نہیں ہے؟
71۔ پروفیسر اشفاق علی خان۔۔۔۔۔ ایک سچا پاکستانی 72۔ نیا بجٹ۔۔۔۔۔ پرانا پنشنر
73۔ نظام تعلیم میں استاد کا مقام 74۔ ایک ادھورا خواب
75۔ علم و ادب کا فروغ 76۔ دو ٹوک فیصلہ اور افغان مہاجرین
77۔ پینشن خوروں کا ایک اور اعزاز 78۔ تورا بورا
سوانح عمری :’’تنکے تنکے‘‘ کے عنوان سے غلام الثقلین نقوی نے اپنی مختصر خودنوشت سوانح عمری لکھی ،جو رسالہ ’’محفل‘‘ (۱۹۹۵ء)میں شائع ہوئی ۔
یادداشتیں:
’’رابطے‘‘ کے عنوان سے یادداشتیں جو بالاقساط رسالہ ’’اوراق‘‘ کے مختلف شماروں میں اشاعت پذیر ہوئیں۔اس تفصیل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غلام الثقلین نقوی افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب کے اعتبار سے ایک ہمہ جہت مصنف ہیں ۔انھوں نے مختلف اصنافِ ادب مثلاً مزاح نگاری، یاد نویسی، خاکہ نگاری وغیرہ میں بھی کام کیا ، لیکن ان کی بنیادی حیثیت ایک کہانی نگار کی ہے اور اس سے ان کا فنی اختصاص قائم ہوتا ہے ۔
غیرکتابی مطبوعہ تخلیقات
تنقیدی مضامین:
1۔تجریدی افسانہ (تنقیدی مضمون)
(اوراق، افسانہ و انشائیہ نمبر، دورِ ثانی، جلد ۷، شمارہ ۳،۴، مارچ ، اپریل، ۱۹۷۲ء ، ص۲۵)
2۔آدھی صدی کے بعد (ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم پر تنقیدی مضمون)
(تخلیقی ادب، نمبر ۳، اکتوبر، نومبر، ۱۹۸۳ء، ص۶۷۵ )
3۔اُردو کہانی کے پچاس سال (شخصی زاویے سے) (تنقیدی مضمون)
(اوراق، خاص نمبر، جلد ۳۲، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۹۷ء، ص۱۵ )
4۔قلم کے لوگ (انور سدید کی کتاب پر تعارفی مضمون /تبصرہ )
(اوراق، خاص نمبر، جلد ۳۵، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۹۹ء، ص۳۱۲ )
5۔موجود کی قلبِ ماہیت (تنقیدی مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، جلد ۱۰، شمارہ ۱۱،۱۲، نومبر، دسمبر، ۱۹۷۴ء، ص۲۵۸ )
6۔کنول جیسی آنکھیں گلاب جیسے پاؤں (رشید نثار کے افسانوی مجموعے پر تبصرہ)
(اوراق، سالنامہ، لاہور، جلد ۳۰، شمارہ ۲،۳، فروری، مارچ، ۱۹۹۵ء، ص۱۱)
7۔’’ترشنا‘‘ اور ’’انگلیاں ریشم کی‘‘ (غلام محمد کے افسانوی مجموعوں پر تنقیدی مضمون)
(روشنائی، کراچی، جلد اول، شمارہ ۴، جنوری تا مارچ، ۲۰۰۱ء، مدیر: احمد زین الدین، ص۲۹۳ )
8۔دھیمے رنگوں کا مصوّر (قیوم راہی کی افسانہ نگاری پر تنقیدی مضمون)
(روشنائی، کراچی، مدیر: احمد زین الدین، سہ ماہی، خصوصی شمارہ، اکتوبر تا دسمبر، ۲۰۰۴ء، ص۲۰۹ )
9۔چراغوں کا سفر (رام لعل کے افسانوی مجموعے پر تنقیدی مضمون)
(اوراق، سالنامہ، جلد۲، شمارہ نمبر ندارد، فروری، ۱۹۶۸ء، ص ۳۹۰ )
10۔اے جذبۂ دل (شاہد واسطی کے شعری مجموعے پر تنقیدی مضمون)
(اوراق، سالنامہ، جلد ۳۵، شمارہ ۱،۲، جنوری، فروری، ۱۹۹۹ء، ص۳۵۵ )
11۔افسانے کی بات (فرخندہ لودھی کی افسانہ نگاری پر تنقیدی مضمون)
(اوراق، سالنامہ و غالب نمبر، اپریل، ۱۹۶۹ء، ص۴۷۶ )
12۔انور سدید اور افسانے کی تنقید (تنقیدی مضمون)
(اُردو زبان، ماہنامہ، انور سدید نمبر، مرتب: سجاد نقوی، جلد ۲۵، شمارہ ۱،۲، جنوری، فروری، ۱۹۹۰ء، ص۲۰ )
13۔پُتلی جان (رحمان مُذنب کی کتاب پر تنقیدی مضمون)
(نردبان، ماہنامہ، سرگودھا، مدیر: ایم۔ ڈی شاد، جلد ۱، شمارہ ۳،۴، مئی، جون، ۱۹۹۲ء، ص۱۴ )
14۔دستک اس دروازے پر (ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم پر تبصرہ)
(ارتکاز، جلد ۱، ، شمارہ، ۳،۴، مارچ، ۱۹۹۵ء کراچی، مدیران: راغب شکیب، سیما شکیب، ص۳۶ )
15۔ نا تراشیدہ ہیرے (فرخندہ لودھی کے افسانوں پر تنقیدی مضمون)
(اوراق، افسانہ نمبر، دسمبر ۱۹۶۹ء، جنوری ۱۹۷۰ء، ص ۳۶۵ )
16۔نرم دمِ گفتگو (غلام جیلانی اصغر کے انشائیوں کے مجموعے پر تنقیدی مضمون)
(اوراق، خاص نمبر، جلد ۳۲، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۹۷ء، ص۴۴۴ )
17۔مَیں اور افسانہ (تنقیدی مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، جلد۳۲، شمارہ۱،۲، جنوری، فروری، ۱۹۹۷ء، ص ۱۷۳)
18۔اوراق اور مَیں (اوراق کے پینتیس سال) (تنقیدی مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، جلد ۳۶، شمارہ ۱،۲، جنوری فروری، ۲۰۰۰ء، ص ۵۸ )
19۔افسانے کی بات (فرخندہ لودھی کے افسانے ’’نیند کے ماتے‘‘ پر تنقیدی مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، سالنامہ و غالبؔ نمبر، اپریل، ۱۹۶۹ء، ص۳۷)
20۔لمحوں کے بھنور (آغا اشرف کے افسانوی مجموعے پر تبصرہ)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، شمارہ خاص۴، جلد۱، ۱۹۶۶ء، ص۳۲۶ )
21۔روشنی کی تتلیاں (سیما پیروز کے افسانوی مجموعے پر تنقیدی مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، سالنامہ، جلد ۳۲، شمارہ ۱،۲، جنوری، فروری، ۱۹۹۷ء، ص۲۹۱ )
22۔دیوارِ چین کے اُس پار (سیّد ارشاد احمد عارف کے سفرنامے پر تبصرہ)
(غلام الثقلین نقوی، ماہنامہ، کاغذی پیرہن،جلد ، ۱۸ ،شمارہ ۱، نومبر، دسمبر، ۲۰۰۰ء، ص۵۷)
23۔تاثرات (تبصرہ)
(غلام الثقلین نقوی، ماہنامہ، کاغذی پیرہن، جلد۲۰، شمارہ۱،۲، نومبر، دسمبر، ۲۰۱۹ء، ص۸۲)
24۔روشنائی ۔۔۔۔۔ ایک تاثر (تبصرہ)
(غلام الثقلین نقوی، سہ ماہی روشنائی، کراچی: مدیر: احمد زین الدین، جلد اوّل، شمارہ۳، اکتوبر تا دسمبر، ۲۰۰۰ء، ص۲۰۱)
اوراق میں شائع ہونے والے تنقیدی مضامین:
1۔اوراق کے افسانے (تنقیدی مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، شمارہ خاص، جلد ۱۰، شمارہ ۱۱،۱۲، نومبر، دسمبر، ۱۹۷۴ء، ص۲۲۰ )
2۔اوراق کے افسانے (تنقیدی مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، جدید نظم نمبر، جلد ۱۲، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۷۷ء، ص۵۶۶ )
3۔اوراق کے افسانے (تنقیدی مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق،جلد ۱۳، شمارہ۹،۱۰، اگست، ستمبر، ۱۹۷۴ء، ص ۳۰۱)
اوراق میں تنقیدی مباحث کا سلسلہ:
1۔سوال یہ ہے (تنقیدی بحث)
(غلام الثقلین نقوی ،اوراق، جلد ۱۲، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۷۶ء، ص۳۱ )
2۔سوال یہ ہے (تنقیدی بحث)
(غلام الثقلین نقوی ،اوراق، سالنامہ، جلد ۱۴، شمارہ ۱،۲، جنوری، فروری، ۱۹۷۹ء، ص۲۲ )
3۔سوال یہ ہے (تنقیدی بحث )
(غلام الثقلین نقوی ،اوراق، افسانہ نمبر، دسمبر ۱۹۶۹ء۔ جنوری ۱۹۷۰ء، ص۱۵ )
4۔سوال یہ ہے (تنقیدی بحث)
(غلام الثقلین نقوی ،اوراق، جلد ۱۲، شمارہ ۷،۸، جدید نظم نمبر، جولائی، اگست، ۱۹۷۷ء، ص۳۱ )
متفرق تخلیقات:
1۔سر سید احمد خاں کے عہد میں اُردو تنقید کا ارتقاء (مضمون)
(اُردو زبان، ماہنامہ، جلد ۸، شمارہ ۹،۱۰، ستمبر، اکتوبر، ۱۹۷۳ء ص ۵۳)
2۔پاکستان اکیسویں صدی میں (مضمون)
(محفل، ماہانہ، لاہور، جلد ۴۱، شمارہ۱۲، دسمبر، ۱۹۹۵ء، ص ۷۱ )
3۔اصحابِ کہف ہیلن ٹارسٹین (مضمون)
(چہار سو، ماہانہ، راولپنڈی، جلد۵، شمارہ ۴۶، ۴۷، ستمبر، اکتوبر، ۱۹۹۶ء، ص۵۰)
4۔اقبال ۔۔۔۔۔ایک فلسفی تعلیم (اُستاد کی نظر میں) (مضمون)
(راوی، سالنامہ، اقبال نمبر، گورنمنٹ کالج، لاہور، مدیر: اجمل نیازی، جلد ۶۲، شمارہ ۳، ستمبر ۱۹۶۹ء، ص ۱۰ )
5۔چھ ستمبر اور مَیں (مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، رسالہ اُردو زبان، سرگودھا جلد ۱۲، شمارہ ۱،۲ : جنوری، فروری، ۱۹۶۹ء، ص )
6۔میری پچپنویں (۵۵) سالگرہ (مضمون)
(غلام الثقلین نقوی، ماہنامہ رسالہ اُردو زبان، جلد۱۲، شمارہ ۱،۲، جنوری، فروری، ۱۹۷۷ء، ص۵ )
ڈراما:
1۔گالی (ڈراما)
(الشجاع، کراچی، سالنامہ، ۱۳ دسمبر، ۱۹۶۱ء، ص۲۹۸ )
2۔غدر کے بعد (ڈراما)
(غلام الثقلین نقوی، رسالہ اُردو زبان، سرگودھا جلد ۱۲ ، شمارہ ۲،۳ : فروری، مارچ، ۱۹۷۰ءص ۳۰۶)
افسانہ:
1۔ قلم سے کمپیوٹر تک (افسانہ)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، خاص نمبر، جلد ۳۳، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۹۸ء، ص۱۳ )
2۔ نئی لیڈی ڈاکٹر (افسانہ)
(غلام الثقلین نقوی، صریر، ماہنامہ، کراچی، سالنامہ، جلد ۱۲، شمارہ ۱،۲، جون، جولائی، ۲۰۰۰ء، ص۱۵۹ )
3۔ دوزخ (افسانہ)
(غلام الثقلین نقوی، ماہِ نو، جلد دوم، چالیس سالہ مخزن، ادارہ مطبوعات پاکستان، سالِ اشاعت ۲ فروری ۱۹۸۷ء، ص ۱۴۵۵ )
4۔ کالی ماتا کی پچارن (افسانہ)
(غلام الثقلین نقوی، رسالہ اُردو زبان، سرگودھا جلد ۷ شمارہ ۷،۸: جولائی، اگست، ۱۹۷۲ء، ص ۱۶۶)
5۔ کھڑکی (افسانہ)
(غلام الثقلین نقوی، ماہنامہ محفل، لاہور: جلد ۳۶، شمار۸، استقلال نمبر، ۱۹۹۰ء، ص۹۳ )
انشائیہ:
1۔سدھارتھا (انشائیہ)
(اوراق، خاص نمبر، جلد۱۳، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۷۸ء، ص۵۶ )
2۔آوارہ خیالی (انشائیہ)
(اوراق، انشائیہ نمبر، جلد ۲۰، شمارہ ۴،۵، اپریل، مئی، ۱۹۸۵ء، ص۷۸ )
شاعری:
1۔تیسرا چہرا (غلام الثقلین نقوی کی نظم)
(اوراق، سالنامہ، جلد۱۱، شمارہ ۴،۵، اپریل، مئی، ۱۹۷۵ء، ص۲۰۶ )
خود نوشت :
1۔تنکے تنکے (نا تمام )
(محفل، ماہانہ، لاہور، جلد ۴۱، شمارہ۱۲، دسمبر، ۱۹۹۵ء، ص ۶۴ )
رابطے :
1۔والدِ محترم، قسط ا
(اوراق، جلد ۲۸، شمارہ ۵،۶، مئی، جون، ۱۹۹۳ء، ص۲۷۸ )
2۔والدِ محترم قسط ۲
(اوراق، جلد ۲۸، شمارہ ۱۱، ۱۲، نومبر، دسمبر، ۱۹۹۳ء، ص۱۶۱ )
3۔والدِ محترم قسط ۳
(اوراق، جلد ۲۹، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۹۴ء، ص۲۱۰ )
4۔والدِ محترم آخری قسط
(اوراق، جلد ۳۰، شمارہ ۲،۳، فروری، مارچ، ۱۹۹۵ء، ص۴۱ )
5۔ہم سات ہیں
(اوراق، جلد ۳۰، شمارہ ۸،۹، اگست، ستمبر، ۱۹۹۵ء، ص ۷۹ )
6۔میرے خواب
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، خاص نمبر، جلد۳۱، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۹۶ء، ص۱۵ )
7۔گاؤں، قیدِ مقام، واپسی (حصہ اوّل)
(اوراق، جلد ۱۸، شمارہ ۱۱،۱۲، نومبر، دسمبر، ۱۹۸۳ء، ص۵۶ )
8۔گاؤں، قیدِ مقام، واپسی (حصہ دوم)
(اوراق، جلد ۱۹، شمارہ ۳،۴، مارچ، اپریل، ۱۹۸۴ء، ص۱۱۳ )
9۔رابطے (یادداشت)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، خاص نمبر، جلد ۱۹، شمارہ ۷،۸، جولائی، اگست، ۱۹۸۴ء، ص۱۲۸ )
10۔اُستاد اور شاگرد (پہلی قسط)
(اوراق، جلد ۲۲، شمارہ ۱۱،۱۲، نومبر، دسمبر، ۱۹۸۷ء، ص۳۳۱ )
11۔اُستاد اور شاگرد (دوسری قسط)
(اوراق، جلد ۲۳، شمارہ ۶،۷، جون، جولائی، ۱۹۸۸ء، ص۳۳۰ )
12۔اُستاد اور شاگرد (تیسری قسط)
(اوراق، جلد ۲۴، شمارہ ۱،جنوری، ۱۹۸۹ء، ص۳۱۹ )
13۔اُستاد اور شاگرد (چوتھی قسط)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، خاص نمبر، جلد۲۴، شمارہ ۶،۷، جون، جولائی، ۱۹۹۸ء، ص ۳۵۷ )
14۔اُستاد اور شاگرد (آخری قسط)
(اوراق، جلد ۲۵، شمارہ ۸، خاص نمبر، اگست، ۱۹۹۰ء، ص۳۲۷ )
15۔برادرِ خُرد
(اوراق، جلد۳۹، شمارہ ۲،۳، فروری، مارچ، ۲۰۰۳ء، ص۱۴۲ )
16۔ڈاکٹر سہیل بخاری ۔۔۔ایک رابطہ
(اوراق، جلد ۲۵، شمارہ ۸، خاص نمبر، اگست ۱۹۹۰ء، ص ۲۳ )
17۔والدہ محترمہ
(چہار سو، ماہانہ، راولپنڈی، جلد۵، شمارہ ۴۶، ۴۷، ستمبر، اکتوبر، ۱۹۹۶ء، ص۴۵ )
18۔اللہ کا گنہگار بندہ (خاکہ رحمان مُذنب)
(اوراق، خاص نمبر، جلد ۲۷، شمارہ ۶،۷، جون، جولائی، ۱۹۹۲ء، ص۵۵ )
19۔انور سدید ۔۔۔۔۔ایک رابطہ
(اوراق، خاص نمبر، جلد ۲۲، شمارہ ۴،۵، اپریل، مئی، ۱۹۸۷ء، ص۳۳۶ )
20۔ایک جان دو قالب (خاکہ صابر لودھی، فرخندہ لودھی)
(اوراق، سالنامہ، جلد۲۶، شمارہ ۱۲، دسمبر، ۱۹۹۱ء، ص۴۳ )
21۔اینگری اولڈ مین (خان فضل الرحمٰن کا خاکہ)
(اوراق، سالنامہ، جلد ۳۱، شمارہ ۱،۲، جنوری، فروری، ۱۹۹۶ء، ص۲۶۹ )
22۔ایک اچھا آدمی (خاکہ۔۔۔ جمیل آذر)
(اوراق، سالنامہ، جلد ۳۳، شمارہ ۱،۲، جنوری، فروری، ۱۹۹۸ء، ص ۱۰۹ )
23۔و۔ع۔خ (ڈاکٹر وزیر آغا کے والد وسعت علی خاں کا خاکہ)
(اوراق، شمارہ خاص (۲)، جون، جولائی، ۱۹۷۰ء، ص۱۱)
24۔گورنمنٹ کالج اور میں (ایک رابطہ)
(راوی رسالہ، گورنمنٹ کالج، لاہور، ۱۹۸۹ء، ص۳۶)
25۔قائداعظم ۔۔۔۔۔ دو جھلکیاں (یادداشت)
(راوی رسالہ، گورنمنٹ کالج، لاہور، ۱۹۸۹ء، ص۴)
26۔بجھتی ہوئی کرن (غلام الثقلین نقوی کے ماموں اور سسر سیّد مسکین حسین شاہ کا خاکہ)
(تخلیق، لاہور، کہانی نمبر، جلد ۱۵، شمارہ ۹،۱۰، ۱۹۸۴ء، مدیر اعلیٰ: عذرا اصغر، مدیر اعزازی: اظہر جاوید، ص۲۲۱ )
27۔درویشِ علی مست (شیر افضل جعفری کا خاکہ)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، جون، جولائی، خاص نمبر، شمارہ،۶،۷، ۱۹۸۹ء، ص۱۵)
28۔ بھولی بسری یادیں (یادداشت)
(غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۵، شمارہ۶، جون ۱۹۸۵ء، مدیر: ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، ص۱۱۲)
29۔ گزرنا سیالکوٹ چھائونی سے (یادداشت) (پہلی قسط)
(غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۳۷، شمارہ۱۱، نومبر ۱۹۹۷ء، ص۱۸۴ )
30۔ گزرنا سیالکوٹ چھائونی سے (یادداشت) (دوسری قسط)
(غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۴۰، شمارہ۴، اپریل۲۰۰۰ء، ص۱۴۰ )
31۔ ذکر کچھ اور چغدوں کا (یادداشت)
(غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۳۷، شمارہ۱۰، اکتوبر، ۱۹۹۷ء، ص۱۳۴ )
32۔انوار الدین ۔۔۔۔۔ انور سدید (خاکہ)
(غلام الثقلین نقوی، ماہنامہ تخلیق، مدیر: اظہر جاوید، جلد ۲۶، شمارہ۱۲، دسمبر، ۱۹۹۵ء، ص۹۵ )
33۔اگلے وقتوں کے لوگ (غلام الثقلین نقوی کی آخری تحریر)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، جلد۳۸، شمارہ ۵،۶، مئی، جون، ۲۰۰۲ء، ص۲۰ )
34۔چند خواب (یادداشت)
(غلام الثقلین نقوی، اوراق، جلد ۴۰، شمارہ ۳،۴، مارچ، اپریل، ۲۰۰۴، ص۲۰۱)
35۔میری ڈائری کے چند اوراق (یادداشت)
(غلام الثقلین نقوی، ماہنامہ کاغذی پیرہن، مدیر: شاہد شیدائی، جلد۲، شمارہ ۵،۶، مارچ، اپریل، ۲۰۰۲ء، ص۴۲ )
تراجم:
1۔ مہم جو خاتون کا سحر انگیز سفر (پہلی قسط)
(کرسٹینا ڈاڈویل/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، مدیر: ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، جلد۲۳، شمارہ۲، جون ۱۹۸۳ء، ص۹۰)
2۔ مہم جو خاتون کا سحر انگیز سفر (دوسری قسط)
(کرسٹینا ڈاڈویل/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، مدیر: ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، جلد۲۳، شمارہ۷، جولائی ۱۹۸۳ء، ص۲۰۹ )
3۔ مہم جو خاتون کا سحر انگیز سفر (تیسری قسط)
(کرسٹینا ڈاڈویل/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، مدیر: ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، جلد۲۳، شمارہ۸، اگست ۱۹۸۳ء، ص۲۲۷ )
4۔ مہم جو خاتون کا سحر انگیز سفر (چوتھی قسط)
(کرسٹینا ڈاڈویل/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، مدیر: ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، جلد۲۳، شمارہ۹، ستمبر ۱۹۸۳ء، ص۱۹۲ )
5۔ مہم جو خاتون کا سحر انگیز سفر (آخری قسط)
(کرسٹینا ڈاڈویل/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، مدیر: ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، جلد۲۳، شمارہ۱۰، اکتوبر ۱۹۸۳ء، ص۱۷۷ )
۶۔کراچی سے فوجی اسلحے کی چوری (پہلی قسط)
(فوجی کمانڈر جاہن فاکس کی پُر اسرار اور پُر خطر مہم/ ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۴، شمارہ۱،
جنوری ۱۹۸۳ء، ص۹۸ )
۷۔ کراچی سے فوجی اسلحے کی چوری (دوسری اور آخری قسط)
(فوجی کمانڈر جاہن فاکس کی پُر اسرار اور پُر خطر مہم/ ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۴، شمارہ۱،
جنوری ۱۹۸۴ء، ص۱۱۲ )
۸۔محیّر العقول منصوبہ (پہلی قسط)
اے۔ جی کونیئل/ ترجمہ و تلخیص: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۴، شمارہ۳،فروری ۱۹۸۴ء، ص۱۱۷ )
۹۔ محیّر العقول منصوبہ (دوسری قسط)
اے۔ جی کونیئل/ ترجمہ و تلخیص: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۴، شمارہ۳، مارچ۱۹۸۴ء، ص۸۰ )
۱۰۔ محیّر العقول منصوبہ (تیسری قسط)
اے۔ جی کونیئل/ ترجمہ و تلخیص: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۴، شمارہ۳، اپریل ۱۹۸۴ء، ص۱۰۹ )
۱۱۔ محیّر العقول منصوبہ (آخری قسط)
اے۔ جی کونیئل/ ترجمہ و تلخیص: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۴، شمارہ۳، مئی ۱۹۸۴ء، ص ۹۱ )
۱۲۔ لہو کی آواز
(غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ ،جلد ۲۲، شمارہ۷، جولائی ۱۹۸۲ء، ص۸۵ )
۱۳۔ میٹاریز سرکل (پہلی قسط)
(رابرٹ لُڈلم/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۵، شمارہ۲، فروری ۱۹۸۵ء، ص۱۸۴ )
1۴۔ میٹاریز سرکل (دوسری قسط)
(رابرٹ لُڈلم/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۵، شمارہ۳، مارچ۱۹۸۵ء، ص۲۲۸)
1۵۔ میٹاریز سرکل (تیسری قسط)
(رابرٹ لُڈلم/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۵، شمارہ۴، اپریل۱۹۸۵ء، ص۱۶۸)
1۶۔ میٹاریز سرکل (چوتھی قسط)
(رابرٹ لُڈلم/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۵، شمارہ۵، مئی۱۹۸۵ء، ص۲۰۸)
1۷۔میٹاریز سرکل (آخری قسط)
(رابرٹ لڈلم/ترجمہ: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۵، شمارہ۷، جولائی ۱۹۸۵ء، ص۲۰۸ )
1۸۔ ماضی کے قیدی (پہلی قسط)
(تلخیص: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد ۲۴، شمارہ۶، جون، ۱۹۸۴ء، ص۱۵۱ )
1۹۔ ماضی کے قیدی (دوسری اور آخری قسط)
(تلخیص: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد ۲۴، شمارہ۷، جولائی، ۱۹۸۴ء، ص۱۶۱ )
۲۰۔ طلسماتی چھڑی
(غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد ۲۴، شمارہ۸، اگست ۱۹۸۴ء، ص۷۹ )
۲۱۔ راہب شہزادہ
(گستاف فلابیر/ ترجمہ و تلخیص: غلام الثقلین نقوی، اُردو ڈائجسٹ، جلد۲۴، شمارہ ۱۱، نومبر ۱۹۸۴ء، ص۱۵۰ )
۲۲۔ میری اماں مین وِل میں رہتی ہیں
(مترجم: غلام الثقلین نقوی، رسالہ اُردو زبان، جلد ۸،شمارہ ۱۱،۱۲ نومبر، دسمبر، ۱۹۶۹ء ص ۲۰۶ )
حاصلِ کلام:غلام الثقلین نقوی کی ادبی جہات کا مذکور میں تعارف و تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ غلام الثقلین نقوی کا شمار اُرد وادب کے اہم تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقات سے اردو افسانوی ادب کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ۔ غلام الثقلین نقوی کی ادبی جہات یقیناً اس لائق ہیں کہ ان پر تحقیق کی جائے اور ان کا ادبی مقام و مرتبہ متعین کیا جائے۔ یہ مقالہ اسی مقصد کے پیشِ نظر تحریر کیا گیا ہے ۔یہ مقالہ نو آموز محققین اور مشاق نقادوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ غلام الثقلین نقوی کی ادبی جہات کے بارے میں قلم اُٹھائیں اور انھیں جو نقد و نظر کی کسوٹی سے گزار کر ادبی مقام کے تحسینی تشکر سے سرفراز کریں۔
حوالا جات
- غلام الثقلین نقوی، افسانہ اور مَیں، اوراق، جلد ۳۲، شمارہ ۱،۲، جنوری، فروری، ۱۹۹۷ء، ص۱۷۴
- ایضاً ص ۱۷۷
- ایضاً ص ۱۷۸
- غلام الثقلین نقوی ،تعارف ،بند گلی ،ڈاکٹر سہیل بخاری ،بک ورلڈ ،لاہور ،۱۹۶۶ء ص۳
- غلام الثقلین نقوی ،انتساب ،شفق کے سائے ،مکتبہ میری لائبریری ،لاہور ،۱۹۶۹ء ، ص۱
- غلام الثقلین نقوی ،فلیپ ،شفق کے سائے ، ص۸
- ۔غلام الثقلین نقوی ،شفق کے سائے ،پیش لفظ ، ص۹
- ایضاً ص،۹
- غلام الثقلین نقوی ،انتساب ،نغمہ اور آگ ،مکتبہ عالیہ ،لاہور ،۱۹۷۲ء، ص۲
- غلام الثقلین نقوی ،چند لفظ اور ، ص۵
- ایضاً ص۶
- ایضاً ص۷
- ایضاً ص۸
- غلام الثقلین نقوی ،لمحے کی دیوار،پیش لفظ ،ڈاکٹر انور سدید ،پنجاب آرٹ پریس ،لاہور ،۱۹۷۴ء، ص۲
- غلام الثقلین نقوی ،انتساب ،دھوپ کا سایہ ،ماہِ ادب ،لاہور ،۱۹۸۶ء، ص۴
- لام الثقلین نقوی ،دیباچہ ، ص۸
- غلام الثقلین نقوی ،انتساب ،سرگوشی ،مقبول اکیڈمی ،لاہور ،۱۹۹۲ء، ص۵
- غلام الثقلین نقوی ،سرگوشی ،دیباچہ ،ڈاکٹر وزیر آغا ،مقبول اکیڈمی ،لاہور ،۱۹۹۲ء، ص۱۰
- میرزا ادیب، سرگوشی، سہ نامہ، چہار سُو، جلد۵، شمارہ ۴۶،۴۷، ستمبر، اکتوبر، ص۲۱
- غلام الثقلین نقوی ،انتساب ،نقطے سے نقطے تک ،کلاسیک ،لاہور ،۲۰۰۱ء، ص۳
- غلام الثقلین نقوی ،نقطے سے نقطے تک ،دیباچہ ،سجاد نقوی ،کلاسیک ،لاہور ،۲۰۰۱ء، ص۷،۸
- غلام الثقلین نقوی ،دو تین باتیں اور ،نقطے سے نقطے تک ،کلاسیک ،لاہور ،۲۰۰۱ء، ص۹
- غلام الثقلین نقوی ،انتساب ،میرا گاؤں ،ضیائے ادب ،لاہور ،۱۹۸۲ء، ص۳
- غلام الثقلین نقوی ،دیباچہ ،میرا گاؤں ، ص۵
- ایضاً ص۶
- غلام الثقلین نقوی،انتساب،تین ناولٹ،کاغذی پیرہن،لاہور،۱۹۹۹،ص۳
- غلام الثقلین نقوی ،تین ناولٹ ،دیباچہ ،سجاد نقوی ،کاغذی پیرہن ،لاہور ،۱۹۹۹ء، ص۵،۶
- غلام الثقلین نقوی، تعارف، تین ناولٹ، غلام الثقلین نقوی، کاغذی پیرہن، لاہور، ۲۰۰۴ء، ص۹
- انور سدید، ڈاکٹر، نسبتوں کا قائم رکھنے والا افسانہ نگار، غلام الثقلین نقوی، اوراق، مئی،جون، ۲۰۰۲ء، ص۱۸
- غلام الثقلین نقوی،انتساب،عرضِ تمنا، فیروز سنزلاہور،۱۹۸۸،ص۵
- غلام الثقلین نقوی ،ارضِ تمنا ،دیباچہ ،ڈاکٹر انور سدید ، ۱۹۸۸ء، ص۷،۸
- انور سدید، ڈاکٹر، نقوی کا ’’ارضِ تمنا‘‘، عمرہ کا سفر نامہ، مشمولہ، محفل، مدیر: محمد خان کلیم، جلد ۴۱، شمارہ ۱۲، ماہنامہ، دسمبر، ۱۹۹۵ ء، ص۳۵
- سجاد نقوی، ارضِ تمنا، محفل، ماہنامہ، دسمبر، ۱۹۹۵، ص۵۸
- ابو الخیر کشفی، سیّد، غلام الثقلین نقوی کے ساتھ ساتھ، روشنائی، جلد سوم، شمارہ ۹، اپریل تا جون، ۲۰۰۲ء، ص۲۶۰
- غلام الثقلین نقوی ،انتساب ،ٹرمینس سے ٹرمینس تک ، ص۳
- غلام الثقلین نقوی ،ٹرمینس سے ٹرمینس تک ،پیش لفظ ، ص۷
- غلام الثقلین نقوی ،انتساب ،چل بابا اگلے شہر ،مقبول اکیڈمی ،لاہور ،۱۹۹۳ء، ص۵
- غلام الثقلین نقوی ،ٹرمینس سے ٹرمینس تک ،پیش لفظ ، ص۷
- ایضاً ص۷
- اکبر حمیدی، تم سلامت رہو ہزار برس، مشمولہ محفل، ماہنامہ، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص۵۱
- غلام الثقلین نقوی ،چل بابا اگلے شہر ،مقبول اکیڈمی ،لاہور ،۱۹۹۳ ،ص۳۴
- انور سدید، ڈاکٹر، چل بابا اگلے شہر، مشمولہ محفل، جلد ۴۱، شمارہ ۱۲، ۱۹۹۵ء، ص۳۲
- غلام الثقلین نقوی ،انتساب ،اک طرفہ تماشا ہے ،مکتبہ فکروخیال ،لاہور، ۱۹۸۵ء، ص۴
- غلام الثقلین نقوی ،اک طرفہ تماشا ہے ،پیش لفظ ،غلام جیلانی اصغر ،مکتبہ فکروخیال ،۱۹۸۵ء، ص۷
- انور سدید، ڈاکٹر، نسبتوں کو قائم رکھنے والا افسانہ نگار، غلام الثقلین نقوی، اوراق، جلد ۳۸، شمارہ ۵،۶، مئی، جون، ۲۰۰۲ء، ص۸
- غلام الثقلین نقوی، پانچواں طبقہ، کلاسیک، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص۶
- غلام الثقلین نقوی ،پانچواں طبقہ ،ارضِ سدید ،ڈاکٹر انور سدید ،کلاسیک ،لاہور ،۲۰۰۶ء، ص۴