ڈاکٹر صابررضا رہبر
ہندی کہانی کا اردو ترجمہ
فیصلہ۔ بھیشم ساہنی
اُن دنوں ہیرا لال اور میں اکثر شام کو گھومنے جایا کرتے تھے۔ شہر کی گلیاں لانگھ کر ہم شہر کے باہر کھیتوں کی طرف نکل جاتے تھے۔ ہیرا لال کو باتیں کرنے کا شوق تھا اور مجھے اس کی باتیں سننے کا۔ وہ باتیں کرتا تو لگتا جیسے زندگی بول رہی ہے۔ اس کے قصے کہانیوں کا اپنا فلسفیانہ رنگ ہوتا، لگتا جو کچھ کتابوں میں پڑھا ہے سب غلط ہے۔ اصول کی دنیا کا راستہ ہی دوسرا ہے۔ ہیرا لال مجھ سے عمر میں بہت بڑا تو نہیں ہے لیکن اس نے دنیا دیکھی ہے، بڑا تجربہ کار اور گہری نظر کا آدمی ہے۔
اس روز ہم گلیاں لانگھ چکے تھے اور باغ کی طویل دیوار کو پار کر ہی رہے تھے جب ہیرالال کو اپنی پہچان کا ایک آدمی مل گیا۔ہیرا لال اس سیبغل گیر ہوا؛ بڑے تپاک سے اس سے بات کرنے لگا گویا بہت دنوں بعد مل رہا ہو۔
پھر مجھ سے مخاطب کر کے بولا
’’آئو! میں تمہارا تعارف کرائوں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شکلا جی ہیں ‘‘
اورپر جوش آواز میں کہنے لگا:
’’اس شہر میں چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے جائو توبھی ان کے جیسا نیک آدمی تمہیں نہیں ملے گا۔‘‘
شکلا جی کے چہرے پر انکساری کی ہلکی سی لالی دوڑ گئی۔ انہوں نے ہاتھ جوڑے اور ایک دھیمی سی جھینپ بھری مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر کانپنے لگی۔
’’اتنا نیک سیرت آدمی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا جس ایمانداری سے انہوں نے زندگی گزاری ہے میں تمہیں کیا بتائوں، یہ چاہتے تو محل کھڑا کر لیتے، لاکھوں روپیے جمع کر لیتے۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
شکلا جی مزیدعاجزی وانکساری کے سبب جھینپنے لگے تبھی میری نظر ان کے لباس پر گئی۔ ان کا لباس واقعی بہت سادہ تھا۔ سستے سے جوتے۔گھر دھلا پاجامہ۔ طویل بند گلے کوٹ اور کھچڑی مونچھیں۔میں انہیں ہیڈ کلرک سے زیادہ کا درجہ نہیں دے سکتا تھا۔
’’جتنی دیر انہوں نے سرکاری نوکری کی، ایک پیسے کے روادار نہیں ہوئے، اپنا ہاتھ صاف رکھا، ہم دونوں ایک ساتھ ہی ملازمت کرنے لگے تھے۔ یہ تعلیم کے فورا ہی بعدمقابلہ جاتی امتحان میں بیٹھے تھے اور کامیاب ہو گئے تھے اور جلد ہی مجسٹریٹ بن کر فیروزپور میں تعینات ہوئے تھے، میں بھی ان دنوں وہیں پر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
میں متاثر ہونے لگا۔ شکلا جی ہنوز لجاتے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے اور اپنی تعریف سن کر سکڑتے جا رہے تھے۔ اتنی سی بات تو مجھے بھی کھٹکی کہ عام کرتا،پاجامہ پہننے والے لوگ عام طور پر مجسٹریٹ یا جج نہیں ہوتے۔ جج ہوتا تو کوٹ پتلون ہوتی، دو تین سیکوریٹی گارڈ ارد گرد گھومتے نظر آتے۔ کرتا پاجامہ میں بھی کبھی کوئی جج ہو سکتا ہے؟
اس انکساری ،عاجزی اورتعریف میں ہی یہ بات رہ گئی کہ شکلا جی اب کہاں رہتے ہیں؟، کیا ریٹائر ہو گئے ہیں یا اب بھی سرکاری نوکری کرتے ہیں اور ان کی خیریت پوچھ کر ہم لوگ آگے بڑھ گئے۔
ایماندار آدمی کیوں اتنا ڈھیلاڈھالا ہوتا ہے۔ کیوں منکسرالمزاج اورجھینپتارہتاہے۔ یہ بات کبھی بھی میری سمجھ میں نہیں آئی۔شاید اس لیے کہ یہ دنیا پیسے کی ہے، جیب میں پیسہ ہو تو خود احترام کا احساس بھی آ جاتا ہے۔ اگر جوتے سستے ہوں اور پاجامہ گھرکا دھلا ہو تو دامن میں ایمانداری بھری رہنے پر بھی آدمی منکسرالمزاج ہی رہتا ہے۔ شکلا جی نے دولت کمائی ہوتی، بھلے ہی بے ایمانی سے کمائی ہوتی تو ان کا چہرہ دمکتا، ہاتھ میں انگوٹھی دمکتی، کپڑے چم چم کرتے، جوتے ٹمٹماتے۔ بات کرنے کے طریقے سے ہی رعب جھلکتا۔
خیر ہم چل دیے۔باغ کی دیوار پیچھے چھوٹ گئی۔ ہم نے پل پار کیا اور جلد ہی فطرت کے وسیع صحن میں پہنچ گئے۔ سامنے ہرے بھرے کھیت تھے اور دور نیلما کی گھنی چادر اوڑھے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں کھڑی تھیں، ہماری لمبی سیر شروع ہو گئی تھی۔
اس ماحول میں ہیرا لال کی باتوں میں اپنے آپ ہی فلسفہ کی بو آ جاتی ہے۔ ایک قسم کی غیر جانبداری، کچھ کچھ خاموشی سی، گویا فطرت کے عظیم الشان پس منظر کے آگے انسانی زندگی کیطورطریقے کو دیکھ رہا ہو۔
تھوڑی دیر تک تو ہم خاموشی سے چلتے رہے پھر ہیرا لال نے اپنا بازو میرے بازو میں ڈال دیا اور آہستہ سے ہنسنے لگا۔
’’سرکاری نوکری کا اصول ایمانداری نہیں ہے؛ دفتر کی فائل ہے۔ سرکاری افسر کو دفتر کی فائل کے مطابق چلنا چاہئے۔‘‘
ہیرا لال گویا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ کہتا گیا۔اس بات کی اسے فکر نہیں ہونی چاہئے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟ کون کیا کہتا ہے ،بس یہ دیکھنا چاہئے کہ فائل کیا کہتی ہے۔‘‘
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
مجھے ہیر الال کی دلیل بڑی اٹ پٹی لگی۔
’’ہر سرکاری افسر کا فرض ہے کہ وہ سچ کی تحقیقات کرے، فائل میں تو انٹ سنٹ بھی لکھاہوسکتا ہے۔‘‘
’’نا نا نا، فائل کا سچ ہی اس کے لئے واحد سچ ہے، اسی کے مطابق سرکاری افسر کو چلنا چاہئے، نہ ایک انچ اِدھر، نہ ایک انچ اُدھر۔اسے یہ جاننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، یہ اس کا کام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بے گناہ آدمی بے شک پستا رہے؟‘‘
ہیرا لال نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے برعکس مجھے انہیںشکلا جی کا قصہ سنانے لگا۔شاید انہیں کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نے یہ تبصرہ کیا تھا۔
’’جب یہ آدمی جج ہو کر فیروزپور میں آیا تو میں وہیں رہتا تھا۔ یہ اس کی پہلی ملازمت تھی۔ یہ آدمی واقعی اتنا نیک، اتنا محنتی اور ایماندار تھا کہ تمہیں کیا بتائوں؛سارا وقت اسے اس بات کی فکر لگی رہتی تھی کہ اس کے ہاتھ سے کسی بے گناہ کو سزا نہ مل جائے۔ فیصلہ سنانے سے پہلے اس سے بھی پوچھتا ہے، اس سے بھی پوچھتا کہ اصلیت کیا ہے؟ الزام کس کا ہے؟ گناہگار کون ہے؟ ملزم تو میٹھی نیند سو رہا ہوتا اور جج کی نیند حرام ہو جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں بھول نہیں کرتا تو اپنی ماں کو اس نے وچن بھی دیا تھا کہ وہ کسی بے گناہ کو سزا نہیں دے گا۔ ایسی ہی کوئی بات اس نے مجھے سنائی بھی تھی۔
’’چھوٹی عمر میں تمام لوگ آدر ش وادی ہوتے ہیں، وہ زمانہ بھی آدرش واد کا تھا۔‘‘
میں نے جوڑا۔
مگر ہیرا لال کہے جا رہا تھا۔آدھی آدھی رات تک یہ مقدمے پڑھتا اور میز سے چمٹا رہتا۔ اسے یہی خوف کھائے جا رہا تھا کہ اس سے کہیں بھول نہ ہو جائے۔ ایک ایک کیس کی بڑے احتیاط سے جانچ پڑتال کرتا تھا۔
پھر یوں ہاتھ جھٹک کر اور سر ٹیڑھا کرکے گویا اس دنیا میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے ،اس کااندازہ لگا پانا کبھی ممکن ہی نہ ہو، ہیرا لال کہنے لگا:
’’انہیںدنوں فیروزپور کے قریب ایک قصبے میں ایک واردات ہوگئی اور کیس ضلع کچہری میں آیا، معمولی سا کیس تھا۔ قصبے میں رات کے وقت کسی راہ چلتے مسافر کو پیٹ دیا گیا تھا اور اس کی ٹانگ توڑ دی گئی تھی۔ پولیس نے کچھ آدمی حراست میں لے لئے تھے اور مقدمہ انہیں شکلا جی کی کچہری میں پیش ہوا تھا۔ آج بھی وہ سارے واقعات میری آنکھوں کے سامنے آ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اب جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا ان میںعلاقے کا ضلع دار اور اس کاجوان بیٹا بھی شامل تھا۔پولیس کی رپورٹ تھی کہ ضلع دار نے اپنے لاٹھی برداروںکو بھیج کر اس راہ گیر کو پٹوایا ہے۔ ضلع دار خود بھی پیٹنے والوں میں شامل تھا ساتھ میں اس کاجوان بیٹا اور کچھ دیگر لوگ بھی تھے۔ معاملہ دیکھتے ہی رفع دفع ہو جاتا اگر اس راہگیر کی ٹانگ نہ ٹوٹ گئی ہوتی۔ معمولی مارپیٹ کی تو پولیس پروابھی نہیں کرتی لیکن اس معاملے کو تو پولیس نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ خیرگواہ پیش ہوئے۔ پولیس نے بھی معاملے کی تحقیقات کی اور پتہ یہی چلا کہ ضلع دار نے اس آدمی کو پٹوایا ہے، اور پیٹنے والے راہ گیر کونیم مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے۔‘‘
’’تین ماہ تک کیس چلتا رہا۔‘‘
ہیرا لال کہنے لگاکیس میں کوئی الجھن، کوئی پیچیدگی نہیں تھی لیکن ہمارے شکلا جی کو چین کہاں؟ ادھر ضلع دار کے حراست میں لئے جانے پر قصبے بھر میں تہلکہ سا مچ گیا تھا حالانکہ بعد میں اسے ضمانت پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
’’ضلع دار کو تو تم جانتے ہو نا، ضلع دار کام مال گزاری وصول کرنا ہوتا ہے اور گائوں میں اس کی بڑی حیثیت ہوتی ہے،حالاںکہ وہ سرکاری ملازم نہیں ہوتا۔‘‘
خیر جب فیصلہ سنانے کی تاریخ قریب آئی تو شکلا جی کی نیند حرام۔ کہیں غلط آدمی کو سزا نہ مل جائے۔کہیں کوئی بے گناہ مارا نہ جائے۔ ادھر پولیس تحقیقات کرتی رہی تھی ادھر شکلا جی نے اپنی پرائیویٹ تحقیقات شروع کر دی۔ اس سے پوچھ، اس سے پوچھ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن فیصلہ سنایا جانا تھا اس سے ایک دن پہلے شام کو یہ شریف آدمی اس قصبے میں جا پہنچے اور وہاں کے تحصیل دار سے جا ملے۔ وہ ان کی پرانی جان پہچان کا تھا۔انہوں نے اس سے بھی پوچھا کہ بھائی! بتائو اندر کی بات کیا ہے؟ تم تو قصبے کے اندر رہتے ہو،تم سے تو کچھ چھپا نہیں رہتا ہے۔
اب جب تحصیل دار نے دیکھا کہ ضلع کچہری کا جج چل کر اس کے گھر آیا ہیاور جج کا بڑا رتبہ ہوتا ہے، اس نے اندر کی صحیح صحیح بات شکلا جی کو بتا دی۔
شکلا جی کو پتہ چل گیا کہ ساری کارستانی قصبے کے تھانیدار کی ہے، ساری شرارت اسی کی ہے۔اس کی کوئی پرانی دشمنی ضلع دار کے ساتھ تھی اور وہ ضلع دار سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ ایک دن کچھ لوگوں کو بھیجوا کر ایک راہ چلتے مسافر کو اس نے پٹوا دیا۔ اس کی ٹانگ توڑوا دی اور ضلع دار اور اس کے بیٹے کو حراست میں لے لیاپھر ایک کے بعد ایک جھوٹی گواہی۔۔۔۔۔۔۔۔اب قصبے کے تھانیدار کی مخالفت کون کرے؟ کس میں ہمت؟
تحصیل دار نے شکلا جی سے کہا:
’’ میں کچھ اور تو نہیں جانتا، میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ضلع دار بے گناہ ہے، اس کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔‘‘
‘وہاں سے لوٹ کر شکلا جی دو ایک اور جگہ بھی گئے۔ جہاں گئے وہاں انہوں نے ضلع دار کی تعریف سنی ،جب شکلا جی کو یقین ہو گیا کہ مقدمہ واقعی جھوٹا ہے تو انہوںنے گھر لوٹ کر اپنا پہلا فیصلہ فوراً تبدیل کر دیا اور دوسرے دن عدالت میں اپنا نیا فیصلہ سنا دیا اور ضلع دار کو غیر مشروط رہا کر دیا۔
’’اسی دن وہ مجھے کلب میں ملا،وہ سچ مچ بڑا خوش تھا، اسے بہت دن بعد چین نصیب ہوا تھا۔ بار بار خدا کا شکرادا کر رہا تھا کہ وہ ناانصافی کرتے کرتے بچ گیا۔ورنہ اس سے بہت بڑا گناہ ہونے جا رہا تھا۔مجھ سے بہت بڑی بھول ہو رہی تھی، یہ تو اچانک ہی مجھے سوجھ گیا اور میں تحصیل دار سے ملنے چلا گیا، ورنہ میں نے تو اپنا فیصلہ لکھ بھی دیا تھا۔‘‘
اس نے کہا۔
ہیرا لال کی بات سن کر میں واقعی متاثر ہوا۔ اب میری نظروں میں شکلا جی سستے جوتوں اور میلوں کپڑوں میں ایک ایماندار انسان ہی نہیں تھا بلکہ ایک گردیوالا، زندہ دل اورباہمت شخص تھا۔ اس باغ کی دیوار کے پاس کھڑا دیکھ کر جو ترحم کا جذبہ میرے دل میں پیداہواتھا وہ جاتا رہا اور میرا دل ان کے احترام سے بھر اٹھا۔ ہمیں واقعی ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے جو کیس کی تہہ تک جائیں اوربے گناہوںکو آنچ تک نہ آنے دیں۔
کھیتوں کی پگڈنڈیوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہم بہت دور نکل آئے تھے۔ اصل میں اس سفید بت تک جا پہنچے تھے جہاں سے ہم اکثر دوسرے راستے سے مڑنے لگتے۔
’دوبارہ جانتے ہو کیا ہوا؟‘‘
ہیرا لال نے بڑی بے تعلقی سے کہا۔
’’کچھ بھی ہوا ہو ہیرا لال! میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ آدمی باہمت اور ایماندار ہے،اپنیاصول کا پابند رہا ہے۔‘‘
’’سنو سنو! ایک اصول ضمیر کا ہوتا ہے تو دوسرا فائل کا۔‘‘
ہیرا لال نے دانش مندوں کی طرح سر ہلایا اور بولا:
’’آگے سنو!۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ سنانے کی دیر تھی کہ تھانیدار تڑپ اٹھا،اسیتو جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔ چلا تھا ضلع دار کو نیچا دکھانے، الٹا سارے قصبے میں لوگ اس پر لعنت ملامت کرنے لگے، ارد گرد تھو تھو ہونے لگی، اسے تو الٹے لینے کیدینے پڑ گئے تھے۔‘‘
لیکن وہ بھی پکا گھاگھ تھا اس نے آئودیکھا نہ تائو سیدھے ڈپٹی کمشنر کے پاس جا پہنچا جہاں ڈپٹی کمشنر ضلع کا حاکم ہوتا ہے وہیں تھانیدار اپنے قصبے کا حاکم ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر سے ملتے ہی اس نے ہاتھ باندھ لئے:
’’حضور میرا اس علاقے سے ٹرانسفرکر دیاجائے۔‘‘
ڈپٹی کمشنر نے وجہ پوچھی تو بولا:
’’ حضور اس علاقے کو قابو میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے، یہاں چور ڈکیت بہت ہیں، بڑے مشکل سے قابو میں رکھے ہوئے ہوں مگر حضور جہاں ضلع کا جج ہی رشوت لے کر شرارتی لوگوں کو رہا کرنے لگے وہاں میری کون سنے گا، قصبے کا نظام چوپٹ ہو جائے گا۔‘‘
اور اس نے اپنے طریقے سے سارا قصہ سنایا۔ ڈپٹی کمشنر سنتا رہا۔اس کے لئے یہ معلوم کرنا کون سا مشکل کام ہے کہ کسی افسر نے رشوت لی ہے یا نہیں لی ہے، کب لی ہے اور کس سے لی ہے۔
تھانیدار نے ساتھ میں یہ بھی جوڑدیا کہ فیصلہ سنانے سے ایک دن پہلے جج صاحب ہمارے قصبے میں بھی تشریف لائے تھے۔
ڈپٹی کمشنر نے غوروفکرکے بعد کہا :
’’ اچھی بات ہے، ہم فیصلہ دیکھیں گے، تم مقدمے کی فائل میرے پاس بھجوا دو۔‘‘
تھانیدار کی باچھیں کھل گئیں، وہ چاہتا ہی یہی تھا، اس نے جھٹ سے پھر ہاتھ باندھ لئے:
’’ حضور! ایک اور عریضہ ہے، فیصلہ پڑھنے کے بعد اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس مقدمے کی ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی اجازت دی جائے۔‘‘
آخر وہی ہوا جس کی توقع تھی، ڈپٹی کمشنر نے مقدمے کی فائل منگوا لی۔شروع سے آخر تک مقدمے کے کاغذات دیکھے، تمام گواہیاں دیکھیں، ایک ایک قانونی نکتے کو دیکھا اور اس نے پایا کہ واقعی فیصلہ بدلا گیا ہے۔ کاغذوں کے مطابق تو ضلع دار مجرم نکلتا تھا۔فیصلہ پڑھنے کے بعد انہیں تھانیدار کی یہ مانگ جائز لگی کہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ اس نے اجازت دے دی۔
’’پھر کیا؟ شک کی گنجائش ہی نہیں تھی، ڈپٹی کمشنر کو بھی شکلا جی کی ایمانداری پر شک ہونے لگا۔‘‘
کہتے کہتے ہیرا لال خاموش ہو گیا، دھوپ کب کی ڈھل چکی تھی اور ارد گرد شام کے سائے اترنے لگے تھے۔ہم دیر تک خاموشی سے چلتے رہے۔مجھے لگا جیسے
ہیرا لال اس واقعہ کے بارے میں نہ سوچ کر کسی دوسری ہی بات کے بارے میں سوچنے لگا ہے۔
’’ایسے چلتی ہے تجارت کی دنیا۔‘‘
وہ کہنے لگا،معاملہ ہائی کورٹ میں پیش ہوا اور ہائی کورٹ نے ضلع عدالت کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ضلع دار دوبارہ پکڑ لیا گیا اور اسے تین سال کی قید بامشقت کی سزا مل گئی۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں شکلا پر لاپروائی کا الزام لگایا اور ان کیفیصلہ پر شک بھی ظاہر کیا۔
اس ایک مقدمے سیہی شکلا کا دل ٹوٹ گیا۔اس کادل ایسااداس ہوا کہ اس نے ضلع سے ٹرانسفر کروانے کی درخواست دے دی اور سچ مانو! اس ایک فیصلے کی وجہ سے ہی وہ ضلع بھر میں بدنام بھی ہونے لگا تھا۔ تمام لوگ کہنے لگیکہ رشوت لیتا ہے۔ بس اس کے بعد پانچ چھ سال تک وہ اسی محکمہ میں گھسٹتا رہا، اس کا پروموشن رکا رہا۔
’’اسی لیے کہتے ہیں کہ سرکاری افسر کو فائل کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہئے، جو فائل کہے، وہی سچ ہے، باقی سب جھوٹ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اندھیرا گھر آیا اور ہم اندھیرے میں ہی دھیرے دھیرے شہر کی طرف واپس ہونیلگے تھے، میں سمجھ سکتا ہوں کہ شکلا کے دل پر کیا بیتی ہوگی اور وہ کتناحیران اور پریشان رہا ہوگا وہ جو انصاف کا وچن اپنی ماں کو دے کر آیا تھا۔
’’پھر؟ پھر کیا ہوا؟ منصفی چھوڑ کر شکلا جی کہاں گئے؟‘‘
’’معلم بن گیا اور کیا؟‘‘
ایک کالج میں فلسفہ پڑھانے لگا،اصولوں اور آدرشوں کی دنیا میں ایک ایماندار آدمی آرام سے رہ سکتا ہے۔ بڑا کامیاب معلم بنا۔ ایمانداری کا دامن اس نے اب بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اس نے بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں،بہتر سے بہتر کتابیں لکھتے ہیںمگر اصولوں کی دنیا سے دور، بہت دور۔۔۔۔۔۔۔۔!
Sabir Raza Rahbar
C/o Md Firoz Ahmad White House
Naugharwa Sultanganj Patna06
9470738111/8804542020