حافظ افتخاراحمدقادری
قاری عثمان اعظمی کی نعت گو ئی
اس خاکدان گیتی پر حضرت سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر اب تک نہ جانے کتنے لوگ آئے اور چلے گئے،نہ جانے کتنے آئیں گے چلے جائیں گے۔رستم ودارا آئے اور چلے گئے، نمرود وفرعون آئے چلے گئے،ہامان وشداد آئے چلے گئے یوں ہی قارون ویزید آئے اور چلے گئے،ساتھ ہی ساتھ ان کی طاقت وقوت،سلطنت وحکومت،دولت وثروت اور دبدبہ وسطوت بھی روئے زمین سے مٹتا چلا گیا،بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں اور زوال پذیر ہوگئیں حد تو یہ ہے کہ آج کرہ ارض پر کوئی ان کا نام تک لینا گوارہ نہیں کرتا وہ ایسے نیست ونابود ہو گئے گویا وہ معرضِ وجود میں آئے ہی نہیں تھے۔لیکن اسی روئے زمین پر کچھ ایسی باکمال اور قدر آور ہستیاں بھی وجود میں آئیں جو اپنی حیات میں بھی روشن وتابناک رہیں اور بعد وصال بھی زندہ و تابندہ رہی ہیں،یہ ہستیاں صفحات حیات پر کچھ ایسے نقوش ثابت کر جاتی ہیں کہ جنکی وجہ سے وہ ہمیشہ مثل لعل بدخشاں چمکتی اور دمکتی رہتی ہیں۔قوم وملت کے لیے یہ ہستیاں کچھ ایسے کارنامے چھوڑ جاتی ہیں جسکی وجہ سے دنیا انہیں بھول نہیں پاتی،یہ ہستیاں دین وملت کی کچھ ایسی خدمات کر جاتی ہیں کہ جسکی وجہ سے گم گشتگان راہِ منزل راہِ مراد کا پتہ لگا لیتی ہیں۔ان ہی باکمال و ذیشان ہستیوں میں ایک ہستی خلیفہ حضور قطب مدینہ تلمیذ حضور حافظ ملت،استاد العلماء،شیخ القراء حضرت قاری محمد عثمان اعظمی کی ذاتِ گرامی ہے۔آپ کی ولادت محلہ حُسین پورہ گھوسی میں تقریباً 1915ء میں ہوئی آپ کے والدِ ماجد الحاج لعل محمد بن الہیٰ بخش ایک دیندار علم دوست انسان تھے۔قاری محمد عثمان پاکیزہ نفس،طہارت پسند،روشن خیال،زندہ دل اور شگفتہ مزاج تھے۔آپ ذہانت وفطانت، سنجیدگی ومتانت،لطافت وسلاست اور فصاحت وبلاغت میں اپنی نظیر آپ تھے۔ویسے تو شیخ القراء قاری محمد عثمان اعظمی قرآت کے میدان میں اپنی ایک الگ ہی شناخت رکھتے تھے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ کی مقبولیت کا راز آپ کی نعتیہ شاعری بھی تھی۔شاعری ایک فن ہے جو کئی مرحلوں سے عبور کر کے تخلیق پاتی ہے۔شیخ القراء قاری محمد عثمان اعظمی نے صرف رسمی شاعری نہیں کی بلکہ آپ نے اسے ایک فن کی حیثیت سے برتا اور اس کے تمام تقاضوں کو پورا کیا، یہی وجہ ہے کہ قاری محمد عثمان اعظمی کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک کامیاب اور بہترین شاعری کے لیے ضروری ہیں۔زبان وبیان کی لطافت ونزاکت، حسن ورعنائی،دلکش وباگپبن،شاعری کی شدت احساس اور اشعار کی شدت تاثیر جب یکجا ہوتی ہے تو شاعری بنتی ہے۔ان عناصر میں سے اگر ایک بھی عنصر کم ہوگیا تو اچھی شاعری نہیں ہوتی بلکہ وہ کھوکھلی شاعری کہلاتی ہے۔یہ تمام عناصر شدت سے پائے جاتے ہیں اور اسی شدت کا نتیجہ ہے کہ آپ کی شاعری خوب سے خوب تر ہوتی چلی گئی اور زمانے کو اپنی بہار جاںفزاں دکھلاتی رہی ہے۔جس کو اربابِ علم ودانش آج بھی سراہتے ہیں۔لیکن ان تمام عناصر کو تلاش کرنے سے قبل ضروری ہے کہ پہلے ہم شعر کا مطالعہ کریں کہ شعر کیا ہے اور اہلِ فن نے اس کی کیا تعریف بیان کی،شعر کا اطلاق کس کلام پر ہوتا ہے اور یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ شعر وسخن کا مبداء کیا ہے اور اس کی تخلیق کہاں سے ہوئی ہے؟اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے اس بارے میں کیا نظریہ پیش کیا ہے؟جب تک ان امور کی وضاحت نہ کی جائے گی تب تک بات ادھوری رہے گی اور قاری محمد عثمان اعظمی کی شاعری میں زبان وبیان کی جاذبیت اور ان کے احساس و جذبہ اور ان کی شاعری کی شدت تاثیر کی تلاش بے سود ثابت ہوگی۔ذیل میں قاری محمد عثمان اعظمی کا نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
محمد سا حسیں دیکھا نہ ایسی دلبری دیکھی
خدا نے مصطفیٰ میں اپنی خود جلوہ گری دیکھی
دوعالم ان کے شائق انبیاء ان کے ثنا خواں ہیں
دو عالم میں کہیں ہم نے نہ ایسی سروری دیکھی
وہ آئے سامنے تو بت بھی سجدے میں چلے آئے
خدا شاہد ہے دنیا نے نہ ایسی سروری دیکھی
یتیم ہاشمی کا راز بچپن ہی سے ظاہر ہے
حلیمہ سعدیہ نے اپنی کھیتی جب ہری دیکھی
یہ عثماں رحمت عالم کے صدقے جان و دل قرباں
قیامت میں جدھر اٹھی نظر رحمت بھری دیکھی
سراپا نور ہیں معراج والے . ضیائے طور ہیں معراج والے
گئے عرشِ بریں پر دیکھ آئے . بہت مسرور ہیں معراج والے
کہاں سدرہ کہاں قرب تدلی گماں سے دور ہیں معراج والے
ازل سے جانتے ہیں لوگ عثماں . بہت مشہور ہیں معراج والے
میں مدینے کو چلا ہوں قافلہ کوئی نہیں
شوق دل صد مرحبا جب رہنما کوئی نہیں
اے خدا کوئے نبی میں موت دے دے تو مجھے
آرزو اس کے سوا میرے خدا کوئی نہیں
میں گنہگار نبی ہوں وہ شفیع عاصیاں
عاصیوں کا حشر میں ان کے سوا کوئی نہیں
مرحبا عثمان ذوقِ نعت گوئی مرحبا
شاعری میں اس سے بڑھ کر مشغلہ کوئی نہیں
(قاری عثمان اعظمی:حیات وخدمات،صفحہِ/13)
قاری محمد عثمان اعظمی کی شاعری میں زبان کی سادگی، بیان کی سلاست،نغمگی کا حسن،اثر آفرینی کی قوت موجود ہے۔آپ نے جذب ومحبت کی کیفیت میں ڈوب کر منظوم سیرت النبی صلی الله وسلم لکھی ہے۔اس منظوم میں قدم قدم پر وارفتگی شوق اور حسنِ عقیدت کے جلوے ضیا بار نظر آتے ہیں۔سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم منظوم کی تکمیل کے لیے بارگاہِ خداوندی میں بڑی رقت و دل سوزی سے یہ دعا فرما رہے ہیں؛
خدا بندہ مجھے توفیق دے مجھ پر کرم فرما
دعائے عاجزانہ پر نگاہِ محتشم فرما
تیرے پیارے نبی کی سیرتِ منظوم ہو پوری
اسی میں عمر جتنی ہے مقسوم ہو پوری
مجھے حسان کا ایمان دے ان کی زباں دے دے
قلم کی دو زبانوں کو انہیں کا کچھ بیاں دے دے
زباں آسان دے دے سیرتِ منظوم کی خاطر
بیاں دلکش بنا دے امت مرحوم کی خاطر
نگاہِ مصطفیٰ صلی علی کا ملتجی ہو میں
خدا بندہ تیرے لطف و کرم کا ملتجی ہو میں
میری اس نظم سیرت کو قبولِ عام بھی دے دے
میری شام نگارش کو تو صبحِ تام بھی دے دے
تیرے محبوب کی سیرت نگاری کام ہو میرا
یہی اک مشغلہ تا عمر صبح وشام ہو میرا
بیانیہ صنف سخن میں قاری محمد عثمان اعظمی کی قادر الکلامی کے لیے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نہ تھا عرش زمیں نہ آسماں کا شامیانہ تھا
نہ گلشن تھا نہ بلبل تھی نہ ان کا آشیانہ تھا
نہ دنیا تھی نہ عقبیٰ کا زبانوں پر فسانہ تھا
نہ طاعت میں عبادت تھی نہ کوئی آستانہ تھا
نہ عشق و عقل کا چرچا نہ قلب عارفانہ تھا
اگر تھا حسن مطلق تو ابھی تک بے فسانہ تھا
کیا نور محمد کو ہویدا نور سے اپنے
ہوا پھر نور میں مستور خود پیدا کیا جس نے
وہی نور محمد اس کی قدرت سے ہوا پیدا
وہی پھر نور اس پر اس کی حکمت پر ہوا شیدا
(قاری عثمان اعظمی: حیات وخدمات،صفحہ/15)
ایک مومن کامل کی پوری زندگی حقیقی معنوں میں عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے عبارت اور یہ جذبہ عشق اس کے قلب کو ایسا گداز عطا کرتا ہے اور شمع نبوت کا ایسا والہ و شیدا بنا دیتا ہے کہ پھر اس کے نزدیک دنیائے فانی کی رعنائیاں،گلشنِ ہستی کی رنگینیاں اور بہشت بریں کی عقل و قیاس سے ماورا زیبائیاں سب کی سب بے معنیٰ ہو کر رہ جاتی ہیں۔اس لیے یہ ساری دلربا ودلکش چیزیں اپنی کشش کھو بیٹھتی ہیں۔اسے اگر سکون ملتا ہے تو گلزارِ طیبہ کے کھاروں میں،اگر وہ بربط ہستی پر کوئی نغمہ چھیڑتا ہے تو وہ نغمہ صرف رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کی مدحت سرائی کا آبشار ہوتا ہے،اس کا خانہ دل اگر کسی جلوؤں سے معمور ہوتا ہے تو صرف پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے جمال جہاں آراء کے جلوؤں سے،اسے اگر کسی شہ پر نخر وناز ہوتا ہے تو وہ صرف سرمایہ عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم ہے۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہی سرمایہ عشق دنیا میں بھی اس کے کام آنے والا ہے اور قبر وحشر میں بھی میزان و پل صراط پر بھی،اگر وہ تڑپتا ہے تو صرف محبوبِ خدا صلی الله علیہ وسلم کی یاد میں کیوں کہ یہ تڑپ ایسی لذت بخش اور روح پرور ہوتی ہے کہ وہ ایک لمحہ بھی اس لذت حیات بخش سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔قاری عثمان اعظمی ایک ایسے ہی عاشق رسول تھے۔ حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کا عشق آپ کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،یہی سبب ہے کہ آپ کے نعتیہ کلام کا ایک ایک شعر صداقت اور سادگی کے ساتھ ساتھ آپ کے انیس بے کساں حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم سے والہانہ لگاؤ اور وارفتگی شوق کا مظہر بھی ہے۔ذیل میں قاری محمد عثمان اعظمی کے کلام کے وہ اشعار قارئین ملاحظہ فرمائیں جس میں کیف وسرور بھی ملے گا اور جذبہ عشق کی حرارت بھی ملے گی اور صحر انوردان عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم میں زخمی دلوں کا تسکین بخش ساماں بھی ملے گا؛
کیا جانیے کیا حال میرے دل کا وہاں ہو
جب غم لیے روضہ پہ ہر اک محو فغاں ہو
عاصی کو لیے حشر میں آتے ہیں محمد
آجاؤ نہ گھبراؤ تم عثمان کہاں ہو
ہجر نبی میں اشک غم آنکھوں میں جگمگا گیے
میرے بجھے چراغ کو اچھا ہوا جلا گیے
اد نبی کے ماسوا دنیا میں کچھ نہ پاس تھا
دامن تیرے لیے ہوئے ہم بھی نجات پا گیے
جائیں کہاں یہاں سے ہم کون و مکاں کے تاجدار
قصہ بیکسی حضور آپ کو ہم سنا گیے
نبی کی محبت مجھے مل گئی ہے
میرا غنچہ دل کھلا جا رہا ہے
نگاہوں میں بسنے لگے ان کے جلوے
دل عرشِ معلیٰ بنا جا رہا ہے
مدینے کا دل میں تصور لیے ہوں
مئے حب احمد سے سرشار ہوں میں
غم مصطفیٰ جب سے دل میں بسا ہے
زمانے کا ہر غم مٹا جارہا ہے
چلو حشر میں تم بھی عثمان عاصی
کہاں ہے بھلا اس سے تم کو خلاصی
پڑھو نعت سرکار نم دیدہ ہوکر
کہ اس کے سوا اور کیا پارہا ہے
قاری محمد عثمان اعظمی کی زندگی کا آپ مطالعہ کریں تو واضح ہوگا کہ آپ نے اصلاح معاشرہ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔آپ نے اپنی تقریروں کے ذریعے نہ جانے کتنے گم گشتگان راہ کو صراطِ مستقیم پر لا کر کھڑا کر دیا،آپ نے ہمیشہ اپنے خطاب میں قوم مسلم کی رہنمائی اور ان کی آسانیوں کی راہیں ہموار کرنے میں اپنی پوری زندگی صرف فرما دی زیر نظر مناجات میں قاری محمد عثمان اعظمی کس طرح قوم مسلم کے لیے فکر مند ہیں اس کا اندازہ اس نظم میں کہے گیے اشعار کے ذریعے بخوبی لگایا جاسکتا ہے قارئین ملاحظہ فرمائیں؛
مسلماں کو یارب مسلماں بنا دے
مسلماں کو پھر اہل ایماں بنا دے
تیری بندگی چھوڑ کر کے مسلماں
تیرے در سے منہ موڑ کر کے مسلماں
زمانے میں ہیں یوں پریشان حیراں
کوئی ان کا حامی نہ کوئی نگہباں
مسلماں کو یارب مسلماں بنا دے
مسلماں کو پھر اہل ایماں بنا دے
جگا کر جہاں کو مسلمان سوئے
بتا کر کے رستہ ہیں خود راہ کھوئے
جنہوں نے نجس دھبے دنیا کے دھوئے
وہ ناپاکیوں میں ہیں خود کو ڈبوئے
مسلماں کو یارب مسلماں بنا دے
مسلماں کو پھر اہل ایماں بنا دے
زمانہ کو پھر آدمیت سکھائیں
پھر اخلاق کا اپنے سکہ بٹھائیں
پھر انساں کو انسان کامل بنائیں
تیری راہ حق پر جہاں کو لگائیں
مسلماں کو یارب مسلماں بنا کے
مسلماں کو پھر اہل ایماں بنا دے
نعت گوئی اور منقبت نویسی اسی خوش نصیب شاعر کی قسمت میں ہوتی ہے جس کا دل حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم اور اولیاء کرام کی محبت کا گنجینہ ہو۔نہ ہر شاعر کا یہ نصیب ہے اور نہ ہر شخص کا دل اس نعمت کا اہل ہے۔بے شک و شبہ قاری محمد عثمان اعظمی ایک صحیح العقیدہ عالم اور اپنے حسن عقیدہ ومذہب میں راسخ تھے اس لیے آپ نے اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار صحابہ کرام اور اولیاء عظام کی ذاتِ قدسیہ کے ساتھ پیش کرنے کو وسیلہ نجات اور توشہ آخرت سمجھا اور ان مقدس ہستیوں کے ذریعے بارگاہِ رسالت میں حاضری اور شفاعت کی درخواست پیش کی۔قاری محمد عثمان اعظمی کے کلام میں بکثرت مناقب بھی موجود ہیں یکے بعد دیگرے ان مناقب کو قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔چاروں خلفائے راشدین کی الگ الگ مناقب موجود ہیں لیکن خلیفہ اول امیر المومنین افضل البشر حضرتِ سیدنا صدیق اکبر رضی الله عنہ کی شان میں جو منقبت آپ نے قلمبند فرمائی ہے وہ واقعی ظاہری معنویت اور زبان وبیان کے اعتبار سے تقدم کی حیثیت رکھتی ہے قارئین ملاحظہ فرمائیں؛
کس نے دیکھا اور سنا صدیقِ اکبر کی طرح
اے زمانہ! ہے، تو لا صدیق اکبر کی طرح
کون ہجرت میں رہا میرے نبی کا غمگسار ؟
لا رفیق باوفا صدیق اکبر کی طرح
ثانی اثنین اذھما فی الغار کس کی شان ہے؟
کس کو یہ رتبہ ملا صدیقِ اکبر کی طرح
کہ دو عثمان حضرتِ فاروق عثمان و علی
سب نبی پر ہیں فدا صدیق اکبر کی طرح
قاری محمد عثمان اعظمی نے خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کی شان میں جو منقبت لکھی ہے اس کا انداز بھی جداگانہ ہے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کہاں تعریف ہوگی اے زباں فاروق اعظم کی
حقیقت در حقیقت ہے نہاں فاروق اعظم کی
زمانے میں کبھی تھے وہ فقط خطاب کرتے بیٹے
مگر والله پھر شان گراں فاروق اعظم کی
نبوت ختم تھی ورنہ نبوت ان کا حصہ تھا
ید اللہی وہ قوت تھی وہ عثماں دور ایماں تھا
مگر اب یاد ہے بس تا زباں فاروق اعظم کی
اے! غنی دل اے! میرے دلدار عثمان غنی
اے غریبوں کے دھنی غم خوار عثمان غنی
تم پہ اکرام نبی لاریب ذوالنورین ہو
تم ہو داماد نبی دیندار عثمان غنی
کتنے احساں ہیں تمہارے اے زمانے کے سخی
قوم کی خاطر ہوئے نادار عثمان غنی
ہے فسیکفی سے روشن آپ کی مظلومیت
خون ناخن میں اٹھی تلوار عثمان غنی
کیوں نہ عثمان نام کی نسبت پہ تجھ کو ناز ہو
چار یاروں میں ہیں جب اک یار عثمان غنی
حضرت شیر خدا مولی علی مولی علی
رہبر دیں پیشوائے ہر ولی مولی علی
قادری ہوں یا کہ چشتی آپ کے سب پیشوا
آپ کے کوچے سے نکلی ہر گلی مولی علی
بادہ حب نبی ایسی پلا دیجئے مجھے
جو بڑھا دے میرے دل کی بے کلی مولی علی
روح پیاسی ہے تو عثماں اب چلو سوئے نجف
سلطان الہند خواجہ خواجگان حضرتِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی الله عنہ سے محبت وعقیدت تو ہر مسلمان کے دل میں ہے۔خاص کر ہندوستان کے رہنے والے مسلمانوں کی عقیدت ومحبت کے وہ مرکز خصوصی ہیں چاہے زبان سے کوئی اس کا اظہار کرے یا نہ کرے۔قاری محمد عثمان نے بھی خواجہ غریب نواز رضی الله عنہ کی شان میں منقبت کہی ہے قارئین ملاحظہ فرمائیں؛
غریبوں کے سرکار اجمیر والے
ضعیفوں کے غم خوار اجمیر والے
تمہارا ہی سکہ رواں حشر میں ہے
ہے کل ہند بازار اجمیر والے
میرے دل کو درد آشنا تم بنا دو
مجھے دے دو آزار اجمیر والے
گیے قافلے سوئے اجمیر والے
ہے عثمان لاچار اجمیر والے
قاری محمد عثمان اعظمی نے اپنی شاعری میں طرح طرح سے اپنے جذبات واحساسات کا اظہار کیا ہے۔آپ کی شاعری میں قدم قدم پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعری کی پیاس اور اظہار کی تشنگی اسی طرح منہ کھولے العطش العطش پکار رہی ہے۔حقیقت میں یہی عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم کا کرشمہ ہے۔اس میں شک نہیں کہ حب رسول ہی نعت گوئی کی بناد ہے۔عشق نہ ہو تو انسان راکھ کا ڈھیر ہے اور عشقِ رسول نہ ہو تو انسان بے حس و بے جان لاش ہے۔جو معاشرے حب رسول سے سرشار ہیں وہ زندہ و تابندہ ہیں اور جو حب رسول سے نا آشنا ہیں وحشی ہیں،تہذیب سے دور ہیں انسانیت سے محروم ہیں۔عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم فصل کو وصل میں تبدیل کر دیتا ہے اور نعتیہ شاعری معیار آدمیت کو فلک افلاک تک لے جاتی ہے۔قاری محمد عثمان اعظمی کی شاعری میں ایک جادو ہے،ایک سحر اور ایک عجیب کشش ہے اور انہیں زبان وبیان پر ایسی قدرت حاصل ہے کہ دیگر شعرا کو شاذ ہی نصیب ہوئی ہوگی۔در اصل آپ کے کلام کے اندر ایک والہانہ پن اور ایک ایسی خوبی ہے جو پڑھنے والے کو محبوب کی ہر ہر ادا سے ایک دم قریب کر دیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ استاذ العلماء کی پوری نعت ترنم کے ڈھانچے میں ڈھلی اور سنوری ہوئی ہے۔