
ڈاکٹر ستیہ پال آنند
قفس
دیکھ کر مجھ کو پرندہ
اڑتے اڑتے چونک اٹھا
رک گیا ، پلٹا، میرے بازو میں اُترا
ہنس دیا ، مجھ سے کہا ، ’’گھر میں کوئی خالی قفس ہے؟‘‘
ششدر و حیراں کھڑا میں
اس کی جانب دیکھ کر بھی کچھ نہ سمجھا
طائر آزاد، اس کو کیا ہوا ہے
کیوں اسے خالی قفس کی جستجو ہے
میں نے ڈانٹا
’’مسخری کرتے ہو ؟ جاؤ !
مجھ سے ایسی دل لگی اچھی نہیں ہے ! ‘‘
پھر ہنسا بے دم ہوا تو
رو پڑا۔ بولا، ’’نہیں بھائی ۔ قفس تو
میری منزل ہے ، مرا گھر ہے ، پناہ ِآخری ہے
میں تو اک مدت سے یوں لاچار اڑتا پھر رہا ہوں
مہرباں، لللہ ، اک پنجره دلا دو ! ‘‘
’’ قید ہو جاؤ گے ؟“ میں کچھ خشمگیں تھا
پھر ہنسا ، کہنے لگا ، ’’تم جانتے ہو
پھر بھی یوں انجان بنتے ہو ؟مرااب
قید ہو جانا ہی میری زندگی ہے !‘‘
(دم بخود میں سن رہا تھا )
’’جس تحفظ کے لیے میں آج اپنا
آشیاں تک چھوڑ آیا ہوں ، مجھے گلشن میں کب
ملتاتھا، بھائی !
گلستان تو مسکن ِصیاد ہے، اور آشیاں اب
گھر نہیں ہے ، رزم گہ ہے
ڈھونڈنا ہوگا کوئی پنجرہ اگر جینا ہے مجھ کو !
اب چلوں ، تم سے تو کچھ ممکن نہیں ہے !
اُڑ گیا پر پھڑ پھڑا کر !
(شعری مجموعہ وقت لا وقت،ستیہ پال آنند ،صفحہ:53-54)