سفر نقوی
ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو،دہلی یونیورسٹی
نظم -لب بستگی
سنو گریز کرو آج کچھ بھی کہنے سے
عجیب وقت کے دھارے بدل رہے ہیں ابھی
یہ گردشوں کے تماشے ہتھیلیوں کے فریب
شکستہ ذات کے حیرت گزیدہ گوشوں کو
بتا رہے ہیں ستارے بدل رہے ہیں ابھی
ابھی تو صبر کے خیموں کی ان طنابوں کو
بریدگی لیے ہاتھوں سے تھامنا ہوگا
ابھی تو بادِ مخالف کے ان تھپیڑوں کو
بکھرتی خاک کے ذروں سے روکنا ہوگا
سنو گریز کرو آج کچھ بھی کہنے سے
یہ لمحہ ساعت بے اختیار ہے جاناں
یہاں گماں کے قبیلے یقیں کو ڈھاتے ہیں
یہی ہےمقتل بے آب ریگِ دشتِ بلا
جہاں پہ تشنہ لباں ایڑیاں رگڑتے ہوئے
کسی کے عشق میں دنیا سے ہارے جاتے ہیں
سنو گریز کرو آج کچھ بھی کہنے سے
کہ آج دھوپ کا لہجہ بھی انتقامی ہے
چھپا لو ہاتھ سے چہرے کی وحشتوں کے نقوش
کہ اب حدف ہی اجالے کا بے نقابی ہے
سپیدئی سحری سے گریز پا ناچار
سیاہئی شبِ ویراں میں ڈھلتے جاتے ہیں
دعا دعا کی صداؤں سے دم الجھتا ہے
کہ اب تو ہاتھ بھی کشکول ہوتے جاتے ہیں
سنو گریز کرو آج کچھ بھی کہنے سے
سنو کہ زہر کے پیالے چھلک رہے ہیں ابھی
اٹھانا جن کو وفاؤں کا فرض ہوتا ہے
یہ ہم جو پلکوں پہ آنسو سجائے پھرتے ہیں
یہ زندگی کی بہاروں کا قرض ہوتا ہے
سنو سکوت کے پہلو تلاشتی ہے حیات
ابھی سروں سے گزرنے دو ان غباروں کو
ٹھہرنے دو ابھی بے ربط آبشاروں کو
جہانِ صوت و صدا خامشی کا طالب ہے
سفر زباں پہ کسی حرف کو جگہ نہ ملے
یہاں کلام نہیں بس سکوت واجب ہے!!
***