سلیم ناز
مارسَرِ گنج
صبح کے پہر کوبھی سیاہ بادلوں نے رات کا جامہ پہنارکھا تھا۔دو دن سے مسلسل یہی کھیل جاری تھا کہ بادل آتے اور بارش ٹپک پڑتی،جس کی وجہ سے گھر سے باہر کے کام کاج معلق ہوئے پڑے تھے۔میں بھی یونیورسٹی سے ایک چھٹی تو کرچکا تھا مگر دوسری کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔موسم کی انگڑائی ،محبوب کی باتیں اور ہم نشیں کا ساتھ کس کو پسند نہیں مگر جو بدبخت ان نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں وہ رات کی بارش کو سو کر،صبح کی بارش میں خود کو بھگوکر اور دن کی بارش میں پکوڑے چائے میں ڈبوکرگزارہ کرتے ہیں۔مگر ایک گروہ ایسا بھی ہےجو ان سب باتوں سے بےنیاز ہوکر خود کو برساتی میں لپیٹے فرائض منصبی کی طرف نکل کھڑا ہوتا ہے۔انہیں بارش میں بھیگنے کاڈرنہ طوفان میں کسی گاڑی سے ٹکر ہونے کا خدشہ بس ایک ہی لگن کہ کسی طرح وقت پر سکول،دفتر اور دکان میں پہنچ جائیں۔اس محروم ومترودومغموم طبقے میں ہمارا بھی شمار ہوتا ہے۔بستر سے نکل کر دکھاوے کا منہ دھویا اور ناشتے کی میز پر جا سجا،ایک پراٹھا،دوانڈے اور ایک چائے کا مگ ٹھونس کر لیپ ٹاپ شاپر میں ڈال کر بیگ میں رکھا اور موٹر سائیکل پر سوار ہوکر چل نکلا۔چند ساعتوں کے فاصلے پر مارکیٹ ہے جس میں ناشتے کی دکانیں،ٹھیلے اور دیگر خوردونوش کی دکانیں ہیں۔دعا چوک میں مزدوروں کی منڈی ہے جہاں پر متنوع پیشہ مزدور وکاریگر موجود ہوتے ہیں اور صاحب ثروت یومیہ کےحساب سے ان کو کام کے لیے لے جاتے ہیں۔منڈی کے پاس ہی ایک ریڑھی والا ناشتہ لگا تا ہے اور مزدور سستے داموں اس سے پیٹ کے دوزخ کی آگ کوٹھنڈا کرکے اگلے دم کی آگ کو بجھانے کے لیے دھندے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔میں دیکھتا ہوں کہ آج ناشتے والی ریڑھی کے اردگرد کوئی زیادہ مجمع نہیں ہے بس دو تین لوگ موجود ہیں اور ناشتے والا اونچی آواز میں ان میں سے ایک کو گالیاں دے رہا ہے،میں بھی خلاف معمول ماحول دیکھ کر خبر لینے کے لیے موٹر سائیکل روک کھڑا ہوا۔
ایک ادھیڑ عمر شخص جس کی جیکٹ برسوں پرانی اورلباس کی غلاظت بتا رہی تھی کہ جب سے خریدا ہے پانی اور صابن سے پاک رکھا ہوا ہے،موٹی سی ٹوپی سرپر جو کسی برفانی علاقے کی سوغات لگ رہی تھی اور جوتے البتہ قدرے نئے اورنسلاً بھی اچھے معلوم پڑتے تھے۔مختصراً ان کا حلیہ اسلام آباد کے بھکاریوں سے مات کھاتا ہوادکھائی دے رہا تھا۔ناشتے والا اُن سے بیس روپے مزید لینے کے لیے چلا رہا تھا مگر وہ پیسوں کی قلت کا کہہ کر مزید دینے سے گریزاں تھے۔کسی ایک مزدور نے شور سے تنگ آکر بیس روپے ادا کرتے ہوئے اس جنگ کا تصفیہ کیا۔انکل نے مزدور کے بیس روپے ادا کرنے کواپنا حق جانا اور آہستگی سے پتلی گلی پکڑتےہوئے سوئے منزل ہوئے۔اس قیل وقال کو سن کر میں موسم کی خرابی اور یونیورسٹی میں اپنی عدم دستیابی کو بھول بیٹھا۔انکل بارش اور ٹھنڈ سےبےنیاز آوارہ خرامی کے سےانداز میں دعا چوک سے گنگال ہائی وے کی اوربڑھنے لگے۔چند قدم ہی چلے ہوں گے بارش تیز ہوگئی اور پیدل چلنے والے اکثر لوگ دکانوں کی اوٹ میں چھپنے لگے مگر انکل چلتے گئے ۔پانچ منٹ کی بارش نے غوری ٹاؤن کی سٹرک کو نالے کی شکل عطا کردی ،گاڑیوں کے ٹائروں سےاچھلتے پانی کے فواروں اور موٹر سائیکلوں کی دمچیوں سے اٹھنے والے چھینٹوں نے سڑک کنارے پیدل چلنا دشوار کردیا تھا۔انکل ایک متحرک مجسمے کی طرح ان سب باتوں سے بےنیاز چلتے چلے جارہے تھے۔الائیڈ بینک کے قریب پہنچ کر نیچے کی طرف مڑے اور دودھ دہی والی دکان سے ایک شاپر طلب کیا، اور اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب سے کاغذات والا گندہ سا ایک شاپر نکالا اوراس نئے شاپر میں ڈال کر دوبارہ جیکٹ کی اندرونی جیب میں محفوظ کرتے ہوئے مین سٹرک کی اور رمکنے لگے۔مستقل مزاجی اور سبک سری نے چابی والے کھلونے کی طرح چال کو ایک رفتار پر باندھ دیا تھا۔
گنگال سٹاپ پر مسافر خانے میں تین چار خواتین اور ایک نوجوان موجود تھا،مسافرخانے کے شمالی کونے میں لگا ہوا بینچ بالکل خالی تھا اور انکل شاید سفر کی تھکان کی وجہ سے اونٹ کے بیٹھنےکےسے انداز میں بینچ پر ڈھیر ہوگئے اور چند ساعتیں بیٹھنے کے بعد نیم دراز ہوگئے۔رکشے سے اتر کر ایک حسین نوجوان مسافر خانے کے مغربی کونے میں لگے بینچ پر آبراجمان ہوا۔بیس بائیس سال کا یہ جوان شکل صورت اور زیب وآرائش سے کھاتے پیتے گھرانے کا معلوم پڑتا تھا،نوجوان کے موبائل پر ہاتھوں کی حرکت اورگھڑی کا مسلسل دیدارکسی کے انتظار کا پیش خیمہ تھا۔چند لمحوں کے انتظار کے بعدنو جوان نے موبائل کان کے قریب کرتے ہوئے‘‘اگر تم نہیں آرہی تھی تو مجھےا س بارش میں بلانے کی کیا ضرورت تھی؟’’جواب سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ نوجوان مزید انتظار کرنے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔اسی اثنا میں ایک کیری ڈبہ برابر میں آکر رکا اور چاروں خواتین اس پرسوار ہوگئیں شاید وہ کسی ایک ہی دفتر کی ملازم ہوں گی۔
انکل کی پرسکون طبیعت کودیکھ کراندازہ لگاناآسان تھا کہ وہ کسی بھی جلدی میں نہیں ہیں تاہم اب ذرا چست ہوکرسڑک کی آمدورفت کاطائرانہ جائزہ لے رہے تھے۔اتنی دیر میں ایک ٹیکسی وہاں آکر رکتی ہے اور ایک خوب صورت حسینہ اس سے اتر کر نوجوان کے برابر آموجود ہوتی ہے اورتاخیر کےلیے معذرت خوانہ لہجے میں بارش کا عذر پیش کرتی ہے۔نوجوان کے ہر کڑوے بول پر وہ مسکراتی رہی اور اس کی مسکراہٹ نے فائر برائیگیڈ کاکام کرتے ہوئے نوجوان کے غصےکی آگ کو ٹھنڈا کردیا۔حسینہ کی ہاف بازو پنک فراک نے اسے جاذبیت کی تمام حدوں سے بالاتر کردیا تھا۔انکل کی نظریں جونہی حسینہ کی طرف اٹھیں تو وہ چونک گئے ،اس طرح ان کا چونک جاناایام رفتہ میں ان کے جمال دوست ہونے کا شاہد تھا۔نوجوان لیلیٰ مجنوں وہاں سے اٹھے اور ایک ٹیکسی میں سوار ہوکرنقشے سے معدوم ہوگئے۔انکل نے بھی اب اتنی ہمت مجتمع کرلی تھی کہ منزل کاتعاقب کرتے۔
انکل سٹرک کراس کرتے ہوئے فیض آباد کی جانب جانے والے راستے پر جاکھڑے ہوئے۔ایک سواکیس نمبر ہائی ایس آکر رکی اور انکل اس پر سوارہوگئے۔صبح کاوقت اورسواریاں پوری ہونے کی وجہ سے گاڑی فراٹے بھرتے ہوئے فیض آباد کی جانب بڑھنے لگی۔کھنہ پل سٹاپ پر ایک سواری اتری تو کنڈکٹر گنجائش پاکرپیچھے کی اورمڑکر انکل سے کرایہ طلب کرنے لگا،انکل نے پچاس روپے کا نوٹ نکالتے ہوئے کنڈکٹر کی اوربڑھایا،کنڈکٹر کےتیس روپے کی مزید ڈیمانڈ پر انکل بےحِس ہوکر بیٹھے رہے۔کری روڈ سٹاپ پر گاڑی رکی تو کنڈکٹر کا لہجہ کراہت آمیز ہد تک سخت ہوچکا تھا اور انکل کو نیچے اترنےکی دھمکیاں دینے لگا۔انکل سے پچھلی سیٹ پر موجود ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص نے اپنے موبائل سے نظریں ہٹاتے ہوئے جیب سے والٹ نکالا اور کنڈکٹر کو مطلوبہ رقم ادا کردی۔
دس منٹ بعد گاڑی پمز ہاسپٹل کے سامنے جارکی اور انکل بغیر کچھ بولے نیچے اترکر ہاسپٹل کی جانب بڑھنے لگے،ہاسپٹل کے مین گیٹ کے سامنے کچھ ٹیکسیاں موجود تھیں اوران کے ڈرائیور پاس ہی ہوٹل سے چائے اور پراٹھے سے محظوظ ہورہے تھے۔سفید کوٹوں میں ملبوس میل اور فی میل ڈاکٹر گلے میں سٹیتھوسکوپ لٹکائے غزال کے سے ڈگ بھرتے ہوئے ہاسپٹل میں اپنے اپنے دفتر کا رخ کررہے تھے۔انکل نے ایک بار رشک بھری نگاہوں سے ہوٹل کے توے پر پکتے ہوئے پراٹھوں اورکیتلی میں ابلتی ہوئی چائے کو دیکھا مگر اگلے ہی لمحے بےتوجہی دکھاتے ہوئےہاسپٹل کےپرچی ڈیسک کی جانب بڑھے۔پرچی ڈیسک کے اردگرد کثیر تعداد میں لوگ جمع تھے اور اپنے اپنے مریضوں کی پرچیاں بنوانے میں کوشاں تھے۔پرچی ڈیسک کے قریب ہی وہیل چیئر پربیٹھا ہواشخص پکارے جارہا تھا‘‘اللہ والو کوئی میری بھی پرچی بنوادو میرا کوئی نہیں ہے اور میں معذور ہوں۔’’انکل قطار کی پرواہ کیے بغیر ڈیسک سے جالگے اور لوگ اُن کے حلیے کو دیکھتے ہوئے ذرا ذرا پیچھے ہٹ گئے،انکل نے ایک ہی سانس میں غربت سے لے کر بیماری تک کےدکھڑے پرچی آفیسر کے سامنے رودیے اور اس نے جان چھڑانے کے لیے باقی لوگوں کا شور سنے بغیر انکل کو پرچی بناکر تھمادی۔
کمرا نمبر تین کے باہربینچوں پرایک لمبی قطار مریضوں کی موجود تھی اور جن کوقابومیں رکھنے کے لیےگلے میں کارڈ پہنے ہوئے ایک سرکاری ہرکارہ بھی موجود تھا۔انکل نے کمرا نمبر تین کے سامنے پہنچ کرایک نظر اپنی پرچی پرگرائی اوردوسری تین نمبر کی تختی کی طرف اٹھائی اور دروازہ دھکیلتے ہوئے ہرکارے کے روکنے کے باوجود ڈاکٹر کے سامنے جاموجود ہوئے۔ڈاکٹر صاحبہ نے گالوں پر غازہ اور ہونٹوں پرسرخی کا لیپ کیا ہوا تھا،موٹے شیشوں والی گول عینک پہن رکھی تھی۔ڈاکٹر ،خاتون مریضہ سے بیماری کی طوالت اورشدت کے بارے میں مختلف سوالات کررہی تھی۔انکل ،ڈاکٹر صاحبہ کی مصروفیت کی پرواہ کیے بغیر پرچی سامنے رکھتے ہوئے‘‘گیس،دائمی قبض،دمہ اور برسوں سے شوگر کا شکارہوں۔’’ڈاکٹر صاحبہ نے موٹے موٹے شیشوں والی عینک آنکھوں سے ماتھے پرکرتے ہوئے چہرہ اوپراٹھایا،لمحہ بھر پہلے مسکراتا ہوا چہرہ آگ برسانے لگا‘‘تم بھکاری لوگوں نے ہرجگہ جینا حرام کررکھا ہے،بازاروں میں تمھارے ہاتھ پھیلے ہوتے ہیں اور ہاسپٹل میں تمھاری بیماریوں کی حدود ختم ہوجاتی ہے اور زبان کی گراریاں فری ہوجاتی ہیں’’۔ڈاکٹر صاحبہ دراصل میں دور سے آیا ہوں اور شام تک واپس گاؤں بھی جانا ہے۔‘‘میں کہتی ہوں تم میری نظروں سے اوجھل ہوجاؤ اور سب سے آخر میں آنا تب تمھاری ٹاں ٹاں سنوں گی’’۔ گارڈ ،انکل کو بازو سے پکڑتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا اور مریضوں کی قطار میں آخری سیٹ کی طرف دھکا دیا۔
دوپہر ایک بجے جب تین نمبر کمرےکے باہر کھڑے گارڈ نے کہا کہ آج کا وقت ختم ہوچکا ہے باقی مریض معائنے کے لیےکل صبح سات بجے آکر نئی پرچی کے ساتھ یہاں قطار کا اہتمام کریں۔انکل نے ایک بار آخری مریض کی طرف دیکھا اور پھر بوجھل قدموں سے گیٹ کی طرف پیش قدمی کی۔گیٹ پر موجود رکشے کی طرف انکل جونہی بڑھے ،تو رکشے والا زور سے چلایا‘‘پیچھے ہٹ جاؤ اس میں پٹرول ڈلتا ہے مفت کی کھیر سمجھ کربانٹنے چلے آتے ہو’’۔انکل رکشے سے پیچھے ہٹتے ہوئے ہاسپٹل اورسڑک کے درمیان موجود درختوں کی قطار میں سے ایک ہلکے سے درخت کے تنے کے ساتھ مغرب کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئے۔‘‘یہ سماج کتنا ظالم ہے کسی غریب کا خیال نہیں رکھتا،کسی پر ترس بھی نہیں کرتا،کبھی بیس روپےکے لیے جنگ پر اتر آتا ہے اور کبھی باری سے پہلے چیک اپ کے لیے جانے پر تذلیل کی تمام حدیں چھولیتا ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ یہ سب تعلیم کی کمی ہے یا پھریہ سارے کمی کاری لوگ بلند وبانگ عہدوں تک پہنچ آئے ہیں۔’’ٹیں ٹیں انکل آئیں کہاں جانا ہے میں آپ کوچھوڑ دیتا ہوں،بیٹا اللہ تیرا بھلاکرے،انکل نوجوان کے ساتھ بائیک پر ہولیے،دس منٹ کی مسافت کے بعد نوجوان نے اپنی بائیک کا رخ جی ایٹ کی طرف کرتے ہوئے کہا‘‘انکل جی میں تو چمن سٹیشن تک جاؤں گا آپ نے اگر کسی اور طرف جانا ہےتو یہاں اتر جائیں۔’’ بیٹا!‘‘میں ایک غریب آدمی اور اس پر استزاد مریض بھی ہوں، کہاں جاؤں گا!،دیہاتی علاقے سے پمز میں فری چیک اپ کے لیے آیا تھا وہاں غریب کی کون سنتا ہے !وہاں سے مایوس ہوکر تھک کربیٹھا ہوا تھا تو آپ فرشتہ بن کر آئے ’’۔نوجوان بولتا ہے۔‘‘ انکل جی وہ بات تو ٹھیک ہے مگر اب میں جلدی میں ہوں سو آپ کو آپ کی منزل تک نہیں چھوڑ سکتا معذرت۔’’انکل ملتجانہ لہجے میں‘‘بیٹا جب نیکی کر ہی رہے ہو تو تھوڑی مزید مدد کردو آپ کا بھلا ہوگا۔’’نوجوان کے دل کے تاربج اٹھے،‘‘چلیں انکل بتائیں کہاں جانا ہے؟’’بیٹا جانا کہاں ! میں تو کسی ڈاکٹر کی تلاش میں ہوں تاکہ کوئی دوائی گولی لےکرشام تک واپس گاؤں چلاجاؤں۔انکل کی یہ بات سن کرنوجوان نے ایک لمحے کے لیے اپنی مصروفیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے انکل کے ساتھ بھلائی کرنے کی ٹھان لی۔‘‘میں آپ کوجی نائن مرکز میں ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کے کلینک کے پاس چھوڑدیتا ہوں،وہاں سے واپسی پر آپ میٹرو پر بیٹھ کرفیض آباد اڈے تک چلےجانا اورپھروہاں سےہرجگہ کی گاڑی مل جاتی ہے’’۔بیٹا!آپ کی بات تو ٹھیک ہے مگر وہ پرائیویٹ ڈاکٹر کی فیس کون دے گا؟ میرے پاس تو کرائے کے بھی پیسے نہیں ہیں سو آپ مجھے فیض آباد تک چھوڑ دیں وہاں سے میں گاڑی پر بیٹھ جاؤں گا۔نوجوان کچھ سوچے بغیر انکل کو لے کر ہاسپٹل پہنچ گیااور خود کاؤنٹر پر جاکر فیس اداکرکے پرچی بنوائی۔انکل نے اپنی جیکٹ کی جیب سے کاغذات والا شاپر نکالا اور کاغذات پر ایک نظر ڈال کر واپس جیکٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔ریسپشن والی لڑکی کے اشارے کے مطابق نوجوان پرچی ہاتھ میں لیے انکل کولے کرڈاکٹر کے کمرے میں پہنچ گیا۔ارٹیس چالیس سال کا خوبصورت جوان ڈاکٹرکسی کتاب کی ورق گردانی میں محو تھا،جس کے ٹیبل کے دائیں جانب شیشے کے مرتبان میں ایک پودا پڑا ہوا اور بائیں جانب ایک چھوٹا سا ٹیبل موجودتھا جس پر میڈیکل فیلڈ کی کچھ کتابیں پڑیں تھیں ۔ڈاکٹر کے پاؤں کے پاس ہیٹر جل رہا تھا۔نوجوان اور انکل کے پاؤں کی آہٹ سن کر ڈاکٹر ذرا چست ہوکربیٹھ گیا۔ڈاکٹر‘‘انکل خوراک میں بےتوجہی اور علاج میں تاخیر کی وجہ سے آپ کا مرض تقریباً لاعلاج ہوچکا ہے۔علاج سنت ہے اور پیسہ ہاتھوں کی میل ہے سو ہاتھوں کی اس میل کو اپنے مرض کے داغ پر پانی کی طرح بہاتے ہوئے سنت کوفرض میں بدل کر موت سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ لو۔میں کچھ ٹیسٹ لکھ رہا ہوں یہ ٹیسٹ کروا کر واپس میرے پاس آئیں’’
ڈاکٹر کے کمرے سےباہر نکلتے ہوئے نوجوان بولا!‘‘انکل جی آٹھ ہزار کے یہ ٹیسٹ ہیں اور آپ کے پاس پیسے پیسے۔۔۔’’انکل آواز میں ذرا دم لاتے ہوئے‘‘بیٹا میرے تو کل اثاثے بھی اتنے نہیں کہ میں یہ ٹیسٹ کرواسکوں اور ڈاکٹر کے اندازے کے مطابق دو،تین لاکھ تک کا علاج کرواسکوں۔’’انکل کی آواز سن کر لگ رہا تھا کہ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے ٹیسٹوں اور علاج کی رقم نے انکل کوکافی حد تک ٹھیک کردیا ہے،اس لیے وہ مرض،زندگی اورموت کو پیسے والی عینک سے جداکرکےنہیں دیکھنا چاہتے تھے۔انکل نے ہاسپٹل سے باہر نکلتے ہی نوجوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے الوداع کردیا اور خود ہاسپٹل کے گیٹ کےپاس ایک ٹیکسی والے سے کسی اشٹام فروش کی کھوج لگانے لگے۔ٹیکسی والے نے کہا میں آپ کووہاں چھوڑ دیتا ہوں مگر انکل نے صرف پتہ معلوم کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ انکل کسی مفلوج کے سے انداز میں رینگتے گرتے پڑتے کراچی کمپبی بسوں کے اڈے کے پاس سے ہوتے ہوئے نیلم روڈ پہنچ گئے۔اچانک جیب سے کاغذوں کا پلندہ نکال اس سے باتیں کرنے لگے‘‘میں اگر آج وصیت نامہ ٹائپ نہیں کرواپایاتو معاملہ گڑبڑ بھی ہوسکتا ہے،ڈاکٹر تو بتارہا تھا کہ بیماری حد سے تجاوز کرچکی ہےسوکسی بھی وقت زندگی موت کی مہمان بن سکتی ہے۔اس لیے یہ کام وقت دگر پر ڈالناساری جاگیر تبرک میں دینے کے مترادف ہے۔’’انکل کے چلنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ عرصہ دراز سےگھٹنوں کے مرض میں مبتلا ہیں ،قدم اٹھاتے ہوئے ان کا پورا جسم جھول کھا رہا تھا۔بہ مشکل دو گلیاں عبور کی ہوں گی تو ایک اشٹام فروش کی بند دکان کے سامنے جاٹکے،دکان کا شٹر اوپر تھا اور نماز والا لکڑی کا کتبہ شیشے کے دروازے کے اندر آویزاں تھا۔وہ کتبے پرآنکھیں جماتے ہوئے اس کے آنے کی امید لگاکر بیٹھ گئے۔دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکر آنکھیں موندنے کی دیر تھی کہ انکل نیند کی وادی میں پہنچ گئے،دن بھر کی تھکاوٹ،موسمی اثرات اور پھر آخر میں پیدل سفر نے نیند کی وادی میں دھکیلنے کے لیے پل کا کام کیا۔فرائیڈ نے لوگوں کو سلاکر ان کے دل کے حال جانے تھے اور انکل شاید اپنا آخری فیصلہ بتانے کے لیے خود ہی سوگئے تھے۔‘‘بیٹا!آج تم اشٹام لکھوانے آئے ہو،جاگیر کااشٹام بنواتے وقت میری نصیحت کویاد رکھنا’’۔‘‘ماں مجھے معاف کرنا میں آپ کی نصیحت پر پورا نہیں اتر پاؤں گا کیونکہ اگر میں بھی اپنی قبر آپ کے پہلومیں اپنی زمین میں بنانے کی وصیت چھوڑتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ ایک مرلہ اور کم ہوجائے گا اور گھر کے جتنے فرد ہیں وہ اگر سب یہی عمل دہراتے رہے تو ایک نسل میں ہی ہماری زمین نومرلے کم ہوجائے گی’’۔او چچا،اوچچا اٹھو یہاں کیوں لیٹے ہوئے ہو،ہماری دکان کے سامنے نحوست مت پھیلاؤ پہلے ہی کوئی گاہک نہیں آرہا۔انکل آنکھیں مسلتے ہوئے‘‘بچہ تو بھی عجیب آدمی ہے میں تمھارے لیے دوکلومیٹر پیدل کرکے یہاں پہنچا ہوں اور تم مجھے گاہک سمجھنے کی بجائے نحوست کہہ رہے ہو!’’۔‘‘اوہو چچا تم کیا اپنی بھیک کی حدود کااشٹام بنواؤ گے؟ خیر اس سے مجھے کیا لینا دینا تم چاہے جس کا مرضی اشٹام بنواؤ بس مجھے میری فیس کا پیسہ دکھاؤ’’۔
انکل جیکٹ کی اندرونی جیب سے کاغذات والا شاپر نکالتے ہوئے دکان میں داخل ہوتے ہیں۔‘‘بیٹا یہ میری جاگیر کے کاغذات ہیں ان کے حوالے سے مجھے ایک وصیتی اشٹام بنوانا ہے۔’’دکان دار نے ایک نظر انکل کو دیکھا اور دوسری نظر کاغذات پرجماتے ہی حواس کھوبیٹھا۔انکل دکان دار کوعالم مبہوت سے واپس لاتے ہوئے‘‘بیٹا آپ کاحساب جوبھی بنے میں صرف ایک سو روپے آپ کی خدمت کرسکوں گا۔’’قہر خدا کا!بابا تمھارے نام چودہ ایکڑ زمین اور اس میں لاکھوں کے قیمتی لکڑی والے درخت بھی ہیں اور تم مجھے سو روپے دینے کی بات کرتے ہو! نہ نہ یہ اشٹام میں ایسے کبھی نہیں لکھوں گا تمھیں کم از کم مجھے ایک ہزار روپے دینا ہوگا۔‘‘یار تم بھی حد کرتے ہو میرے پاس ہزاروں ہوتے تو اپنا علاج نہ کروالیا ہوتا’’۔‘‘انکل مٹی کومٹی کے وزن میں تولو،سوچ کا وزن نہیں ہوتا اورارزاں سوچ کا تو بالکل بھی وزن نہیں ہوتا۔’’دکان دار کمپیوٹر آن کرتا ہے اور انکل جاگیر والے کاغذات میں سے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک کاغذ اپنے سامنے رکھ کرلکھواتےہیں:
‘‘میرے مرنے کے بعد میری جاگیر میرے بھتیجے عثمان کے نام کی جائے اورچھوٹے بھتیجے روحان کو میں عاق کرتا ہوں کیونکہ وہ کسی بھی وقت یہ زمین پھونک سکتا ہے۔دونوں بڑی بہنوں کو حصہ نہیں دیا جائے گا کیونکہ ان کے پاس ان کے شوہروں کی زمینیں کافی ہیں اگر وہ قانونی چارہ جوئی کرتی ہیں تو میرےلکھے ہوئے بےدخلی والے وصیت نامے کوثبوت بناکران کا مقابلہ کیا جائے اور کسی خدشے کی صورت میں جج کو پیسے دینے سےبھی دریغ نہ کیا جائے۔چھوٹی بہن اگرگھر بنانے کے لیےزمین کا ٹکڑا مانگتی ہے تو اسے اپنے بنے ہوئے گھر میں سے ایک کمرا دے دیاجائے اور بہ صورت حق طلبی میرے وصیت نامے کے مطابق ان کو بھی بےدخل کردیا جائے۔کسی بھی شخص کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہے اور جلانے کے لیے بوڑھے درختوں کی صرف شاخیں تراشی جائیں۔عثمان اگر تم کاشت کرسکو ٹھیک ورنہ جڑی بوٹیاں جمنے دو مگر تن آسانی کے لیےکسی مزارع کو گھسیڑنے کی ضرورت نہیں۔عثمان یہ جاگیر تمھارے پاس امانت ہے تم اسے بیج نہیں سکتے اور اپنی اولاد میں سے کسی صاحب اعتبار آدمی کے حوالےکرکے اسے یہی وصیتی چارٹ تھما دینا۔آخری وصیت یہ ہے کہ میرے سمیت اپنے کنبے کے کسی بھی فرد کی قبر اپنی زمین میں بنانے کی اجازت نہیں ،میرے سمیت سب کوبوقت فوتگی سرکاری قبرستان میں دفن کیاجائے۔’’
اشٹام ہاتھ میں لیے انکل ،جی ایٹ کا پل کراس کرتے ہوئے ٹریفک کی بھیڑ اوربادلوں کی تاریکی کی وجہ سے سمندر میں گرنے والے بارش کے قطرے کی طرح کھوجاتے ہیں۔
***