
ڈاکٹر ستیہ پال آنند
مجھے نہ کر وداع
(ن۔م۔راشدؔ کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ)
کہ اس سے پیشتر بھی میں
انا تھ ، ناتواں ، یتیم طفل
اپنے آپ ہی
تمہاری انگلی چھوڑ کر
بچھڑ گیا تھا رونق حیات کی فروش گاہ ِعلم میں
میں بے خبر
اکھڑ گیا تھا سر بسر
نہ چاہتے ہوئے بھی میں
بھٹک گیا تھا
علم وفن کی جامعات کی اندھیری کھوہ میں
نکل پڑا تھا
ہفت خواں مفکروں کے قافلوں کی ٹوہ میں
میں بے رِیا تھا
بات کا کھر ا،مگر
مجھے وداع کرکے، مجھ کو
علم کی فسوں گری کی بھٹیوں میں جھونک کر
مری اُٹھان روک دی
مجھے نحیف کر دیا
طبیعی سن سے پیشتر
مجھے ضعیف کر دیا!
مجھے نہ کر وداع پھر
کہ سر بہت کھپا چکا
ادب کی درسگاہوں کے
قدیم مرگھٹیوں میں لاکھوں بار پہلے جل چکی
پرانی میتوں کے ساتھ
میں بھی اپنے جسم و جاں جلا چکا
مجھے نہ کر وداع
مجھے نہ کر وداع پھر
کہ چاہتا ہوں اپنی رہتی عمر تک
میں تم سے منسلک رہوں
تمہارے ساتھ رہ کے میں بھی سن سکوں
جو ’بے صدائی‘
’آنسوؤں کے آئینوں‘کے آب میں اسیر ہے
جو ’دست و پا کی نارسائی‘
عام آدمی کی زندگی کی چیز بست ہے
’سلام روستائی‘ جو پسے ہوئے،دبے ہوئے
عوام کے جنم جنم کے دکھ کی باز گشت ہے!
مجھے نہ کر وداع
مجھے نہ کر وداع پھر
کہ’حرف زیر لب‘ سا میں
دبا دبا، رکا رکا
زباں کی بے صدائیوں کے گوش و ہوش کھو چکا
میں بار بار،بار بار،بار بار،رو چکا
مری زبان گنگ ہے
سماع پردہ گوش ہے
کہ چھند،گائیکی،بھجن
غزل،سلام،مرثیہ
درود،حمد و نعت
مجھ سے ثقل گوش کے لیے
صدا و صوت کی نفی
اصم برائے ہوش ہے!
مجھے نہ کر وداع
مجھے نہ کر وداع پھر
کہ’دست و پا کی نارسائی‘
عام آدمی کے ہاتھ کی لکیر بن چکی
یہ قرض اس کے واگزار کھاتے میں لکھا گیا
مقدوروں نے زائچے لکھے تہی دوات سے
کٹے پھٹے تھے،نحس تھے
جدا تھے،اپنی ذات سے!
مجھے نہ کر وداع
مجھے نہ کر وداع پھر
’شجر حجر‘ وہ جانور،وہ طائرانِ خستہ پر
جو میرے حلفیہ بیان کے لیے
کھڑے ہیں نیچے ’ہال‘میں
میں کیا’مکالمہ‘ کروں گا ان سے،میری ذات،بول
مجھ سے تو سماع و صوت چھن گئے
میں ’شہر ہست‘ کی گلی میں
’نیستی کی گرد‘کی قبا میں سر سے پاؤں تک
ڈھکا ہوا
مدام اپنا سر جھکائے
ملزموں سا صم بکم کھڑا ہوا
مجسمہ ہوں سنگ کا
سماع ہوں،نہ صوت ہوں
تواتر حیات میں ہوں منجمد
نہ زندگی،نہ موت ہوں!
مجھے نہ کر وداع
مجھے نہ کر وداع پھر
کہ یہ مکالمہ تو
تو عدلیہ کے بینچ بار پر ڈٹے ہوئے
حکومتوں کی انتظامیہ میں حکمتوں کے پختہ کار
آمروں کے حکمِ خویش کا مطیع ہے
ذرا سمجھ یہ ذاتِ من
کہ من و عن
مرا کمال صرف شعرو شاعری کے داؤ گھات
کرتبوں کے فن کی ساحری نہ تھی
مرا ہنر نہیں تھا
بیچنا دکانِ علم میں
پرائی عقل و فہم مہنگے نرخ پر!
مجھے تو نیچے’ہال ‘میں جو لوگ ہیں
انہی کے ساتھ
ہاتھ ہاتھ میں دیے
علم اٹھائے،بڑھتے رہنا چاہیے تھا
آمروں کے سنگ گوش
عدلیوں،حکومتوں کی اونچی بلڈگوں