محمد شاہد حفیظ
لیکچراراردو،گورنمنٹ گریجوایٹ کالج میلسی (ضلع وہاڑی)
محمدحفیظ خان کاناول’’وجود‘‘ سرائیکی وسیب کا نوحہ
Abstract:
Fiction writer, playwright, novelist, columnist, poet, translator, researcher, critic and broadcaster Muhammad Hafeez Khan expresses art in both Urdu and Saraiki languages and is one of the leading writers of the modern era. Hafeez Khan District Sessions Judge retired, he was also involved in the field of broadcasting, but his first priority remained knowledge and literature. And the way economic depression is presented in his novels is very rare. Existence is the sixth novel by Muhammad Hafeez Khan which came out in April 2023. Existence is the story of those people who have become non-existent and meaningless even while existing in the world, the birth of such human beings who have died before death.
Key Words: Saraiki Novel, Wasaib, Expoliation, Revenge, Good and Evil
کلید ی الفاظ: سرائیکی ناول،وسیب،استحصال،انتقام،خیروشر
ملتان کی ادبی فضا میں جہاں دیگر اصنافِ ادب میں قابل قدر تخلیقی کام ہوا ہے وہیں یہاں پر اردو ناول کی ایک مضبوط روایت موجود ہے۔اکرام اللہ کا ‘گرگِ شب’، صلاح الدین حیدر کا ‘خزاں کے قیدی’،اصغر ندیم سید کا ‘آدھے چاندکی رات’، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر’، ثمربانو ہاشمی کا ‘دل کی وہی تنہائی’،شگفتہ بھٹی کے دو ناول ‘فاصلے اور چاہتیں’اور ‘زادِ راہ’ وغیرہ۔ ان کے علاوہ یہاں پر دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ ہونے والے بہت سے قابل ذکر ناول ہیں۔ ابھی حال ہی میں سرائیکی شاعررفعت عباس کا سرائیکی ناول ‘لونْ دا جیونْ گھر’منظر عام پر آیا تو جلد ہی اس کاا ردو ترجمہ ‘نمک کا جیون گھر’ (مترجم: منور آکاش) بھی منظر عام پر آیا۔ خالد سعید نے اوریانہ فلاشی کے ناول کا ترجمہ ‘ایک مرد’ کے عنوان سے کیا ہے۔ ان کے علاوہ بہت دیگر ناول اردو روپ میں سامنے آچکے ہیں۔
محمد حفیظ خان کا شمار اردو اور سرائیکی کے اُن ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے متعدد اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی۔ وہ سرائیکی کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرائیکی ٹیلی ڈرامہ نگاری میں بھی اُن کا شمار بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ یہی کہانی میں اُن کی دلچسپی اُنھیں ناول کی دنیا میں لے آئی۔ اور انھوں نے اردو اور سرائیکی میں یکے بعد دیگر چھے ناول لکھ دیے۔ انھوں نے سیاسی و سماجی حالات اور ادبی منظر نامہ نمایاں کرنے کے لیے کالم نگاری بھی کی۔ اس کے ساتھ وہ شاعر کے طور پر بھی سامنے آئے۔ ان کے علاوہ انھوں نے مترجم ،محقق ،نقاد اوربراڈکاسٹرکے طور پر بھی اپنی شناخت واضح کی۔
حفیظ خان ڈسٹرکٹ سیشن جج ریٹائرہوئے،براڈکاسٹنگ کے شعبے سے بھی منسلک رہے مگران کی اولین ترجیح علم وادب ہی رہی۔سرائیکی وسیب کے باسی ہونے کی وجہ سے اپنے ناولوں میں جس عمدگی کے ساتھ سرائیکی وسیب کی تہذیب و ثقافت، محرومیاں،کسمپرسی اورمعاشی بدحالی کوجس طرح اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔“ادھ ادھورے لوگ ” کا احمد پورشرقیہ، “انواسی” کا لودھراں اور اب“وجود”میں جلال پور پیر والاکالوکیل اس کی واضح مثالیں ہیں ۔
الیاس کبیر لکھتے ہیں:
’’حفیظ خان کی نگارشات نے نہ صرف معاشرے کو اس کاحقیقی چہرہ دکھایاہے بلکہ معاشرتی وسماجی ناانصافیوں کوایوانِ عدل میں لاکھڑاکیا ہے۔تنقید کی پرپیچ پگڈنڈیاں ہوں یاتحقیق کی عمیق گھاٹیاں، افسانے کاحیران کن ابتدائیہ ہویاڈرامے کا دلوں کوجھنجھوڑتااختتام ،انھوں نے ہرمیدان میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا ہے۔‘‘(۱)
’’وجود‘‘محمدحفیظ خان کاچھٹاناول ہے جوان کے سرائیکی ناول “مرماجیون دی” کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ ناول ان کے دیگر ناولوں ادھ ادھورے لوگ،انواسی،کرک ناتھ،منتارا،حیدرگوٹھ کابخشن کے بعد اپریل ۲۰۲۳ء میں منظرِعام پرآیاہے۔نام کی طرح ناول کاانتساب بھی بہت گہرااورچونکادینے والاہے۔
زندگی تیری ماں مرے تونے سب کاجینادوبھرکیاہواہے
’’وجود‘‘ان لوگوں کی کہانی ہے جو دنیامیں وجودرکھتے ہوئے بھی بے وجوداوربے معنی ہوچکے ہوتے ہیں،ایسے آدم زادوں کی بپتا ہے جو موت سے پہلے ہی مرچکے ہوتے ہیں ۔ حفیظ خان کے ناول“ادھ ادھورے لوگ” اور“انواسی” کی طرح“وجود” میں بھی سرائیکی خطے کی تاریخ اور پرانے وقتوں کی گونج ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کوبھی کمال ہنرمندی کے ساتھ پیش کیاگیاہے۔حفیظ خان کے قلم کی روانی،واقعات کی پیش کش اورکردارسازی آپ کوحیران کر دیتی ہے اور مقامی زبانوں اورکلچرکوجس طرح ان کی کہانیوں میں سمویاگیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
’’وجود‘‘اپنے مقام میں روایتی ناولوں اورکہانیوں سے قطعی مختلف ہے ۔ اس کے ڈانڈے سرائیکی وسیب سے نکل کر قومی اوربین الاقوامی پس منظر سے جاملتے ہیں ۔ ناول اطالوی زبان کالفظ ہے جس کامطلب ہے نیانہیں بلکہ اس کے اصل معنی انوکھا ہیں۔ اس لحاظ سے وجودصحیح معنوں میں ایک ناول ہے۔حفیظ خان ملکی سیاسی ،سماجی اورتاریخی صورتِ حال پرگہری نظررکھنے والے انسان ہیں اس لیے ان کی ہرتخلیق میں مقامیت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی لینڈ اسکیپ بھی ملتاہے۔وہ جتنااپنی مادری زبان سے پیارکرتے ہیں اتناہی وہ پاکستان کی قومی زبان سے بھی محبت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے واحد لکھاری ہیں جن کی تخلیقات کاترجمہ مختلف زبانوں میں ہورہاہے۔
خورشید ربانی“حفیظ خان شخصیت اورفن” لکھتے ہیں :
’’انھوں نے ناول لکھے توایسے کہ سرائیکی خطہ کی محرومیوں کے اسباب اورنتائج کو خصوصی طورپرنشان زدکرتے ہوئے موجودہ سماج کی اشرافیہ کی سیاہ کاریوں کاپردہ چاک کردیااورناول کے اسلوب اوربیانیے کو سرائیکی الفاظ سے اس طرح ہم آمیزکیاکہ اجنبیت کااحساس تک نہیں ہونے دیا۔‘‘ (۲)
’’وجود‘‘ ناول یقینااپنے پلاٹ اورمتن کے حوالے سے نیااورانوکھاہے۔ناول کاموضوع،حالات اورواقعات روس،افغانستان جنگ میں پاکستان کاکردار جیسے حساس موضو ع کااحاطہ کرتے ہیں جب کہ کردار جتنے عام اورپرانے ہیں اتنے ہی اہم اوردلچسپ ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کی تاریخ دیکھی جائے تووہ زمانہ قدیم سے ان سے نبردآزماہے ،وہی نفس پرستی،ہوس زر،انسان دشمنی، حقارت،نفرت،انتقام،استحصال اور مذہب کے تنازعے ۔یہ سب بنی آدم کی تذلیل کے جدیدوقدیم حربے ہیں۔
الیاس کبیر لکھتے ہیں:
’’حفیظ خان آج کے عہدکاہی نہیں بلکہ آنے والے دورکابھی ایساتخلیق کارہے جس نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سسکتی انسانیت کو امیداور بیم ورجاکی روشنی دکھائی ہے۔ایسی روشنی جو سماج دشمن اورفکری غلاظت میں لتھڑے ہوئے بے نیل و مرام کرداروں کی قہرآلودآنکھوں کوچندھیا کرکے آگے بڑھتی ہے توایک نئے عزم اورایک نئے ولولے کے ساتھ الجھی ہوئی گتھیوں کوسلجھاتی ہے ۔‘‘(۳)
حفیظ خان نے“وجود”میں بیک وقت دوکہانیوں کوآپس میں جوڑاہے۔انھوں نے کہانی کو سیاہ اورسفید،سچ اورجھوٹ ،حقیقی اورفرضی خانوں کے تناظرمیں رکھ کر پیش کیا ہے۔اور اس کوایسے انسان کی تلخ حقیقت کے روپ میں پیش کیا ہے جو بیک وقت زندہ بھی ہے اورمردہ بھی۔اگرچہ سرائیکی خطے کی محرومیوں اورسماجی استحصال پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے اورلکھا جاتارہے گامگرتاریخ حفیظ خان کے“وجود”کی اس شعوری کوشش کوکبھی فراموش نہیں کرپائے گی۔یہ کہانی خیروشرمیں منقسم ہے جس میں قاری کو اخلاقیات اوراصلاح پسندی کاپرانااوربے مزہ لیکچرنہیں دیاگیا،کسی فلسفے کو صادرکرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ ایک ایسی سفاک حقیقت سے پردہ چاک کیاگیاہے جس سے اشرافیہ نظریں نہیں ملا سکتے۔یہ ناول وسیب کی مخصوص شناخت کاحوالہ بنتاہے اوراس کی بنت میں شکست و ریخت کاایک پیٹرن ابھرتانظرآتاہے۔
حفیظ خان نے حسبِ روایت ’’وجود‘‘کاآغازبھی چونکادینے والے واقعے سے کیا ہے:
’’۱۹۷۱ میں پیداہونے پراس کانام تومحمدمرادرکھا گیالیکن۱۹۸۸ءمیں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ شہید فضل اللہ کے نام سے پڑھی گئی اورقرآن پاک پڑھنے کا ثواب بھی اس کی روح کے ایصالِ ثواب کے لئے کیاگیا کیونکہ مدرسہ حمیدیہ کے ریکارڈ میں اس کانام بھی یہی تھااور شناخت بھی اسی حوالے سے تھی۔مسئلہ اب یہ بھی نہیں تھاکہ وہ افغانستان جنگ میں شہید ہو چکاہے،معاملہ بلکہ یہ تھاکہ وہ پچیس برس کے بعدزندہ سلامت اپنی بستی پاؤ لیاں تحصیل جلالپورپیروالاضلع ملتان میں واپس آگیاتھا مگراب یہاں نہ توکئی اسے محمدمرادکے نام سے پہچانتا تھا اورنہ ہی فضل اللہ کے نام سے۔‘‘(۴)
کہانی کامرکزی کرداردوناموں محمدمراد/فضل اللہ اوردوشخصیتوں مدرسیہ حمیدیہ کاغریب طالب علم/افغانستان جنگ کاشہیدمجاہدہے۔محمدمراد/فضل اللہ ایک پرتحیر اور پرتجسس کردارہے جوکہانی کے آغازسے انجام تک قاری کے حواس پراس طرح چھایارہتاہے کہ قاری کواس سے بے پناہ ہمدردی ہوجاتی ہے اور قاری کہانی کے اختتام کابے چینی سے منتظررہتاہے۔ناول کاپلاٹ بہت عمدہ ہے جس میں واقعات کا تانا بانا کچھ اس طرح سے بنایاگیاہے کہ ہرکڑی ایک دوسرے سے جڑتی جتی ہے ۔ناول میں کسی جگہ جھول نہیں ہے اورپلاٹ پرحفیظ خان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ قاری بے اختیاراس کی موجوں میں بہتا چلاجاتا ہے۔۱۹۷۱ء سے شروع ہونے والی یہ کہانی اپنے اندرکتنے موڑ مڑتے ہوئے کہاں سے کہاں جاپہنچتی ہے اس کااحاطہ صرف الفاظ سے نہیں کیاجاسکتابلکہ یہ ناول پڑھنے سے ہی ممکن ہے ۔مرادکامدرسے سے پشاورمنتقل ہوحربی تربیت حاصل کرنا،افغان جنگ میں بڑے بڑے محاذوں پرگوریلا جنگ لڑنا،بعدمیں طالبان، احمد شاہ مسعود اورحامدکرزئی وغیرہ کی قیدمیں کٹھن حالات گزارنا اورپھرجیلوں سے فرار ہوکرپاکستان پہنچنے کی ایسی سنسنی خیزداستان ہے جسے پڑھ کررونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اورقاری محمدحفیظ خان کے اسلوب اورتخیل کی داد دیے بنانہیں رہ پاتا۔
اس کہانی میں محمدمرادعرف فضل اللہ کے ساتھ جڑی کئی کہانیاں شامل ہیں جس نے کم صفحات کے باوجود اس ناول کاکینوس بے حدوسیع کر دیا ہے۔ یہ بیک وقت حقیقی ناول ہے اور فرضی بھی،سماجی اورثقافتی ناول ہے اور مذہبی بھی۔اس ناول کا پہلا اوربڑاکردار محمدمراد ہے جوجلال پورپیروالا کی بستی پاؤلیاں کے پاؤلی فقیرے کے گھر پیدا ہوا۔اس کی پیداہوناہی نحوست،نفرت،کراہت اورغربت کا نصیب تھا۔فقیرے پاؤلی کے دس بچوں میں مرادبھی شامل تھا جس کادنیامیں آنے کاکوئی مقصدنہ تھا۔محمدمرادجس کاوجود بچپن میں گھر پربوجھ تھا پھر ریاست کی آمدنی بنااورجب کسی کام کانہ رہا تو بے وجودہوگیا۔مرادکوپہلے مدرسے پھرجنگ کی سختیوں نے سخت جاں بنادیاتھا،جب جنگ سے بچاتوبے وجودہوگیا۔وہ اپنے وجودکاثبوت ڈھونڈنے کو در دربھٹکتارہا۔
اس کہانی کادوسرا موڑ بستی میں مولوی عبدالحنان کامدرسہ حمیدیہ کا قیام ہے جس میں فقیرے نے مرادسمیت اپنے پانچ بیٹے داخل کراکے چندسوروپے ماہانہ وظیفہ وصول کرکے گزران کرنے لگا۔انتہائی شریف،کم گو،سیدھے سادے اورنابالغ محمدمرادپراس مدرسے میں تعلیم کے نام پر جنسی زیادتی سمیت وہ تمام ظلم ہوئے جو ہماری مذہبی اور مدارسی تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہیں ۔مہتمم مدرسہ مولوی عبدالحنان کاغیرملکی طاقتوں کے ہاتھوں آلہ کاربننا، مدرسے کے طلبہ کوجہاد کی غرض سے تربیت کرکے افغانستان بھیجنا،روس افغان جنگ کے دوران لاکھوں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد،مہاجرکیمپوں کی زبوں حالی ،جرائم پیشہ کارروائیاں اوراخلاقی گراوٹ جس میں حسین اورجوان لڑکیوں کی اونے پونے داموں فروخت جیسے حیران کن اورانکشافاتی واقعات اس ناول کادلچسپ مگر مکروہ سامان ہیں۔اس سارے “کارنامے ”میں نائب مہتمم خالدتوفیقی اس کادایاں بازو ہوتا ہے جس پروہ خود سےبھی زیادہ بھروسہ کرتاہے ۔مہتمم عبدالحنان کی بجائے نائب مہتمم خالدتوفیقی انتہائی چالاک،منصوبہ سازاورمفاد اورموقع پرست آدمی ہے جو مولوی عبدالحنان کے اندھے اعتماد کاجی بھرکے فائدہ اٹھاتاہے اوربرے وقت میں مولوی عبدالحنان کی دونوں نوجوان افغان بیویوں سمیت فرارہوکرشمالی وزیرستان میں روپوش ہو جاتاہے۔بلاشبہ حفیظ خان کی وسعت نظری،کثیرالمطالعاتی طبیعت اورمختلف بڑے عہدوں پرفائز رہنے والی شخصیت ہے جو ایسے تحیرانگیز واقعات کو آشکارکرتی ہے اوران کی حکایتوں کوسامنے لاتی ہے کہ قاری انگشت بدنداں رہ جاتاہے۔
ناول کاتیسراحوالہ روس افغان جنگ میں پاکستان کاآلہ کاربننے والے مدارس،تنظیمیں اوروہ غیرملکی فنڈ دینے والے ممالک ہیں جن کی مددسے پاکستانی نوجوانوں کو بنا سوچے سمجھے غیروں کی جنگ میں دھکیل کر ہزاروں بلکہ لاکھوں پاکستانی مجاہدین کواس جنگ کاایندھن بنادیاگیا۔ان واقعات سے عبداللہ حسین کے “اداس نسلیں”کاہیرو نعیم یاد آتاہے جوانگریزوں کی جنگ میں شریک ہوکراپنے جسمانی اعضاسے محروم ہوکروطن واپس لوٹتاہے تو اسے بہت سی دقتیں اورذلتیں اٹھانی پڑتی ہیں۔
ناول کاچوتھاحوالہ وہ سکیورٹی ادارے اورمیڈیاہے جوعوام کی جان ومال کے محافظ ہیں مگرمحمدمراد/فضل اللہ کو پہچاننے اوراسے انصاف دلانے کی بجائے اپنے چینلز اور اخبارات کی ریٹنگ میں مصروف رہتے ہیں ۔یہ ہمارے معاشرے کاوہ خناس ہے جو پیسے کی خاطر حقائق سے پردہ پوشی کرتے ہوئے مظلوم قوم کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرتاہے۔اس حصے میں انسانی حقوق کے نام پر فنڈاورگرانٹوں سے پیٹ بھرنے والی نام نہادتنظیمیں ،ابن الوقت سیاست دان،جاگیردار اور وڈیرے جوسرائیکی وسیب پر بدنما دھبہ ہیں ۔جن کے استحصال اور حرام کاریوں کی وجہ سے یہ زمین انھیں انسان ماننے سے مسلسل گریزاں ہے۔یہ چھوٹے اور کمزورں لوگوں کواپنی رعایاسمجھتے ہیں،ان کے نام پر ووٹ حاصل کرکے اسمبلیوں میں جاگزین ہوتے ہیں اورملک میں کوئی ایساقانون نہیں بنانے دیتے جوعوام کی زندگیوں میں انقلاب لاسکے۔
اس ناو ل کاچھٹاحوالہ بستی پاؤلیاں کے وہ سرائیکی کردارہیں جن میں فقیراپاؤلی مراد کالالچی باپ ،مرادکی بدنصیب ماں شوہرکی توجہ ملی نہ اولاد کاسکھ ۔دس بچوں میں اکیلا مراد اس کی خاطرداری کرتاتھااس لئے وہ مراد کو ہی اپنی حقیقی اولاد سمجھتی تھی۔ اس کارن دیگر بھائی حسداوررقابت میں مراد کی جان کے درپے رہے ۔ ان کے علاوہ مراد کی منگیتر”کندو” جوغربت اوربھوک والی زندگی کے باجود پرکشش اوربستی کی حسین دوشیزہ تھی ۔پچیس سال تک مراد کی منتظررہنے والی کندونے انتظارکی سولی پرلٹکے اپنی جوانی برباد کر لی ۔کندو اپنی سادگی اورحسین نقوش کی وجہ سے مرادکومتوجہ نہیں کرپاتی مگرمولوی عبدالحنان کابیٹابلال الرحمن جسے عورت ذات سے نفرت تھی کندوکے سحرمیں گرفتارہوجاتاہے۔
اس ناول کاساتواں حوالہ مولوی عبدالحنان کانوجوان بیٹابلال الرحمن ہے جو اپنے باپ کے برعکس مذہبی روایات واقدار کاامین ہے اورمدرسہ حمیدیہ کانام تبدیل کر کے مدرسہ رحمانیہ سے پہچان بناچکاہے۔اپنی سگی اورسوتیلی ماؤں کے ساتھ باپ کے نارواسلوک کے باعث عورت ذات سے بلکہ بیوی کے وجود نفرت کرکے شادی نہ کرنے کا عہد کرتاہے ۔ناول سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’بات یہ نہ تھی کہ بلال کو عورت کے وجود سے نفرت تھی ،اسے صرف عورت کے بیوی بننے کے بعد کے روپ رویے سے نفرت تھی۔عورتیں اسے ماں،بہن اوربیٹی کے روپ میں بہت بھلی لگتی تھیں لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصرتھاکہ آخراسے بیوی بننے کے بعد ہو کیا جاتا ہے ۔‘‘ (۵)
مولوی بلال ناول کے دوسرے حصے میں واردہوتاہے مگربہت جلد کہانی میں یہ کرداراہمیت اختیارکرجاتاہے۔مرادکومیڈیاسے بچانا، مدرسے میں پناہ دینا اوراس کی منگیترکندو سے ملاقات کروانے کے واقعات قاری کواپنے سحرمیں مبتلارکھتے ہیں ۔اس کہانی میں وہ مراد کے ذریعے اپنے دشمن نائب مہتمم خالدتوفیقی کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔
کردارنویسی میں حفیظ خان نے کمال مہارت کامظاہرہ کیاہے۔’’وجود‘‘کے مرکزی کردارکومحمدمراداورفضل اللہ شہید جیسے دو وجودعطاکیے مگریہ معاشرہ اس کے دونوں وجودکواپنانے اورقبول کرنے سے انکارکردیتاہے جس کی وجہ سے وہ اپنے وجودسے نفرت ،بیزاری اورلاتعلقی کا اظہار کرنے لگتاہے۔۱۹۷۱ء میں مراد کاپیدا ہونا، ۱۹۷۸-۷۹ءمیں مرادکافضل اللہ بن کر روس افغان جنگ میں جہاد کرنا،۱۹۸۸ء میں اس کی شہادت کی خبر سے غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے سے لے کر ۲۰۰۲ء میں افغانستان سے فرار ہوکرپاکستان لوٹا تو یہاں اپنے پرائے ہوگئے کسی نے اس کے زندہ ہونے کایقین نہ کیا یوں اسے اپنوں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر بھی ذلتیں اٹھانی پڑیں ۔
ناول کااقتباس غورطلب ہے:
’’جلال پورسے لاہورکے سفرکے دوران مراد یہ سوچتارہاکہ کیاکسی اپنے جیسے انسان کی قیدمیں پڑا ہوا انسان، انسان نہیں رہتا؟کیااسے دردیاتکلیف کااحساس ختم ہوجاتاہے،کیا اسے حاجت محسوس نہیں ہوتی،کیااسے بھوک پیاس نہیں لگتی!آخر وقتی طورپرطاقت ورکے ذہن میں ایسا کون ساکیڑا گھس بیٹھتاہے کہ اسے اپنے علاوہ باقی سب انسان کیڑے مکوڑے لگنے لگتے ہیں۔‘‘ (۶)
مرکزی کردارکے لئے مراداور فضل اللہ والی دومختلف زندگیاں جیناایک مستقل عذاب بن چکاتھاجس سے وہ کسی صورت سے چھٹکارا نہیں پارہاتھا۔یہ ایساپیچیدہ پلاٹ تھاجسے حفیظ جیسااہل قلم ہی سنبھال سکتاتھا۔ ناول کے صفحات سے ہی اندازہ ہوتاہے کہ اس میں کوئی مہمل وبے معنی کردار وواقعات نہیں ہیں ۔کسی قسم کا فلسفہ ، تفصیلات یاطویل مکالمے نہیں ہیں جن سے قاری کوبوریت اوربیزاری ہو ۔حفیظ خا ن نے تمام کرداروں اپنی اپنی جگہ فٹ کرکے ان کے ساتھ مکمل انصاف کیاہے۔کسی کردارکے ساتھ ذاتی رنجش یاپسند ناپسند کی بنا پر زیادتی کاشائبہ نہیں ہوتا۔حفیظ خان نے یقینا محمدمرادعرف فضل اللہ کواختتام تک لے جانے کے لیے خاصی مہارت دکھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ناول میں یہ کردار جتناالجھتاہے اتنا اچھا لگتا ہے ۔یہ کردار ہر وقت کسی نہ کسی خوفناک،خطرناک اورمشکل ترین صورت حال سے دوچارہوتاہے جس سے قاری کو انتہائی ہمدردی ہوتی ہے اور اس تجسس سے مبتلا ہوتاہے کہ آخر کیسے اسے نجات حاصل ہوگی اسی تجسس میں وہ ایک سحرمیں مبتلا ہو کراختتام کی جانب بڑھتا چلا جاتاہے۔
یہ ناول ان لوگوں کانوحہ ہے جوساری عمر مذہبی بن کرجینے کی کوشش کے باوجومذہبی نہیں بن سکتے۔یہ ناول سرائیکی وسیب کی محرومیوں کا نوحہ ہے ،یہ ناول غربت کی چکی میں پستے خاندان کانوحہ ہے جسے غربت گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے، پورے خاندان کانام ونشان صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔یہ ناول ان پاکستانی مدارس کے طلبہ کانوحہ ہے جنھیں پرائی جنگ میں پھونک دیاگیا۔یہ ناول مذہب،میڈیا،مدارس اورملک و ملت کاایک ایسا نوحہ ہےجو ہمیشہ ہماری تاریخ کے ماتھے پرسوالیہ نشان رہے گا۔
حوالہ جات۱۔ الیاس کبیر، ‘حفیظ خان ایک خلاق افسانہ نگار’، مشمولہ ‘حفیظ خان کی تخلیقی جہتیں’ مرتبہ: عصمت اللہ شاہ (ملتان: ملتان انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اینڈریسرچ ملتان،۲۰۱۰ء)، ص۶۴۲۔ خورشید ربانی،حفیظ خان شخصیت اورفن،اسلام آباد،اکادمی ادبیات،۲۰۲۱ء،ص۹
۳۔ الیاس کبیر، محولہ بالا،
۴۔ محمدحفیظ خان،وجود،جہلم،بک کارنر،اپریل۲۰۲۳ء،ص۹
۵۔ایضاً،ص۱۰۴
۶۔ ایضاً،ص۸۹