ڈاکٹر زہرا جبین
گیسٹ فکلٹی ،شعبئہ اردو، رائچور یونیورسٹی، رائچور
محمود ایاز اور روزنامہ سالار
محمود ایاز نے اپنی ساری زندگی خوب سے خوب تر کی تلاش میں گذار دی۔ ان کی اسی خصوصیت نے سالار کو سرخروئی کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ سالار اپنے آپ میں ایک مکمل مشن تھا جو قاری کی صحیح رہنمائی کرتا تھا۔ جو قومی اور بین الاقوامی خبروں سے قاری کو با خبر رکھتا تھا۔ سالار محمود ایاز کی سماجی خدمت بھی تھا اس نے ریاست میں نہ صرف تعلیمی بیداری کو عام کیا بلکہ اس کے مذہبی، علمی اور ادبی صفحات نے ادبی اور علمی مباحثوں کے تقاضوں کو بھی پورا کیا۔
صحافت میں محمود ایاز کا داخلہ محض ایک اتفاق تھا۔ جسے حسن اتفاق کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ انہیں صحافت سے دلچسپی نہیں تھی۔ حالات حاضرہ سے اپنے آپ کو با خبر رکھنے کے لئے وہ اخبار پڑھا کرتے تھے۔ سوغات کو مزید فروغ دینے کے لئے کراچی گئے۔ چھ ماہ کے قیام کے دوران انہوں نے سوغات کا جدید نظم نمبر اور اس کے بعد سوغات کے دوچار شمارے نکالے۔ کراچی کے ادبی حلقوں میں سوغات کو کافی پذیرائی ملی۔ اور انہیں مالی فائدہ بھی پہنچا۔ ویزا ختم ہونے کے بعد وہ بنگلور لوٹ آئے۔ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اب ہندوستان میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کہیں اگر ہے تو صرف کراچی میں جہاں وہ ہجرت کرکے ’’سوغات‘‘ کی اشاعت کے ذریعہ مالی منفعت بھی حاصل کرسکتے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے قریبی دوست جی عبدالحمید خان اور محمود سعید کو اپنے کراچی ہجرت کرنے کے ارادہ سے آگاہ کیا۔ حلقۂ محمود ایاز میں مایوسی پھیل گئی۔ سب انہیں روکنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ اور ایک تجویز پیش کی گئی کہ وہ ایک اردو روزنامہ بالکل نئے خطوط پر نکالینگے۔ انہیں یہ تجویز پسند آئی مگر بات اس کے لئے درکار مالیہ کی فراہمی پر آکر رکی۔
سب سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ سالار کا اجراء کرنے کے لئے درکار سرمایہ کا حساب بالکل تجارتی خطوط پر لگایا تو پندہ ہزار روپیوں کا تخمینہ بنا۔ جس میں سالار کو ایک مقررہ مدت تک کے لئے خود کفیل بنانے کے لئے درکار رقم شامل تھی۔ اشاعت کے لئے پندرہ ہزار روپئے کا سرمایہ اکٹھا کرنے کا سوال آیا تو ایاز صاحب کے دوستوں نے اپنی طرف سے سرمایہ لگانے کی پیش کش کرکے ان کی یہ مشکل بھی آسان کردی۔ عبدالمجید خان آئی۔ ایم حبیب احمد، حمید خان کے نسبتی برادر اقبال احمد شریف اور محمود سعید نے فی کس تین ہزار روپیوں کا سرمایہ فراہم کیا اور محمود ایاز نے باقی کے تین ہزار روپئے اکٹھا کرلئے۔ انہوں نے خالص تجارتی بنیاد پر ایک چھوٹے پیمانے کی صنعت کی طرح سالار کی اشاعت کا منصوبہ بنایا۔
محمود ایاز نے 1963ء میں انگریزی اخباروں کی طرح علی الصبح اردو قارئین کو اخبار فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ’’رفتار‘‘ کے نام سے اخبار کا ڈکلریشن نہ ملنے پر نام ’’سالار‘‘ طے ہوا۔ ان دنوں صبح گیارہ بجے اخبار شائع ہوتے تھے۔ اخبار کا سائز بھی کافی چھوٹا ہوتا تھا۔ اخبار کے اندرونی حصے پہلے ہی چھاپ کر رکھ لئے جاتے۔ اور صبح بازار سے انگریزی اخبار دکن ہیرالڈ حاصل کرلیا جاتا۔ یکم فروری 1963ء سے روزنامہ ’’سالار‘‘ منظر عام پر آگیا۔
محمود ایاز نے طے کیا کہ ’’سالار‘‘ اس وقت کے اردو روزناموں کی طرح 11_2ڈیمی سائم کے چار صفحات پر نہیں بلکہ کرائون سائز کے چار صفحات پر نکلے گا اور خبر رساں ایجنسی PTI کا خریدار بن کر تازہ خبریں حاصل کرکے انگریزی روزناموں کی طرح صبح سویرے نکلے گا۔اس طرح انھوں نے تمام نکات کو سمیٹ کر سالار کے پوسٹر اور ہینڈ بلس چھپوالئے۔ جن میں یہ نعرے اردو ووالوں کی توجہہ کا مرکز بن گئے۔
l ’’سالار‘‘ صبح کی پہلی کرن سے پہلے آپ کے ہاتھ میں ہوگا‘‘
l ’’سالار‘‘ انگریزی اخبارات کے ترجموں سے نہیں بلکہ P.T.Iسے براہِ راست عالمی اور قومی خبریں لیکر شائع کریگا۔
سالار کی اشاعت کی تاریخ یکم فروری 1964ء کو طے ہوئی۔ ضیا میر صاحب کو کچھ ہینڈ بلس، پوسٹرس دے کر ریاست کے اہم اردو مراکز کو روانہ کیا۔ اور کہا کہ دوستوں کا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اخباری ایجنٹوں کو سمجھائو کہ سالار کن منصوبوں پر نکلنے والا ہے۔ کسی کو بھی ڈپازٹ لئے بغیر ایجنٹ مقرر نہ کرو۔ جو بھی اس شرط پر اخبار کی ایجنسی لینے کو تیار ہوجائے اسے یہ بھی سمجھادو کہ ہر ماہ کی دس تاریخ کے اندر بل کی رقم دفتر پہنچ جانی چاہئے ورنہ گیارہ تاریخ سے اخبار کی فراہمی روک دی جائے گی۔
1963ء میں کیولی روڈ بنگلور میں جماعت خانہ کی بلڈنگ میں ایک چھوٹی سی جگہ کا بندوبست ہوا۔ یہیں سالار کا پریس قائم ہوا۔جب روزنامہ سالار کا اجراء عمل میں آیا تو انھیں کافی مشکلات پیش آئیں اور مالی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے سالار مسلسل شائع نہیں ہوتا۔ایک دن اخبار نکلتا تو دوسری دن اخبار نکالنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ وہ خود خبروں کے لئے بھاگتے پھرتے، رات بھر جاگ جاگ کر خود ترجمے کرتے اور محنت سے سچے واقعات کو اخبار میں جگہ دیتے۔
بہت جلد سالار مسلمانوں کے لئے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی سبیل بن گیا۔ جو کرناٹک میں پہلی
بار معتبر خبررساں ایجنسیوں سے خبریں حاصل کرکے شائع ہونے لگا اور صبح کی اولین ساعتوں میں قارئین کے ہاتھوں تک پہنچایا جاتا۔ سالار میں جمعہ کو مذہبی صفحہ، ہفتہ کو سائنس اور ٹیکنالوجی، اتوار کو سنڈے ایڈیشن، پیر کو ادبی ایڈیشن، منگل کو کہکشاں، چہارشنبہ کو بزم خواتین اور جمعرات کو تجارت و صنعت غرض سالار کے ذریعے ہر ذوق کے قاری کی دلچسپی کا سامان فراہم کیا جاتا تھا۔
سالار نے ادبی ایڈیشن کے ذریعہ نئے لکھنے والوں اور ادبی دلچسپی رکھنے والے قارئین کو ایک بہترین پلاٹ فارم فراہم کیا۔ اکثر لکھنے والوں نے سالار کے ادبی ایڈیشن کے ذریعہ اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ابتداء میں ضیا میر صاحب سالار کا پہلا صفحہ دیکھتے تھے۔ راز امتیاز صاحب اندرونی صفحہ کو سنوارتے تھے۔ بہت جلد محمود ایاز ، ضیا میر صاحب اور راز امتیاز سالار کے تری مورتی بن گئے۔ ان کے علاوہ محمود ایاز کو دوسرے احباب کا بھی تعاون حاصل رہا۔
روزنامہ سالار کی اولین شاعت شنبہ یکم فروری 1964ء مطابق ۱۶؍رمضان المبارک ۱۳۸۳ھ کو عمل میں آئی۔اس اشاعت میں انھوں نے پہلا اداریہ ـ ـ’’ زاد سفر‘‘ کے عنوان سے قلم بند کیا۔اس اداریے میں انہوں نے اخبار کی اہمیت کو قاری کے سامنے روشناس کیا ہے۔اداریہ ملاحظہ ہو:
’’سالار‘‘ کی پہلی اشاعت آپ کے سامنے ہے۔ ریاست کی اردو صحافت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک اردو روزنامہ چھے صفحات پر، صبح کے پانچ بجے، خبر رساں اداروں کی تازہ اور تفصیلی خبروں کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ ہمارے ہاں پڑھنے والوں کا معیار اور مذاق اس قابل نہیں ہے کہ اس قسم کا کوئی اخبار یہاں سے نکالا جاسکے۔ لیکن ’’سالار‘‘ کا اجراء صرف یقین کی بنیاد پر ہوا ہے کہ پڑھنے والے کم نظر یا بیوقوف ہرگز نہیں ہیں۔ ’’سالار‘‘ کی کامیابی یا ناکامی سے اس کا فیصلہ ہوگا کہ اپنے پڑھنے والوں اور اپنے عوام پر ہمارا بھروسہ صحیح تھا یا غلط۔ اپنی حد تک ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ عوام کو ’’کالانعام‘‘ (مویشی) کہنے کے دن گذرگئے اور آج عوام ایک زندہ اور بیدار شعور کے مالک ہیں۔ آج انسانی تقدیر کا فیصلہ انہیں عوام کے ہاتھ میں ہے۔ ان سے رشتہ توڑ کر یا انہیں دھتکار کر کوئی شخصیت کوئی نظام اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اقبال نے ’’سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ‘‘ میں جس نئے دور کی بشارت دی تھی وہ دور آج آچکا ہے۔
ہر اخبار کی اپنی ایک پالیسی، اپنا ایک نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ اس کا پورا ندازہ ایک یا دو اشاعتوں میں نہیں ہوتا۔اس کے لئے تھوڑی مدت درکار ہوتی ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں، نئے نئے واقعات کے سامنے ایک اخبار کا رویہ کیا رہتا ہے، اور کیا یہ رویہ پائدار ہے یا مرغ باد نما کی طرح رخ بدلتا رہتا ہے، اس کا فیصلہ مختلف حالات اور واقعات میں اظہار کا مسلک دیکھنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں سالار کے سلسلے میں اپنے پڑھنے والوں سے کوئی بلند بانگ دعوے نہیں کرنے ہیں۔ ایک اخبار کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کو جلد از جلد، زیادہ سے زیادہ اور نئی سے نئی اور معتبر خبریں فراہم کرے۔ خبروں کی اہمیت ان کے نئے پن اور تازگی میں ہوتی ہے۔ چند گھنٹوں کا فرق اہم سے اہم خبر کو باسی اور پرانی بنا دیتا ہے۔ باہر کے ملکوں میں روزانہ چار چار اخبار شائع ہوتے ہیں۔ صبح کا اخبار، دوپہر کا اخبار، شام کا اخبار، رات کا اخبار۔ وہاں لوگوں میں خبروں سے دلچسپی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ آج صبح کا اخبار پڑھنے کے بعد دوسرے دن صبح تک انتظار نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں یہ بات تو ممکن نہیں لیکن اتنا تو ممکن بھی ہے اور ضروری بھی کہ کم از کم ہر صبح پڑھنے والوں کو تازہ ترین خبریں دی جائیں، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اخبار کو خبریں خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ کہیں بھی کوئی واقعہ ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر مل جائیں۔ اور مقامی خبروں کے لئے اخبار کے اپنے رپورٹر ہوں جو ہر جگہ، ہر موقع پر فوراً پہنچ جائیں اور چشم دید حالات کی رپورٹ اخبارات کو پہنچاتے رہیں۔ ’’سالار‘‘ کے لیے ہم نے یہ سب انتظام کیا ہے اور جہاں تک نئی اور تازہ خبروں کے جلد از جلد ملنے کا تعلق ہے ہمیں یقین ہے کہ ’’سالار‘‘ کے پڑھنے والوں کو ناامیدی نہیں ہوگی اس
اعتبار سے ’’سالار‘‘ انگریزی اور دوسری زبانوں کے جدید ترین اخباروں کی صف میں آجاتا ہے۔
خبریں فراہم کرنے کے علاوہ اخبار کا ایک دوسرا اہم فریضہ یہ ہے کہ اخبار عوام کے سب سے بڑے اور سب سے موثر ہتھیار کی حیثیت رکھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخبار کے اداریہ میں، شذرات میں، خصوصی مضامین میں عوام کے مفادات کو ان کی مشکلات اور ان کے مسائل کو ان کی تعلیمی، سیاسی، سماجی اور مذہبی ضروریات کو ملحوظ رکھا جائے اور عوام کی آواز کو طاقتور اور موثر بنایا جائے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ جیسے اخباروں کی خدمات آج بھی زندہ جاوید ہیں۔ اس سلسلہ میں مصلحتوں کا خیال کرنا، منافقت برتنا، برسر اقتدار لوگوں کی خوشامد کے پہلو ڈھونڈنا، ذاتی فائدے کے لئے عوام کے اعتماد کا غلط استعمال کرنا، ایسی بے ایمانیاں ہیں جن کا مرتکب ایک با ضمیر اخبار کبھی نہیں ہوسکتا۔ ’’سالار‘‘ عوام کے ہر با انصاف مطالبے اور تقاضے کا ساتھ دے گا۔ خواہ اس کے لئے کسی کے بھی خلاف آواز کیوں نہ بلند کرنی پڑے۔
اخبارات ’’چوتھی ریاست‘‘ کہلائے جاتے ہیں۔ اگر اخبار نویس اپنے ضمیر اور ایمان کا سودا نہ کرے، سستی شہرت، نمائش اور اقتدار کی بھیک کے پیچھے نہ پڑے اور اخبار نویسی کے معزز اور مقدس اصولوں کو سامنے رکھ کر اخبار نکالے تو اس کی آواز، اس کے اخبار کی آواز ایک پوری قوم اور پورے عوام کی آواز بن جاتی ہے اور اس کو دربار کی کوئی طاقت کچل نہیں سکتی۔
ہمارے سامنے بس یہی چند بنیادی اصول ہیں اور یہی ’’سالار‘‘ کا زاد سفر ہے۔
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ‘‘ (1)
حسب اعلان 1964یکم فروری کو سالار کا پہلا شمارہ نکلا ۔ یہ اخبارمحمود ایاز کے دعوے کے مطابق صبح کی پہلی کرن سے پہلے قارئین کے ہاتھوں میں تھا۔ جوP.T.I کی خبروں سے مزین کرائون سائز کے چار صفحات پر مشتمل تھا۔ اور ان دنوں بنگلور سے شائع ہونے والے دوسرے اخباروں کو بھی مجبوراً روزنامہ سالار کے نقش قدم پر چلنا پڑا۔ اور وہ بھی PTIسے خبریں حاصل کرکے صبح کی پہلی کرن کے ساتھ شائع کرنے لگے۔خلیل مامون ’سالار‘ کے گولڈن جوبلی ایڈیشن کے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
’’سالار کو یہ امتیازات حاصل ہیں کہ اس میں پہلی مرتبہ قومی خبررساں ایجنسیوں سے راست حاصل ہوئی خبریں شائع ہونے لگیں۔ اردو اخبارات کی دنیا میں یہ ایک انقلاب انگیز تبدیلی تھی۔ مقبولیت کا ایک اور اہم سبب علی الصبح اخبار کا قارئین کے ہاتھوں میں پہنچنا تھا۔ اس زمانے میں کہ جب ابھی اردو میں ڈی ٹی پی کا رواج نہیں نہ ہی اخبار آفسیٹ پریس پر چھپتا تھا۔ ’’سالار‘‘ صبح 5 بجے تک چھپ کر ایجنسیوں کو روانہ کردیا جاتا تھا۔ یعنی ’’سالار‘‘ نے کرناٹک میں پہلی مرتبہ معزز خبررساں ایجنسیوں سے خبریں حاصل کرنے اور انہیں شائع کرنے میں نہیں بلکہ اخبار کو بروقت شائع کرکے قارئین کے ہاتھوں تک پہنچانے میں زبردست کامیابی حاصل کی‘‘۔ (2)
ایاز صاحب انگریزی اخبارات کے معیار پر ایک اردو اخبار نکالنا چاہتے تھے اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کی خاص پہچان بنانا چاہتے تھے۔ اس طرح انہوں نے سالار کو صحافتی تاریخ کا ایک خاص حصہ بنادیا۔ سالار کا اجراء ہوا تو حکومت نے اس پر کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ اس وقت حکومت کو سالار کی طاقت اور اہمیت کا اندازہ نہیں تھا مگر جب ’’سالار‘‘ کی بے باکی نے لوگوں کے چہروں سے نقاب اتارنا شروع کردیا تب حکومت نے اس کی سخت مخالفت کی۔’’سالار‘‘ کے ذریعہ صحافتی میدان میں ایک انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ محمود ایاز نے ’ اس اخبار‘ کے ذریعہ مسلمانوں کے مسائل کو حکومت کے سامنے پیش کیا۔ اور مسلمانوں میں خود اعتمادی کے جذبہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی جب کہ اس وقت کے دوسرے اخبارات اس طرف اشارہ کرنے سے بھی گھبراتے تھے۔ اب سرکاری سطحوں پر یہ محسوس کیا جانے لگا کہ سالار مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بن چکا ہے۔اور یہ ان کی آرزئووں اور جذبات کا ترجمان بنتا جا رہا ہے۔ اخبار بے باکی سے مسلمانوں کے آئینی حقوق کی نمائندگی کرنے لگا۔ حکومتی ایوانوں میں اس کی گونج سنائی دینے لگی۔ اور سرکار کی نظر میں اخبار مشکوک بن گیا۔ سالار کے تعلق سے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ یہ پاکستان کا ایجنٹ ہے۔ اس طرح محمود ایاز اور سالار Black Lisltمیں آگئے۔ لہٰذا جب 1965میں ہند پاک کی جنگ شروع ہوئی تو حکومت نے ایمرجنسی کے دور میں DIRکے تحت سب سے پہلے محمود ایاز کو گرفتار کرلیا۔ جیل جاتے وقت محمود ایاز اخبار کا کچھ ایسا انتظام کر گئے تھے کہ واپس آنے تک اخبار بلا ناغہ نکلتا رہا۔سالار کے گولڈن جوبلی ایڈیشن عزیز اللہ بیگ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :
’’راز صاحب اور سالار کے متعلق لوگ ایک اور غلط فہمی کا شکار ہیں اور وہ یہ کہ ایاز صاحب نے شائد اپنا شوق پورا کرنے کے لئے ریاست کی اردو صحافت میں انقلاب برپا کرنے کے لئے سالار نکالا تھا۔ میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حقیقت اس کے برعکس تھی اور ایاز صاحب نے سالار کو ہمیشہ ایک تجارتی کوشش گردانا۔ تجارت کے بنیادی اصولوں کے مطابق اسے چلایا اور اردو اخبارات کی اشاعت کو ایک کامیاب تجارت ثابت کرکے دکھایا۔ ‘‘ (3)
محمود ایاز اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں۔ سالار کو میں نے ایک Business (دھندے) کے طور پر شروع کیا تھا، غلطی سے سمجھا کہ صحافت بہت آسان چیز ہے۔ چونکہ میری طبیعت ہے کسی چیز کو شروع کرتا ہوں تو Heart and soul لگاتا ہوں۔ سالار شروع ہوا تو حکومت اور کانگریس اس کے خلاف ہوگئے۔ اس طرح Oppositionکا اخبار بن گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں سالار حکومت کی نظر میں کھٹکنے لگا۔ اس پر کوئی سولہ، سترہ مقدمہ دائر کئے گئے پریس کونسل سے میرے پاس نوٹس آیا تو خود رات رات بھر بیٹھ کر اس کا جواب لکھتا رہتا ہمارے مکالمے پریس کونسل نے مسترد کئے ایک مقدمہ پریس کونسل کو Referکئے بغیر ہی محمود ایاز پر دائر کیا گیا۔ وہ اس مقدمہ سے بھی بری ہوگئے بہر حال حکومت کا مقصد تھا کسی طرح انہیں تنگ کرنا۔دراصل آزادی کے بعد کانگریس حکومت نے جتنے وعدے اردو والوں اور مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ کے سلسلے میں کئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے تھے۔ اس پر محمود ایاز نے سالار کے ذریعہ آواز اٹھائی تھی۔ اس وقت چند معتبر مسلمان سماج میں مسلمانوں کی ابتر حالت کے باوجود حکومت کی چاپلوسی کرتے ہوئے ’’سب کچھ ٹھیک ہے‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس طرح مفاد پرست مسلمانوں کو محمود ایاز نے ’سرکاری مسلمانوں‘‘ کا خطاب دیا اور ’سالار‘ کے ذریعہ آواز اٹھائی۔
محمود ایاز اپنے اخبار کے خود قاری نمبرون تھے وہ صبح کو اپنے عملہ کے آنے سے پہلے دفتر پہنچ جاتے اور تازہ سالار لیکر ڈیٹ لائن سے پرنٹ لائن تک سارا اخبار پڑھ ڈالتے۔ جہاں کوئی غلطی نظر آتی چاہے وہ کتابت کی ہو یا صرف و نحو کی سرخ روشنائی سے اس پر دائرہ لگاتے۔ اور حاشیہ میں لکھ دیتے کہ جن سے یہ غلطی ہوئی وہ اس کا جواب لکھ رکھیں۔ یہ ان کا روز مرہ کا معمول تھا۔عزیز اللہ بیگ اپنے مضمون ’’محمود ایاز چند یادیں‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’مجھے یاد ہے کہ سالار کے دور ملازمت میں کمزور زبان و بیان کے بارے میں ایاز صاحب نائب مدیران حضرات کی وہ خبر لیتے تھے کہ انہیں چھٹی کا دودھ یاد آجاتا۔ جب بہت زیادہ کوفت ہوتی توکہتے حجام بھی اپنا استرا قینچی ایسی حالت میں رکھتا ہے کہ وہ اپنا کام بخوبی انجام دے سکے۔ لکھنے والے کے لئے زبان و بیان کی بھی وہی حیثیت ہے‘‘(4)
دیوراج ارس کے دور حکومت میں روزنامہ سالار کو مالی استحکام ملا۔ محمود ایاز نہ صرف اپنی فکر معاش سے بے نیاز ہوگئے بلکہ اس وقت سالار کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا۔ جہاں ایک طرف اخبار کے دفتری عملہ کے ساتھ محمود ایاز کی سخت گیری نظر آتی ہے وہیں دوسری طرف انہوں نے اپنے عملہ کو رمضان بونس دینے والے پہلے اخبار کے مالک اورمدیربن گئے۔ بعد میں شہر کے دوسرے اخبارات بھی اپنے ملازمین کو بونس دینے لگے۔
محمود ایاز نے ہر اعتبار سے سالار کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ سماجی، ادبی، مذہبی، تجارتی سطح پر اس کے معیار کو بلند کیا اسے اپنے خون جگر سے سجایا سنوارا اور اردو صحافتی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ شائد یہ محمود ایاز کی محمودیت کا نتیجہ ہے کہ ایک نئے اخبار کو اسکا صحیح مقام ملا۔ اور دوسرے قدیم اخبار بھی اس کے خطوط پر چلنے کے لیے مجبور ہوگئے۔
ان کی سخت گیری کا خوشگوار نتیجہ یہ ہوا کہ اخباری عملہ کے اراکین اخبار سے متعلق حد درجہ احتیاط برتتے۔ اس طرح اخبار میں غلطیاں کم ہوتیں۔ عملہ میں ذمہ داری اور جوابدہی کا احساس پیدا ہوگیا۔ سالار کا اپنا ایک مقام اول بن گیا۔ اور اخبار کا مزاج بھی محمود ایاز کے مزاج کی طرح حقیقت پسند بن گیا۔محمود ایاز جو بھی کام کرتے پوری عرق ریزی اور تن دیہی کے ساتھ کرتے تھے۔ اس تعلق سے اکثر کہتے کہ ’’جو بھی کروں Heart and Soulلگاتا ہوں او رسالار نکالا تو پھر یہ تھا کہ سالار کو ایسا بنائیں گے کہ بہت اچھا ہو‘‘
شائد وہ سالار نکالتے تھک گئے تھے یا اخبار کو اتنا وقت نہیں دے پا رہے تھے جس کا وہ طلبگار تھا۔ چند لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سالار سے متوقع نفع حاصل نہیں کر پا رہے تھے اور نہ ہی ان کے بچوںکو صحافت سے کوئی دلچسپی تھی۔ محمود ایاز سے ان کی صحت بھی ساتھ چھوڑ رہی تھی۔اس لیے وہ 1978میں سالار کوفروخت کردیا۔سالار ان کے لیے بے حد عزیز تھا۔انھوں نے اس کرب کو آخری اداریہ بتاریخ شنبہ 6؍اکتوبر 1979ء مطابق ۱۳؍ذی قعدہ ۱۳۹۹ھ کو وداعیہ کے نام سے لکھتے ہوئے کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
پندرہ سال تک کسی ادارے سے جسم و جان کا رشتہ استوار رکھنے کے بعد اس سے جدائی کا فیصلہ آسان نہیں ہے اور پھر سالار میرے لئے ایک خواب کی تعبیر، ایک روحانی تقاضے کی آسودگی کا ذریعہ تھا۔
لیکن …انسان کی ذہنی امنگیں اور جسمانی توانائیاں ہمیشہ دوش بدوش نہیں چلتیں۔ رفتہ رفتہ ان میں فاصلہ بڑھتا جاتا ہے اور ایک دن جسمانی توانائیاں اپنی ذہنی امنگوں سے دور رہ جاتی ہیں۔
’’سالار‘‘ سے جدائی کا یہ مرحلہ میرے لئے جس قدر درد ناک ہے اسی قدر تسلی بخش۔ یہ حقیقت ہے کہ اب آپ کا یہ محبوب روزنامہ ایسے افراد کے ہاتھوں میں جا رہا ہے جن کے حوصلے بلند ہیں اور جو ’’سالار‘‘ کے آغاز ہی سے اس سے قریبی طور پر مانوس رہے ہیں۔ جو ’’سالار‘‘ کے مستقبل کو اس کے ماضی اور حال کے شایان شان بنانے بلکہ اس روایت کو اور بھی زیادہ تابناکی بخشنے کے پر جوش ارادوں اور ہوش مندانہ منصوبوں سے مسلح اور مالا مال ہیں۔
جو محبت و شفقت ’’سالار‘‘ کے توسط سے اس ناچیز کو یا اس ناچیز کے توسط سے سالار کو ملی اس کی کوئی حد ہے نہ حساب اور نہ اس کا کوئی جواب ممکن ہے۔ یہ محبت و شفقت میری زندگی کا لا زوال سرمایہ ہے جس کے لئے ’’سالار‘‘ کے ان چاہنے والوں کا شکریہ ادا کرنا بھی ان کی توہین ہوگی۔
مجھے پوری توقع ہے کہ ’’سالار‘‘ کے پڑھنے والوں، اُسے فروخت کرنے والوں، اس کے لئے لکھنے اور ’’سالار‘‘ کو سالار بنانے میں دل و جان سے میرا ساتھ دینے والے کارکنان ادارہ کا تعاون جو اب تک ’’سالار‘‘ کو حاصل رہا ہے وہ اسی طرح جاری رہے گا کیونکہ افراد تو آتے جاتے رہتے ہیں مگر ادارے ہمیشہ رہتے ہیں، اور یہی قوم کی امانت ہیں۔
’’سالار‘‘ صرف ایک اخبار نہیں ہے۔ ہم سب نے اسے ایک مشن سمجھا تھا۔ 1964ء سے آج تک
ملک وملت کی پندرہ سالہ تاریخ کے ہر نازک مرحلے پر ’’سالار‘‘ نے ہمیشہ فوری تقاضوں سے بے
نیاز دور رس نتائج کو نظر میں رکھ کر اپنے ہر موقف کی تشکیل کی کوشش کی ہے۔
اس کوشش میں ہمیں کامیابی نصیب ہوئی ہے اس کا فیصلہ قارئین کرام ہی فرماسکتے ہیں، یا وقت کرے گا جو کسی کا طرف دار نہیں ہے۔ لیکن مجھے یہ اطمینان قلب میسر ہے کہ ملک ملت کے کسی بھی مفاد کی قیمت پر ’’سالار‘‘ نے کسی فرد سے سمجھوتہ کیا اور نہ کسی ادارے یا حکومت سے ؎
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
محمود ایازؔ‘‘(5)
صحافتی دنیا میں سالار کا اپنا ایک مقام تھا۔ ہر جگہ اس کے ایجنٹ مقرر تھے۔ اخباری کاغذ کا کوٹہ مقرر تھا۔ اور اسے تجارتی اشتہارات بھی دستیاب تھے۔ انہیں ’سالار‘ اپنی زندگی کی طرح عزیز تھا۔ اور یہ ان کے مرتے دم تک باقی رہا۔ جناب رحمن اور حلیل اللہ خان نے روزنامہ ’’سالار‘‘ خرید لینے کے بعد محمود ایاز کو مطالعہ کے لیے اعزازی طور پر روزانہ ایک کاپی دی جاتی تھی ۔ لیکن چند سالوں بعد اخبار کا پرائیویٹ انتظامیہ ’’سالار پبلکیشن ٹرسٹ‘‘ بن گیا تو محمود ایاز کو ’’سالار‘‘ کی فراہمی روک دی گئی۔ انہوں نے ’’سالار‘‘ کے دفتر جاکر کہا کہ دو سال کی پیشگی رقم لے لو اور ’’سالار‘‘ کی فراہمی جاری رکھو۔ پھر سے محمود ایاز کو اعزازی اخبار جاری ہوگیا۔ لیکن خلیل خان کے انتقال کے بعد آپسی رنجشوں کی وجہ سے محمود ایاز کو سالار کی فراہمی پھر سے روک دی گئی۔ ’’سالار‘‘ اخبار کے جشن سمیں کے موقع پر ’’سالار‘‘ کے بانی کو اعزاز سے نوازنا تو درکنار انہیں مدعو بھی نہیں کیا گیا لیکن محمود ایاز کی یہ اعلیٰ ظرفی تھی کہ انہیں کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی۔
’’سالار‘‘ سے دستبرداری کے بعد محمود ایاز پھر سے اپنے اولین عشق یعنی صحافت سے ادب کی جانب واپس لوٹ گئے۔ اور سوغات کے دور سوم کا اجراء کیا۔ محمود ایاز نے اردو صحافت اور ادب کے میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے ’’روزنامہ سالار‘‘کو صحافتی میدان میں ایک تاریخی دستاویز بنادیا۔ اور صحافت میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ اور قاری کو کئی نئے فنکاروں سے روشناس کرایا۔ ان کے دور میں اخبار کی پالیسی غیر جانبدارانہ تھی، ان کی صحافت میں ایمانداری شرط تھی۔ ان کا نظریہ تھا کہ صحافت میں بے باکی ہونی چاہئے۔ ذاتی دشمنی ہونے کے باوجود کسی پر کیچڑ نہیں اچھالنا چاہئے۔
حوالہ جات:
(1 محمود ایاز (اداریہ) مشمولہ سالار یکم فروری 1964، بروز شنبہ
(2 خلیل مامون، صحافت سالار اور میں مشمولہ سالار، گولڈ جوبلی ایڈیشن بروز پیر 5؍ جنوری 2015، ص:29
(3 عزیز اللہ بیگ، سالار کے پچاس سال، چند حقائق چند تاثرات، مشمولہ سالار گولڈن جوبلی ایڈیشن ، بیروز پیر ، 5؍ جنوری 2015، ص : 16
(4 عزیز اللہ بیگ، محمود ایاز چندیادیں، مشمولہ اذکار ، 10 ، ص : 116
(5 محمود ایاز (اداریہ) مشمولہ سالار شنبہ 6؍ اکتوبر 1979
٭٭٭