You are currently viewing مقالات شبلی کا فنی وموضوعاتی مطالعہ

مقالات شبلی کا فنی وموضوعاتی مطالعہ

ڈاکٹر شاہ وید میر

مقالات شبلی کا فنی وموضوعاتی مطالعہ

          علامہ شبلی نعمانی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے تقریباََ ادب کی ہر صنف پر قلم اٹھایا۔ان ہی مختلف اصناف میں مقالاتِ شبلی کافی اہمیت کی حامل ہیں۔انہوں نے مذہبی ،تاریخی ،علمی و ادبی ،فلسفی ا ور تعلیمی مقالات لکھے ہیں ۔شبلی اپنے دور کے ایک نامور ادیب ،مورخ،سوانح نگار اور محقق ونقاد کی حیثیت سے بھی اردو ادب میں اپنی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔اُن کے معاصرین میںبہت سے ایسے ادیب ودانشور پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے اردو ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ان ہستیوں ں میں سرسید احمد خان ،مولانا حالیؔ ،نذیر احمد وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ان تمام شاعروں اور ادیبوں میں علامہ شبلی نعمانی کی اہمیت مسلم ہے جنہوں نے ادب کی ہر صنف سخن میں اپنی قابلیت اور محنت سے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو اردو ادب کے لیے ایک گراں قدر سرمایہ ہے۔ان تمام مقالہ نگاروں نے معاشرت و تمدن ،مذہب و سیاسیات اور تاریخ و ادب پر جو مقالے قلم بند کیے ہیں ان میں شبلیؔ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ سیرت و سوانح ،مذہب و تاریخ،فلسفہ و منطق اورشعر و ادب پر انہوں نے گراں قدر مقالے لکھے ہیں۔شبلیؔ کے ان تمام مقالات کو جمع کر کے مقالات شبلیؔ کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی گئی ہے ۔ان کے مقالات میں ایک الگ طرح کی رنگا رنگی اور انداز بیان پایاجاتا ہے ۔ان کے مقالات میں وہ شگفتگی اور لطافت دیکھنے کو ملتی ہے جو ایک اچھے مضمون کا تقاضا کرتا ہے۔انہی چیزوں کی وجہ سے ان کا طرز ِاظہار اور لطیف انداز بیان بے حد دل کش اور موثر بن جاتا ہے ۔’’مقالات شبلی‘‘ علامہ شبلیؔ نعمانی کے مذہبی مقالات کا ایک مجموعہ ہے جنہیں وقتاََ فوقتاََ زیب قرطاس کرکے ملک کے مختلف رسائل وجرائد میں شائع کیا گیا ہے ۔شبلیؔکے مقا لات کی تدوین و تر تیب کا سارا کام ان کے لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے انجام دیا ۔’’مقالات شبلی‘‘ ؔکی پہلی جلد میںجن مضامین کو شامل کر دیا گیا ہے ان کی ترتیب کچھ اس طرح ہے ۔تاریخ ترتیبِ قرآن ،علوم القرآن،اعجاز القرآن ،قرآن مجید میں خدا نے قسمیں کیوں کھائیں،قضا وقدر اور قرآن مجید ،عدیم المحتہ ہونے کا دعویٰ،مسائل فقہ پر زمانہ کی ضرورتوںکا اثر ،وقف اولاد ،پردہ اسلام ،الاسلام ،مسلمانوں کو غیر مذہب حکومت کا محکم ہو کر کیوں رہنا چاہیے،غیر قوموں کی مشابہت ،خلافت ،حقوق،الذمین،الجزیہ،اختلاف اور مساحت ۔شبلی ؔنے جو بھی مذہبی مقالات لکھے ہیں ان میں سب سے پہلا مقالہ تاریخ ترتیب قرآن پر ہے ۔انہوں نے قرآن پاک کی تاریخ تر تیب پر بھی مقالہ تحریر کیا ہے ۔جس میں انہوں نے قرآن کے نزول اور جمع تر تیب کے بارے میں گفتگو کی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کے ذریعے تر تیب دیے گئے مصاحف اور قرآن میں اختلاف پر بھی بحث کی ہے ۔اور بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ کی عمر مبارک چالیس برس کی ہوگئی تھی جب اُن پر پہلی وحی کا نزول ہوا ۔اورساتھ ساتھ اس بات کا تذکرہ بھی خوب کیاگیا ہے کہ رسول پاک ﷺاُس وقت غار ِحِرا میں اللہ کی عبادت میں مصروفِ عمل تھے ۔اس مضمون میں شبلیؔ نے اُن ساری باتوں کی وضاحت بھی کی ہے جو آپﷺ کے ساتھ پیش آئی تھیں۔مثلاََ،وحی کا آنا۔یعنی پہلی بار جب وحی نازل ہوئی تو کس طرح نازل ہوئی اور کون سی آیات تھیں ،کس سورت کی تھی اور کتنی تھی ۔اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ پہلی وحی کے بعد کتنی مدت تک وحی کا سلسلہ آنا بند رہا ۔مولاناشبلی لکھتے ہیں کہ:

’’ حضور ﷺ کی عمر چالیس سال کی تھی جب اُن پر غار حِرا میں پہلی بار وحی کا نزول ہوا۔سب سے پہلی وحی جو آپﷺ پر نازل ہوئی وہ سورہ اقراء کی ابتدائی پانچ آیات تھیں ۔ اس کے بعد تین سالوں تک آپ ﷺ پر کوئی وحی نہیں آئی ‘‘۔

 (شبلیؔ نعمانی کے مقا لات کا تنقیدی جا ئزہ۔ص۳۹)

          متذکرہ مقالات میں قرآن کی تر تیب اور اس میں جو اختلاف ہوا اُس پر بھی بحث کی گئی ہے ۔اور برسوں کے بعد جب وحی دوبارہ آنی شروع ہوئی تواس پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔قرآن کے نزول کے منظر میںجب کوئی سورت نازل ہوتی تو کس طرح سے دو دو یا چار چار آیتیں نازل ہوا کرتی تھی ۔رسول پاک ﷺ اُن آیات کو صحابیوں سے لکھوایا کرتے تھے ۔جب ایک سورت مکمل ہوتی تو اس کو ایک نام دیا جاتا پھر اس کے بعد دوسری سورت آنی شروع ہوجاتی ۔اسی طرح ان سارے سورتوںکو الگ الگ نام دے کر ایک سو چودہ سورتیں مکمل قرآن پاک کی صورت میں آج ہمارے دلوں کو منور کر رہا ہے ۔شبلیؔ نے اس سارے معاملے کو اپنے مقالے میں بیان کیا ہے ۔نیز یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن مجید کس زمانے میں تر تیب کے ساتھ کتابی شکل میں وجود میں آیا اور کس نے اس کی کتابت کی ۔ اس کے بعد مولانا شبلی نے علوم القرآن کے تعلق سے بات کی ہے یعنی علوم القرآن پر بھی انہوں نے مقالہ لکھا ہے ۔اُنہوں نے قرآن ،تفسیر قرآن اور ان سے متعلق تصانیف کا تاریخی جائزہ پیش کیا ہے ۔سب سے اولین بات پر افسوس کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 ’’ قرآن کے معجزانہ اور مثل ہونے کے باوجود مسلمانوں نے اس کے ساتھ بے اعتنائی بر تی ہے۔ حالانکہ فقہ اصول ،علم الکلام سب کا ماخذ قرآن ہے ۔‘‘

                   (شبلی نعمانیؔ کے مقالات کا تنقیدی جائزہ ،ص ۴۳ )

          مذہبی مقالات میں تیسرا اور اہم مقالہ جو اعجازالقرآن کے عنوان سے درج ہے اس میںمولانا نے قرآن پاک کے مختلف معجزات پر روشنی ڈالی ہے۔ان سارے مقالات کی ضخامت کو مدِ نظر رکھ کر یہاں صرف ان مقالات کا تعارف پیش کیا جاتا ہے ۔جن میں اہم موضوعات کو برتا گیا ہے۔شبلی نے اپنے مذہبی مقالات میں وہ ساری چیزیں مکمل طور پر بیان کی ہیں جنہیں وہ قابلِ تشریح سمجھتے تھے ۔     مذہب اسلام پر جن لوگوں نے الزام تراشی کرنے کی ناپاک کوششیںکی ہیں انھیں علامہ شبلی نعمانی کی طرف سے دندان شکن جواب دیا گیا ہے ۔بلکہ دلیلوں کے ساتھ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مذہب اسلام واحد ایک ایسا مذہب ہے جو ساری دنیا میں سچا،آفاقی اور مکمل ہے۔ اور رسولِ پاک ﷺاللہ پاک کی طرف سے مبعوث فرمائے گئے ایک سچے،امین اور اعلیٰ صفت انسان ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے معجزات کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن پاک کو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اتاری گئی سچی اور ہدایت پر مبنی کتاب بھی ثابت کیا گیا ہے۔

         مولانا شبلی کے علمی و ادبی مقالے :۔مقالاتِ شبلی کا دوسرا حصہ علمی وادبی مضامین پر مشتمل ہے  ۔سید سلیمان ندوی کے مطابق شبلی کے علمی و ادبی مقالات میں صرف دو مضامین ملتے ہیں ۔۱۔سر سید مرحوم اوراردو لٹریچر، املاء اور صحت الفاظ۔ مقالے میں جو مضامین شامل کیے گئے ہیں ان کی ترتیب کچھ اس طرح ہے ۔ عربی زبان میں فن بلاغت ،نظم القرآن و حمرۃالبلاغہ شعر وادب ،عربی و فارسی شاعری کا موازنہ ،سر سید مر حوم اور اردو لٹریچراورتحفتہ الہند۔اس مجموعے کا سب سے پہلا مضمون عربی زبان میں ہے کیوں کہ مولانا کو عربی زبان سے جس قدر محبت و لگاو تھا وہ اس مقالے سے بخوبی معلوم ہوتاہے ۔اس مقالے کی ابتدا بھی عربی زبان کے آغاز و ارتقاء پر کی گئی ہے ۔بلکہ سامی الاصل زبانوں کے اختلاف اور تقدم و تاخیر پر بھی استدلال کیا گیا ہے ۔جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقالہ بلاغت کے تعلق سے ہے ۔مولانا شبلیؔ ایک شاعرہونے کے ساتھ ساتھ زبان دان اور زبان ساز بھی تھے اس لئے انہیں فن ِبلاغت سے ایک خاص دلچسپی تھی ۔اس مقالے میں فن بلاغت پر ان کی نظر اور شوق دونوں دکھائی دیتی ہے ۔ایک عام خیال یہ ہے کہ فن بلاغت اور مولد و منشا یونان ہے ۔اور اس سلسلے میں ارسطو کو ابو البشیر کہا جاتا ہے لیکن اس کے بر خلاف مولانا شبلی نعمانی کا دعویٰ ہے کہ مسلمان اس فن کے خود ہی موجداول ہیں ۔اپنے دعویٰ کے ثبوت میں ابن الثیر کا قول نقل کرتے ہیں کہ:

’’یونان نے فن بلاغت پر جو کچھ لکھا ہے اگرچہ اس کا ترجمہ عربی میں ہو چکا ہے لیکن میں اس سے واقف

  نہیں اور اس لئے اس فن میں جو نکتے اضافہ کیے ہیں ان میں سے کسی کا میں مقلد نہیں بلکہ خود مجتہد ہوں ‘‘۔                                                                                                                                                                         (ایضاََ ،ص ۸۱)

اس کے علاوہ مولانا شبلی نے نظم القرآن و جمہرۃبلاغت کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ نظم القرآن سے متعلق اکثر مباحث ہوتے رہتے تھے ۔اس لئے شبلی نے اس موضوع پر قلم اُٹھا یا ۔علامہ شبلی نے اس مقالے میں ارسطو کے خیالات کی تردید کرنے کے بعد خود اس مسلے پر نہایت ہی تفصیل سے بحث کی ہے کہ تعلق اور بلاغت کس چیز کا نام ہے اور اس کے اصول و شرائط کیا ہیں ۔یعنی شبلی نے اس مقالے میں وہ ساری چیزیں صاف صاف طور پر بیان کی ہیں جو نظم القرآن وجمہرۃبلاغت  سے تعلق رکھتی ہیں ۔اس کے علاوہ شبلی نے ایک مقالہ شعر العرب کے عنوان سے تحریر فرمایا ہے ۔جس کی حیثیت ایک ریویو کی سی ہے۔ اس میں انہوں نے عرب کے شعراء اور اُن کے کلام پر بحث کی ہے ۔علامہ شبلی ؔنے بہت سارے مقالات تحریر کیے ہیں انہوں نے ’’عربی اور فارسی شاعری کا موازنہ ‘‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے عربی اور فارسی کے مزاج کو پرکھا ہے ۔مولانا لکھتے ہیں کہ عربی اور فارسی کا مزاج مختلف ہے اور یہ اختلاف دونوں ملکوں کے تمدن ِمعاشرت اور مقامی حالات پر مبنی ہے۔بلکہ اس بات کی طرف خوب اشارہ کیا ہے کہ عربوں کا تمدن فطری تھا ۔محکومی اور غلامی کو وہ ہمیشہ ٹھو کر میں رکھتے تھے ۔طبیعت میں شوریدہ سری تھی ،جنگ و جدال ان کا شیوہ تھا ۔مولانا نے اس مضمون میں عربی شاعری اور فارسی شاعری کی زبان پر بھی گفتگو کی ہے ۔مولانا لکھتے ہیںکہ عربی شاعری میں معاشرت اور خانگی زندگی کی جھلکیاں اصل حالت میں ملتی ہیں ۔اس زمانے کی رفتار و گفتار ،نشست و بر حاست ،وضع قطع ،رہن سہن ،اشیائے ضروری، خاندان کے اسباب غرض تمام باتوں کا حال معلوم ہو جاتا ہے ۔فارسی شاعری کے بارے میں مولانا نے درست فرمایاہے کہ فارسی شاعری میں یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ لوگ زمین پر رہتے تھے یا آسمان پر ۔مولانا نے اس مضمون میں فارسی شاعری کی چند باتوں کو عربی شاعری پر ترجیع دی ہے ۔’’سرسید مر حوم اور اردو لڑیچر‘‘  مولانا شبلی نے یہ مضمون سر سید احمد خان کے انتقال کے بعدلکھا ہے ۔ اس میں سرسید اور اُن کی دین کے بارے میں لکھا ہے ۔یعنی سر سید نے اردو زبان کو کس طرح سے عوام میںعام کیا ۔وہ لکھتے ہیں:

 ’’ سر سید نے جس میدان میں بھی قدم رکھا وہاں اپنے نقوش چھوڑے ۔اردو لٹریچر کی ترقی بھی سرسید کی رہین منت ہے ۔اس نے اپنے دست مبارک سے اس مس خام کو کندن بنایا ہے ۔وہ اردو کی سلطنت میں شاہانہ وارد ہوئے اور بڑے تزک واختشام کے ساتھ اس پر حکمرانی کی ‘‘۔

                                                                    (ایضاَ،ص ۹۵)

علامہ شبلی نعمانی اس مضمون میں سر سید کے بارے میں یہ بات صاف طور سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے زمانے یعنی جس دور میں سر سید نے اردو کی آبیاری کی۔ اس دور میں بڑے بڑے انشا پرداز موجود تھے لیکن ان میں شایدوبایدسرسید جیسا انشاپرداز نہ بن سکا ۔اس کے علاوہ سر سید نے اور بھی مقالے لکھے ہیں جن میں ’’ اردو اور ہندی‘‘کی آپسی مماثلتوں پر اظہارِ خیال کیا گیاتھا اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دراصل اردو اور ہندی ایک ہی بھاشا کی دو لکھاوٹ ہیں۔جن دو زبانوں کی گرامر متحدہ ہوتی ہے وہ زبانیں در اصل ایک ہی ہوتی ہیں ۔اس کے بعد مولاناشبلی نے ایک اور مضمون لکھا جس کا عنوان’ بھاشا اور زبان ‘ہے ۔ مولانا نے یہ مضمون ایک ایڈیٹرکے مضمون کے جواب میںلکھا تھا ۔ اس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھاکہ مسلمانوں نے مذہبی تعصب کی وجہ سے ہندی علم و ادب پر کبھی توجہ نہ کی اور اگرکی بھی تو مسلمانوں نے ان کو کافر کہہ کر پکارا۔مضمون کی طوالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔بلکہ صرف ان کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔مولانا شبلی نے جو تاریخی مقالے لکھے ہیں اُن کے عنوانات مندر جہ ذیل ہیں ۔

حضرت اسماء و ہندہ والدہ امیر معاویہ ،والعتزلہ ،والاعتزال،ابن رشد،علامہ ابن تیمیہ حرفی ،متبنی موبدان مجوس،زیب النساء،مولوی غلام علی ،آزاد بگرامی اور فریدہ وجدی بک ،یہ سارے مقالے اندوہ میں جمع کئے گئے ہیں ۔شیخ عبدالر حمان لکھتے ہیں کہ:

’’  مولانا شبلی نعمانی کی شخصیت ہمہ گیر تھی ۔ان کی نگاہ کہاں کہاں پہنچتی ہے ۔مقالات شبلی کی تمام جلدوں کے مطالعے سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ ادب ہو یا سیاسیات ،دینیات ہو یا تعلیم ہر میدان میں ہر جگہ شبلی حاضر اور موجود نظر آتے ہیں ۔لیکن تاریخ اور خصوصاََتاریخ اسلام مولانا کا میدان خاص ہے ۔وہ اس میدان کے تنہا مرد مجاہد ہیں ۔تاریخ اسلام پر ان کی گہری نظر ہے اور یہ ان کا فن خاص ہے ‘‘۔

                                                          (ایضاََ،ص۱۴۷)

علامہ شبلی نے تاریخی مقالات ایک الگ انداز سے تحریر کیے ہیں کیوں کہ وہ تاریخ سازتھے اور اس فن سے ان کو ایک خاص لگائو اور دلچسپی تھی۔ جس کی وجہ سے کچھ لوگوںنے ان کو صرف مورخ ہی قرار دیا ہے۔ وہ ایک مورخ کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر اور ادیب بھی تھے۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انھیں تاریخ گوئی میں یدِ طولیٰ حاصل تھا ۔انہوں نے تاریخ کے ذریعے دینِ اسلام کو عوام الناس تک پہنچایا اور ان تاریخی مضامین کے ذریعے اسلامی کار ناموں کو زندہ اور جاوید کر دیا۔ان مضامین کے ذریعے شبلی نے پوری قوم کو ایک بہت بڑا ذخیرہ معلومات فراہم کیا تھاجسے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں ۔یور پ نے جب اس طرف توجہ دی تو اپنے اسلاف کو گم نام پایا اور قسمت کو کوستے رہے۔ آج بھی جب قابلِ قدر شخصیتوں کا ذکرکیا جاتا ہے تو سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے ۔ہمارے اسلاف بھی بہادری ،شجاعت ،علم و اخلاق،علم و فن اور دوسرے کمالات میں کسی سے کم نہیں ۔شبلی نے اس مقصد کے پیش نظر یہ سلسلۂ مضامین جن کو ہم مقالات شبلی کے نام سے جانتے ہیں قائم کیا ۔اس کے علاوہ شبلی نے فلسفیانہ مقالے بھی لکھے ہیں ۔اب تک کی اس اجمالی گفتگو سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتاکہ مولانا شبلی کے یہاں موضوعات کا تنوع اور رنگا رنگی نظر آتی ہے ۔ان کی نظر بڑی وسیع اور ہمہ گیر ہے ان کے فلسفیانہ مضامین ان کے موضوعات کی ایک جہت کی طرف اشارہ کر تے ہیں ۔ مقالات شبلی کا ایک بڑا حصہ فلسفیانہ مقالوں پر مشتمل ہے جس میں کُل بارہ مقالے ہیں ۔جن کے عنوان اس طرح ہیں ۔فلسفہ یونان اور اسلام ،(یونانی منطق کی غلطیاں)فلسفہ یونان اور اسلام (جرام ملکی )فلسفہ یونان اور اسلام ،فلسفہ اسلام اور فلسفہ قدیم و جدید ،علوم جدید،(علوم کی حقیقت)جذب یا کشش فلسفہ اسلام ( مسلہ ارتقاء اور ڈارون) ڈاکٹر برٹن اور تاریک فلسفہ اسلام ،فلسفہ اور فارسی شاعری ،حقائق اشیااور معشوق حقیقی ،اور ندوۃالعلماء ، اجلاس ،سالانہ اور علمی سناکشمین ایک ہی سریز کے تعلق سے ہیں مولانا لکھتے ہیں:

’’چونکہ عام طوپر  مشہورہے اور مسلمانوں کی موجودہ تصنیفات بھی اس کی شہادت دے رہی ہیں کہ مسلمانوں میں مقلدین ارسطو کے سوا اور کوئی فر قہ موجود نہ تھا ۔اس نمبر میں ہم صرف تاریخی طور پر اس واقع کی غلطی ثابت کرتے ہیں ۔اس سلسلے کے دوسرے نمبرمیں ہم تفصیل سےیہ بتائیں گئے کہ مسلمانوں نے فلسفہ یونان پر کیا اضافہ کیا ہے کیا اصلاح و تر میم کی ۔‘‘

(ایضاََ ،ص ۱۸۲)

متذکرہ اقتباس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مولانا شبلی ؔنے اسلام اور اس کی تعلیمات پر کچھ اعتراضات کا مدلل اندازِ بیان میں جواب دیتے ہیں ۔ان میں سب سے پہلے یہ اعتراض کیا گیا تھاکہ مسلمان ارسطو کی گاڑی کے قلی تھے ۔مولانا نے اپنے علم ،حکمت اور دانائی سے اس بات کو مختصر اور جامع اندازِ بیان میں جواب دیا ہے کہ مسلمان فلسفہ کے لئے یونانیوں کے خو شہ چیں رہے ہیں ۔لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ اندھی تقلید کے قائل تھے ۔بلکہ اس پر حذف و اضافہ بھی کرتے رہتے ہیں۔مولانا لکھتے ہیں کہ تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمان فلسفہ کے لیے اسلامی حکومت کے بھی رہین منت رہے ۔سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں فلسفہ اور حکمت اسلامی حکومت کے زیر اثر آئی ۔خلیفہ عباسیہ کے زمانے میں بڑے پیمانے پر یونانی کتابوں کے تراجم ہوئے ۔ان کو پڑھ کر مسلمانوں نے بھی فلسفہ میں تصنیف و تالیفات کا سلسلہ شروع کیا لیکن بقول شبلیؔ:

’’ یہ گروہ محدود تھا عوام میں اس کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے سب سے پہلے جس شخص نے فلسفہ کی با

   ضابطہ تعلیم و تد وین کا آغاز کیا وہ امام غزالی تھے ۔جو ابو سینا اور فارابی سے مستفیض تھے ‘‘۔

(ایضاََ،ص ۱۸۲)

          شبلی کا مقصدیہ تھا کہ مسلمان فلسفہ میں بھی ارسطو کے مقلد نہیں رہے بلکہ دنیا کا سب سے پہلا فلسفہ نگار امام غزالی ہے۔اس کے علاوہ علامہ شبلی نعمانی نے جس عنوان سے مقالے لکھے ہیں وہ تعلیمی موضوعات پرہیں اس عنوان سے شبلی نے کل گیارہ مقالے لکھے ہیں ۔ان کے عنوان مندر جہ ذیل ہیں ۔مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم ،مدرسے اور دار العلوم ،قدیم تعلیم ،ملا نظام الدین بانی ،درس نظامیہ،ندوہ اور نصاب تعلیم ،فن نحو کی مروجہ کتابیں،تعلیم قدیم و جدید ،مشرقی کانفرنس ،ریاست حیدر آبا دکی مشر قی یونیورسٹی وغیرہ ۔

المختصر مولانا شبلی نے مذہبی ،تاریخی ،فلسفی اور علمی و ادبی مقالات لکھے ہیں۔مولانا ایک مایہ ناز شخصیت اور قد آور ادیب و شاعر تھے ۔وہ صرف مقالہ نگار ہی نہ تھے بلکہ سیرت و سوانح ،فلسفہ کلام ،شعر وادب وغیرہ۔غرض وہ کون سا موضوع ہے جو ان کے قلم کی زد میں نہ آیا ہو ۔یہ واقعہ ہے کہ شبلیؔ اردو کا ایک ایسا منفرد ادیب اور ممتاز نثر نگار ہے جس کی تحریر کے جادو سے تمام پڑھے لکھے ادیب و شاعر غرض ہر ایک پڑھنے والا آشنا ہے۔ شبلی ؔنے اپنے ان مقالوں میں اپنے اسلاف کی تاریخ کو بھی قلمبندکیا ا ور مذہبی تعلیم کو بھی اور مذہب کی معلومات کو بھی ان مقالوں کے ذریعے عوام الناس یعنی ملت ِ اسلامیہ کے  تقریباََہر فرد تک پہنچایا ۔اس کے علاوہ اُنہوں نے فلسفہ کی تعلیم کو بھی اپنے مقالوں کے ذریعے عام کیا ۔اور جو غلط فہمیاں ملت ِ اسلامیہ میں تھی اور جو معترض اعتراض کرتے تھے ان کو بھی دلیلوں کے ساتھ جواب دیا ۔اس کے علاوہ انہوںنے تعلیم و ادب کے موضوعات پر مقالے اورموضوعات پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ تعلیم کس طرح حاصل کی جاتی ہے اور اس کی کیا ضرورت ہے۔

Leave a Reply