ڈاکٹر سہیم الدین خلیل
(اورنگ آباد ،دکن)
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو
سوامی رمانند تیرتھ مہاودھیالیہ امبہ جوگائی ضلع بیڑ مہاراشٹر۴۳۱۵۱۷
منور رانا: مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے
منور رانا اُردو شاعری کا وہ بڑا نام ہے جس کے بغیر اردو شاعری کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ان کا حقیقی نام سید منور علی ہے۔ موصوف ۲۶ نومبر۱۹۵۲ء کو اتر پردیش کے مشہور شہر رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا اسم گرامی سید انور علی اور والدہ کا نام عائشہ خاتون تھا۔ منور رانا نے اپنی ابتدائی تعلیم شعیب ودھیالیہ اور گورنمنٹ انٹر کالج، رائے بریلی سے حاصل کی۔ بعد ازاں وہ ثانوی تعلیم کے لیے لکھنؤچلے گئے، جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہوا۔ قیام لکھنوکے دوران انھوں نے وہاں کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں مستحکم کیں۔ اس کے بعد ان کے والد روزگار کے پیش نظر کلکتہ منتقل ہوگئے۔ پھر وہ سن ۱۹۶۸ء میں کلکتہ تشریف لائے، جہاں انھوں نے محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول میں داخلہ لیا اور گریجویشن کی ڈگری کلکتہ کے امیش چندرا کالج سے حاصل کی۔
منور رانا کی ادبی خدمات کے تعلق سے کہا جائے تو انھیں اُردو اور ہندی زبان پر خاصہ عبور حاصل تھا لہٰذادونوں ہی زبانوں میں انھوں نے کم وبیش دو درجن سے زائد کتابیں تخلیق کیں ہیں جن میں بالخصوص اردو شاعری کی تصانیف میں نیم کا پھول (۱۹۹۳ء)، کہو ظل الٰہی سے (۲۰۰۰ء)،منور رانا کی سو غزلیں (۲۰۰۰ء)، گھر اکیلا ہوگا(۲۰۰۰ء)، ماں (۲۰۰۵ء)، جنگلی پھول (۲۰۰۸ء)، نئے موسم کے پھول (۲۰۰۹ء)، مہاجر نامہ (۲۰۱۰ء)، کترن میرے خوابوں کی (۲۰۱۰ء) نیز ہندی شاعری کے مجموعوں میں غزل گاؤں (۱۹۸۱ء)، پیپل چھاؤں(۱۹۸۴ء)، مورپاؤں(۱۹۸۷ء)، سب اس کے لیے(۱۹۸۹ء)، نیم کے پھول (۱۹۹۱ء)، بدن سرائے(۱۹۹۶ء)، گھر اکیلا ہوگا(۲۰۰۰ء)، ماں (۲۰۰۵ء)، پھر کبیر(۲۰۰۷ء)، شادابہ(۲۰۱۲ء)، سخن سرائے (۲۰۱۲ء) پیش پیش ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ منور رانا جتنے اچھے شاعرہے اتنے ہی اچھے نثر نگار بھی ہے اُس کی جیتی جاگتی مثال اُن کی نثری تصانیف؛ بغیر نقشے کا مکان(۲۰۰۰ء)، سفید جنگلی کبوتر(۲۰۰۵ء)، چہرے یاد رہتے ہیں (۲۰۰۸ء) وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
منور رانا کی شاعری کی ہمیشہ سے یہ خصوصیات رہی ہے کہ وہ جس موضوع کو اپنے اشعار کے سانچے میں ڈھالتے ہیں، اسے انتہائی خوبصورتی، برجستگی، شگفتگی اور شائستگی سے پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا یہ کمال ہے کہ وہ اظہار خیال کے لیے اپنی غزلوں کے الفاظ و بیان میں رخشندہ و بناوٹ سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنی زندگی کے تجربات، حادثات اور عصر حاضر کے مشاہدات کو نہایت سلیقے اور جرات مندی سے اپنے قارئین و سامعین تک بذریعے اشعار کے پہونچانے کی سعی کرتے ہیں، جو ان کی اپنی شاعری کی انفرادیت نظیرہے جیساکہ:
بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا
آ پ آسان سمجھتے ہیں منور ہونا
عشق ہے تو عشق کا اظہارہونا چاہئے
آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہوناچاہئے
دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا
سہمی سہمی ہوئی رہتی مکان د ل میں
آرزوئیں بھی غریبوں کی طرح ہوتی ہے
منور رانا کی شاعری کے مطالعہ سے یہ علم بآسانی ہوتاہے کہ ان کی شاعری میں الفاظ کی باریک بینی وشائستگی ان کی انفرادیت کی ضمانت ہے شاید اسی لئے حکومت ہندادب نوازوں نے انھیں مختلف اعزازات سے نوازا ہیں جن میں رئیس امروہوی ایوارڈ رائے بریلی، بھارتی پریشد پریاگ ایوارڈ الہٰ آباد، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ایوارڈ، سرسوتی سماج ایوارڈ، بزم سخن ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ، شہود عالم آفاقی ایوارڈ، غالب ایوارڈ، کویتا کا کبیر سمان و اپادھی، امیر خسرو ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ، مولانا ابوالحسن ندوی ایوارڈ، استاد بسم اللہ خاں ایوارڈ، کبیر ایوارڈ، حضرت الماس شاہ ایوارڈ، ایکتا ایوارڈ، میر ایوارڈ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
بہر کیف جب ہم منور رانا کی شاعری کا جائزہ لیں تو اس میں ہمیں دنیا کے مقدس رشتوں کی پاکیزگی اور احترام نظر آتا ہے۔جس کی جیتی جاگتی مثال ہمیں ان کی شاعری میں نظر آنے والے ‘‘ماں’’ کے تصور میں ملتی ہے۔ منور رانا کی شاعری ماں اور بچے کے رشتہ کو سمجھنے میں اہم رول اداکرتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ محبت کے جذبوں کا اظہار آسان نہیں ہوتا لیکن منور رانا نے اس جذبے کا بھی خوب اظہار کیا ہے اور ہر ممکن موقع پر ‘‘ماں’’ کے تصور کو نہایت خوبصورتی سے اپنے اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ۔مثلاوہ اپنے اشعار میں کہتے ہیں:
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آجاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آجاتی ہے
تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے
منور رانا ایک ایسا شاعر ہے جس نے کثرت سے اپنی شاعری میں لفظ ‘‘ماں’’ کا استعمال کیا ہے، شاید ہی کسی معاصر شعرا ء نے استعمال کیا ہوگا۔ اس کے علاوہ منور رانا کی شاعری کی ایک بڑٰی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی تیکھی، دھاردھارزبان و بیان ہے۔ وہ اپنی خداداد شعری صلاحیتوں کی طرح نثر لکھنے پر بھی ید طولیٰ رکھنے والے ایسے قلم کار ہیں جو انشائیہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں بھی اپناکوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ ان کے انشائیوں کے مجموعے بغیر نقشے کا مکان، سفید جنگلی کبوتر اور خاکوں کا مجموعہ ‘‘چہرے یاد رہتے ہیں’’ اردو نثری ادب کی بہترین تخلیقات میں شمار کیئے جاتے ہیں۔ لیکن جو شہرت دوامی انھیں انکی شاعری سے حاصل ہوئی ہے وہ شاید ہی کسی دوسری صنف سے حاصل ہوئی ہوگی،لہٰذا وہ برصغیراتنے بڑے شاعر تھے کہ جن کے بغیر اکیسویں صدی کی شعری روایت نامکمل ہے،اور ۱۴ جنوری ۲۰۲۴ءکوان کی وفات کا سانحہ سارے اردو دنیا کے لئے خسارے سے کم نہیں۔ ٭٭٭