سلیم سرور
من ہارا(افسانہ)
چچا جی! اس شہر کی عجیب فضا بنی ہوئی ہے مزدور سے لے کرٹھیکدارتک،ریڑھی بان سے جنرل سٹور والےتک،گلی کی نکڑ سے چوراہے تک،امیر ،غریب،سول ،سرکاری،پولیس،سپاہی،چھوٹا بڑا ایک ہی سرگوشی کر رہا ہے۔بیگ۔۔۔اُٖف۔۔۔۔نالہ لئی۔۔۔
ٹبہ محمد نگر اُف۔۔۔یہ لوگ قصاب۔۔۔بیٹاسنو!ہمت ہے تو سنو پھر۔۔۔ہم پہلے ادیب بعد میں محلے دار ہیں مگر ظلم اور ظالم ددنوں کے خلاف ہیں۔
چنچل نے خوبرو کو اس لیے ساتھ نہیں رکھا ہوا تھا کہ اس کے عارض ولب کندہ روزگار تھےیا اس کے چہرے کی متانت پر آسمان کا سکوت دل و جان سے نثارتھا۔یااس کی خاموشی ایسی تھی کہ جس پر تکلم فداہو یا وہ بناوٹی حرکات سے بےنیاز تھا یااس کا حسن لاجواب تھا۔چنچل کی حرکات کے مطابق وہ ظاہری وباطنی حسن کومرد کے لیے ناکافی سمجھتی تھی بلکہ دوسری قدریں اس کے لیے زیادہ اہم تھیں۔سب سے زیادہ اہمیت اس کے نزدیک مادیت تھی۔اوراسی کو مرد کے حسن کی اساس تصورکرتی تھی۔دیگر صفتیں وقت کے ساتھ ساتھ اہم ہوتی جاتی تھیں۔خوبرو کی بابت اس کویہ بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ سادہ لوح تو ہے ہی اور کسی قسم کی غلط بیانی کامرتکب بھی نہیں ہوسکتا۔اس کی نگاہوں کو اس نےمطمئن پایا تھا۔یہ رشتہ محبت یاجنسیت کی اساس پرایستادہ ہونے کی بجائے صرف افادیت کی بیساکھیوں پربراجمان تھا۔
نوجوان اپنےاظہار میں مخلص تھا مگر وہ عجیب وغریب بالی سات سمندروں کی موجوں سے بھی زیادہ پرپیچ نظر آرہی تھی۔یکبارگی میں کہانی نے مجھے اپنی گرفت میں لےلیاتھا۔جو ظاہر تھاوہ تو کرسٹل تھامگر باطن تارکول سے بھی زیادہ خام اورسیاہ تھا۔اس ارضی اورفلکی تضاد کوسمجھنے کےلیے مجھے ایک اوردماغ اوربہشتی زندگی کی سی مہلت درکارتھی مگر میں بےچارہ اس ذہن کا حامل تھا جو ہر ساعت میں سات سات لپاڈگیوں میں الجھا ہوا تھا۔چند قدم پیروری کے بعد میرے دل ودماغ کا ربط بےربط ہونے لگاتھا‘‘ارے پاگل انسان تجھے اس گورکھ دھندے سےکیایگانگی امنڈ پڑی تُو اپنی راہ لے’’مگرصنف نازک کی حریص حرکتوں اورمشروط آواز نے پیچھا کرنے پرمجبورکردیا۔آواز تو میرے کانوں میں ارتعاش پیداکررہی تھی مگر مبہم معنوں سے تجسس کی گرہ اُدھوری کھل رہی تھی ،چند قدم فراٹے کے بھرتے ہوئے میں جوڑے کو کراس کرکے پیش پیش چلنے لگا۔سبزی منڈی اوررکشہ سٹاپ کو کراس کرنے کے بعد آئس کریم کی دکان کے سامنے رکے تو دونوں کے چہروں مہروں کے عکس اپنی کہانی میں بھرنے کاوافر وقت تھا۔
ساڑھے چارفٹ کی یہ گندمی رنگ کی کاسنی محبوبہ،سیاہ شلوار اورسرخ قمیص استری کی زحمت سے عاری چتکبرا دوپٹہ سرسےکھسک کرکندھوں پرسے کمرکی طرف لٹکا ہوا،ہاتھ میں ہلکے بھورے رنگ کی عینکیں وہ شاید لڑکے کی چھین رکھی تھیں۔پاؤں میں سینڈل جو نئے ہونے کے باوجود بھی عامیانہ پن دکھارہے تھے۔لڑکے نے بادامی رنگ کی شلوارقمیص پہن رکھی تھی،پاؤں میں پشاوری کھیڑی،ہاتھ میں ٹچ موبائل تھا جو شاید زیادہ مہنگا معلوم نہیں پڑتا تھا۔لڑکا پنجابی آمیز اردو بول رہا تھا اورلڑکی زبان کوبل دے کراردوبولنے پرمصر نظر آرہی تھی۔لڑکے نے سفید رنگ کابٹوا اپنی جیب سے نکالا اورآئس کریم کے پیسے اداکردیے۔سڑک کے دونوں جانب گنجان دکانوں کی قطاروں کو چیرتے ہوئےجوڑا پچھم میں کچی آبادی کی طرف بڑھنے لگا۔پاؤں زمین پرزیادہ زور سے نہیں پٹخ رہے تھے مگر سڑک کے ناپختہ ہونے کی وجہ سےدھول اٹھ رہی تھی،سڑک کے بائیں کنارے نالہ بہہ رہا تھا جس کے داہنے ہاتھ پر چنچل کا گھر تھا ۔گھر میں ایک خاتون اوردوبچے تھے جن کا حلیہ گزربسر کاعکاس تھا۔دروازے کی بغل میں مہمان خانہ میں خوبرو کو بٹھاکر چنچل ملحقہ کمرے کے دروازے پر لٹکے ہوئے پردے کوایک طرف دھکیلتے ہوئےاندرداخل ہوگئی۔کمرے میں موجود چنچل کی ماں نےخون آلود نگاہیں لڑکی پر گاڑھتے ہوئے زہر ناک آواز میں کہا‘‘میری کوکھ سے کوئی کتا جنم لےلیتا تو وہ بھی میری ہلال کمائی پر پل کرشریف انسان بن جاتا ہے مگر تم نے ناک ناک بدنے کے ساتھ ساتھ اپنے ابا کے بیرج کو اس کی اصل پر ثابت کرنےکی ٹھان رکھی ہے’’۔چنچل نےبغیر کسی تعظیمی لفظ کوزحمت دیے‘‘تمھارے برتن دھونے کی کمائی سے توہانڈی بھی نہ چولہے چڑھتی۔یہ سب میرے ہی طفیل چل رہا ہے۔پچھلے مہینے عباس سے دس ہزار نہ اچٹتی تو بجلی والے میٹر اُتارکرلےجاچکے ہوتےاورتم سب مچھروں سے پٹتے اورنیندیں رتجگوں کی نظر ہوتیں’’۔
میں سمجھ گیا کہ دام تزویر میں ایک نیا کبوتر پھنس گیا ہے۔دام تزویر اورصیاد کی چال ویوہار کودیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھاکہ پیار پریت کو بطور دانہ دنکا استعمال کرکے صید کی جیبیں ٹٹول کردھتکاردیا جائےگا۔اس دام ِفریب میں اس کبوتر کو نہیں کسی چوہے کو آناچاہیے تھا جو دانہ دنکا اُچک کردام کوکترتا اوربلکہ چھید پڑے دام سے رہس ناری کرتا اورفرار ہوجاتا۔چنچل غسل کرکے بیٹھک میں موجود سہمے ہوئے خوبروکے سامنے آکر اپنی زلفیں سنوارتی ہے اور منہ پر آنچل کرتے ہوئے‘‘چلو ندیم لاہورگھومنے چلیں’’۔صدردروازے سے نکلتے ہوئے‘‘ماں اباکوبتانا صبح آجاؤں گی پریشان نہ ہوں ،اچھا پریمی ہاتھ لگاہےکچھ تووقت دینا پڑے گا’’۔ماں نے بلاتامل یہ کہہ سنایا کہ وہ بد ذات پریشان ہونے کی بجائے خوش ہوگا کہ میری ماہر صیاد بنتی جارہی ہے۔
کہانی واضح ہونے کے ساتھ ساتھ منزل کی طرف بھی بڑھ رہی تھی اس لیے میں نےآدھ راستہ چھوڑنے کی بجائے پیچھا کرناضروری سمجھا ۔میں الٹے قدموں بس سٹاپ کی اوربڑھا اورجب جوڑے کےقدموں کی چاپ ماند پڑتی توکنکھیوں سےتعاقب کا پتہ لےلیتا۔تھوڑی دیر بعد لاہورکی طرف جانے والی شاہراہ پر گاڑی کا انتظارکرنے والوں میں وہ جوڑا بھی آموجودہوا۔خوبروندیم اب کہانی میں تھوڑا جگمگانے لگا تھا۔فون کا استعمال مسلسل کررہا تھا اور باتوں میں اعتماد کی لہرگردش کرتی دکھائی دے رہی تھی۔اب کی بار ندیم نے فون کان کے ساتھ لگایا تو میں تجسس مگر بےتوجہی کے انداز میں ایک قدم اس کی طرف بڑھ گیا۔ایمپرئیل ہوٹل جوہر ٹاؤن میں پچیس سو کے عوض ندیم کے کسی دوست نے کمرا مخصوص کرواکرندیم کوتصدیقی پیغام سنادیا ۔لاہور میں اگلی منزل بھی مکمل طورپر واضح ہوچکی تھی۔
وڑائچ طیارہ بس سرورس کی گیارہ اور بارہ سیٹ پر بیٹھا ہوا جوڑا ،خارجی اورباطنی خیالات کے تال میل کی ایک عجیب سی دنیا سجائےسفر کاٹ رہا تھا۔ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جوڑا لاہور پہنچ گیا،جوہر ٹاؤن کے ایک فیملی ہوٹل سے کھانا کھاکرچہلی قدم کے انداز میں ایمپرئیل ہوٹل کی طرف روانہ ہوا۔ندیم کا شب گزشتہ کا دوسرا نصف سفر میں گزرا تھا اور وہ دن بھر بھی سویا نہ تھا۔اس لیے اس کا ارادہ تھا کہ ہوٹل میں پہنچتے ہی پہلے پہر نیند پوری کی جائے ۔ندیم تھکاوٹ اورنیند کی وجہ سے بڑی مشکل سے ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے فورتھ فلور پرپہنچا۔مینجر نے ندیم کے دوست کی نصیحت کے مطابق کسی بھی سوال کے بغیر قفل کی چابی حوالے کی اورسافٹ واٹر اورکولڈ ڈرنک دیتے ہوئے روانہ ہوگیا۔بیڈ پر گرتے ہوئے اس کے ذہن میں اتنے خیالات ہجوم کررہے تھے کہ سب میں انصاف اورتقسیم مشکل پڑ رہی تھی۔عجب افتراقی صورتحال تھی کہ ایک طرف دل ودماغ کی جنگ جاری تھی اوردوسری طرف دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے ۔انجا ن ہوکر بھی کچھ مہارت دکھانے پر تلا ہواتھا اورسحر ماہر ہوکرتجاہل عارفانہ کی کلابازیاں کھارہی تھی۔ندیم جانتا تھا کہ سحر اس کے خنجرکے نیچے آناچاہتی ہے مگروہ اس معرکےکے نتائج کوحقیقت کے ترازو میں رکھ کرمستقبل کے باٹوں سے پرکھنے میں مشغول تھا اوروہ نتائج وعواقب سے بےپرواہ بالکل بھی نہ تھا۔دوسری جانب سحر، ندیم کے پیچھے اپنی اگ سگ گنوائے بیٹھی تھی۔اس نے جس دن سے ندیم کی جاب اورفیملی بیک گراؤنڈ کاسناتھااس دن ہی سوچ لیا تھا کہ اس سے کسی بدھ ضرور ملوں گی۔آج وہ اپنی فرمائش پوری کرکے خود کوہی شادکامی پہنچانا چاہتی تھی ۔مستقبل کے لیے شکار کو اپنا مستقل سامان بنانا چاہتی تھی۔سحر مسکرائی تو ندیم کی نظر سحر کے دانتوں پر ایسی پڑی کہ جم گئی اورلوٹ کہ نہ آئی اور اس سے پہلے من موہ لینے والے ایسے دانت کسی کے نہ دیکھے تھے۔بتیسی کی ایک چمک نے ہی شریف ترین انسان کے برف نظیر باطن میں آگ جلااورشعلے بھڑکادیے۔سحر، ندیم کے سلسلے میں عباس کے مقابلے میں اپنےطوفان جذبات کے معاملے میں عافیت ہونے کی طالب تھی۔جب سحرکولگاکہ ندیم شغل بےکاری سےنکل کرنیند کی وادی کی طرف کھسکتا جارہا ہے تو اس نے ندیم کوہچکولہ دیتے ہوئے‘‘اوئے ہوٹل کے پیسے سونے کے لیے دیے ہیں’’۔ندیم کی ستم رانی میں پہلی ملاقات کا خرخشہ حائل تھا ورنہ وہ بھی اپنی تھکاوت پر استزاد نیند کوپرے دھکیل کر آج کی رات بھر بھر کرجام پینا چاہتاتھا۔
ندیم اصل میں ایسا ہی تھا۔پیکر متانت اورکم گو۔وہ آرٹ کاایسا شاہکارتھا کہ پجاری جسے سجدہ کرتے ہوئے نہ تھکیں مگر سحر اس پری صورت کو دیکھنے سے زیادہ چکھنے پرآمادہ تھی وہ چاہتی تھی کہ باتوں کا شہزادہ اب عمل کے میدان میں آئے اورجذبات کے قلعوں کومسمارکرتے ہوئے اس کی دیواروں کوتہہ وبالاکردے۔ادھر سحرکی مسکراہت اورشراتوں سے ندیم کوایک موافق خیال آتا توگھروالوں کی بےخبری اورباطن کی بےربطی کے سبب متضاد خیال جوق درجوق آکر پسپا کردیتے۔
ندیم بیڈ سے اٹھ کرپورب کی طرف کمرے کی کھلنے والی کھڑکی میں جاکھڑا ہوا،چند ساعتیں سوچنے کے بعد آنکھیں اٹھائیں تو آسمان کوگہرے بادلوں نے گھیر رکھا تھا اورسامنے والی بلڈنگ کی چھت پرلائیٹ کی روشنی میں مہین مہین بوندیں گرتی دکھائی دےرہی تھیں۔سحرنےاپنے لباس کوکافی حد تک ہلکاکرلیاتھااوروہ بھی باہرکانظاراکرنے کےلیے اٹھ کرکھڑکی میں ٹھنس گئی ،ابھی سربھی نہیں اٹھایاہوگا کہ زناٹے کی بجلی گرجی اورسحر ،ندیم کی کمرسے ّآن لگی۔ندیم نے اپنی مغائرت دورکرنے کے لیےباہوں کوسحرکی کمرکاکمربندبنادیا اورسحرنے بھی اس کاتطابق کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔دونوں کے عارض ولب یوں یک جان ہوگئے کہ کھڑکی سےبیڈ تک کافاصلہ کرہ ارض کا چکربن گیا۔سحر نے ملاعبت کومجامعت میں بدلنے کے لیے ندیم کادھیان لباس کی طرف متوجہ کیا،‘‘آپ سوئیں گے کیسے؟آپ کا لباس خراب ہوجائے گا’’۔ندیم نے جواب دیا‘‘سفر نے اس کوخراب کرنے میں کون سادقیقہ اٹھارکھا ہے’’۔ندیم نے قمیص اتارنےکے لیے بٹن کھولنا شروع کیے توسحرنےرسماً منہ دوسری سمت پھیرلیا۔نیلے رنگ کی شرٹ زیب تن کرکے برابر میں پڑے ہوئے بیڈ کی طرف جھانکنے لگا۔سحر نے اسے کھینچتے ہوئے شریک بستر بنالیا۔وہ پگھلے سونے کی طرح تھلک رہی تھی۔دوسرا بستر محض دکھاوے کی چیز بن کررہ گیا ۔وہ ایک ہی بستر پراکتفاکرچکے تھے اورشریک بستر سے بڑھ کرشیروشکر ہونےکوتیار تھے۔سرور زا کے لمحات نے اپنے آثاردکھانے شروع کیے تو کمرے کی لائٹیں مغلوب ہوگئیں اورحیوانی آوازیں غالب آگئیں۔
جھڑی بھی کوئی ایسی ویسی نہ لگی تھی ،یوں لگ رہا تھا کہ آسمان میں چھید ہوگیا ہے۔جہاں زمین پانی میں نہارہی تھی وہاں یہ دونوں بھی خوب سیراب ہورہے تھے۔ندیم کی آنکھیں سوچکی تھیں مگر دماغ کی کوئی بتی شاید ابھی تک لو دے رہی تھی جس کی لو میں سحر،ندیم کے دماغ سے کچھ کشید کرنے کی کوشش میں محو تھی۔یار یہ سب زندگی کا حصہ ہے سو اب ان لمحات سے باہر نکل آؤ اور آنکھیں کھول کر مجھ سے کچھ دیر باتیں کرو۔ندیم ہوٹل میں پہنچنے سے پہلے خشکا چاول کی طرح،کھلا کھلا اوراب جیسے چکٹ مالیدہ ہوتا ہے۔وہ اپنی کلا ختم کرچکا تھا۔اس کی خوشیوں کا سورج اس جلد طلوع وغروب ہوچکا تھا کہ اسے بھی نہیں اندازہ تھا کہ وہ اپنے عہدوپیمان کے ہاتھوں اس قدر جلد پامال ہوجائےگا۔‘‘یار میرا دل بہت ادا س ہورہا ہے اور ویسے بھی میری حالت نیند نے ابتر کررکھی ہے۔اب سوتے ہیں زندگی رہی تو صبح اٹھ کر باتیں کریں گے’’۔ندیم نے آنکھیں موندلیں۔سحر کو یہ بات بری لگنے کی بجائے دل کو لگی۔اس نے اپنے پرس سے موبائل نکالا اور اس کے کیمرے کا ٹائمر آن کرکے سامنے سجادیا جہاں سے دونوں کی تصویر آسانی سے محفوظ ہوسکے۔ندیم کے پہلو میں سج کر کیمرے کے ایک ہی فریم میں یوں محفوظ ہونا جس میں ایک سویا ہواہو اوردوسرا جاگ رہا ہو۔اگرچہ کمرے کامنظرتصویر کے لیےعیاں تھا مگرذہن کا منظر کافی حد تک مبہم ہوچکا تھا۔رات کے دوکا عمل ہوچکا تھا۔اوریہ چنچل نیند سے بےپرواہ اوراپنے سنگین مشن میں جتی ہوئی تھی۔پندرہ سے بیس منٹ میں مختلف زاویوں سے کچھ عکوس محفوظ کرکے اپنے دوست عباس کووٹس ایپ کردیے۔عباس کوتلقین کردی کہ پھل کے پکنے اوررس کے خود بہ خود ٹپکنے تک صبرسے کام لیاجائے۔ندیم ،خوبصورت موسم کی تاریک اوربرستی رات میں بے سدھ پڑا سورہا تھا۔ساتھ سونے والے بہت دور جاکر جاگ رہے تھے اور یہ انصاف کرنے سے قاصر تھے کہ جس کے پیسوں سے اس عالیشان ہوٹل میں پہنچے ہیں اور جس کے دل کی کشتی پر سواری کرکے یہ دریا عبور کیا ہے ،اسے ہی ڈبونے کا سوچنا تخریب کاری کی انتہا ہے۔یہ اندھے اعتماد کی بیخ کنی اورمحبت کی سانس کشی ہے۔
سفر اورنیندکا توڑا ہواندیم صبح دیر تک سوتا رہا ۔خورشید طلوع ہوکرجوانی کی کشتی میں بیٹھ کرجوبن کے قریب تھا جب ندیم کی آنکھ کھلی۔اٹھتے ہی گھڑی دیکھ کرچونک گیا اورسحر کو ہلکی سی آواز دی۔اس نے ایسے آنکھیں کھولیں جیسے پہلے سے ہی نیند کی وادی سے سرخرو ہوچکی تھی۔آنکھیں مسلتے ہوئے ندیم نے کھڑکی کھول کر باہر جھانکنا شروع کردیا۔سامنے والی چھت سے پرندوں کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔عجیب المنفعت قصہ دیکھ کرتصویرِ حیرانی بن کرسحر کو آواز دی‘‘یار! وہ دیکھیں،کتنی عجیب صورتحال ہے۔روٹی کا ٹکڑا ایک سمت پڑا ہے اورپرندے آپس میں الجھ رہے ہیں’’۔
‘‘اس میں حیرانی والی کون سی بات ہے؟’’۔
‘‘اس سے بڑھ کراورحیرانی کیا ہوگی،کبوتر کوکبوتری بھی کوے اورچڑیا کے ساتھ مل کرمار رہی ہے’’۔
‘‘اس نے بھی تو کوئی نقصان کیا ہوگا’’۔
‘‘نقصان! مگر کند ہم جنس باہم جنس پرواز کے مصداق کبوتری کو تو کوے کاساتھ نہیں دینا چاہیے ’’۔
سحر نے اس منظر کودیکھا ان دیکھا کرکے ندیم کوبھی غیر متوجہ کردیا اور واپس کمرے میں کھینچتے ہوئے دھیان ناشتے کی طرف موڑدیا۔ندیم نے ناشتے کی کال کرنے کےلیے موبائل ہاتھ میں لیا تو سسٹر اوربھائی کی مسڈ کالز کی لسٹ نےپریشان نظری کانمونہ بنادیا۔اسی سیماب نظری کے عالم میں سحر کے رات کے لباس اورصبح کے لباس میں تفاوت نے ندیم کواپنے سحر میں اسیر کرلیا۔متجسس نگاہوں میں ابھرنے والے سوال کوذہن کی نہاں وادی میں غوطہ کھانے کے لیے چھوڑدیا۔سیلفی سٹینڈ کا سامنے دیوارکے ساتھ موجود ہونا دل ودماغ میں سوالات کا خلجان سابھرپا کرگیا۔اسی اثنا میں سحر نے اپنا ہینڈ بیگ تیارکرتے ہوئے ناشتے کاتحکمانہ قول سنایا۔ندیم واش روم سے تازہ دم ہوکر لوٹا تو ناشتہ ٹیبل کی زینت بن چکا تھا۔سحر، ندیم کا انتظارکیے بغیر لسی کا گلاس نوش کرچکی تھی اورآملیٹ کی طرف ہاتھ بڑاہوا تھا۔ندیم نےباطنی ضعف کے سبب لسی کا آدھا گلاس اورچند نوالے پراٹھےکے لیے اورچائے ہاتھ میں لے کرآرام دہ کرسی پرجاموجو ہوا۔دیوار پر لگی تصاویر پر نظر جمائے ہوئے چائے کے کپ کو منزل کیا۔ناشتہ سے فارغ ہوکرجوڑالفٹ کی بجائے سیڑھیاں اترکرگراؤنڈ فلور پر آن موجود ہوا۔ہوٹل کے صدر دروازے کے بیرونی سمت گملوں میں لگے ہوئے گلاب،چنبیلی اورسورج مکھی کے پودوں پر پھولوں کاجوبن دیکھ کرسحر ان کی طرف سرک گئی۔ندیم نے کاؤنٹر پربل اداکردیا ۔بل اداکرکےوہ صدردروازے کی طرف بڑھنے لگا تو کاؤنٹر مینجر نے کہا بیٹا سنو!‘‘اگلہتی تلوار خسم کھاجاتی ہے’’۔ندیم کو سمجھ سے زیادہ جھٹکالگا،جھٹکا اتنا شدید تھا کہ اس بات کافرق معلوم کرنے میں دشواری تھی کہ زمین تھرتھرا رہی ہے یا وہ خود تلملا گیا ہے۔
بل اداکرکے وہاں سے نکلنے کے بعد سحر نے ندیم کو کہا کہ اب انارکلی بازار رنگ جماچکا ہوگا سو وہاں سے بھی چکرلگاتے جاتے ہیں۔ندیم کے لاکھ ٹال مٹول کے باوجود بھی سحر مصر رہی ،آخر وہ انارکلی بازار میں ہواخوری کےلیے جاموجود ہوئے۔بازار میں رنگا رنگ اشیا کی موجودگی اورخریداروں کی بھیڑ نے ندیم کے چہرے کے تاثرات اورباطن کے ابہامات کویکساں کرنے میں برائے نام کردار بھی ادا نہ کیا۔خواتین کے لباس کی ایک شاپ دیکھ کرسحر، ندیم کوقائل کرتے ہوئے اس میں داخل ہوگئی۔پینٹھ ابھی لگی نہیں گٹھ کترے آموجود ہوئے،رات کھانے میں بےتکلفی اوربےساختگی کے بعد یہ دوسرادھچکا تھا جس نے ندیم کے محبت کے محل کومتزلزل کردیا۔ندیم کے پرس کی ایک ایک پائی کا حساب ہونے کے باوجود بھی اس نے فراک کاسوداکرنا شروع کردیا۔
انار کلی سے دپشوری اوردل سوزی کے کھیل کوسمیٹتے ہوئے ٹیکسی میں سوارہوکر جوڑا ٹھوکر نیاز بیگ کے پل کے نیچے جاپہنچتا ہے۔ٹھوکر سے کامونکی تک کا سفر ایک کا سوکردوسرے کاموبائل پر مصروف رہ کر اختتام کوپہنچا۔کامونکی بس سٹاپ پر اتر کر ندیم نے سحرکو الوداع کیا اورخود سڑک کراس کرتے ہوئے اپنی منزل کی گاڑی کاانتظارکرنے لگا۔
بس میں بیٹھ کر گوجرانولہ سے باہر نکل کر ندیم نے سحرکو پہلا میسج لکھا‘‘امید ہے آپ خیریت سے گھر پہنچ گئی ہوں گی۔پتہ نہیں یہ میری خام خیالی ہے یا دلی خیال ۔مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ الفاظ میرے ذہن میں مکڑے کے جالے کی طرح بنے پڑے ہیں۔جہاں خیالات،جذبات اورارادوں میں تفاوت ہووہاں تعمیل اورعمل بے معنی ہوجاتے ہیں’’۔تین گھنٹے کے بعد موبائل کی سکرین پر جوابی میسج شوہوا۔‘‘یار یہ سب باتیں تمھیں اس لیے سوجھ رہی ہیں کہ میں نے اپنے سوٹ،ابوکی اجرک اورمٹھائی پرآپ کے پیسے خرچ کروائے ہیں۔محبت میں پیسہ کی حیثیت ثانوی نہیں بلکہ ہوتی ہی نہیں۔لوگ محبوب پرجان نثارکردیتے ہیں اورتم چند ہزار خرچ کرکے دل آزردہ ہوئے بیٹھے ہو’’۔
بیسواعورت کی سُو اورگلاب کے پھول کی خوشبو بڑے بڑوں کو ہلا کررکھ دیتی ہے۔ندیم بھی چاہتے نہ چاہتے میسج کرتا اورکال پرگفتگو بھی کرتا رہتا۔دوسری طرف سحر بھی اپنے ابا حضور کو یقین دلاچکی تھی کہ سوکھی لکڑیوں کا ایسا جال بچھا کرآئی ہوں کہ ذرا سی آگ سے سب کچھ جل کرخاکستر ہوجائے گا۔ادھر ابا جی مطمئن تھے اوردوسری طرف آگ جلانے کے لیے چولہے بنائے جارہے تھے ۔دوری کے ان روکھے سوکھے موسموں میں ندیم کی طرف سے شادی کی پیشکش بھی کی گئی مگر طرح طرح کے پھل کے شوقین کواپناایک بوٹا کہاں بھاتا ہے۔
میں خود حیران تھا کہ یہ عجیب کہانی ہے کہ پورا چکرکرنے کے بعد بھی ابتدائی نشان پر نظر آتی ہے ۔منزل پرپہنچ کربھی یہ بھٹکے ہوئے راہی لگتے ہیں۔اچانک محبت کے سمندر میں ایک جزیرہ آتا ہے جہاں بھٹکے ہوئے مسافر اپنی اپنی منزلوں کاسراغ پالیتے ہیں۔ہوٹل میں بیتنے والی رات میں لی گئی تصاویرعباس نامی شخص کے ذریعے سےندیم تک پہنچتی ہیں اورندیم ان تصاویرمیں اپنی حالت دیکھ کرششدر رہ جاتا ہے۔لاکھ کوشش کے باوجود بھی ندیم افشائے راز کے اصل منبع کوتلاش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ان تصاویر میں سحر بھی ندیم کی طرح ہی شیشہ تھی اس لیےندیم نے یہ ملبہ سحر پر ڈالنے اور محبت کی توہین کرنے سے گریز کیا۔ندیم جب عباس کے حصار میں نہ پھنسا،تواس نے مقامی اخبار کے جعلی ایڈیٹر کے ذریعے جعلی پوسٹ بنواکر ندیم کوشئیر کردی۔ندیم نے اپنا کیرئیر بچانے اورعزت کے کھلواڑ کے ڈر سے ان کی منہ مانگی قیمت دےکرعتاب سےنجاب پائی۔مرغی کوتکلے کاگھاؤ بہت کے مصداق ندیم کے پیچھے ہٹنے اور رابطہ منقطع کرنے کے لیے یہ وار کافی تھا ۔مگر دوسری طرف مرغی کو پالنے والا یہ جانتا تھا کہ ابھی مرغی میں دم ہے سو مزید انڈے کھائے جاسکتے ہیں۔
سحر کو اس بات کا احساس تھا کہ جال کے بہت سے دھاگے ٹوٹ چکے ہیں اب شکار اور اسی مرغی کا شکار ناممکن نہیں تو کم ازکم مشکل ضرور ہوچکاہے۔اس نے دماغ کی تمام بتیاں جلاتے ہوئے تھوڑا وققہ دینے اوربجلی کے دوبارہ سےگرجنے تک کا انتظارکرنے میں مصلحت جانی۔دوسری طرف ندیم نے اس بات کو سب سے چھپانے اورفیملی کی رضا کو اپنی رضابنانے میں عافیت جانی۔اورنمبر بلاک کرکے از سرے نو اپنے کام کاج میں مصروف ہوگیا۔عباس نے ندیم سے ہتھیائے ہوئے پیسے سحر کے ابو کے حوالے کرتے ہوئے معین حد سے زیادہ غبن کرلیے اور بلیک میلنگ کے طور سحر کو ہر رات مہمان بناناشروع کردیا۔سحر کے جب چونچلے پورے ہونے رک گئے اورجسمانی تھکاوٹ بڑھ گئی تو اس نے اپنے والدہ کاسہارا لے کراس جنگلی بیر کے درخت کی شاخیں کاٹ دیں۔
سحر نے اپنے والد کے کسی چہیتے سے شادی کرکے اپنے من کا بوٹااکھاڑنا شروع کردیا۔بد قسمتی سے بوٹا ایک جگہ سے اکھڑا تو دوسری جگہ جڑیں پکڑنےمیں کامیاب نہ ہوسکا۔اس طرح من کی اداسی ،تن کے طعنے اور پیٹ کےبہانے سب ایک ساتھ موجود تھے۔سحر کا ماضی اس کے شوہر کے سامنے تھا۔اعتبار اورمحبت نام کی کوئی چیز کوشش کے باوجود بھی وجود نہیں پارہی تھی ۔سحر کاشوہر نامور جیب تراش تھا اورشادی کے بعد اس کام میں بھی ٹھنڈا چل رہا تھا۔سگریٹ تک کے معمولی نشےسے معذور ہوکراس نے اپنے سسرکے ساتھ مل کرسحر کوماضی کا آلہ بناکر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔سحرپیٹ کی بھوک اوربناؤ سنگار کی غیر موجودگی میں ذات کا انعکاس کھوچکی تھی جس کی وجہ سے مقامی حلقوں میں تمام مہرے بےسود ثابت ہورہے تھے۔اچانک ان کوندیم کا خیال آیا اورفیملی بیک گراأنڈ کی وجہ سے رال ٹپک پڑی۔ندیم اپنی فیملی میں شادی کرکے نئی اوربھرپور زندگی کا آغازکرچکا تھا۔سحر نمبر تبدیل کرکرکے ندیم سے رابطے کرتی مگر مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔چھے مہینوں کے مسلسل رابطوں کے بعد یہ کوشش اس وقت رنگ لائی جب ندیم کواس راستے سے گزرنا تھا ۔اس نے سحرکو بتایا کہ فلاں دن میں وہاں سے گزروں گا اگر وقت ہوا تو تم سے رابطہ کروں گا تم باہر آجانا ملاقات کریں گے۔سحر اپنے شوہر کے گھر سے اپنے والد کے گھر آچکی تھی اور یہ خبر سنتے ہی وہ پھولی نہ سمائی اور اس نے فوری طور پریہ نوید ابا کے ذریعے شہر تک کہہ پہنچائی۔سحر کی دن رات کی کالز ندیم کو اعتماد میں لینے میں ایک بار پھرکامیاب ہوگئیں۔
نو نومبر کی شب ندیم نے گھر سےنکلتے ہوئے منزل کے ساتھ ساتھ جب بس تبدیل کی تو شایدہاتھوں کی لیکروں اوراوپر والے کے فیصلے کونہیں سوچا۔ندیم کہہ رہا تھا کہ ملنا ہے تو باہر آجاؤ مگر اس کی ایک ضد تھی کہ گھر میں کوئی نہیں ہے سو ادھر ہی آجاؤ۔ندیم کے لاکھ انکارکے باوجود بھی تین گھنٹے کے انتظارکے بعدسحر کے گھر ہی جانا پڑا۔سحر نے صدر دروازے پر آکر دور سے اشارہ دے کربلایااوردروازے سےگزار کرمہمان خانہ میں لےگئی۔ندیم اپنی کیفیت میں گم بیٹھا تھا کہ سحر کے ابا،شوہر اور ساس نے طےشدہ منصوبہ کے مطابق دھاوا بول کرندیم کے ہاتھ پاؤں باند ھ لیے اور خوب زدوکوب کرکے کمرے میں بند کردیا۔ندیم کی جیب میں سےجو بیس اکیس ہزارملا تھا شام تک شاہ خرچی کی۔ شام کوندیم کے کمرے میں تینوں پھرآ جاموجود ہوئے اورویڈیو بناتے ہوئے ڈیمانڈ سامنے رکھنے لگے۔اس پوری کہانی میں آج پہلی بار ندیم اپنی اصل کی طرف لوٹ آیا تھا۔
‘‘ارے بیوقوفو!جال سے چڑیوں کے شکار کیے جاتے ہیں ناکہ شیر گرفتار کیے جاتے ہیں۔اس میں تمہاری چالاکی یا بہادری کا کوئی کمال نہیں ،یہ میری صریع غلطی تھی کہ میں نے گوبر سے اپنی قبا تراشنے کی کوشش کی تھی،پتھر کے مجسموں سے رقص کی فرمائش کی تھی اور محیرالعقول داستان کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی تھی۔مجھے نہیں معلوم تھا اس شہر کی چنچل عشق کے پردے میں جسم کی قیمت وصول کررہی ہے۔’’
سحر کا باپ یہ جملے سن کر جوش کھانے لگا:‘‘یہ ٹوکہ اورخنجر نظر آرہا؟ اسی سے تمہارے ٹوٹے ہوں گے اگر تم نے پیسے نہ منگوائے’’۔ ندیم نےیہ خبر اپنے گھر والوں کو دے کرا پنی عزت کاجنازہ نکلوانے کی بجائے جان کی بازی لگانے کی ٹھان رکھی تھی۔‘‘تم جیسے بزدلوں کے سامنے میں جھکنے والا نہیں ہوں،سن لو!ہر کوئی تلوار اٹھانے سےجنگجو نہیں بن جاتا۔ہاتھ باندھ کر چھریاں دکھا کربہادر بننے کی کوشش کر رہے ہو۔عورت کی کمائی پر پلنے والا دلال تو بن سکتا ہے مگرنڈر نہیں’’۔سحر کا باپ آنکھوں کو شراب رنگ اورآواز کوجوش دے کر بولا:‘‘صبح تک وقت شمار کرو’’
وقت کا شمار کون کرسکتا ہے۔وقت تو خود شمار کرتا ہے ، انسانوں کواورکبھی انسانوں کی حرکتوں کو۔انسان تب تک ہی قابلِ برداشت ہے جب تک انسانیت سے لبریز ہے۔جب یہ خول انسانیت سے خالی ہوتا ہے تب درندوں کی صف میں شمارکیا جاتا ہے۔کھانے میں جن چیزوں سے نفرت کرتا ہے پھر انہی چیزوں کو کھانا پسند کرتا ہے۔اعضا سے خون بہے تو مرہم ڈھونڈتا ہے اور کبھی یہی انسان زخم دینے کے لیےجسم ڈھونڈتا ہے ۔وقت کی رفتار نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انسان مشینوں سے آگے نکل جاتا ہے اور بعض اوقات تو جذبات سے عاری صرف ایک آرامشین بن جاتاہے۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ دھمکی ہےیا انسانیت کا خاتمہ! میرے ذہن میں جس سوال نے طوفان برپا کررکھا تھا وہ یہ تھا کہ باقی سب تو ٹھیک ہے مگر ندیم کو دی جانے والی یہ سب اذیتیں سحر کیسے برداشت کر رہی ہے۔تھوڑی دیر پہلے دی جانے والی دھمکی کو پایہءتکمیل تک پہنچانے میں سحر کاکیا کردار ہے اورکیا عمل رہے گا۔
ندیم نے مقید جسم کی آزاد زبان اور فراخ دل سے چند جملے ادا کرنے کے لیے شب کے دوسرے نصف کے ابتدائی حصے میں سحر کو پاس سے گزرتے دیکھ کر کہا‘‘موت سے بزدل ڈرتےہیں اور بزدل محبت کی مقدس وادی میں اپنے ناپاک قدم کبھی نہیں رکھ سکتے۔یہ بات وہم وگمان سے نکال دو کہ میں ڈر گیا ہوں یا نجات چاہتا ہوں بس یہ کہنا چاہوں کہ کہ اپنی بےوفائی اور میری وفا کااندازہ لگانے کے لیے میرا سینہ چاک خود کرو تاکہ دونوں کے حروف قیامت تک کے لیے اپنی اپنی جگہ ثبت ہوجائیں’’۔ سحر نے جعلی مسکراہٹ چہرے پرلانے کی ناکام کوشش کی۔اور بغیر لب ہلائے شرمندہ باطن کے ساتھ دوسرے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ندیم نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا‘‘محبت کی ہرنشانی بڑی خطرناک ہوتی ہے اور اگر من وارنے سے یہ نشانی دوام پالے تو سودا مہنگا نہیں ہوتا۔اگر چہ دام وصول کرنے والا ادا کرنے سےپہلےبیوپاری بن گیاہو’’۔
تقریباً اڑھائی گھنٹے بعدجب موذن اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ کے کلمات پرپہنچا تو سحر کا ابا اورشوہرتیز دھار اوزار کے ساتھ وارد ہوئے اور آتےہی ندیم کے منہ ٹیپ لگاکرتیز دھار آلہ سے گردن تن سے جدا کردی۔دالان کی دیواروں کی اینٹیں سمینٹ سے بےنیاز،گتھم گتھاہوکرسرگوشیاں کرنے لگیں اورفضا میں ایک عجب سکوت طاری ہوگیا تھا۔تینوں اپنے کام میں مگن تھے جیسےعید کے دن قصاب عید سے بےنیاز اپنے کام میں جتے ہوتے ہیں۔تینوں آپس میں نظریں ملانے سے قاصر تھے۔باہر بہت اندھیرا تھا آسمان کی بلندی سے دیکھاتو یوں لگا کہ ٹبہ محمد نگر کی پوری آبادی کو ابدی تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لےلیا ہے۔جو آبادی ہے وہ آبادی ہے ہی نہیں ۔صحن میں املی کا پیڑ بہت خوش تھا کہ آج شگفتہ روح کوعذابِ زندگی سے آزادی ہوگئی ہے۔چکور بن کرچاند کی تاک میں آسمان کی طرف اڑ گئی ہے۔پیڑ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اب کون سی ڈراؤنی روحیں اس گھر میں بسیرا کرنے والی ہیں۔سحر دوسرے کمرے سے پاس آکر بولی :‘‘اس نے مجھےاپنے بچپن کا ایک بیگ دیا تھا اسی میں اس کے ٹکڑے ڈال کر نالہ لئی میں بہادیےجائیں’’۔فرمان اورعباس بیگ اٹھا کر نکلے توان کی چال میں لڑکھڑاہٹ سے ہر قدم جرم کی مہر تصدیق کے طور پرثبت ہوتا جار ہا تھا۔