You are currently viewing مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیت صحافی جریدہ’’الہلال ‘‘ کی روشنی میں

مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیت صحافی جریدہ’’الہلال ‘‘ کی روشنی میں

محمد شفاء اللہ صدیقی ندوی

صدر شعبہ اردو ،عربی ومطالعہ اسلامیات

گرین ویلی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ سری نگر جموں وکشمیر

مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیت صحافی جریدہ’’الہلال ‘‘ کی روشنی میں

ہندوستانی صحافت کے افق پر بیسویں صدی کے بالکل آغازمیں جن دو عظیم صحافیوں کی ہر دل پر حکمرانی اور جن کی وجہ سے انگریزوں کو ہرپل بے قراری رہی وہ تھے مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر۔ ہمہ جہت صحافیانہ صلاحیت و قابلیت کے ساتھ مثل آفتا ب آفروکش ہونے والی شخصیت ،عہد ساز صحافی اور موثر قلم کار محی الدین احمد ابوالکلام آزاد ؒ جنون آزادی کی خوں چکا حکایات تحریر کرنے والے بے باک صحافیوں کی فہرست میں صدر مقام کے حامل ہیں۔

         جغرافیائی اعتبار سے مرکز عالم کی حیثیت رکھنے والے ملک عرب کے تاریخی اور مبارک شہرمکہ میں 1888 ؁میں تولد پذیر ہونے اور سرزمین حجاز پر بچپن کے خوش گوار لمحات بتانے والے اس روشن خیال صحافی کی مذکورہ دھرتی پر ہونے والی اس مضبوط اور روحانی ابتدائی تعلیم وتربیت نے طبیعت کو موزونیت بخشنے اور شرافت و نجابت کو تقویت عطاکرنے میں نہ صرف یہ کہ اہم کردار ادا کیابلکہ برصغیر کو ایک ایسا کوہ کن صحافی اور دیدہ ور ادیب بخش دیا کہ جس کے قلمی قوت نے شرپسندو ں کے دانت کھٹے اور عیاروں کی عیاری کی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ۔وہ اپنے والد کے ساتھ لڑ کپن کی عمر کو پہونچتے ہی ہندوستان تشریف لائے اور یہیں مزید تعلیم وتربیت حاصل کرنے لگے ،ان کا خاندا ن بہت مختصر افراد پر مشتمل تھا جبکہ ہر طرح کی خوشحال حاصل تھی ،اس وقت کے رواج کے مطابق ان کی تعلیم ہوئی ،وہ بڑی محنت و جانفشانی سی تعلیم کی تحصیل میں مگن رہے اور اچھے طالب علموں میں شمار ہونے لگے ۔ وہ اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی بہترین قلم کار اور تعمیری تخلیق کا ر کا ثبوت پیش کرنے لگے تھے ۔

         وہ چونکہ ایسے خاندان کے چشم وچراغ تھے جو سرزمین حجاز سے ہجرت کرکے ہندوستان آبسا تھا۔اس لیے ان کے آبائی وطن یا ان کی مستقل جائے سکونت کے بارے میں مختلف اقوال ملتے ہیں ۔تاریخ حقائق سے پتہ چلتاہے کہ وہ پہلے اپنے والدکے ساتھ دلی میں مقیم رہے اور بعد میں ان کے والد نے جب  ۱۸۹۷؁ء میں کلکتہ کو مستقل جائے سکونت کے بطور ااختیار کرلیا تو آپ کی جائے سکونت یہیں ٹھہری ۔

         محض گیارہ سال کی عمر میں ان کی پہلی ادبی تخلیق ایک طرحی غزل’’ پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی ‘‘ کی صورت میں ہندوستان کے مشہور شہر ممبئی سے سال ۱۹۰۰؁ء  یا ۱۹۰۱؁ء میں حکیم عبد الحمید فرخ کی ادارت میں شائع ہونے والے ’’ گلدستہ ارمغان فرخ‘‘ میں شائع ہوئی ۔(۱)اس طرح ان کی صحافتی کاوش کا نقش اول محض بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں سامنے آیا۔کیوں کہ صحافت بالخصوص مطبوعہ صحافت -جس کے عناصر ترکیبی میں روزنامہ ، سہ روزہ ، ہفت روزہ ،پندرہ روزہ اخبارات وغیرہ کافی اہمیت رکھتے ہیں -کی غرض وغایت حالات حاضرہ کا بھرپور جائزہ اور اپنے عہد کی سماجی ،سیاسی اور حکومتی حقائق کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ نئے انکشافات وایجادات سے قارئین کو واقف کرانا اور انھیں اپنے گرد وپیش کے حالات سے ہمہ وقت باخبر رکھنا ہے ۔جبکہ مختلف عنوانات پر مضامین ، متنوع قسم کے فیچر، ہمہ نوع تبصرے ،ہر طرح کے کالم ، تازہ ترین مصدقہ خبریں ،تجز یاتی تحریریں ، اداریے اور مراسلے وغیرہ اس کی اصل شناخت ہیں ۔ بقول ضیاء الرحمان صدیقی ’’ صحافت ایک معزز پیشہ ہے اور سماج میں صحافی کو عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔ اخبارات محض خبریں ہی نہیں چھاپتے ،رائے عامہ بھی ہموار کرتے ہیں ۔صرف سماجی ، سیاسی ،معاشی اور تہذیبی مواد ہی پیش نہیں کرتے علم وادب کی ترویج و اشاعت بھی کرتے ہیں ‘‘۔(۲)

          برصغیر کی تقریباً سبھی یونی ورسٹیوں کے اردو نصاب ہائے تعلیم میں مولاناؒ کو بحیثیت خطوط نگار اور صحافی پڑھا اور یہاں کے کونے کونے میں ان کی جاندار سیاسی خدمات کے طفیل تمام تر اعزازات کے ساتھ انہیں ہر سال یاد کیا جاتا ہے، میں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کی چہاردیواری میں اپنے تین سالہ دورطالب علمی میں متواتر اور ملک کی معتبریونیورسٹیوں کی چارسالہ مدت حصول علمی میں وقفہ وقفہ سے ان کی علمی،تربیتی ،قلمی ،سیاسی اور روحانی خدمات و کارناموں کی خوش گوار اور حوصلہ بخش گونج سنی ہے ، ان کی تقریروں اور دیگرتحریروں کو بھی پڑھا ہے ،بنابریں اگر میں بشیر بدر کے الفاظ میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ :

                       میں شاہر اہ نہیں راستے کا پتھر ہوں

                       یہا ں سوار بھی نیچے اتر کے چلتے ہیں

          اردو اور فارسی دونوں-جو انہوں نے فارسی اور اردو کے زبردست ماہر اپنے والدخیر الدین ؒ سے سیکھی تھیں- زبانوں میں ان کی دست رس اور عربی زبان -جو ان کی مادری زبان تھی -تینوں نے ان کی علمی شخصیت کو نکھارنے اور چمکنا نے گراں قدر کردار ادا کیا ۔ آپ کی اردو تحریروں میں نظر آ نے والی اسلوبی کشش اسی عربی اور فارسی کی مرہون منت ہے ۔غبار خاطر- جو آپؒ کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جنہیں آپ نے گوالیار میں اپنی محبوسیت و محصوریت کے زمانے میں قلبی بھڑاس نکالنے کے لیے اپنے دیرینہ اور مخلص دوست حبیب الرحمان خان شیروانی ؒ کو لکھے تھے- آپ تحریری صلاحیت کا امین اور آپ کی قلمی فتوحات کی دلیل ہے ۔اس میں اپنا یا گیا پیرایہ ٔ اظہار نہ صرف یہ کہ انوکھا اور پرکشش ہے بلکہ اس میں بطور حوالہ شامل کردہ عربی اور فارسی کے منتخب اور عدیم المثال اشعار ،استعمال کردہ الفاظ و محاورات اور امثال وتراکیب آپ کے ذوق زبان ،مطالعہ کی وسعت اور علمی تعمق کے گواہ ہیں ۔اسی اسلوب نے ہر قاری کو پہلی فرصت میں اپنی گرفت میں جکڑلیا اور اس دور کے ادبا بھی معترف ہونے پر مجبور ہوئے ۔مولاناؒ کی اسی طرز تحریر- جو ان کی تمام تر تصانیف میں قدرے نشیب وفراز کے ساتھ ہر جگہ نظرآتی ہے – سے متاثر ہوکر غزل گو شعرا کے سردار(رئیس المتغزلین) اور اردو کے ممتاز نثر نگار حضرت فضل الحسن حسرت ؔ موہانی نے اس کی تعریف وتوصیف اور اس کی قدر ومنزلت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی مشہور غزل- جس کا مطلع ’’تجھ سے گروید ایک زمانہ رہا ‘‘ تھا اور جو رسالہ ’’نظارہ ‘‘ میرٹھ میں شائع ہوئی تھی- کے مقطع میں بجا طور پر کہا تھا (۳ )

                      جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر

                     نظم حسرتؔ میں کچھ  مزا نہ رہا

          مولانا ابو الکلام آزاد تحریک آزادی ہند کے ہمت و ر مجاہد ، دانش ور قائد، دوراندیش رہبر قوم و ملت، میدان سیاست کے نا قابل تسخیر شہسوار ۔زبردست ادیب ،مسحور کن مقر ر اورہر دلعزیز مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فقید المثال عالم اور دیدہ ور مفسر قرآن بھی تھے۔ آپ کی تصنیفات وتالیفات کو پڑھ کر اور آپ کے خطبات کو سن کر آپ کی انوکھی زبان کی چاشنی محسوس ، البیلی فکرکی گہرائی سمجھی اور مستقبل کے حوالے سے موزوں پیشین گوئی کی سیکھ معلوم ہوتی ہے ۔ ان کی شخصیت بڑی پہلودار تھی وہ بیک وقت کئی جہتوں سے متعارف تھے۔ وہ عالم دین ، خطیب بے باک ، جاں باز سیاست داں ،خوش فکر و خوش گلو شاعر، شگفتہ مزاج ادیب، صاحب طرز انشاء پرداز ،اورسرفروشانہ جذبہ کے حامل صحافی تھے ۔ہر میدا ن میں انھوں نے کماحقہ فرائض کی انجام دہی سے کام لیا ۔بنابریں غبار خاطر کے دیباچہ میں حکیم اجمل خان نے اگر یہ لکھاہے تو بالکل صحیح لکھا ہے:

 کہ ’’مولانا کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میںبٹی ہوئی ہے ۔وہ ایک ہی زندگی اورایک ہی وقت میں مصنف بھی ہیں،مقرربھی ہیں ،مفکر بھی ہیں،فلسفی بھی ہیں،ادیب بھی ہیں،مدبر بھی ہیں۔اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی جدو جہد کے میدان کے سپہ سالار بھی ہیں،،۔(۴)

اس میں شک نہیں کہ مولاناؒ کی خدمات ہر حیثیت سے قابل تعریف اور لائق ستائش ہیں ۔

         خدا نے غیر معمولی حافظہ کی دولت اورذہانت کی نعمت سے سرفراز کیا تھا ، زیر کی اور دوراندیشی کا بیش بہا اور انمول خزانہ بھی انہیں بارگاہ الٰہی سے عطا ہوا تھا ، بلند پر وازی بھی نصیب تھی ،عالی ہمتی بھی تھے ،ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ہونے کے باعث ، محض بارہ سال کی عمر میں عربی زبان و ادب کی مباد یات سے نہ صرف یہ کہ  اچھی واقفیت حاصل کی تھی بلکہ اس کے رموز وعلائم سے بھی اچھی طرح باخبر ہوگئے تھے ۔ چنانچہ پندرہویں بر س کے ہوئے تو  طلباء کی ایک بڑی تعداد ان سے کسب  فیض کرنے لگی۔یعنی صرف پندرہ سال کی عمر میں مدرسی کا فریضہ انجام دینے لگے۔غرض یہ کہ اپنی تحریر ،تقریر ، مقالات ، خطبات اور انداز فکر و خیالات کے باعث آپ کی کم عمری کے تناظر میں لوگ آپ کو دیکھ کر حیرا ن و پریشان اور انگشت بدنداں رہ جاتے تھے ۔

         مولانا آزاد اپنے آپ میں ایک انجمن شخصیت صحافی تھے جہاں براجمان ہوتے ایک مستقل دنیا آباد کرلیتے اس لیے انھیں فیض آباد، دلّی ، کلکتہ ،رانچی وغیرہ سے منسوب کرنے سے بہرحال بہتر ہے کہ انھیں ہندوستان کی ایک ہمہ جہت اور عالمی شہرت یافتہ شخصیت کی حیثیت سے ان کا صحافیانہ تعارف اور ان کی صحافتی خدمات کا احاطہ کیا جائے ۔

          مولاناابوالکلام آزادؒ نے جب اس کوچہ صحافت میں قدم رکھا تو اس وقت ہندوستان میں صحافت کو 119 سال بیت چکے تھے اورخود اردو صحافت کی عمر بھی77- 78 سال ہوچکی تھی اور پورا برصغیر انگریزوں کی غلامی سے نجات کا خواہاں تھا۔اس (برصغیر)سے شائع ہونے والے سبھی اخبارات و مجلات اور اس کے چپے چپے پر کیے جانے والے جملہ خطابات و اعلانات صرف اور صرف حصول آزادی کی خاطر کیے جانے والے عمل پیہم سے عبارت تھے۔اس لیے مولانا کی صحافیانہ شناخت پر خامہ فرسائی کرنے اور ان کی صحافتی خدمات پر روشنی ڈالنے سے قبل ضروری ہے کہ اس وقت کے ہندوستان کی صحافتانہ صورتحال کا مطالعہ اور اس کا پورا پس منظر معلوم کیا جائے۔جب تک اس صحافتی صورتحال کا نقشہ ذہن میں نہ ہو اس میں نمایاں اور منفرد شخصیات کا پتہ لگا پانا غیر معقول اور بہت مشکل ہے۔

          ہندوستا ن میں صحافت و اخبارنویسی کی باقاعدہ بنیاد برطانوی حکومت کے زیرسایہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں جیمس اگسٹس ہکی کی زیر ادارت شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار’’بنگال گزٹ ،، -جسے ’’ہکیز گزٹ ‘‘ یا ’’ کلکتہ جنرل ایڈوائزر ‘‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے -سے پڑی ۔ یہ اخبار 29؍جنوری 1780؁ء کو کلکتہ سے جاری ہوا۔(۵)اس کے بعدملک میں دیگر زبانوں میں صحافت کے سیل رواں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ۔چنانچہ بنگال پریسڈنسی سے ’ ’انڈیا گزٹ‘‘ (۱۷۸۰؁ء )،’’کلکتہ گزٹ‘‘(۱۷۸۴؁ء)،’’بنگال جرنل ‘‘(۱۷۸۵؁ء) ،’’ انڈین ورلڈ‘‘ ( ۱۷۹۱؁ء)،’’بنگال ہرکارو‘‘(۱۷۹۵؁ء)، ’’ ایشیاٹک مرر‘‘ (۱۷۹۹؁ء)،’’مارننگ پوسٹ‘‘(۱۷۹۹؁ء)اور ’’اورینٹل اسٹار‘‘(۱۷۹۹؁ء)نامی کل آٹھ اخبارات جاری ہوئے ۔جب کہ مدراس پریسڈنسی سے ’’مدراس کوریئر‘‘ (۱۷۸۵؁ء) ،’’مدراس گزٹ‘‘(۱۷۹۵؁ء)اور ’’انڈیاہیرالڈ‘‘(۱۷۹۵؁ء)کل تین اخبارات بڑی آب وتاب کے ساتھ جاری ہوئے ۔رہا ممبئی پریسڈنسی تو اس باب میں وہ تین اخبارات کے ساتھ ہندوستانی تاریخی صحافت کا لازمی حصہ رہا ہے ۔یہ تینوں اخبارات ’’ بامبے ہیرالڈ‘‘  (۱۷۸۹؁ء) ،’’بمبئی گزٹ‘‘ (۱۷۹۰؁ء) اور ’’بامبے کوریئر(۱۷۹۰؁ء)کے نام سے متعارف رہے۔(۶)اس طرح ملک کے طول وعرض میں صحافت نے اپنے پرپھیلالئے اور اپنے فرائض بھی اپنی مجوزہ پالیسیوں کے مطابق انجام دینے میں جٹے رہے ۔

          ہندوستان میں چونکہ صحافت یا اخبار نویسی کا آغاز پہلے پہل انگریزی پھر بنگالی اور اس کے بعد اردوزبان میں ہوا۔چنانچہ ’’ کلکتہ جنرل ایڈوائزر۱۷۸۰؁ء ’’ کے بیالیس سال بعد   27؍مارچ 1822کو اردوکا پہلااور ہفتہ وار اخبار’’جام جہاں نما‘‘ منشی سدا سکھ مرزا پوری کی ادارت میں سرزمین کلکتہ سے شائع ہوا۔اس کے بعد اردو اخبارات کا ایک خوش گوار سلسلہ قائم ہو گیاچنانچہ 1837میںممبئی سے ’’ آئینہ سکندری‘‘،1836؁ء میں دلّی سے مولوی محمد باقر کی ادارت میں ’’اردو اخبار،، یا ’’دلی اردواخبار ‘‘ ،1837؁ء میں مرزا پورسے ’’خیرخواہ ہند‘‘،1841؁ء میں دلّی سے سید محمد خان کی ادارت میں ’’سید الاخبار ‘‘،1842؁ء میں مدراس سے ’’جامع الاخبار ‘‘،’’ 1845؁ء میں دلی کالج سے ’’قران السعدین‘‘اور اسی سال ’’ فوائدالناظرین ‘‘،1847؁ء میں لکھنؤ سے ’’لکھنؤ اخبار‘‘،1850؁ء میں لاہور سے ’’کوہ نور‘‘،1852؁ء میں بنارس سے بابوکاشی داس منتر کی ادارت میں ’’آفتاب ہند‘‘،1855؁ء میں بمبئی سے منشی امان علی لکھنوی کی ادارت میں’’کشف الاخبار‘‘ اور 1857؁ء میں لکھنو سے ’’معدن الاخبار‘‘ شائع ہوا۔

         ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف کی جانے والی ٹھارہ سو ستاون کی ناکام بغاوت اپنے آپ میں ایک مستقل تاریخ ہے ۔اس کے منفی اور متعصبانہ نتائج نے بھی ملک کی جہت کی تعیین میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔اخبارات سماج کا آئینہ اور اپنے عہدکی جیتی جاگتی تصاویر ہوتے ہیں اور سماجی کی تبدیلیاں یا سماجی تبدیلیاں بہرحال ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔  یہ ناکام بغاوت تحریک آزادی ہند کے لیے ایک طاقتور محرک ثابت ہوئی اور انگریز مظالم کے خلاف پورا ملک اپنے جملہ ممکنات کے ساتھ کھڑا ہوگیا ۔اس طرح انیس سوسینتالیس تک سیاسی تحریکات کے گام بہ گام اردو اخبارات و مجلات تحریک آزادی کی جدوجہد میں پوری طرح منہمک رہے ۔قلم کاروں نے اپنی تحریروں اور سیاست دانوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ملک کی آزادی کے لیے وقت کردیا ۔جبکہ خطبا اپنے خطبات سے شہریوں کو اپنے مغصوبہ حقوق کی بازیابی کے لیے بیدار کرنے میں مشغول ہوگئے ۔

         اس طرح مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے میدان صحافت میں قدم رکھنے سے قبل گذشتہ سطور میں ذکر کردہ اخبارات و مجلات کے علاوہ  1858؁ء میں منشی نول کشور کی ادارت میں لکھنو سے ’’اودھ اخبار‘‘،1860؁ء میں منشی ایودھیا پرشادکی سرپرستی میں اجمیر سے ایک ہفت روزہ ’’خلق خدا ‘‘ ،  1866 میں ’’ اخبارسائنٹی فک سوسائٹی،،اور پھر 1870میں’’ تہذیب الاخلاق ،، 1877 ؁ء میں منشی سجاد حسین کی ادارت میں لکھنو سے ’’اودھ پنچ ‘‘ اور1895؁ء میں مرزاحیرت دہلوی کی ادارت میں امرتسر سے ’’ہفت روزہ ؍سہ روزہ وکیل‘‘ جیسے اخبارات،مجلات ،رسالے ،جرائد اور مجموعی طور پر 1822 سے 1899 تک پانچ سو سے زائد اخبارات و جرائد شائع ہو چکے تھے۔(۷ )اسی طرح ۱۳؍جوالائی ۱۹۱۲؁ء سے قبل بیسویں صدی کے شروع میں بھی معتدبہ اخبارات ورسائل منصہ شہود پر آکر اپنی اپنی مخصوص شناخت قائم کرچکے تھے۔چنانچہ شیخ عبدالقادرکی ادارت میں لاہور سے ۱۹۰۱؁ء میں رسالہ ’’مخزن ‘‘ ،مشہور مجاہد آزادی مولانا فضل الحسن حسرت موہانی ؒ کی ادارت میں علی گڑھ سے ۱۹۰۳؁ء میں رسالہ ’’ اردوئے معلی‘‘ ، مولانا ظفر علی خان کے والد مولانا سراج الذین احمد حان کی ادارت میں لاہور سے ۱۹۰۳؁ء میں ہی تاریخ صحافت اردو کا ناقابل تسخیر قدیم اور ممتاز ہفتہ وار اخبار ’’ زمیندار‘‘،جس نے لوگوں میں اخبار بینی کا شوق پھونکااور خبروں کے انتخاب اور مستند ذرائع حصول ِخبر کے  باعث اپنے ہم عصرسبھی اخباروں پر فوقیت حاصل کی تھی، بابو دینا ناتھ کی ادارت میں لاہور سے ۱۹۰۴؁ء میں ہفتہ وار ’’ ہندوستان‘‘ اور مولانا برکت اللہ بھوپالی کی ادارت میں ٹوکیو(جاپان) سے ۱۹۱۰؁ء میں ایک بے باک اور برطانوی حکومت مخالف اردو رسالہ ’’ اسلامک فریٹرنٹی‘‘ وغیرہ کی اشاعت عمل میں آچکی تھی ۔(۸)

         مولانا نے بحیثیت صحافی اپنی صحافتی زندگی کی شروعات بہت کم عمری- محض گیارہ  بارہ سال کی عمرمیں(۹) 1899؁ ء میں ایک ماہنامہ شعری مجلہ ’’نیرنگ عالم ،،کی ادارت سے کی تھی۔ اور اپنے ماحول اور سیاست سے حیرت انگیز انہ واقفیت کے باعث نہ صرف یہ کہ مدیرانہ فرائض کو دیانت دارانہ انجام دیا بلکہ اپنی صحافتی نگارشات کو اپنے عہد کی دستاویز اور مطبوعہ صحافت کی روح ثابت کردیا ۔ان کی قلمی فتح ایسی تھی کہ ہر زندہ دل اور بامقصد قاری آٖپ کی تحریر دل پذیر کا عاشق نظر آتا تھا۔

         اس طرح1900؁ء میں ان کی صحافتی زندگی کی شروعات -جو 1927 ؁ء یا 1928؁ء میں بے پناہ سیاسی الجھنوں اور مصروفیتوں کے باعث اختتام پذیر ہوئی -ہوئی۔

         انہوں نے ۱۸۹۹؁ء سے ۱۹۱۲؁ء تک کی درمیانی مدت میں ایک درجن سے زائد اخبارات و مجلات اور رسائل و جرائدکی ادارت کا فریضہ انجام دے کراپنی ایڈیٹرانہ مہار ت اورمدیرانہ صلاحیت نہ صرف یہ کہ لوہا منوایا بلکہ رائج الوقت صحافت کو ایک نئی جہت عطا کردی ۔  جرائد و رسائل- جن کی ترتیب  واشاعت میں مولانانے بحیثیت ایڈیٹر حصہ لیا -کی فہرست کافی طویل ہے ۔بطور مثال چند رسالوں کا تذکر ہ درج ذیل ہے :

         نیرنگ عالم :۔ یہ ایک گلدستہ تھا جو ۱۸۹۹؁ء میں کلکتہ سے ان کی ادارت میں شائع ہوا۔

         المصباح:۔ نیرنگ عالم بند ہونے کے بعد مولانا کا رجحان نثر کی طرف ہوا اور اسی سال ۱۸۹۹؁ء میں ایک ہفتہ وار اخبار کے طور پر کلکتہ سے المصباح جاری ہوا ۔

          خدنگ نظر لکھنؤ:۔ لکھنؤ سے نکلنے والے منشی نوبت رائے کے اس رسالہ کی ادارت مولانانے دو سال انجام دی ۔یہ عرصہ ۱۹۰۰؁ء- ۱۹۰۲؁ء کو محیط ہے ۔

         ۱۲؍سال کی عمر میں پرچہ ’’ المصباح ‘‘جاری کرنے والے ادیوقامت صاحب قلم شخصیت اور ذہین س صحافی نے نہ صرف یہ کہ اہل فکر ودانش کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبورکردیا بلکہ اس رسالے کے بند ہوجانے کے فوراً بعد ۱۹۰۳؁ء میں محض پندرہ سال کی عمر میں ۲۰؍ستمبر ۱۹۰۳؁ء کو ’’لسان الصدق ‘‘ نامی رسالہ جاری کرکے ایک تاریخ بھی رقم کردی ۔ یہ رسالہ  اپریل -مئی ۱۹۰۵؁ء تک جاری رہا۔اسے اردو زبان وادب کی متوقع خدمات کے باب میں انجمن ترقی اردو دہلی ہند کا ترجمان کہا جاسکتا ہے ۔

          الندوہ لکھنؤ:۔عالمی شہرت یافتہ دینی دانشگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا یہ مشہور رسالہ اور اس کا نقیب تھا۔ آپ نے علامہ شبلی ؒ کی دعوت پر اس مجلہ کی ادارت بحیثیت نائب مدیر فرمائی ۔یہ سلسلہ نیابت ادارت اکتوبر  ۱۹۰۵؁ء سے مارچ ۱۹۰۶؁ء کی مدت پر مشتمل ہے ۔(۱۰)

         وکیل امرتسر:۔ برطانوی دورحکومت میں ۱۸۹۵؁ء میں امرتسرسے جاری ہونے والا اردو زبان کا اخبار تھا۔الندوہ کی ایڈیٹری سے مستعفی ہونے کے بعد وکیل کی ادارت سنبھالی ۔اس سے قبل اس کے مالک غلام محمد صاحب کی فرمائش پر عارضی طور پر اس کی ایڈیٹنگ شروع کردی تھی اور اس خیال سے کہ وکیل کا حلقہ اثر وسیع ہے اور اس کے ذریعہ مولانا کے خیالات کی اشاعت کا مناسب راستہ نکل آئے گا ،باقاعدہ طور پر وکیل کی ادارت مولانا نے سنبھال لی ۔وکیل نے ان کی ادارت میں کافی ترقی کی اور ہفتہ وار سے سہ روزہ ہوگیا۔

           زیر نظر مقالہ ’’ مولانا ابو الکلام آزادؒ بحیثیت صحافی جریدہ الہلال کی روشنی میں ،،کے عنوان سے معنون ہے۔اس کے دواہم مستقل اجزاء ہیں ۔’پہلاجزو بیسویں صدی کی دوسری دہائی کی پہلی عبقری علمی شخصیت ’’ مولاناابوالکلام آزادؒ ‘‘ سے اور دوسراجزو انہی کی صحافیانہ شہرت کی اساس ،ن کے آفاقی نظریہ کا غماز اور ان کی ترسیلی صلاحیت کا امین’’ ہفتہ وار جریدہ الہلال ‘‘ سے عبارت ہے ۔ لہذا جریدہ کے اقتباسات سے مؤید شدہ آزاد علیہ الرحمہ کی صحافتی صلاحیت و لیاقت کا تذکرہ واجب اور مقالہ کے لازمی اجزائے ترکیبی کا حصہ ہے ۔بنابریں اسی عہد ساز جریدہ کے حوالے سے بحیثیت صحافی انکا شخصیتی تعارف پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔تاہم مولانا علیہ الرحمہ کی صحافتی خدمات کا دائرہ مدۃً گرچہ صرف تین دہائیوں پر مشتمل ہے لیکن منتظمانہ، مدیرانہ ، قلم کارانہ ، محققانہ ،جرأت مندانہ کارہائے صحافت کا کینوس اور کمیت اور کیفیت دونوں حوالوں سے ان کاحجم اتنا وسیع اور طویل ہے کہ ان شاہکار صحافتی کارناموں کے عشرعشیر کا بھی احاطہ کر پا نا مشکل ہے ۔

         مولانا آزاد ؒ اخبار کی اہمیت و افادیت اور اس کی جامعیت و ہمہ گیریت سے بہت اچھی طرح واقف ہو اوراس کی ناقابل شکست طاقت کے سامنے بڑے بڑے ہٹلروں کو گھٹنے ٹیکتے دیکھ چکے تھے۔ صحافت اور اخبار نویسی کے فن پر تو صرف چودہ سال کی عمر میں قبضہ جماکر اس پر غلبہ حاصل کرچکے تھے۔چنانچہ سر عبدالقادر کے رسالہ ’’ مخز ن ‘‘ لاہور کے مئی ۲۰۰۲؁ء کے شمارے میں ’’ فن اخبار نویسی ‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ اپنے ایک تفصیلی اور تحقیقی مضمون میں اخبار کی اہمیت وافادیت ،و ذمہ داری وجواب دہی اور اس کی معاشرتی نوعیت وکیفیت پر نہایت جامع اور سہل انداز روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ :

         ’’ اخبار دراصل زندہ ہادی ہے ، جو ہر قسم کی باتوں میں ہدایت کرتا ہے ، بری باتوں سے تنفر دلاتا ہے اور عمدہ باتوں کی جانب مائل کرتا ہے، کیوں کہ انسان کی طبیعت میں اک ایسی زبردست قوت گمراہ کنندہ موجودہے ، جس کا کام انسان کو ضلالت میں ڈالنا ہے۔اس کی اعلیٰ کوششوں سے انسان سیدھے سعادت اور نیک بختی کے راستے کو چھوڑ کر شقاوت کی تنگ و تاریک اور خوفناک و پیچ دار گھاٹیوں میں آنکھ بند کیے پڑجاتا ہے ،اور اس بدبختی کے  مقام پر خوش قسمتی کے راستے کو تلاش کرتا ہے اور جب تک کہ کوئی خضر صفت رہبر ہاتھ پکڑکے منزل مقصود تک نہ پہونچائے وہ یونہی پریشان وسرگرداں رہتاہے ،اس لیے ہر قوم اور ہر فرد کو ایک رہبر اور ہادی کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور بے اس کی کوئی بھی صراط مستقیم پر نہیں چل سکتا۔

         پس حالت موجودہ کے اعتبار سے اخبار پڑھ کر قوم کا کوئی ہادی اور رہبر نہیں ہے جو اسے سیدھی راہ چلانے میں مددگار اور ترقی کا بہ دل وجان خواستگار ہو( ‘’۱۱)

         وہ صحافت کی قوت اور اس کی آہنی طاقت کو اس وقت کے ہندوستان میں حکیمانہ اور دوراندیشانہ استعمال کرنے کا ایک مجوزہ خاکہ رکھتے تھے۔ ا س لیے انھوں( مولانا ؒ )نے ۱۳؍جولائی ۱۹۱۲؁ء کو  ’’ الہلال ‘‘-جس نے ہندوستانی اردو صحافت کو ایک نئی طرح عطا کی – نامی رسالہ کلکتہ سے جاری کیا ۔ جس میں انھیں سید سلیمان ندوی ، عبد اللہ عمادی اور عبدالسلام ندوی جیسی نادر علمی اور قلمی ہستیوں کا گرانقد ر متنوع پیہم تعاون حاصل تھا۔  یہ اخبار ہفتہ وار اور مصور تھا ۔ خبروں کے انتخاب میں طاق اور ان کی درجہ بندی میں نہایت ہنرمندی کا مظہر تھا۔ انہوں نے اس ہفت روزہ الہلال کو صرف اور صرف دو مخصوص اور ضروری مقاصد کے لیے جاری کیا تھا ۔ پہلا مقصد تو یہ تھا کہ شریعت مطہرہ کی روشنی میں قوم وملت کی بے لوث خدمت کی جائے اور دوسرامقصد یہ تھا کہ بطور مبادلہ دیگر اخبارات و مجلات کی کاپیاں بسہولت وآسانی دستیاب کرائی جائیں ۔علاوہ ازیں مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیداکرنے اور ملک میں شدت سے محسوس کی جارہی قومی یک جہتی کوفروغ دینے اور ہم وطنوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی دیرینہ روایت کو خوب خوب مستحکم کرنے کے عزائم و ارادے بھی پس منظری محرکات کی حیثیت رکھتے تھے۔

         اس بے غرض و بے لوث صحافی- جو بہت کم عمری میں میدان صحافت اور مجال قلم میں ایک مضبوط قومی شناخت حاصل کرچکا تھا- کا تصور صحافت عظمت و برتری کے لحاظ سے اپنے ہم عصر صحافیوں سے بالکل ممتازتھا ۔ وہ صحافت کو صنعت یا پیشہ نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ اور دیانت دار ذریعہ ابلاغ تصور کرتے تھے ۔وہ صحافت کوا صلاح معاشرہ کے لیے ایک ذریعہ اور دین حق کی تبلیغ کے لیے دعوتی ہتھیارکے ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے ،سو انھوں نے ایسا ہی کیا۔

         وہ اخبارنویسی کو محض قوم وملک کی خدمت کاایک موثر وسیلہ تصور کرتے ہوئے کبھی کسی مالی منفعت اور کسی جاہ منزلت کی تحصیل کو اپنے پیش نظرنہیں رکھا۔وہ اپنے اس صحافتی نظریہ کو الہلال میں متعدد بار شائع بھی کرچکے تھے۔چنانچہ وہ’’ الہلال‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

          ’’ہمارے عقیدے میں جو اخبار اپنی قیمت کے سوا انسان یا جماعت سے کوئی رقم لینا جائز رکھتا ہو ،وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن پر ایک دھبہ اور سرتا سر عار ہے ، ہم اخبار کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھنا چاہتے ہیں ، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض الٰہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں ۔وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون۔(سورہ آل عمران ،آیت نبمر : ۱۰۴۔ )پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دبائو سے آزاد ہوناچاہیے…………… ‘‘۔(۱۲)

         اردوصحافت بھی دیگر زبانوں کی صحافتوں کی طرح اخبارکی اشاعت ، خبروں کی پیش کش ، اداریہ نگاری ،کالم نویسی ،مراسلہ نویسی وغیرہ مشتمل ہوتی اور وقت و حالات کے موافق اپنے مشمولاتی تیور بدلتی اور موقع و محل کی مناسبت سے لفظیات و تعبیرات کا انتخاب کرتی ہے ،نتیجۃً ہر اخبار ایک دوسرے اخبار سے جدا اور ہر صحافی ایک دوسرے صحافی سے منفرد نظر آتا ہے ۔رسالہ ’’ الہلال ‘‘ نے بھی موضوعات کی آفاقیت اور ترسیلی دائرے کی وسعت دونوں مستند حوالوں سے اپنے اندر بہت جلد انفرادیت پیدا کرلی۔ اس میں شائع ہونے والے مقالات ، شذرات ،اداریے ، مضامین ،کالم ،مراسلے ،ادبی تخلیقات ،تبصرے وغیرہ سب کے سب عقل کشا اور ملکی باشندوں کی اصل ضرورت کے عین موافق ہوتے تھے ۔جن سے قارئین کو نہ صرف یہ کہ اپنے مستقبل کے تئیں مطلوبہ روشنیاں حاصل ہوتی تھیں بلکہ ان میں حب الوطنی کے جذبات تمام تر مثبت قدروں کے ساتھ پنپتے تھے نیز ان میں شعوری بیداریاں جنم لیتی تھیں۔عوام کے جذبات کی ترجمانی کا فریضہ انجام دینے والی اس طرز صحافت نے حکومت وقت کی آنکھیوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرکے اس کی نیندیں حرام کردی تھیں،بنابریں اپنے ہم عصر اخبارات ومجلات میں منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت کی بدحواسی کا طاقتور محرک ثابت ہوا ۔

         الہلال کی اس کاری ضرب سے حکومت ہند لرزہ براندام ہوکر اس کی مخالفت پر اترآئی اور اس کی اشاعت میں مختلف نوعیتوں کے روڑے ڈالنے لگی ۔چنانچہ محض دو سال کی قلیل مدت میں ’’الہلال ‘‘ کے شائع شدہ جملہ مشمولات سے خائف بنگالی حکومت نے ۱۸؍نومبر ۱۹۱۴؁ء کو پریس ایکٹ کے تحت دوہزار روپے زر ضمانت کے طور پر طلب کی ۔جس کا مقصد صرف اور صر ف مولانا کو اس طرز صحافت نگاری سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا اور برطانوی حکومت کے خلاف زبردست خطرہ بن چکی اس صحافت پر قدغن لگانا تھا۔تاہم ضمانتی رقومات کی جمع کاری اور مولانا کے حوصلے میں کسی طرح کی کمی نہ آنے کے ہوش ربا منظر نے حکومت بنگال کو مزید خوف زدہ کردیا ۔جس کا اثر مولانا کی سرزمین بنگال سے جلاوطنی -جس پر مولانا نے مشہور زمانہ جملہ یہ کہا تھا کہ ’’دنیا نے جلاوطنی اور نظر بندی کی خبر سنی اور دل نے خلوت گزینی و گوشہ گیری کی دولت و سعادت پائی ‘‘-کے حکومتی فیصلے کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ یہ حکمنامہ حکومت بنگال نے ڈیفنس آرڈیننس کے تحت ۷؍اپریل ۱۹۱۶؁ء کو جاری کیا تھا ۔

         مولانا نے اپنی 27سالہ صحافیانہ زندگی میں تقریبا ایک درجن سے زائد اخبارات و جرائد کی ادارت فرما ئی اور ڈھیر ساری قلمی فتوحات حاصل کی ہیں ۔ مگر اس میدان صحافت میں جو موجودہ مقام ومنزلت نصیب ہے وہ’’ الہلا ل‘‘ کا مرہون منت اور خود الہلال ان کے اس خواب کی تعبیر ہے جو انہوں نے ۱۹۰۶؁ء میں شہرامرتسر میں اپنے قیام کے دوران چشم بیداری میں دیکھا تھا کہ ایک عظیم اخبار کا اجرا ان کے ہاتھ سے ہونا ہے۔ جیسا کہ مولانا ؒ۱۳؍جولائی ۱۹۱۲؁کو شائع شدہ’’ الہلال‘‘ کے پہلے شمارہ میں اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے خود رقم طراز ہیں:

          ’’ ۱۹۰۶؁ء کے موسم سرما کی آخری راتیں تھیں جب امرتسر میں میری چشم بیداری نے ایک خواب دیکھا ،انسان کے اارادوں اور منصوبوں کو جب تک ذہن وتخیل میں ہیں ،عالم بیداری کا ایک خواب ہی سمجھنا چاہیے ۔کامل چھ برس اس کی تعمیر کی عشق آمیز جستجو میں صرف ہوگئے ، امیدوں کی خلش اورولولوں کی شورش نے ہمیشہ مضطرب رکھا ،اور یاس وقنوط کا ہجوم بارہا حوصلہ وعزم پر غالب آگیا ۔لیکن الحمد للہ کہ ارادے کا استحکام اور توفیق الٰہی کا اعتماد ہر حال میں طمانیت بخش تھا ، یہاں تک کہ آج اس خواب عزیز کی تعبیر عالم وجو د میں پیش نظر ہے ‘‘۔

         اس میں مصری صحافت کے نمایاں رجحانات -جن سے مولانا بے حد متاثر ہو ئے تھے -کی جھلک اور جمال الدین افغانی کے روح پرور زندہ تصورات کی عکس بندی دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ مصری صحافت کاایک نقشہ -جو انہوں نے ہندوستان کی صحافت کے لیے تیارکیا تھا- تھا جو ہندوستان میں بہ شکل ’’الہلال‘‘منصہ شہود پر آیا تھا۔اس میں مولانا ؒ نے مالکانہ حق کا استعمال کرتے ہوئے صحافت کی آبرو بحال رکھ کرجس طرح فن صحافت کی قدروں کی پاسداری کی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ امداد صابری اپنی مایہ ناز تصنیف تاریخ صحافت اردو میں الہلال کے خد وخال کا تذکرہ کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

         ’’13؍جولائی 1912کو الہلال /1 7 میکلوڈ روڈ کلکتہ سے ہفتہ وار جلوہ افروز ہوا ۔پہلے سولہ صفحات پر نکلا۔ لیکن اس کے بعد صفحات کی قید نہیں رہی ۔ضرورت کے مطابق صفحات مقر ر ہو جاتے تھے ۔ سرورق کی ابتدا’’لاتہنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین کی آیت سے ہوتی تھی ۔سرورق کے ۵/۲ حصہ پرالہلال کا نام تحریر ہوتا تھا ۔ یو ں تو اس زمانے میں بہت سے اخبارات و رسائل نکلتے تھے ۔مولانا آزاد ان اخبارات سے علہدہ ہوکر ایک نرالی وضع اورانوکھی شکل کا انتہائی اعلی پایہ اور معیاری اخبار نکالنا چاہتے تھے۔(اس زمانے میں نکلنے والے سب کے سب اخبارات سستے کاتب کی مدد سے نکلتے تھے ۔) لیکن مولانا آزاد ؒ پرانی لکیر کے فقیر نہیں تھے ۔اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی نئی راہ اختیار کی ۔انہوں نے الہلال کو ٹائپ میں چھاپا جس میں تصاویر بھی چھپ سکیں ، جس کا میٹر علمی و تاریخی ہو اور مقصد بھی عظیم ہو ۔

         الہلال میں مذہب ،سیاست ، معاشیات، جغرافیہ،تاریخ ، عمرانیات ، سوانح ، ادب اور حالات حاضرہ پر اعلیٰ معیار کے مضامین و مقالے چھپتے تھے اور نئی کتابوں ،رسالوں اور اخبارات پر تبصرے بھی شائع ہوتے تھے‘‘۔(۱۳)

         جریدہ ’’الہلال‘‘ جملہ صحافتانہ آب وتاب کے ساتھ اور اردو صحافت کی ایک انقلابی منفرد آواز کی حیثیت سے اپنی اشاعتی زندگی کے ان ’’ 13؍جولائی 1912سے18نومبر 1914تک ،نومبر 1915 سے مارچ1916تک اور 10؍جون1927سے دسمبر1927 تک‘‘تین مستقل بالترتیب مرحلوں سے گزرا۔(۱۴)

          پہلا دور جو13؍جولائی 1912سے 18نومبر 1914تک مدت پر مشتمل ہے وہ نوخیزی مگر زبردست انقلابی پیغامات رسانی کا زمانہ ہے ۔ اس دور میں مشمولات و ترسیلی اقدارس کی پاس داری پر اس جریدے یا ہفتہ وار مصور اخبار نے متعد اشاعتی پابندیاں جھیلیں ۔چنانچہ ستمبر ۱۹۱۳؁ء میں حکومت وقت نے دوہزار روپے کی ضمانت لی اور جس کی ادائیگی کے الہلال کا کاروان بیداری روایتی آب وتاب کے ساتھی جاری وساری رہا ۔تاہم ۱۶؍ نومبر ۱۹۱۴؁ء میں نہ صرف یہ کہ حکومت نے ستمبر۱۹۱۳؁ء میں جمع کی گئی دوہزارروپے کی ضمانتا نہ رقم ضبط کرلیا بلکہ دوبارہ ضبطی اور خانہ تلاشی کا وارنٹ اسی ماہ نومبر کی مذکورہ تاریخ کو مولانا ؒ کے غائبانہ میں جاری ہوااور موقع پر ایک ساتھ مؤرخہ ۱۴؍ اور ۲۱؍اکتوبر ۱۹۱۴؁ء کے شائع شدہ دونوں شمارے بھی ضبط کرلیے گیے۔ (۱۵)اس دور میں الہلال کے کل ایک سوگیارہ (۱۱۱)شمارے منظر عام پر آئے اور قارئین سے دادو تحسین حاصل کیے۔ مجموعی طورپر جن کامشمولاتی رنگ اور نگارشاتی آہنگ’’شذرات،مقالات،مراسلات،ادبیات،فکاہات،وثائق و حقائق،  باب التفسیر ، قصص القرآن ، بصائر ومواعظ، نتائج و عبر، مراسلہ و مناظرہ ، تاریخ حیات اسلامیہ ،برید فرنگ ، عربی زبان اور علمی اصطلاحات ، انتقاد ، شئون اسلامیہ ، شئون عثمانیہ ، افکارو حوادث ، آثار عتیقہ ، مذاکرہ علمیہ ، مطبوعات جدیدہ ، عالم اسلامی ، رفتار سیاست اور اشتہارات و اعلانات

جیسے دل کش تحریری گوشوںاور نمایاں سرناموں سے اپنی پیشانیاں سجائے ہوئے ہوتا تھا۔

         دوسرا دور مولانا کی جاں بازانہ صحافت کا ترجما ن اور جہاں چاہ وہاں راہ کی مکمل مصداق ہے۔ ان کے نظریہ آزادیِ پریس کی عملی کوششوں کی دستاویزی سند ہے۔انہوں نے ہر رکاوٹ کا مردانہ وار حکمت و دانائی سے پر مقابلہ کیا اور تحصیل مقاصد کو ذہن میں رکھ کر وقفہ وقفہ سے اپنی صحافتانہ حاضریاںدرج کراتے رہے ۔ چنانچہ اس بار۱۲؍ نومبر1915 سے ۳۱؍  مارچ1916تک ’’ البلاغ‘‘ نامی غلاف میں زیور اشاعت سے آراستہ ہونے والے’’ الہلا ل‘‘ کو میں نے دانستہ طور’’ الہلا ل‘‘ کہا ہے ۔ جریدہ الہلال کا دوسرادور بھی نہایت سنہرا اور انقلابی و بامرادی رہا ہے۔ نام کی ظاہری مناسبت سے اس کی پیشانی پر آیت قرآنی: ’’ ہَـذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنذَرُواْ بِہِ وَلِیَعْلَمُواْ أَنَّمَا ہُوَ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَلِیَذَّکَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَاب‘‘(سورہ ابراہیم ؍آیت نمبر ۵۲)لکھی ہوتی تھی۔ اس دوسرے دور میں الہلال (البلاغ ) کے کل گیارہ (۱۱) شمارے ہی منظر عام پر آسکے ۔اس دور میں سارے اخباری مشمولات ’’ترجمان القرآن ، ادبیات ، اطلاع ضروری ، فاتحۃ البلاغ ، کائنات خلت ، بصائر و حکم ، مقالات ،مذاکرہ ٔ علمیہ ، آثار عتیقہ ، دار الارشاد ، مالابدمنہ، السحر الحلال فی مجلدات الہلال ، تاریخ  وعبر، ایجنٹوں کے لیے کمیشن ، باب التفسیر ، غزل ، مراسلات ، تاریخ تمدن اسلامی کا ایک صفحہ ، المراسلۃ والمناظرۃ، اڈیٹر الہلا ل کی رائے ، اسئلۃ و اجوبتہا،مواعظ و خطب ، مختارات ،شذرات ، احرار اسلام ، اسوۂ حسنہ ، برید فرنگ ، شئون اسلامیہ ،مطبوعات جدیدہ ،مدارس اسلامیہ اور اشتہارات و اعلانات جیسے زمروں کے تحت پیش کی گئیں۔

          تیسرااور آخری دور بھی بہت تابناکی اور عالم اسلام ،عالم عرب اور عالم انسانیت تینوں عالموں کی تازہ ترین اور بروقت صورتحال کی ترجمانی سے عبارت رہا ہے ۔10؍جون1927سے۹؍ دسمبر1927 تک کی مدتوں پر مشتمل اس تیسرے اور آخری دور میں کل چوبیس (۲۴)شمارے شائع ہوئے۔ اس ( الہلال؍البلاغ)نے مجموعی طور پر اس آخری دور کے سبھی شماروں میں متنوع تعمیری تاریخی ،علمی ،دینی ، ملّی ،فکری ،ادبی اور ثقافتی مواد و محتویات ’’ مقالات ،مراسلات ، ادبیات ،آثار عتیقہ، افسانہ ، بصائر وحکم،اعتذار ،اطلاعات ضروری ،تاریخ شرق جدیدکی تاریخی شخصیتیں ،تفریح و ترویح فکر،مکتوب مصر، تاریخ و عبر، خواطر و سوانح ،باب التفسیر ،سیر فی الارض ،اشتہارات و اعلانات ،برید شرق ،برید فرنگ، مغرب کی تاریخ جدید کی تاریخی شخصیتیں ،مطبوعات جدیدہ ،عالم شرق واسلام: عام مطبوعات و صحائف،عالمی خبریں ، مذاکرہ علمیہ اقتباسات ،مکتوب حجاز ، مکتوب فلسطین ، مکتوب چین ، السحرالحلال فی مجلدات الہلال ، مکتوب شام ، مکتوب فرانس اور احرار اسلام جیسے دلکش اور جاذب نظر گوشوں کے تحت پیش کرکے اپنی اہمیت وافادیت کو تسلیم کرانے میں بھرپو رکامیابی حاصل کی ہے ۔

         برصغیری اردو صحافت کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت کا حامل مولاناآزاد ؒ کا یہ جاری کردہ ہفتہ واری اخبار ’’ الہلال‘‘-جس کی معیاری صحافت کا اعتراف سبھی معاصرین نے کیا – مذکورہ بالا اپنے تینوں ادوار میں ایک بیدار کنندہ ، پرمغز داعی ، بیدار ذہن مصلح ، دوراندیش رہنما،شعور افزا نمائندہ ،بے باک صحافی اور حوصلہ بخش ترجمان قوم وملت کی حیثیت سے سرزمین ہند پر از شروع تا آخر پوری زندہ دلی کے ساتھ براجمان رہا ہے ،اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ا ن تینوں ادوار کے تحریری نمونوں کے طور پر اس (الہلال ) کے تین مخصوص اقتباسات پیش کیے جائیں ۔ذیل میں بالترتیب تینوں ادوار سے زمانی تعلق رکھنے والے فن صحافت اور پیشہ اخبارنویسی کے سرمایہ فخر اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں :

         اقتباس نمبر ۱  یا پہلے دور کا تحریری اور صحافتی نمونہ  درج ذیل ہے( ۱۶) :

                 ’’تاریخ حیات اسلامیہ

                الہلال اور پریس ایکٹ

          زاں دل شوریدہ را برنازک خوں می نہم

                                     کاشیان مرغ مجنوں شد دل شیدائے من

         اس عہد مذلت و مصیبت میں کہ ہر مسلم ہستی کے لیے جینا ننگ و عار ہے ،ہمیں اپنے دل و جان دونوں اس لیے پیارے ہیں کہ ایک تو الہلال کے سوز عشق سے داغ دار اور دوسرا درد محبت سے بے قرارہے ۔الہلال کی محبت کو ہم تو سچے دل سے گویا خدا اور رسو ل کی محبت سمجھتے ہیں ۔ہمیں وہ بھولی ہوئی تعلیم یاد دلائی گئی ہے جسے فراموش کرکے ہم خسر الدنیا و الآخرہ کے پورے مصداق بن چکے تھے۔ہم اپنے اعتقاد میں اسی شخص کو مسلمان جانتے ہیں جو الہلال کا سچے دل سے والہ اور شیدا ہو۔وہ جسد بے روح جنہیں کل تک دنیا ومافیہا کی خبر تک نہ تھی ،آج متحرک ہی نہیں ہیں بلکہ میدان عمل میں اہل فتوت سے بھی آگے نکل جانے کا قصد کرتے ہیں۔اہل بصیرت دیکھیں یہ الہلال ہی کی صدائے حق انتما کا معجزہ ٔ مبین ہے ۔کسے خبر تھی کہ یہ عروس حق وصداقت بے نقاب ہوتے ہی اپنے جمال باطل سوز دلوں کو مسحورکرکے اک تازہ روح پھونک دے گا ؟ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔

         ضمانت الہلال کی یکایک خبر سن کر دل کو بہت قلق ہوا ۔طبیعت دیر تک بے چین رہی ۔ لیکن جب اس واقعہ کی حقیقت پر غور کیا تو چپکے چپکے اک خیال نے تسکین دیدی ۔ اور دل خون کشتہ اس نوعروس غم سے یہ کہہ کر ہم پہلو ہوگیا :

                  کلم جاں را تازہ کردی اے غم لذت سرشت!

                  نے غلط گفتم چہ غم ای من وائے سلوائے من !

                  کن کہ ہستی کردن از خون جگر آموختم

                  ننگ ہوشم باد گرجز خوں برد صہبائے من

         بجائے شکوہ کے گورنمنٹ بنگال کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اپنی خوشی یا کسی کے ایما سے الہلال کی ضمانت لے کر اس میں اور چار چاند لگادیے ۔لیکن اس کے ساتھ ہی اسے یاد رکھنا چاہیے کہ تنکوں سے دریا کا سیلاب نہیں رک سکتا ۔دوہزار اور دس ہزار کی ضمانت تو کیا بلا ہے ؟ اس دریائے رحمت الٰہی کی روانی کو انشاء اللہ پھانسی کی سختی  بھی نہیں رو ک سکتی ۔ہزاروں کیا بلکہ لاکھوں جاں فروش اپنا زور ناتوانی دکھانے کے لیے ایک اشارہ چشم کے منتظر ہیں۔ گورنمنٹ ہند کو خوب معلوم ہے کہ ’’الہلال ‘‘اک مذہبی رسالہ ہے ۔اس کے مٹانے کی تمسخر انگیز سعی کرنا گویا مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو پامال کرنا ہے ۔تمام مسلمان بہ استثنائے چند ملت فروش منافقین کے گورنمنٹ کی ایسی کارروائیوں کو نہایت غیظ و اضطراب کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔کب تک اس جور بیجا اور ستم ناروا کے ہم مورد رہیں گے ؟ اور کہاں تک ہم اپنے دلی جذبات اور مذہبی تقدیس کو پامال ہوتے دیکھیں گے ؟ کاش وہ گردنیں جو جو ان جبرو استبداد کی رسیوں کے حلقوں کو زینت گلو سمجھتی ہیں ،کٹ جائیں ،تاکہ قوم کے جسم کو اس وبال دوش سروں کے بار سے نجات حاصل ہو۔اب تو مسلمان مسلمان ہوکر زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔آخر اس بت پرستی کی کوئی حد بھی ہے ؟‘‘

         اقتباس نمبر ۲کے طور پر گوشہ ’’ مختارات‘‘ میں ’’ اسلامی دوراول ‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ یہ معلومات افزا اقتباس نہ صرف قابل مطالعہ ہے الہلال کی تحریری وصحافتی انفرادیت کی  مستند سند ہے۔  (۱۷):

         ’’اسلام کا پہلا دور حروف وفتوحات کی رزمگاہ ہے ۔مسلمانوں نے جہاد فی سبیل اللہ کے حکم عام پر عمل کیا اور توفیق الٰہی ان کی حلیف تھی۔اس لیے کوئی قلعہ نہ تھا جو ان کی انگلیوں کے اشاروں پر فتح نہ ہواہو ، اور کوئی ملک نہ تھا جس نے اسلامی شوکت سیاسی کے سامنے اپنی گردن نہ جھکا دی ہو ۔

         اسلام وہ پہلی سلطنت ہے جس نے انسانوں سے انسانیت کے لیے جنگ کی اور اقوام عالم کو یہ جتلادیا کہ فاتح مسلمان اپنے مغلوب دشمن پر رحم کرتے ہیں ۔اور جب ان کا مقابل تابع و فرماں بردار ہوجائے تو وہ اس کے ساتھ رحیمانہ نرمی کے سلوک سے پیش آتے ہیں ۔خواہ وہ لڑنے سے پہلے صرف رعب اسلام سے مرعوب ہو کر اطاعت گذار ہوا ہویا جنگ کے بعد شکست کھا کر ‘‘۔

         اقتباس نمبر ۳ یا تیسرے دور میںالہلال کی انفرادیت اور ناقابل تسخیر فوقیت کی عکاس تحریر درج ذیل ہے (۱۸):

         ’’بلاشبہ اسلام نے خاص خاص صورتوں میں قتل کی اجازت دی ہے ۔صرف اجازت ہی نہیں بلکہ بغیر کسی جذبہ ٔ اعتذار کے کہا جا سکتا ہے کہ ترغیب دی، لیکن وہ صورتیں وہی ہیں جن میں نہ صرف اسلام نے بلکہ دنیا کے عالمگیر اخلاق وانسانیت نے قتل انسانی کے ناگزیر ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔قتل انسانی کی یہ ناگزیر صورتیں اس لیے گوارا نہیں کی گئی ہیں کہ انسانوں کو قتل کیا جائے ،بلکہ اس لیے کہ انسانوں کو بچایا جائے : وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون(سورہ بقرہ ؍آیت نمبر ۱۷۹) ایسا قتل جو قاتلوںسے انسانوں کو بچانے کے لیے ہو اگر چہ بظاہر خون بہانا ہے ،لیکن فی الحقیقت اسی میں انسانی زندگی کی حفاظت پوشیدہ ہے ‘‘۔

          مولانا کی صحافت در اصل ایک ایسی منفردانہ طرز کی دینی اورسیاسی دعوت تھی جس کے داعی مولانا خود تھے اور اپنے ساتھ اس طرز کو لے کر راہی ملک عدم بھی ہوگئے ۔وہ قرآن مجید کے مضامین کی اسلامی بنیاد قائم کرنے کے لیے اکثر حوالہ جات کا استعمال کرتے تھے ،جس سے قاری میں مذہبی جوش و خروش پیدا ہوتا تھا ۔اسلوب کی تاثیر ایسی تھی کہ اس وقت کے بیشتر مسلم پریسوں میں اتحاد اسلامی کی روح مولاناؒ نے ڈال دی تھی ۔خوب سے خوب تر اور خوب ترین کی صفات بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے دور میں نمایاں ہیں ۔زائد از نو دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی ’’الہلال‘‘ کی صحافتی ،ادبی ،علمی ،تاریخی اور معلوماتی اہمیت وانفرادیت جوں کی تو ں مسلم ہے ۔

         ہلال کی انفرادیت اور مولانا آزاد ؒ اور ان کی صحافیانہ بالادستیوںکے اعتراف میں مشہور زمانہ اردو رسالہ ’’ نگار‘‘ کے ایڈیٹر اور معروف تنقید نگار نیاز فتحپوری ایک جگہ رقمطراز ہیں :

         ’’ مولانا نے الہلال جاری کیا اور اس شان کے ساتھ کہ صحافت کا تمام اگلاپچھلا تصور ہمارے ذہن سے محو ہوگیا اور سوچنے لگے کہ کیا یہ آواز ہماری ہی دنیاکے کسی انسان کی ہے ؟‘‘( ۱۹)

           الہلال ہندوستان کاپہلا مصور ،سیاسی وہ اردو مجلہ ہے جس کی اشاعت کا اصل مقصد آیت قرآنی ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْن ۔(۲۰)ترجمہ: اے  ایما ن والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی مت کرو،کیوں کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ۔کی عملی تفسیر و توضیح سے مسلمانان ہند کو واقف کرانا تھا ۔ بنابریں اس میں مصلحانہ مضامین ،راہنمانہ وقیع مقالات اور تجددید احیا ئے دین کی غرض سے شائع شدہ پر خلوص بیش بہانگارشات د یکھنے کو ملتی ہیں ۔ مولانا دراصل قو م مسلم کی سربلندی و برتری چاہتے تھے ۔انکا عقیدہ تھا کہ انگریزوں سے مسلمانو ںکی وفاداری قطعی غیر اسلامی ہے ۔ جس کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی کسی خو ددار قوم کے شایا ن شان ہے ۔

         مولانا آزاد چونکہ ادب کی راہ سے صحافت میں داخل ہوئے تھے اسی لئے ابتدائً ان کی صحافت پر ادب کا رنگ چڑھا ہو تا تھا ۔ رفتہ رفتہ دینی علمی مضامین سے ہوتے ہوئے الہلال اورالبلاغ تک انکی صحافت پر سیاست کا غلبہ بنظرطائر بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔

         ہلال کی تحریر کا ایک مختصر ترین نمو نہ ملا حظہ کیجئے :

         ’’اللہ تعالی نے مسلمانو ں کو خیرا لامم بنایا اور دنیا میں اپنی نیابت اور خلافت بخشی ۔پس اپنے درجہ کو ہر مسلمان محسوس کر ے اور افسردگی ،بے ہمتی ،خو ف و مرعوبیت کی جگہ اپنے اند ر بلندی ،خودداری ،طاقت اوراستحکام پیداکرے،،(۲۱)

         الہلال ہندوستان کی آزادی کا نقیب اور اپنے دور کا پہلابین الاقوامی خبروں کا بے باک ترجمان ہے ۔ یقینا اس نے مجاہدین آزادی ہند کی ذہنی افق کو وسعت دی اور انکے عز م وارادوں کو پختگی عطا کی ہے۔گویا جہاد حریت کا صور تھا جو الہلا ل نے اپنے عہد کے ہندوستانیوں دل ودماغ میں پھونک دیا تھا۔

          اخبار’’الہلال ،، کی پیشانی پر قرآن کریم کی یہ آیت ’’وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن،،(۲۲)ترجمہ: جلی حرفوں میں کندہ ہواکرتی تھی ۔(۲۳)

         رسالہ ’’الہلال ‘‘ کے مشمولات و محتویات کا ہر قاری مولانا کی صحافتی انفرادیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہے کہ مولانا کی صحافتی تحریروں میں ان کی فارسی شناسی ،عربی دانی ،ان کے ادیبانہ فکر ودانش کو صاف صاف محسوس کیا جاسکتا ہے ۔چنانچہ ابتدا میں اس میں شائع شدہ ان کے مضامین ومقالات کی زبان بہت ادق ،پیچیدہ ،مشکل اور ناقابل فہم ہوتی تھی ۔ رفتہ رفتہ دقت پسندی کم ہونے کے ساتھ ساتھ سہل اور قابل فہم الفاظ کے استعمال نے رسالہ کی کایاپلٹ دی ۔تاہم الہلال کے انداز میں گھن گرج ، خطابی لہجہ ،عربی وفارسی الفاظ کا بکثرت استعمال ایک خاص ذہنی پختگی اور مخصوص علمی سطح کا طالب ہے ۔اس میں کوئی شک نہیںکہ اسلوب نگارش بہت رواں ،سلیس ،برجستہ اور بے ساختہ ہے ۔ عبارت میں فارسی اور عربی اشعار کے موزوں استعمال نے اس کے حسن کو دوبالا کردیا ہے ۔ ان کے مدیرانہ تفکرات کی سنجیدگی ،کالم نگارانہ آزادی کی جھلک ،رائے عامہ کی ہمواری  کا عنصر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانوں سے مولانا کی واقفیت بھی ان کی صحافتی شناخت کے تعین میں شریک سفر نظرآتی ہے ۔

          سولہ صفحات پر مشتمل اس اخبارمیں فن صحافت یا اخبار نویسی کے سبھی مروجہ اصولوں کی پابندی اور روایتی اجزائے ترکیبی کی پاسداری کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی خبروں کے نمائندگی بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔جب کہ اس میں عالم اسلام کی خبر وں کو بڑی خوبصور تی اور پورے تزک واحتشام کے ساتھ پیش کیے جانے کی خصوصیت پائی جاتی ہے ۔رہی ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال تو اسے بھی بلا خوف و خطر صفحہ ٔ اخبار پر بکھیر دیا جا تاتھا۔

         ہفت روزہ اردو اخبار الہلال اردو صحافت میں ایک نئے باب کا آغاز تھا۔یہ مولانا آزاد کے لیے غاصب برطانوی حکومت پر کھل کر تنقید کرنے کا ایک موثراور طاقتور ذریعہ تھا ۔مسلمانان ہند کی مذہبی اور سیاسی زندگی میں انقلاب کی لہر دوڑا دی ۔ان میں ایک نئی جان پیدا کرکے تحریک آزادی ہند میں ان کی شرکت کو ناگزیر بتاتے ہوئے اس میں بھرپور حصہ لینے کی تلقین کی ۔

         ڈاکٹر انوار احمد اپنی کتاب میں معاصر اخباروں میں’’ الہلال‘‘ کی انفرادیت کوثابت اور اس کی ظاہری و باطنی خوبیوں کا عصرحاضر کے اخبارات ومجلات سے مواز نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

         ’’ الہلال اپنے ظاہری حسن ، اردو ٹائپ کے اہتمام ،کاغذ کی نفاست ، تصویروں کی شمولیت ، مضامین کی تقسیم ،افکار و معلومات کے تنوع ،خیالات کی بلندی ،مذہب ، سیاست ، تاریخ ، تعلیم ، اب کی جامعیت ، زبان کے حسن ، اسلوب کی دل ربائی اور ظاہر وباطن کے محاسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا ۔اس سے پہلے ان محاسن کا جامع کوئی اخبار نہ تھا اور اس کے بعد بھی ایک عرصہ دراز تک اس کی مثال نہ پیش کی جاسکی اور آج بھی اگر رنگین و حسین طباعت کی دل فریبیوںسے صرف نظر کرلیا جائے تو علمی مضامین کی بلندی ، انقلابی افکار اور ظاہر و باطن حسن وسلیقے میں کوئی اخبار اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ‘‘۔ ( ۲۴)

         غرض یہ کہ الہلال یا البلاغ دونوںمحض دو صحافتی رسائل وجرائد ہی نہیں تھے بلکہ اپنے اپنے وقت کی دو ایسی مستقل اور مؤثر ادبی ،سیاسی اور سماجی تحریکیں ہیں ، جو ایک طرف اردو صحافت کے وقار کو بلندی عطا کرتی اور اسے خوش رنگ تعمیری تبدیلیوں سے دوچارکرتی ہیں تو دوسری طرف ملک کے مسلمانو ںکی صحیح وقت پر صحیح رہنمائی کا گرانقد ر فریضہ بھی انجام دیتی ہیں۔

          صحیفہ الہلال جیسا کہ مذکور ہوچکا ایک روایتی اخبار نہیں تھا بلکہ ایسا رسالہ تھا جس میں ہر ذوق کی تسکین کا وافر سامان فراہم تھا۔ اسی لیے وہ اپنے دور میں ایک بہت ہی مشہور اخبار بنتا چلا گیا ۔اس کی اشاعت کا ہندسہ پچیس ہزار سے زائد تھا،جو دیگر ہم عصر اردو اخبارات کے حوالے سے اردو صحافت میں ایک نیا ریکارڈ تھا ۔ بنابریں طلبہ ،اساتذہ ، ادیب ، شاعر، انشاء پرداز ، قلم کار ، صحافی اور ناقد ومبصر سب کے سب شوق وذوق سے اسے اپنے زیر مطالعہ رکھنے پر مجبور تھے ۔جس کا اندازہ الہلال کے تئیں اس وقت کے مشاہیر علم وادب کی دی گئیں قیمتی اور مشعل راہ آراء کے مطالعہ سے بخوبی ہوتا ہے ۔

         الہلال کے معاصرین اس(الہلال) کی طرز نگارش ،اسلوب پیش کش ،دانش مندی و زیرکی ،فصاحت وبلاغت،جاذبیت ودل کشی کے صرف قائل ہی نہیں تھے بلکہ دریائے حیرت میں غوطہ زن تھے کہ صحافی دنیا میں کیسا انقلاب آیا ہے اور صحافیوں کا یہ امام ’’مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کس شان و شوکت کے ساتھ عالم صحافت میں آفروکش ہواہے ۔چنانچہ اس پرچہ کی اہمیت وافادیت اور اس کی قدرو قیمت پر کما حقہ روشنی ڈالنے والی اور قارئین کو اس حوالے سے تشفی بخش اور فیصلہ کن معلومات فراہم کرنے والی چند وقیع آراء درج ذیل ہیں :

         (۱) مشہور صاحب قلم اور صاحب طرز ادیب مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ جریدہ ’’ الہلال ‘‘ کی صحافتانہ اہمیت وافادیت اور مولاناؒ کی شخصیت اوران کی سماجی وعلمی شہرت پر اس کے دوررس نمایاں اور منفرد اثرات کی بابت برملا کہتے ہیں کہ

         ’’الہلا ل نکلتے ہی مولاناؒ باضابطہ طورپر مولانا ہوگئے اورشہرت کے پروں سے اڑنے لگے ۔ہر جلسے کی رونق انکی ذات سے ہونے لگی ۔ الہلال بظاہر ایک سیاسی پر چہ تھا۔لیکن اس کی دعوت تمام تر دینی رنگ میں رنگی تھی ۔بات بات پر قرآنی آیا تی سے استدلال اور فکاہی رنگ بھی کچھ کم شو خ نہ تھا۔ اچھے اچھوں کی قلعی اس کے کالم میں کھل جا تی ۔ مولانا کی بے پناہ ذہانت ،فطانت اورحاضر جوابی کا نمایاں ترین دوریہی رہا ہے‘‘۔

         (۲)شیخ الہند محمودالحسن دیوبندی نے ’’الہلال‘‘ کے مقصداجراء کی تکمیل کی گواہی دیتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’ہم سچی راہ سے بھٹک گئے تھے الہلال نے ہمیں صحیح راستے پر پہونچادیا،،۔

         (۳) بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں افق صحافت پرچھاجانے والی علمی اور سیاسی ہستی محمدعلی جوہرؒ نے الہلال کے سحرانگیز اسلوب بیان کی دوٹوک سند پیش کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ’’ابوالکلامؒ کی نثر اوراقبالؒ کی نظم نے انہیں رہنمابنادیا‘‘۔

         (۴) ڈاکٹر ذاکر حسینؒ نے جریدہ ’’الہلال‘‘کی ترسیلی ، علمی ، ادبی ، سماجی،انقلابی ،صحافتی،ثقافتی،تہذیبی اورسیاسی حوالوں سے حاصل شدہ نمایاں کامیابیوں کی ضمانت بنتے ہوئے کہا کہ ’’الہلال نے انکے دل میں ایسی شمع ردشن کردی جس سے انہیں ساری زندگی سہاراملا اورتمام کو ششو ں میں انکی ہمت افزائی ہوئی،،۔

         (۵)مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی ؒنے اپنی کتا ب المسلمون فی الہند میں بزبان عربی اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں بیان فرمایا۔

         ’’صدرت صحیفۃ  الہلال الاسبوعیۃ التی کا ن ینشئہا ابوالکلام آزاد و کانت تنشر مقالا ت تکتب بقلم من نا ر و تنتقد ا لسیاسۃ الاوربیۃ الصلیبیۃ فی قوۃ و بلاغۃ لا یعرف لہا نظیر و یتہا فت علی قراء تہا آلاف مؤلفۃ من المسلمین الوطنیین،،۔ترجمہ: ہفت روزہ اخبار الہلال شائع ہوا جسے ابوالکلام آزاد ؒ نے جاری کیا تھا اور جس میں شعلہ بارقلم سے تحریرکردہ مضامین ومقالات شائع کیے جاتے تھے اور جس میں یورپی صلیبی سیاست پر مؤثر اور پرزور بے مثال تنقید کی جاتی تھی۔اور ہزاروں محب وطن مسلمان اسے پڑھنے کے لیے جوق درجوق آتے تھے ۔

         (۶)اردو کے صف اول کے رومانوی ادیب اور مشہور زمانہ تصنیف ’’ محشر خیال ‘‘ کے مصنف سجادانصاری کے الفاظ میں انکی رائے بھی ملاحظہ کرلیجئے وہ لکھتے ہیں ’’الہلال نے ہند و ستان کے تعلیم یافتہ مسلمانو ںکو اس طرح بیدارکردیا جس طرح نفخ صور سے لاکھوں برس کے سوئے انسان زندہ ہوجائیںگے،،۔

         (۷) امداد صابری اپنی شہرہ آفاق کتاب’’ تاریخ صحافت اردو جلد پنجم میں جریدہ ’’الہلال ‘‘کی اثرآفرینی اور اس کے خوشنما نتائج پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ’’الہلال کی ہر سطر اور ہر لفظ انقلاب کی دعوت دیتا ہے ۔ملت اسلامیہ کی روح غفلت میں سورہی تھی ،الہلال کی تحریک و دعوت پر بالآخر جدوجہد کے میدان میں اُٹھ کھڑی ہوئی ،الہلال درحقیقت نالہ جرس تھا لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘۔

         (۸)رئیس الاحرار حضرت مولانا فضل الحسن حسرتؔ موہانی نے اپنے رسالہ ’’اردو ئے معلی علی گڑھ‘‘ کے جوالائی -اگست ۱۹۱۲؁ء کے شمارے میںاخبار ’’الہلال ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہئے کہتے ہیں :

         ’’ ۱۳؍جولائی ۲۰۱۲؁ء سے ’’الہلال‘‘ نام کا ایک بے مثل ہفتہ وار باتصویر اردو رسالہ کلکتہ سے شائع ہونے لگا ہے ۔اس رسالہ کے مالک اور ایڈیٹر ملک کے مشہور انشاء پرداز : مولانا ابوالکلام آزاد ہیں جن کی جادونگاری کا تذکرہ اردو ئے معلی میں ایک سے زیادہ مرتبہ آچکا ہے ،خوبی لٹریچر کے علاوہ مضامین کی تازگی ، خیالات کی آزادی اور تصاویر کی دلپذیری غرض ہر اعتبار سے یہ پرچہ قابل قدر اور لائق ستائش ہے ‘‘۔

         مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد دراصل جدید صحافت کے بانی اور لہجہ تراش صحافی ہیں ۔متعد د لغات میں مہارت کے باعث تحریر وں میں نفاست کے ساتھ ساتھ وسعت و گہرائی اور زبان کی لطافت و پرکاری بھرپور طریقے پر پائی جاتی ہے۔ بحیثیت صحافی ان کی صحافتی سرگرمیاں نہایت بے باک اور ان کی جرأت مندی کے ترجمان ہیں ۔اس ہمہ گیراور ہردل عزیزہستی نے ملک کی آزادی میں جو صحافیانہ اورقلم کارانہ کارنامہ انجام دیا ہے اسے تاریخ کے اورق کبھی فراموش نہ کرسکیں گے ۔

         علم و عمل ہر دو میدانوں میں طاق حیثیت کے مالک اور لائق تقلید شخصیت کے حامل مولانا ابو الکلا م آزادؒ صحافت نگاری کا وہ کوہ نور ہیرا ہیں جس کی قیمت کبھی اور کسی عہد میں نہیں گھٹ سکتی ۔قلم کار وں کو ان کی تحریروں سے آج بھی قلمی غذا فراہم ہوتی اور زندہ دل صحافیوں کے لیے آپؒ کی صحافتی نگارشات آج بھی مشعل راہ ثابت ہورہی ہیں۔

          آپ ؒ کی صحافتی خدمات فقید النظیر ہیں ۔ان کا دائرہ کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار نہایت وسیع ہے۔ایڈیٹر سے مالک اخبار تک کی کافی زرخیز حیثیت اس وسیع وکشادہ دائرے کی دلیل ہے ۔اس ضمن میں ان کی شائع شدہ ساری تحریریں آغاز سے انجام تک ایک مخصوص توانائی سے مزین اور پرجوش و پرکار ہونے کے ساتھ ساتھ اگر ایک طرف اردو زبان کی اہم دستاویز معلوم ہوتی ہیں تو دوسری طرف مذہب اسلام کی آفاقیت و سرمدیت کے جام سے مسلمانوں کو سرشار کرتی ہیں ۔

         فن صحافت میں حاصل شدہ ان کی اس پختہ مہارت ومشاقی وکہنگی دراصل اس دشت میں ان کی گذشتہ بارہ سالہ سیاحی کا کرشمہ کہی جاسکتی ہیں۔اخبارنویسی میں جو انھیں ناقابل تسخیر فوقیت عطا ہوگئی تھی، اس کے تئیں نہایت جچی تلی اور سچی پکی رائے دیتے ہوئے ’’ آزاد ہند ‘‘ کے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی لکھتے ہیں:

         ’’جس اخبار اور سالے کو ہاتھ لگادیا اسے چارچاند لگادیے ،ایڈٹ کرنے کا گرمولانا نے خود اپنے لیے وضع کیا ، ان کے سامنے اگر کوئی نمونہ تھا تو مصر اور ترکی کے اخبارات اور رسالے تھے جو مولانا کے پاس آتے تھے،مضامین کے ا نتخاب ،موضوعات کے تعین ، مسائل و مباحث کے بیان حتیٰ کہ الفاظ و اصطلاحات کی ترجیحات اور املے کی پابندی پر بھی مولانا کی نظر اور گرفت رہتی تھی‘‘۔(۲۵)

         غرض یہ کہ مولانا ابو الکلا م آزادؒ ، کم وبیش ستائیس اٹھائیس برس تک صحافت سے وابستہ رہے  (۲۶)اور اپنی اس پوری صحافتی زندگی میں مطلوبہ پامردی اور صحافیانہ اخلاقیات کے ساتھ ،اپنے منفرد اور اچھوتے لہجے کے موجد ہونے اور اس کے خود ہی خاتم ہونے کا انمول شرف حاصل کرتے ہوئے آزاد صحافت -جس کے بغیر جمہوریت کا تصور اورصالح معاشرے کی تعمیر ناممکن ہے- کی ترجمانی،زرد صحافت سے ہر ممکن اجتناب، برطانوی سامراج کے خلاف زبردست اور کامیاب جدوجہد اور بے شمار چھوٹی بڑی ، سیاسی اور سماجی حقوق کی لڑا ئیاںاور پریس کی آزادی کے بقاکی جنگ لڑکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے،اور اپنی جرأت مندانہ صحافت کے تناظر میں ہم جدید نسل صحافیوں کو بطور پیغام آخر سید اکبر حسین اکبرؔ الہٰ بادی کا یہ شعر دہرانے کی تلقین کرگئے کہ

کھینچو نہ  کمانوں کو نہ تلوار نکالو

 جب توپ مقابل ہوتو اخبار نکالو

٭٭٭٭٭

                               حواشی وحوالے

         ۱۔ ڈاکٹر خلیق انجم ، اکائی ۱۹، ابوالکلام آزاد ؒ اور غبار خاطر، پرچہ ہشتم غیر افسانوی ادب، ایم اے اردو سال دوم ،مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد،ص ۲۶۹۔

         ۲۔ڈاکٹر ضیاء الرحمان صدیقی ، اردو ادب کی تاریخ ، تخلیق کار پبلشرز ،لکشمی نگر ،دہلی -۱۱۰۰۹۲، ۲۰۱۴؁ء ، ص ۱۸۲-۱۸۳

         (۳) فضل الحسن حسرتؔ موہانی ، کلیات حسرت موہانی ، ماس پرنٹر ناظم آباد ، کراچی ،دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۷؁ء، ص ۲۰۱

         ۴۔ ڈاکٹر سنبل نگار ، اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ ،ایجوکیشنل بک ہائوس ، مسلم یونیورسٹی مارکیٹ ،علی گڑھ ، تیسرا ایڈیشن ۲۰۱۷؁ء ،مطبع : ایم کے ۔آفسیٹ پرنٹرز ،دہلی ، ص-۲۲۳

         ۵-پروفیسر شاہد حسین ، اکائی ۱۶، ابلاغیات اور اس کی قسمیں، پرچہ ششم،ترجمہ نگاری اور ابلاغیات،ایم اے اردو سال دوم ،مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد،ص ۲۱۲۔

         ۶-آفتاب عالم بیگ ، اکائی ۱۷، اردو صحافت :اخبارات کا آغازو ارتقاء ، پرچہ ششم،ترجمہ نگاری اور ابلاغیات،ایم اے اردو سال دوم ،مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد،ص۲۲۱-۲۲۵۔

         ۷-آفتاب عالم بیگ ، اکائی ۱۷، اردو صحافت :اخبارات کا آغازو ارتقاء ، پرچہ ششم،ترجمہ نگاری اور ابلاغیات،ایم اے اردو سال دوم ،مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد،ص۲۲۵-۲۲۹۔

         ۸-ایضاً ص ۲۲۹-۲۳۰

         ۹-مولانا ضیاء الدین اصلاحی ، مولانا ابوالکلام آزاد مذہبی افکار ،صحافت اور قومی جدو جہد ، دارالمصنفین شبلی اکیڈٹی ،آعظم گڑھ ، ۲۰۱۴؁ء ، ص۱۶۵

         ۱۰-مولانا ضیاء الدین اصلاحی ، مولانا ابوالکلام آزاد مذہبی افکار ،صحافت اور قومی جدو جہد ، دارالمصنفین شبلی اکیڈٹی ،آعظم گڑھ ، ۲۰۱۴؁ء ، ص۱۷۱۔

         ۱۱-ڈاکٹر سر عبدالقادر ،رسالہ: مخزن ، شمارہ : مئی ۲۰۰۲؁ء ؍بحوالہ ڈاکٹر سید احمد قادری ، مضمون: مولانا ابوالکلام آزاد صحافت سے سیاست تک ، مؤرخہ : ۱۰؍نومبر ۲۰۱۸؁ء، بصیرت آن لائن ۔

         ۱۲-الہلال ،شمارہ نمبر ۳،جلد نمبر ۱، ۲۷؍جولائی ۱۹۱۲؁ء ،ص ۲

         ۱۳-امداد صابری،تاریخ صحافت ارد و ،جلد پنجم،ناشر: اکرم قادری کونسلر،کوچہ پنڈت، لال کنواں ،دہلی ،۱۹۸۳؁ء، مطبوعہ : جمال پریس دہلی، ص ۱۶۴-۱۶۶

         ۱۴-ڈاکٹر اکرم وارث،مضمون :الہلال -مولانا ابوالکلام آزاد کا یادگار صحافتی جریدہ ،  پی ۔ایچ ڈی مقالہ ’’اردو میں ادبی صحافت ۱۹۳۵؁ء-۱۹۶۰؁ء تک اہم رسائل کی روشنی میں‘‘ ، ،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،  سے ماخوذ  بحوالہ تعمیر نیوز ،مؤرخہ : ۸؍مارچ ۲۰۲۱؁ء۔

         ۱۵- مولانا ابوالکلام آزاد ، الہلال جلد اول ، اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ ،ص ۔۱۴

          ۱۶-ابوالکلام آزادؒ، الہلال ، جلدنمبر ۲؍شمارہ :۱۶؍بدھ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۱۳؁ء؍ ص۱۶۔بحوالہ: ابوالکلام آزاد ،الہلال ، جلد سوم وچہار،اترپردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ ص ۴۰۰؍جلد سوم  ص۳۹۹۔

         ۱۷ ابوالکلام آزادؒ، الہلال ، جلدنمبر ۱؍شمارہ :۱۳-۱۴؍جمعہ۳؍اور۱۰؍مارچ ۱۹۱۶؁ء؍ ص۱۷۔بحوالہ: ابوالکلام آزاد ،الہلال(البلاغ) ، جلد ششم،اترپردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ ص۲۸۸۔

         ۱۸-ابوالکلام آزادؒ، الہلال ، جلدنمبر ۱؍شمارہ :۲۵؍جمعہ ۹؍دسمبر۱۹۲۷؁ء؍ ص۱۹۔بحوالہ: ابوالکلام آزاد ،الہلال ، جلد ہفتم،اترپردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ ص۶۹۲۔

         ۱۹-ڈاکٹر محمد فریاد، مولانا ابوالکلام آزاد بحیثیت صحافی ،۲۰۱۷؁ء ،ص ۲۷۹۔

         ۲۰-قرآن پاک ،سورہ بقرہ ، آیت نمبر ۲۰۸۔

         ۲۱-ابوالکلام آزادؒ،ہفتہ وار مصور رسالہ الہلال ، جلدنمبر ۲؍صفحات :۱۶،۲۲؍جنوری ۱۹۱۳؁ء

         ۲۲-قرآن پاک ، سورہ آل عمران ، آیت نمبر ۱۳۹۔

         ۲۳-ابوالکلام آزادؒ،ہفتہ وار مصور رسالہ الہلال ، جلدنمبر ۲؍صفحات :۱۶،۲۲؍جنوری ۱۹۱۳؁ء

         (۲۴)ڈاکٹر انوار احمد ، مولانا آزاد کی ادبی صحافت : الہلال و البلاغ کے خصوصی حوالے سے ،۲۰۰۶؁ء ،ص ۹۱۔

         ۲۵-رشید الدین خان ، ابوالکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت ،ص ۲۸۰، مضمون احمد سعید ملیح آبادی ، بہ حوالہ مولانا ضیاء الدین اصلاحی ، مولانا ابوالکلام آزاد مذہبی افکار ،صحافت اور قومی جدو جہد ، دارالمصنفین شبلی اکیڈٹی ،آعظم گڑھ ، ۲۰۱۴؁ء ، ص۱۶۵ ۔

         ۲۶-مولانا ضیاء الدین اصلاحی ، مولانا ابوالکلام آزاد مذہبی افکار ،صحافت اور قومی جدو جہد ، دارالمصنفین شبلی اکیڈٹی ،آعظم گڑھ ، ۲۰۱۴؁ء ، ص۱۶۵

٭٭٭

Leave a Reply