You are currently viewing میں زندگی ہوں

میں زندگی ہوں

ثمینہ سید

میں زندگی ہوں

میں کہہ رہی ہوں

مجھے نہ مارو

میں زندگی ہوں

مسافتوں کی میں دھول مٹی سے

اٹ گئی ہوں

میں مر رہی ہوں

مگر تھا عزم صمیم میرا

کہ منزلوں تک ہے

مجھ کو جانا

سو عزم و ہمت سے سوئے منزل

میں جا رہی ہوں

مجھے نہ روکو

کہ مجھ کو شاید

عداوتوں سے محبتیں ہیں

ہے شدتوں سے نباہ میرا

یہ غم ہے میرا

کہ نفرتوں میں گھری ہوئی ہوں

میں کہہ رہی ہوں

مجھے نہ مارو

میں زندگی ہوں

اگر کسی کو گمان گزرے

کہ میرے نقش قدم پہ چل کے

مسافتوں کے وہ زخم سہہ کے

نظام ہستی کو مجھ سے بہتر چلا سکے گا

تو شوق اپنا وہ پورا کر لے

مگر میں پھر بھی یہ کہہ رہی ہوں

مجھے نہ مارو

مجھے نہ مارو

میں زندگی ہوں

میں مر رہی ہوں

***

Leave a Reply