You are currently viewing نئے سال کا جشن: کس خوشی میں؟

نئے سال کا جشن: کس خوشی میں؟

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

مدیر اعلیٰ

اداریہ

جنوری  ۲۰۲۴

نئے سال کا جشن: کس خوشی میں؟

نئے سال کی آمد پرہر خطے میں جشن کا ماحول تھا ۔ساری دنیا میں لوگوں نے  نئے سال کا پُر جوش استقبال کیا  اور ڈھیروں پیسے لُٹائے اگر ان تمام اخراجات کوجوڑا جائے جسے اس خاص موقعے پر دنیا نے خرچ کیا تو   ایک عام قیاس کے مطابق اس صرفے سے کسی ایک ملک کی غریبی دور کی جاسکتی تھی ۔ لیکن ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ اس کا امکان ہے۔ مختلف اشتہارات اور رنگ و نور کی جو محفل سجائی   گئی اس سے دنیا کے غریب بچوٕں کے لیے کتابیں خریدی جاسکتی  تھیں  ۔ لیکن اس جشن کے ماحول میں کون انسانی مجبوریوں کو سمجھتا ہے  اور کسے  فکر ہے ۔کاش اس نئے سال میں کوئی عالمی سطح پر یہ تحریک چلا سکے کہ اس  برس نہ سہی آنے والے برس میں کوئی ایسی جشن کی تقریب نہیں منائی جائے گی ، بلکہ اسی تقریب کے اخراجات کو ان لوگوں پر خرچ کیا جائے گا جو گذشتہ سال کسی ناگہانی آفت کے شکار ہوئے ہیں ۔کاش کوئی اٹھے ۔ ہم نے تو آواز بلند کر دی ہے  لیکن مجھے معلوم ہے یہ آواز نقارے خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق ہے ۔

جہاں تک نئے سال کے جشن کی بات ہے تو یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ نئے سال کے جشن کا کیا مطلب ہے ؟ یہ تو محض ہم نے اپنے شب وروز کے شمار کے لیے بنایا ہے ۔ اس دن کوئی خاص بات تو  نہیں کہ اسے جشن میں تبدیل کر دیا جائے۔ میں نے اپنے طور پر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر نئے سال کے جشن کی ابتدا کیسے اور کب ہوئی ؟ مگر کوئی  مستند روایت یا تاریخ  نہیں ملی ۔مگر قیاساً یہ کہا جاسکتا ہے کہ  اس کی ابتدا اور جشن منانے کی روایت بہت قدیم ہے ۔ ظاہر ہے کسی قدیم روایت پر بات کرنی یا اس کے متعلق شکوک شبہات کا اظہار کرنا  لوگوں کے عتاب کے شکار ہونے کے مترادف ہے۔مگر میں کسی کو ناراض کیے بغیر صرف غور وفکر کرنا چاہتاہوں کہ اگر اسے منایا جائے تو کوئی نیا انداز اختیار کیاجاسکتاہے؟ کیا اسے سال گذشتہ کے کے احوال و کوائف کو سامنے رکھ کر منا سکتے ہیں ۔ بہتر تو یہی ہوتا کہ اسے سال گذشتہ کے احتسا ب کے طور پر مناتے ۔ ممکن ہے ایسا کرنے سے کئی سال تک سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے کیونکہ جب ہم اپنے گزرے ہوئے ایام پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے فتنہ پردازی ، بد عنوانی ، لوٹ کھسوٹ کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے میں جب ہم اپنے سود زیان پر نظر ڈالیں گے تو غم وغصہ کی ہی کیفیت حاوی ہوگی ۔ لیکن جب یہی روایت کا حصہ بن جائے گی تو ہم سود و زیان  کے ذمہ داروں کی گرفت بھی کرنے کی سوچیں گے اس طرح رفتہ رفتہ وہ لوگ جب سر عام بے نقاب ہوں گے اور لوگوں کے عتاب کے شکار ہوں گے تو عین ممکن ہے نئے سال منانے کی روایت کچھ نفع کا سامان بن سکے گی۔ ورنہ ظلم واستحصال اور جبر استبداد کے اس ماحول میں بھلا ہم جشن کیوں کر اور کیسے منائیں؟

         عالمی  سطح  دم توڑتی انسانیت  اور انسانیت   کی دہائی دینے والے خاموش تماشائی ہیں ۔۔ ایسے میں ان کو سوائے نام نہاد   اور مفاد پرست   نہ کہیں تو اور کیا کہیں ؟ ارض فلسطین لہولہان ہے ،  جنگ کے اصولوں کی بھی پامالی کی جارہی ہے ،غذائی قلت اور تمام تر مظالم سر عام ہورہے ہیں مگر دنیا خاموش ہے ؟ ۔۔کیا سال نو کا جشن اسی خاموشی کے نام  تھا؟؟؟ایسے میں کن خوشیوں کے سبب جشن منایا جائے ؟ کن فتوحات اور کن کامیابیوں پر نئے سال کا جشن ؟۔۔۔۔

دعا کرتا ہوں کہ عالمی سطح پر امن و سکون  ہو اور پورا عالم  جشن انسانیت منائے ۔

***

This Post Has One Comment

  1. Ghulam mujtaba

    خواجہ اکرام الدین سر کا مضمون پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا بین الاقوامی سطح پر اس آواز کو جگہ دینے کی ضرورت ہے۔! اللہ صرف مقبولیت سے نوازے

Leave a Reply