You are currently viewing ناقدرئ عالم(میر انیس کی ایک بیت کی روشنی میں)

ناقدرئ عالم(میر انیس کی ایک بیت کی روشنی میں)

سید شاہ زمان شمسی

ناقدرئ عالم(میر انیس کی ایک بیت کی روشنی میں)

میر انیس اپنے مشہور مرثیہ “یا رب چمنِ نظم کو گلزار ارم کر” کی ایک بیت میں عجیب بات کہہ گئے جس کا براہِ راست تعلق ناقدریِ عالم سے ہے شاعری کیا کسی بھی فن کے خالق کے لیے اس کی تخلیقات کی تعریف و قدردانی بہت ضروری ہے۔ اس تعریف و قدردانی سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ فنکار کا دل بڑھتا ہے اور یوں اس کا فن بھی فروغ پاتا ہے قدردانی نہ کی جائے تو فنکار کا دل ٹوٹتا ہے اور ظاہر ہے دل ٹوٹتا ہے تو فن بھی تخلیق نہیں ہوتا یا فن کی تخلیق میں بہت سے رخنے پیدا ہو سکتے ہیں جو فن کے مقصد کو فوت کر دیتے ہیں۔لیکن میر انیس نے ناقدری کے ان منفی اثرات سے بچنے کے لیے میرے خیال میں رواداری میں ایک پتے کی بات کہہ دی ہے جو اپنی جگہ بڑی حد تک مضبوط ہے میر انیس کی بیت ملاحظہ فرمائیے۔

ناقدرئ عالم کی شکایت نہیں مولا

کچھ دفترِ باطل کی حقیقت نہیں مولا

اس بیت کا پہلا مصرع سن کر یہی احساس ہوتا ہے کہ شاعر فی الحقیقت ناقدری عالم کی شکایت ہی کر رہا ہے لیکن دوسرے مصرعے کو سن کر فوراً پتا چلتا ہے کہ شاعر نہ قدرئ عالَم کی واقعی شکایت نہیں کر رہا ہے بلکہ اپنی شکایت نہ کرنے سے متعلق بہت عمدہ اور ٹھوس دلیل پیش کر رہا ہے دفتر کے معنی حسابات، تخمینے اور اندازے کے ہیں اور باطل ناچیز اور بے حقیقت کو کہتے ہیں تو اس طرح انیس نے قدر نہ کرنے والوں کے اندازے کو بے حقیقت اور کم وقعت یعنی ناچیز قرار دیا ہے اگر کوئی آپ کے کام کی قدر نہیں کر رہا ہے تو اس سے آپ کو بے دل، بے حوصلہ ہونے کی ضرورت نہیں اصل میں خرابی آپ کے کام کی نہیں ہے یا آپ کے کام میں نہیں اصل خرابی  غلط اندازے لگانے والے نہ قدر دانوں کے ذہن کی ہے لہٰذا نا قدرئ عالم سے انسان کو مایوس یا بد دل نہیں ہونا چاہیے۔

بغور دیکھا جائے تو ناقدری کی شکایت کرنا اپنے ذہن کی کمزوری کو واضح کرتا ہے اگر آپ کو اس طرح ناقدرئ عالم کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ ناقدری کوئی معنی نہیں رکھتی تو آپ اپنی جگہ ذہنی طور پر مضبوط ہو جاتے ہیں اس کے بعد نا قدردان لوگوں کی شکایت کسی معنی کی حامل نہیں رہ جاتی۔ اگر آج آپ کے کام کی ناقدری ہو رہی ہے تو کل کو قدر بھی ہو جائے گی بلکہ قدردانی ایک لازمی چیز ہے وہ تو ایک نہ ایک دن ضرور ہوتی ہے البتہ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کام کی قدردانی نہیں ہو رہی ہے۔ تو کام کرنے والے کو تو نقصان پہنچ رہا ہے اس کے اس نقصان کا ازالہ کس طرح ممکن ہے۔ عجیب لطف کی بات یہ ہے کہ میر انیس اپنے زیرِ بحث شعر میں اس نقصان کے ازالے کی بھی ہمیں ایک صورت بتا رہے ہیں اور وہ صورت یہی ہے کہ نہ قدری کی شکایت کرنے کی بجائے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کام کی اہمیت کو اپنے زمانے کے لوگوں پر واضح کریں۔

شکایت کرنے کا ایک سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے خود شکایت کرنے والے کی طاقت خواہ مخواہ خرچ ہوتی ہے لہٰذا اس شکایت کرنے سے یہ بات کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنے قدردانوں کو تلاش کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ قدردانوں کی تلاش کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں لیکن قدردانوں کو تلاش کرنا شکایت کرنے سے ہزار درجے بہتر کام ہے۔ اصل میں جس زمانے میں ہم قدردانوں کی تلاش کر رہے ہوتے ہیں یا اس تلاش کی فکر میں ہوتے ہیں ہم ایک انداز میں اپنے کام پر بھی نظر ثانی کر رہے ہوتے ہیں اور اس طرح ہمارا کام آگے بڑھ رہا ہوتا ہے مگر ہمارے کام کا آگے بڑھنا بھی کوئی معمولی کام نہیں رہ جاتا اس سے نہ صرف ہمارے کام کی اہمیت واضح ہوتی ہے خود ہماری اہمیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔ آج تک اس دنیا میں جتنے بھی المیے رونما ہوئے ان میں کسی نہ کسی طرح ناقدرئ عالم کا ہاتھ نظر آتا ہے اگر آدمی آدمی کی قدر کرتا رہے تو بے شمار معاشرتی بیماریوں کا فوراً علاج ممکن ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے جیسے جیسے ایک آدمی دوسرے آدمی کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے ویسے ویسے گوناگوں معاشرتی برائیاں ختم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ صاف ستھرے معاشرے کی تخلیق میں بھی اور اس کو قائم رکھنے میں بھی انسان کا قدردان ہونا بنیادی معنی رکھتا ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو سارے ظلم و ستم کی جڑ بھی ناقدری میں پوشیدہ ہے آدمی کسی بھی ظلم و ستم سے پہلے وہ کسی ناقدری کا شکار ہوتا ہے قدردان شخص اور خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ ظالم کبھی نہیں ہو سکتا قدردانی کا تو مطلب ہر چیز کو اس کی اصل جگہ پر دیکھنا ہے گویا قدردانی سے بڑھ کر عدل کو فروغ دینے والی بھی کوئی دوسری قدر نہیں ہو سکتی۔

ناقدری عالم کی سب سے بڑی اور دردناک مثال محمد و آلِ محمد علیھم السلام کی ذواتِ مقدسہ ہیں جنھوں نے پورے عالمِ انسانیت اور مسلم امہ کی ہمیشہ سلامتی چاہی لیکن مسلم امہ نے انھیں سمجھنے میں ہمیشہ ٹھوکر کھائی ویسے بظاہر مسلم امہ نے ہمیشہ آلِ محمد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا لیکن چونکہ آلِ محمد نے چاہا اسے کبھی نہ سمجھا گیا یہ ایک ایسا سینۂ عالم میں ناسور ہے جس کا اندمال اسی وقت ممکن ہے جب مسلم اُمہ محمد و آلِ محمد علیھم السلام کی بات کو سمجھ لے ایک عجیب طرح کا حجاب ہے جو درمیان میں حائل ہے۔ لیکن زیر بحث بیت کی تفہیم محمد و آلِ محمد علیھم السلام کے حوالے سے کچھ اور ہی طریقے سے ظہور میں آتی ہے محمد و آلِ محمد ناقدرئ عالم کی شکایت کرنے کے بجائے وہ تو مسلسل دعائیں طلب کرتے ہیں اور دیتے ہیں یعنی جب مسلم اُمہ محمد و آلِ محمد علیھم السلام کو نہیں سمجھتی تو محمد و آلِ محمد علیھم السلام امت کے لیے دعا مانگتے ہیں یا رب تو ان پر رحم فرما انھیں عقل دے کہ یہ سوچیں اور غور کریں کہ اصل معاملہ کیا ہے اور یوں زیرِ بحث بیت کے دوسرے مصرع “کچھ دفترِ باطل کی حقیقت نہیں مولا” کا مطلب یہ نہیں بنتا کہ اگر امت ناقدری کر رہی ہے تو اس ناقدری کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ محمد و آلِ محمد صحیح معنی میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ناقدری کی حقیقت کا نہیں بلکہ محمد و آل محمد صحیح معنی میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ناقدری کی حقیقت کو اس کے نقصان کو تسلیم کرتے ہوئے اللّہ سے دعا مانگتے ہیں کہ امتِ مسلمہ اپنی ناسمجھی کو تسلیم کرے اور غور و فکر سے کام لے کر محمد و آلِ محمد ع کی صحیح معنی میں قدر دان ہو جائے امت محمد و آلِ محمد کی قدردانی کرے گی تو اس کے بگڑے ہوئے نصیب سنور جائیں گے۔

عام آدمی تو بہت حوصلہ دکھاتا ہے کہ ناقدرئ عالم کی شکایت نہ کرے اس عمل کو وہ اپنی بہت بڑی بلند اخلاقی سمجھ کر دل ہی دل میں فخر محسوس کرتا ہے۔ لیکن خدا کے خاص بندے آلِ محمد ناقدرئ عالم کی شکایت نہیں کرتے وہ تو الٹے ناقدری کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتے ہیں اور یوں دعا کے حوالے سے قدری کرنے والوں کو بھی سامنے لے آتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ عام لوگ تو تصور میں نہیں کر سکتے یعنی عام آدمی تو یہی سوچتا ہے کہ جب کوئی ہماری قدر نہیں کرتا تو ہم ایسے شخص کو کیوں خاطر میں لائیں ہم اس کی پروا کیوں کریں ناقدری کرنے والے شخص کے لیے تو عام آدمی کے دل سے بد دعائیں ہی نکلتی ہیں لیکن میر انیس کی بصیرت ملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے آلِ محمد علیھم السلام کی اس ادا کو کس طرح سمجھا کہ ان کا کوئی مرثیہ بھی مسلم امہ کے لیے آل محمد ع کی طرف سے دعاؤں سے خالی نہیں ہے ہر مرثیے میں شہدائے کربلا کا ہر کردار خواہ وہ چھوٹا یا بڑا ہے مسلم امہ کے لیے کسی نہ کسی انداز میں دعا کرتا دکھائی دیتا ہے یا اس سے بھی آگے کی بات کہ وہ امت کے بھلائی کے لیے اپنے آپ کو راہِ خدا میں قربان کر رہا ہوتا ہے غرض انسانی نفسیات کے دونوں پہلو یعنی منفی اور مثبت کو سامنے رکھ کر بات کہنا انسانی نفسیات کے امکانات کو واضح کرتا ہے۔

یعنی یہ بھی ایک حقیقت کہ جب کوئی شخص آپ کی کسی خوبی کا اعتراف یا احترام نہیں کرتا تو اس کی اس ناقدری پر آپ کو غصہ آتا ہے آپ اس کے لیے بددعا بھی کر سکتے ہیں اس کے حق میں برا بھی چاہ سکتے ہیں اور یہ آپ کی طرف سے کوئی زیادتی شمار نہیں کی جا سکتی قرآن پاک کے چھٹے پارے کا آغاز ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے اللہ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کسی کو برا کہیں لیکن جس پر ظلم ہوا ہے اس شخص کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور چونکہ ناقدری بھی ایک طرح کا ظلم ہے لہٰذا نا قدری پر جس کی ناقدری کی گئی ہے وہ ناقدری کرنے والے کو برا کہہ سکتا ہے لیکن دیکھ لیجیے وہ لوگ کتنے بلند حوصلہ ہوتے ہیں جو ناقدری پر برا کہنا تو بڑی بات ہے بلکہ ناقدری کرنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں دراصل ایسے لوگ اس لیے بلند نظر ہو جاتے ہیں کہ انھیں انسان کی اصل فطرت کے مثبت پہلوؤں پر یقین ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک انسان نے ایک اچھی بات کو آج نہیں سمجھا تو وہ اس بات کو کل سمجھ لے گا یا سمجھ سکتا ہے انسان کی ذات سے یہ امید یہ توقع انسانیت کے حق میں بڑے معنی رکھتی ہے اور اس وقت یہ توقع اور یہ امید اور بھی بامعنی ہو جاتی ہے جب کسی قوم کو ہمارے آنحضرت ص جیسا جلیل القدر ہادی اور رحمت اللعالمین راہنما میسر آیا ہو اور آلِ محمد بھی اسی توقع پر ہمیشہ مسلم امہ کے لیے دعا کرتے رہے۔

آلِ نبی  علیہ السلام نے مسلم امت کی ناقدری کی اس لیے بھی شکایت نہیں کی کہ ناقدری کا دائرہ کبھی وسیع نہیں ہوتا مثلاً کوئی شفیق کی ناقدری کرتا ہے تو اس ناقدری کا تعلق آپ کی اپنی ذات سے ہے یہ بھی تو ممکن ہے کہ جو شخص شفیق کی نہ قدری کر رہا ہے کل کو شفیق کی قدردانی کرنا بھی شروع کر دے ناقدری کا دائرہ زیادہ سے زیادہ کسی ایک قوم تک پھیل سکتا ہے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے وقت میں یزید اور اُس کے اسلاف کے غلط پروپیگنڈے نے آلِ محمد ع کے خلاف لوگوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھا کر انہیں بھڑکایا اور بغداد میں یہ سلسلہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا لیکن آلِ محمد کی نگاہ میں چونکہ پورا عالم انسانیت تھا اس لیے وہ اس ناقدری سے مایوس نہیں ہوئے اور مسلمانوں کے ظلم و ستم  کے باوجود اُن کے حق میں دعا کرتے رہے کسی کے لیے دعا کرنا دراصل اس شخص کی ذہنی قوت اور قوتِ عمل کے لیے دعا کرنے کے مترادف ہے۔ آپ جس کے لیے دعا کرتے ہیں وہ آپ کی طرف ہی متوجہ نہیں ہوتا اپنے رویے اور اخلاق کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے اور یوں وہ اپنے آپ کو تمام کا تمام بدل ڈالے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔

Leave a Reply