You are currently viewing نظم ۔ حساسیت

نظم ۔ حساسیت

علیزے نجف

سرائے میر

نظم ۔ حساسیت

میں ہر کسی کو یہ کہتے سنتی ہوں

 کہ میں بہت حساس ہوں

 مجھے لفظ ہی نہیں

لہجے بھی محسوس ہوتے ہیں

نظریں مجھے چبھتی ہیں

 میری حساسیت  میری دل گرفتگی کو

اس حد تک بڑھا دیتی ہے کہ

 میری سانسیں اس میں کہیں

 معلق ہو کے رہ جاتی ہیں

ایسے میں پیدا ہونے والی اذیت کا درماں

اس جہاں میں ممکن نہیں

 میں اکثر یہ سوچتی ہوں کہ

اگر ہر کوئی یہاں اتنا ہی حساس ہے تو

 پھر یہ بےحسی کس کی مرہون منت ہے؟

اسے پروان چڑھانے والے لوگ کون ہیں؟

یہ مظلوموں کی دہائی

کیا خود ساختہ مظلومیت ہے؟

یہ رشتوں میں در آنے والی کسمپرسی

کیا آسمانوں سے نازل ہوتی ہے؟

کیا ہر انسان کی بےبسی

خدائی قہر کا نتیجہ ہے ؟

جس کا الزام فرشتہ صفت انسانوں پہ

ڈال دیا جاتا ہے

آخر یہ حساسیت کیسی ہے؟

جو متضاد نتائج کو جنم دے رہی ہے

آئیے! سچ  بتاتی ہوں!

 اس حساسیت کی حقیقت

محض اتنی سی ہے کہ

 یہاں ہر شخص خود کے لئے تو

 انتہا درجے تک حساس ہے

لیکن اوروں کے لئے آخری حد تک بےحس

وہ اپنے ہر ظلم کو ردعمل کا نام دیتے ہوئے

خود کو خود ہی

پاک دامن قرار دے کر

اپنے ضمیر کو تھپکیاں دیتا رہتا ہے

مزید ستم یہ کہ

اوروں کے ہر عمل کو سازش کا نام دے کر

اس کی بےحسی پہ گریہ کناں ہوتا ہے

***

Leave a Reply