رئیس احمد کمار
نوٹ (افسانچہ)
گاڑی سے اتر کر نیاز نے ڑرائیور کو بیس روپیہ کا نوٹ تھما دیا۔ ڑرائیور نے بیس روپیہ کا نوٹ پکڑنے سے صاف انکار کیا کیونکہ نوٹ کا تھوڑا سا حصہ کٹ چکا تھا۔ حالانکہ اسے نظر انداز بھی کیا جاسکتا تھا مگر ڑرائیور اپنی ضد پر قائم رہا۔۔۔
میں صبح سویرے گھر سے اس امید کے ساتھ نکلتا ہوں کہ دن بھر کام کرکے اپنے اور اپنے اہل عیال کے لئے کچھ کما سکوں اور جب سبھی سواریاں ایسے ہی کٹے اور پھٹے ہوئے نوٹ مجھے دیں گے تو میرے گھر کا چولہا جلانا بھی مشکل ہوگا۔۔۔۔
پندرہ بیس منٹ تک کشمکش جاری رہی یہاں تک کہ گاڑی میں سوار باقی سواریاں بھی ڑرائیور سے ہاتھ جوڑ کر مسلہ سلجھانے کی درخواست کرتے رہے۔ صبح کا وقت تھا اور انہیں اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر پہنچنا تھا۔ آخر نیاز نے ہی ڑرائیور کو نیا اور کرارا نوٹ دے کر گھر کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔۔۔۔
اڈے پر پہنچتے ہی گاڑی سے اتر کر ڑرائیور سیدھے سگریٹ کی دوکان کی طرف چل دیا اور وہی نوٹ جیپ سے نکال کر سگریٹ خریدنے لگا۔۔
نمبرات (افسانچہ)
اس کے علاج و معالجہ پر انہوں نے کافی رقم خرچ کی تھی۔ یہاں تک کہ بہت ساری زمین و جائداد بھی بیچ ڈالی تھی۔ لیکن وہ اس بات پر خوش اور مطمئن نظر آتے تھے کہ جان لیوا بیماریوں جیسے کینسر اور کڈنی فیلئیر سے بھی وہ اللہ کے کرم سے بچ نکلی۔ پورے گھر کے افراد اب راحت اور خوشی کے سانس لے رہے تھے کیونکہ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ بھی دربارہ ٹھیک ہو جائے گی۔ پچھلے ایک سال سے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ آج بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے دسویں جماعت کے نتائج کا اعلان کیا تھا اور ان کے بیٹے فرحان چارسو نمبرات لے کر دسٹنکش میں کامیاب ہوا تھا۔ وہ شہر سرینگر کے ایک نامور کوچنگ سینٹر میں اپنی پڑھائی کررہا تھا۔ دن بھر مہمانوں اور رشتہ داروں کا تانتا بندھا رہا اور گھر کے سبھی افراد خوشیاں منانے میں مگن تھے۔ شام کو جب کسی نے یہ خبر دی کہ ان کے ہمسائیگی میں ایک مزدور کے بیٹے جو سرکاری اسکول میں ہی زیر تعلیم تھا اور کسی پرائیویٹ ٹیوشن سینٹر میں درج بھی نہیں تھا نے چار سو پچاس نمبرات لے کر کامیابی حاصل کی ہے تو اس کی حالت بگڑنے لگی۔ گھر والوں نے نزدیکی ہسپتال میں پہنچادیا جہاں سے اسے صدر ہسپتال ریفر کیا گیا۔ ایک گھنٹے تک ایڈمٹ رہنے کے بعد آخر وہ زندگی کی جنگ ہار ہی گئی۔۔۔
***