You are currently viewing نیم پلیٹ

نیم پلیٹ

دانش حماد جاذب

شعبۂ اردو، ٹاٹا کالج چائباسہ، جھارکھنڈ

نیم پلیٹ

ان لوگوں کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ پنکچر لگانے والے، یہ ریڑی اور ٹھیلے میں پھل سبزی بیچنے والے اور یہ آٹو ٹیکسی چلانے والے لوگ پوری طرح ہم پر نربھر ہیں اگر ہم ان سے خرید و فروخت چھوڑ دیں ، ان کی دکانوں میں جانا چھوڑ دیں ، ان کی سواریوں میں سوار ہونا چھوڑ دیں تو کچھ ہی دن میں یہ لوگ وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے اس کے لیے ہمیں ایک  ابھیان چلانا ہوگا کیا آپ ہمارا ساتھ دیں گے؟ کیا اس بار آپ ہمیں وہاں تک پہنچائیں گے جہاں کھڑے ہو کر پورے دیش کے سامنے میں اپ کی اواز بن کر گرج سکوں؟ ایک نا تھمنے والا شور میدان میں بلند ہوا ۔

منتری جی اس بھاشن (تقریر ) کے ذریعے جہاں پہنچنا چاہتے تھے اس سے بھی اگے نکل گئے اور عصبیت پسند طبقے میں قائد اعظم کے روپ میں دیکھے جانے لگے ۔

رات کے دو بجے خون میں لت پت اپنے بیٹے کی اکھڑتی سانسوں کے مدھم شور کے آگے ان کے نعروں اور اس کے جواب کا شور انہیں پھیکا معلوم ہو رہا تھا آج کئی سال بعد اپنے شہر کے اس علاقے سے گزر رہے تھے جہاں وہ کبھی جانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کے بیٹے کے دوست نے فون کیا تھا:  انکل ہمارا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے شان کی حالت زیادہ خراب ہے اسے بہت ساری چوٹیں آئی ہیں آپ جلدی سے آزاد نگر کے ہائی وے پر آجائیے

فون رکھتے ہی منتری جی تیزی سے ڈرائیور کے ساتھ نکلے اور جتنی جلدی ممکن ہوا پہنچنے کی کوشش کی سنسان سڑک میں انہیں دیر بھی نہیں ہوئی اور وہ حادثے کی جگہ پر پہنچ گئے ڈرائیور کے ساتھ بیٹے کو اپنی لگژری کار میں لٹایا اور خود اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور اپنی گود میں اس کا سر رکھ کر اسپتال کے لیے نکلے گھر سے نکلتے وقت انہیں کسی چیز کا ہوش نہیں تھا لیکن اب مدھم رفتار سے چل رہی کار میں بیٹھ کر کبھی بیٹے کو دیکھتے تو کبھی باہر لگے بورڈ کو پڑھتے کہ کوئی میڈیکل کلینک ملے تو فوری مدد مل سکے آزاد نگر بالکل بدل چکا تھا بالکل ویسا جیسا وہ چاہتے تھے ہر دکان ٹھیلے پر ڈیجیٹل نیم پلیٹ لگا تھا جسے رات میں بھی آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا شہر میں اب سٹی واچ، اسپورٹس انڈیا،موبائل ورلڈ،  کنٹری کلیکشن ہائی ٹیک کمپیوٹر ایجوکیشن ، اسٹائلش کلوتھ انڈین کلینک،  بھارت مشینری  وغیرہ جیسے نام والے دکانوں کے نام بدل دیے گئے تھے اب دکانوں کے نام کے ساتھ دکاندار کا نام یا شناخت ہوتی تھی مثلا محبوب کلینک عارف مشینری مکیش کلوتھ سٹور راجیو ڈیجیٹل ایجوکیشن، داس موبائل اور عمران فرنیچر وغیرہ۔

 منتری جی دکانوں پر لگے ہر بورڈ کو غور سے پڑھ رہے تھے جگہ جگہ بڑے بڑے فلیکس بورڈ لگے تھے جس میں ہاتھ لہراتے منتری جی کی دھاڑتے ہوئے معلوم ہورہے تھےاور  ساتھ میں لکھا تھا۔  “نیم پلیٹ ابھیان” ان ہوڈنگ بورڈ کو دیکھ کر منتری جی کو اپنی تقریر کا ایک ایک لفظ یاد آ رہا تھا عوام کا شور ان کی ان کے کانوں میں گونج رہا تھا مگر ان کی انکھیں کسی اپنے کلینک یا اسپتال کی تلاش میں تھیں۔  راستے میں ایک دو کلینک کھلے ملے تھے مگر نیم پلیٹ دیکھ کر ان کے متعصب ذہن نے وہاں جانا گوارا نہیں کیا۔  دھیمی رفتار کے ساتھ منتری جی آزاد نگر سے بھی گزر گئے 15 منٹ کا وقت لگا تھا آزاد نگر پار کرنے میں جبکہ سڑک سنسان تھی اور آتے وقت تین سے چار منٹ میں وہ اس جگہ سے گزر گئے تھے ہر دکان ہر کلینک کا بورڈ پڑھتے گئے مگر مطلوبہ کلینک یا اسپتال کی خواہش میں وہ اگے بڑھتے گئے ان کا بھاشن انہی کے ذہن میں گونج رہا تھا تو پھر کیسے وہ کسی ایسے کلینک یا اسپتال میں جاتے جس کے خلاف وہ اب تک زہر اگلتے رہے تھے ۔کار آزاد نگر کراس کر کے سبھاش نگر میں داخل ہوئی یہاں بھی کلینک وغیرہ بند تھے تھوڑا اور آگے بڑھنے پر ایک کلینک کھلا دیکھ کر نیم پلیٹ دیکھا “مشرا کلینک” تو جلدی سے اترے اور بیٹے کو ڈرائیور کی مدد سے کلینک کے اندر لے گئے وارڈ بوائے نے فورا اسے آپریشن تھیٹر میں داخل کر دیا ڈاکٹر اور نرسوں کی ٹیم آپریشن میں جٹ گئی آپریشن تھیٹر سے باہر منتری تجی بے چینی سے ٹہل رہے تھے تبھی منتری جی کی نگاہ آپریشن تھیٹر کے دروازے پر لگے نیم پلیٹ پر ٹک گئی “ڈاکٹر ایم- اے – خان” ان کی نگاہیں اس وقت نیم پلیٹ سے ہٹی جب دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر نکلے اور منتری جی سے مخاطب ہوئے :  یہ حادثہ کب اور کہاں ہوا؟

 منتری جی: ایک گھنٹہ پہلے آزاد نگر کے پاس

ڈاکٹر : تو آپ نے اتنی دیر کیوں کی یہاں لانے میں ۔ وہیں آزاد نگر میں دو کلینک 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں وہاں لے جاتے۔

 آئ ایم سوری منتری جی!  ہم آپ کی کوتاہی اور دیری کی وجہ سے آپ کے بیٹے کو بچا نہیں سکے ۔

خجالت ،شرمندگی اور غم کے بوجھ سے نڈھال منتری جی وہیں لگے کرسی پر دراز ہوگئے !!!

***

Leave a Reply