You are currently viewing وارث

وارث

طاہر  طیب

افسانہ

وارث

دلاور خان  آج ڈیرے میں بالکل تنہا ،آرام دہ کرسی پر بیٹھا سگریٹ پے سگریٹ پیئے مسلسل کچھ سوچ رہا تھا۔فضا میں سگریٹ کےدھوئیں  اور  بد بو کوواضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔وہ کش پر کش لگائےجا رہا تھا۔ سائیں دلاور  کو دادو نے آج پہلی بار اتنا پریشان دیکھا تھا۔ویسے تو دادو کی سائیں کے ساتھ رفاقت بیس بائیس سال کی تھی ،اور تو اوردادو کے خاندان کی جانثاری اور خدمت گزاری  کئی نسلوں سے چلی آرہی تھی۔پہلے باپ پھر دادا اور پھر پردادا۔ ۔۔

دلاورخان  کے آباو  اجداد بھی ان  لوگوں پر اتنا ہی اعتبار کرتے تھے جتنا وہ  خود پر۔

نفیس عادات ، سلجھی گفتگو، مٹھاس سے بھری آنکھوں اور پیار میں ڈوبی باتیں کرنے والے دادو نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا:سائیں کیا بات ہے ؟ آپ پریشان دکھائی دے رہے ہیں،حکم کریں؟دادو!تمھیں تو پتا ہے کہ تین چار شادیاں کرنے کے باوجود ہمارا کوئی” وارث “نہیں ۔۔۔لگتا ہے قدرت نے  ہماری قسمت میں بیٹا لکھا ہی نہیں۔ اس بار تیری مالکن کے ہاں پھر بیٹی پید ا ہوئی ۔یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔

دادو ایک ذہین اور زِیرک شخص  تھا ،جو حالات کی نزاکت کو بھی سمجھتا تھا۔پڑھا لکھاتو زیادہ نہیں تھا البتہ شروع ہی سے آس پاس  کی خوب سدھ بدھ رکھتا ۔۔۔وہ خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کا بھی  شوقین تھا۔ جب دلاور خان  الیکشن جیتا تھا اس کے پیچھے دادو ہی کے مشورے کار فرما   تھے۔ یہی وجہ تھی کہ  دلاور خان   اس کی باتوں کو توجہ سے سنتااور ان پر عمل  بھی کرتا ۔

پچھلے الیکشن  کی بات  ہے جب دلاور خان کا  مقابلہ سومرو  خان سےتھااوریہ   الیکشن کے کانٹے دار مقابلوں میں سے ایک گردانا جاتاتھا۔ ہوا یوں  کہ سومرو خان کے حمایتی  سوہاووں کے  ہاں کچھ دن پہلے ہی  فوتگی ہوئی تھی ۔دادو نے دلاور خان کو بتایا:سائیں لوہا  گرم ہے، ہمیں سوہاووں کے پاس  تعزیت کے لیے چلنا  چاہیے  ۔ان کی فوتگی ہوگئی ہے اور یہ لوگ  ہمیشہ آپ کی مخالفت میں ہی   ووٹ دیتے ہیں  ۔ابھی تک ان کے ہاں سومرو خان تعزیت کرنے نہیں  گیا،کیوں نا ہم  پہلے تعزیت کرنے چلے جائیں ۔اگر آپ چلے گئے تو سمجھو اس بار سارے ووٹ آپ کے ہوں گے۔یہ سب باتیں دادو نے دلاور خان  کو  چلتی گاڑی پر بتائیں ۔

دلاور خان نے  پجیرو کا رخ موڑ کر   سوہاووں کے ہاں  کر دیا۔جب وہاں پہنچا تو سوہاوے بڑے حیران کہ دلاور خان !ان کے ڈیرے پرآیا ہے۔۔مخالفت کے باوجود سب  اس کے احترام میں کھڑے ہوگئےاور بیٹھنے کے لیے بڑی چار پائی خالی کردی۔دلاور خان نےگاؤ تکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے  کہا۔بھئی  !مجھے تو ابھی دادو نے رستے میں  بتایاتو  مجھ  سے رہا نہ گیا۔ اس لیے میں فوراًتعزیت کے لیے آگیا۔میں نے سوچا مخالفت اپنی جگہ، لیکن غم تو سب کا ساجھا ہوتا ہے۔کیوں بھئی نورے!  توں ای دس ؟ نورے سمیت  باقی سب نےبھی  دلاور خان کی تائید کی ۔دلاور خان نے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے ،وہاں موجود سب نے فاتحہ پڑھی ۔تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد اس نے اجازت چاہی  تو انہوں نے دلاور خان کو گرم جوشی سے رخصت کیا۔ الیکشن ہوا تو سوہاووں کے سارے ووٹ دلاور خان کے حصے میں آئے۔یوں وہ  ایک بڑے مارجن سے یہ الیکشن جیت گیا تھا۔

سائیں! میرے پاس آپ کی پریشانی کا  ایک حل ہے،پر کہیں آپ برا نہ مان جائیں۔ دلاور خان نے  کھڑے ہو کردادو کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا بتاؤ!دادونےکہا سائیں میری نظر میں ایک ایسا خاندان ہے  جن کے بارے میں نے اپنے   باپ دادا سے سن رکھا ہے کہ ان کے ہاں ہمیشہ  پہلی اولاد  بیٹا ہی ہوتی ہے۔  یہاں تک کہ    یہ بات بھی  مشہور ہے کہ ان کے چوپایوں میں   گائیں ،بھینسیں اور بکریاں بھی پہلے نر ہی کو جنم دیتی  ہیں۔اگر آپ اس خاندان کی کسی لڑکی سے نکاح کر لیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے،آپ کو ”وارث “مل جائے گا اوربعد میں آپ کی مرضی۔۔۔جیسا آپ کرنا چاہیں کر لیں۔دلاور خان چپ سادھےیہ سنتا رہا،تھوڑے توقف کے بعد:ٹھیک ہے !دادو تم ان سے میرے رشتے کی بات کرو۔مجھے کوئی اعتراض نہیں بس مجھے  کسی طرح وارث چاہیے۔

اگلی صبح دادوگاڑی لے کر جوکھیو کے ہاں چلا گیا۔جب وہاں پہنچا تو    دتے  نے کہا:دادوسائیں !ہم غریبوں کے گھر آج کیسے آنا  ہوا؟ ورنہ اس آپا دھاپی کے دور  میں کون کسی کو یادکرتا ہے ؟دادو نے کہا:نئیں او  دتے  آ، ایسی کوئی بات نئیں ۔ زمانہ بدل گیا ہے اب امیر غریب کا کوئی فرق نہیں رہا۔ ویسے بھی ہم سب ایک خدا کی مخلوق ہیں۔ذات پات اورپیشے صرف پہچان کے لیے ہوتے ہیں۔ہم آدم کی اولاد ہیں اور وہ مٹی سے بنا ہے ۔تھوڑے توقف    کے بعد :میں  آپ  کے پاس  ایک  سوال  لے کر آیا ہوں ،امید ہے انکار نہیں کریں گے ۔۔باقی  جیسا  کہیں گے ویسے ہی ہوگا۔ دتہ بولا:کہو دادو سائیں کھل کر کہو  جو کہنا ہے ؟اچھا تو سنو!میں   سائیں  دلاور خان کا رشتہ لے کر آیا ہوں ۔ رشتہ؟ ۔۔ جی! وہ آپ کے خاندان   سے رشتہ جوڑنا  چاہتے ہیں۔ حیرت ہے وہ ہم غریبوں سے کیوں رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں؟دتے تم ان باتوں کو چھوڑو۔۔۔اب بس ہاں کردو، شرطیں آپ کی ۔ جیسا کہیں گے  ویسے ہی ہوگا۔جو لکھوانا چاہو  حق مہر میں لکھوا لو ۔۔۔ میرا تو خیال ہے کہ ہاں کر دو۔  اس طرح  تمہارے حالات بھی ٹھیک ہو جائیں گے ۔اچھا میں چلتا ہوں،جلدی کوئی نہیں۔میں پھر چکر لگاؤں گا، تسلی سے  سوچ لو، یہ کہہ کر دادو وہاں سے رخصت ہوا۔

دتے کے گھر والوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیااور کہا کیوں  نا ہم کچھ شرطوں پر نازو کا رشتہ  طے کر دیں۔نازومزاج کی تیز جسے موٹا کھانا اور موٹا پہننا  موت لگتی تھی۔وہ  ٹی وی ڈراموں کو دیکھ کر اونچے اونچے خواب بُنا کرتی تھی۔ ماں باپ نے سوچا اس کے لیے ہاں کر ہی دیں ۔ ویسے بھی ماں باپ سے زیادہ اپنی اولاد کو کوئی نہیں جانتا۔۔۔نازو لا ا ُبالی سی لڑکی  مگر  خدا نے اسے کمال خوبصورتی عطا کی تھی۔۔بڑی   آنکھیں، گھنی زلفیں ،بے داغ چہرہ ،دیکھنے والا بس دیکھتاہی رہ  جائے ۔

واپس جا کر دادو نے دلاور خان  کو بتایا کہ  امید ہے  جوکھیے   مان جائیں گے۔شاید  وہ کچھ شرطیں رکھیں گے ۔دلاور خان نے کہا:ٹھیک ہے جو مانگیں ہاں کر دینا۔

کچھ دنوں بعد  دادو ،  دتےکے پاس   دوبارہ گیا تو اس کی  خوب  آؤ بھگت  کی  گئی ۔ ۔ دادو کو تو پہلے سے ہی  لگ رہا تھا کہ وہ مان جائیں گے۔اس نے پوچھا کیا سوچا پھر آپ سب نے ؟دتے نے  کہا کہ ہماری کچھ شرائط  ہیں :بیس  تولہ سونا، الگ مکان اور جھگڑے کی صورت میں دلاور خان کو  خرچ لکھ کر دینا ہوگا ۔دادو نے کہا ہمیں سب منظور ہے ۔یوں دتے  نے نازو کے رشتے کے لیے  وہیں   ہاں کر دی ۔ نہ کوئی ڈھولک بجی ،نہ مہندی کی رسم ہوئی بس   نازو کا نکاح   سادگی  سےدلاور خان سے  ہو گیا۔

شادی  کی پہلی رات وہ دونوں اس طرح خاموش  بیٹھے تھے جیسے ڈکیتی کے بعد رہزن۔۔۔نازو نے دلاور خان سے پوچھا کہ آپ مجھ سے شادی کر کے  خوش تو   ہیں؟ہاں۔۔ پر اگر میں یہی سوال  میں تم سے پوچھوں تو؟۔۔میں  تو بہت  خوش ۔۔ ۔ ویسےآپ مجھے دل کے اچھے لگے ہیں ۔دن گزرتے رہے،نازو نے اپنے نازو ادا سے دلاور خان کو  اپنی محبت کا اسیر بنالیا تھا۔یوں اس کے وہ سارے خواب سچ ہونے لگے تھے جن کے بارے میں وہ صرف سوچا کرتی تھی۔۔اب وہ کبھی  کبھار شہر اکٹھے جاتے ساتھ گھومتے پھرتے، لنچ کرتے  اور پھر  شاپنگ بھی کرتے ۔

 نازو نے اس طرح کی زندگی تو  ٹی وی   ڈراموں اور فلموں  کی کہانیوں میں ہی   دیکھی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ ایک موج ہو اور اس کا گھر ساحل جس کی آغوش  میں اس کے حسین خوابوں کی تعبیر   ہورہی ہو۔۔۔وہ  بہت  خوش تھی ۔جب کبھی وہ   ماں باپ سے ملتی تو اس کی ماں اسے دیکھ کر خوش ہوتی اور  کہتی کہ شکر خورے کو شکر مل کے ہی رہتی ہے ،نازو ماں کی یہ بات سن کر کھلکھلا اٹھتی۔

وقت گزرتا گیا ،کچھ عرصے بعد  نازو امید سے ہوئی  تو  دلاور خان کے ذہن میں کئی طرح کےسوال  جنم لینے لگے۔ایک طرف  وہ   بیٹے  کے لیے پُر امید تھا   کہ میرا وارث پید ہو گا۔کیوں کہ دادو کی کہی ہوئی  باتیں اس کے دل ودماغ میں  نقش  ہو گئی تھیں۔لیکن انجانا سا خوف  اب بھی کہیں نہ کہیں اس کا پیچھا کرتا رہتا  تھا۔اس نے دل ہی دل سوچا کہ اگر بیٹا پیدا نہ  بھی ہوا تو۔۔۔۔تو بھی  نازو کی محبت کو  کبھی   دل سے نہیں نکالوں  گا۔ کیوں کہ   وہ نازو سے سچی محبت کرتا تھا۔محبت بھی عجیب شےہے قائم  رہے تو ہجر میں بھی وصال اور نہ رہے تو وصال میں   بھی فراق۔۔۔

اسی دوران نازوآکر کہتی ہے ۔آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ اس نے ٹالتے ہوئے کہا :کچھ نہیں۔پتا ہے میری خواہش کہ ہماری بیٹی پید ا ہواور میں اس کا نام جنت رکھوں۔اس نے ہنستے ہوئے کہا :اگر بیٹا پید ا ہوا تو ؟اس کا نام  پھر آپ ہی رکھیں گے۔ہنستے  ہوئے۔۔ ویسے آپ اس کا کیا نام رکھیں گے ؟دلاور خان نے فورا ًکہا :مراد ۔۔۔نازو نے محبت بھرے لہجے میں   کہا :پھر  تومیری دعا ہے کہ پہلے آپ کی ہی  مراد پوری ہو جائے بعد میں  میری  جنت کی۔۔۔۔ نازو کی باتیں اُس کی صورت کی طرح  بہت دل کش لگ رہیں تھیں۔وہ دونوں ایک دوسرے کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

دادو اس بات سے خوش  تھا کہ سائیں دلاور خان کی زندگی خوش باش گزر رہی ہے۔نازو نے اس کی سگریٹ کی عادت کو بھی کافی حدتک کم کردیا تھا۔ ۔وہ دل ہی دل میں یہ  دعا بھی کرتا رہا کہ سائیں دلاور خان کی مراد پوری ہو جائے۔کیوں کہ یہ راستہ تو اسی  نے دکھایاتھا۔ انہی دنوں دادو کی بہوروبی جو تیسری مرتبہ اُمید سے تھی اکثر نازو کے پاس آجایا کرتی ۔  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نازو کی طبیعت ناساز  رہنے لگی  ۔

ان دنوں دلاور خان کو  اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے جانا پڑگیا ۔وہ نہیں   جانا چاہتا تھا مگر نازو نے کہا کہ آپ چلے جائیں مجھے کچھ نہیں ہوگا ۔ویسےبھی اتنے نوکر چاکر ہیں۔دلاور خان نے کہا: اچھا !میں پھر  دادو کو چھوڑ  جاتا ہوں۔ویسےبھی یہ ہمارا سب سے وفادار  ہے۔باہر آ کر دلاور خان نے دادو سے کہا کہ تم بیگم صاحب کا خیال رکھنا۔ بلکہ تم اپنی بیوی اور بہو  کو بھی ادھرہی  لے آؤ۔میں تمھارے بیٹے صغیرے کو ساتھ لے جاتا ہوں۔دو تین دن تک میں واپس آ  جاؤں گا۔دادو نے کہا: جی سرکار جیسے آپ کا حکم ۔  آپ  فکر ہی نہ  کر یں ۔

سب ٹھیک ہو جائے گا۔

شام کودادوکی بیوی نے بتایا   کہ نازو  کی طبیعت بگڑ گئی،ساتھ ہی یہ بھی کہ اپنی بہوروبی کی   حالت بھی ٹھیک نہیں ۔خیروہ  اپنی  بیوی کوساتھ  لےگیا اور دونوں  ماسی شریفاں کولےکرآگئے۔نازو کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی  جب کہ اسی روزروبی کے ہاں بیٹا۔

 دادو نےاپنی بیوی کو  رازدرانہ انداز میں کہا کیوں ناہم  اپنا پوتا دلاور خان کو دے دیں اور خود ان کی بیٹی رکھ لیں ، ویسے بھی روبی کو بیٹی کی بڑی خواہش ہے ۔جب کہ دلاور خان کو”  وارث “چاہیے۔اس کی بیوی تھوڑی دیر تو  خاموش رہی مگر پھر ہاں  میں سر ہلا دیا۔

 رات کو دادو نے  ماسی شریفاں کو روپےدے کر  رخصت کیا  ۔وہ بڑ ی خوش ہوئی کیونکہ اسےاپنی   توقع  سے کافی زیادہ پیسے ملے تھے۔دادو نے رات  کی تاریکی میں سارے معاملات ٹھیک کر دیئے۔ نازو کو جب پتا چلا تو وہ  بہت خوش ہوئی اور کہاکہ دلاور خان کی مراد پوری ہوگئی وہ جیت گیا۔جب دلاور خان واپس آیا اور اسے یہ خبردی گئی تو وہ  بہت خوش ہوا۔اس نے دادو  کو گلے لگایااور کہا کہ مجھے تم پر فخر ہے ،تم نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے ۔

دادو نے اسے بتایا کہ سب  قسمت کے فیصلے ہیں، خدا نے آپ کی مراد سن لی۔ ۔۔دلاور نے اپنے بیٹے کا نام  مراد خان رکھا۔کچھ دن بعددادو نے  دلاور خان سے کہا :سائیں ایک  بات پوچھوں؟ ہاں پوچھو۔ نازو بی بی کے بارے میں آپ نے کیا سوچا؟اس نے ناگواری سے پوچھا۔سوچنا کیا ہے؟دادو! مجھے اس  سے محبت ہو گئی ہے تمھیں پتا ہے اگر ہماری  بیٹی بھی پیدا ہوتی تب بھی میں اسے نہ چھوڑتا۔ ***

Leave a Reply