You are currently viewing وہ اہتمامِ عید جو  دیکھیں تو اب نہیں

وہ اہتمامِ عید جو  دیکھیں تو اب نہیں

ڈاکٹر شوکت محمود

وہ اہتمامِ عید جو  دیکھیں تو اب نہیں

وہ ولولے ،اُمنگیں،وہ جشن و طرب نہیں

وہ شوخیاں،ادائیں ، وہ عارض ، وہ لب نہیں

وہ مے کدہ، وہ ساقی، وہ آبِ عنب نہیں

وہ اہتمامِ عید جو  دیکھیں تو اب نہیں

بے زار بھائی ، بھائی کی صورت سے ہے یہاں

جو جان وارتے تھے،وہ احباب اب کہاں

وہ ذوقِ حسن اور وہ حسنِ طلب نہیں

وہ اہتمامِ عید جو  دیکھیں تو اب نہیں

کیا ہو خیالِ یار ، کہ اب ہے غمِ حیات

ہاں! عشق تھا ہمیں بھی، مگر ہو چکی وہ بات

فرصت کے اب نصیب وہ روز و شب نہیں

وہ اہتمامِ عید جو  دیکھیں تو اب نہیں

دیکھیں جدھر تو پائیں ، ہر اک  گام پر فریب

ملتا ہے یاں  خدا کے بھی اب نام پر فریب

محشر ہوگر بپا تو ذرا بھی عجب نہیں

وہ اہتمامِ عید جو  دیکھیں تو اب نہیں

دل ہوں بجھے بجھے تو خوشی کی نوید کیا ؟

اک مفلس و غریب کی ، ہو  بھی تو عید کیا؟

پوچھے نہیں کوئی بھی جو نام و نسب نہیں

وہ اہتمامِ عید جو  دیکھیں تو اب نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply