You are currently viewing پروفیسر ش اختر سے محمد طیب شمس کی گفتگو

پروفیسر ش اختر سے محمد طیب شمس کی گفتگو

محمد طیب شمس

پروفیسر ش اختر سے محمد طیب شمس کی گفتگو

محمد طیب شمس: سب سے پہلے اپنے خاندان اور حالات زندگی کے بارے میں کچھ بتائینگے؟

 ش اختر: میرا نام سید صابر حسین ہے جسے لوگ میرے قلمی نام ش اختر سے جانتے اور پہچانتے ہیں، میری پیدائش 25دسمبر 1938 کو تاریخی مقام گیا میں ہوئی۔ میرے والد مرحوم کا نام سید سیف الدین حیدر تھا جو انگریزوں کے زمانے میں محکمہ تعلیم میں اسپیشل آفیسر فار محمڈن ایجوکیشن تھے۔ انہیں شعر وشاعری اور اردو ادب سے بھی کافی لگاؤ تھا۔ میرا دادا سید امیر الدین حیدر جن کا شجرۂ نسب کئی پشتوں کے بعد شیخ شرف الدین یحیٰ منیری سے جاملتا ہے ۔ میرے بڑے بھائی سید سعید اختر معروف اختر پیامی ادبی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہے وہ ایک باشعور شاعر، دانشور، مقرر اور بلند قامت صحافی تھے ۔ عرصہ دراز تک ان کی نظمیں ہند و پاک کے ادبی رسالوں اور جرائد میں شائع ہوتی رہیں ہیں جنکا ایک محموعہ کلس، بہت مشہور ہے ۔ چھوٹا بھائی جابر حسین جنکی خدمات کی نوعیت سیاسی ، ادبی اور سماجی زندگی کے وسیع دائرے کا احاطہ کرتی ہے وہ اردو ادب کے ایک قدر آور ادیب ہیں ان کی شاہکار تخلیق ’’ریت پر خیمہ‘‘ پر انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ہے ۔ چھوٹی بہن ذیشان فاطمی جو اردو پروفیسر کے عہدہ سے  ریٹائرڈ زندگی گزار رہی ہے ۔ اس تفصیل کا ذکرکر کے خاندانی فضیلت وبرتری کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ علم وفضل کا ماحول مجھے وراثت میں ملا جسکا میں امین ہوں۔

ط ش: اپنے تخلیقی سفر کے آغاز کے متعلق کچھ بتائیے وہ کیا پس منظر تھا جس کی وجہ سے آپ ادب سے جڑگئے؟

ش اختر: یہ سچ ہے کہ ظلم و تشدد کا بازار جب گرم ہو جاتا ہے تو فنکار کی حساس طبیعت سے فنکاری راوں ہو جاتی ہے اس میں خوشی کے دوپل بھی ہوتے ہیں تو اسی میں مظلومیت کی کہانی بھی ہوتی ہے ، آدی باسی  عوام کی مظلومیت کی کہانی نہ صرف میں نے سنی تھی بلکہ اپنی آنکھو ںسے مشاہدہ بھی کیا تھا۔ ان کی دردناک کہانی میرے رگ وریشے میں بس گئی تھی بس یہی ایک آواز تھی جسے میں افسانہ، کے پیرایہ میں اظہار کیا۔ میری ادبی زندگی کا آغاز 1946 ؁ء میں اس زمانے میں ہوئی تھی جب میں کھونٹی ، رانچی میں مقیم تھا اور میری عمر بہ مشکل آٹھ یا نو برس کی تھی اس وقت میں نے ایک کہانی’’وجے ایک کہانی‘‘ لکھی تھی جو حیدر آباد سے شائع ہونے والا رسالہ ’’ہندوستانی ادب‘‘ میں شائع ہوا۔ میں نے ایک محاذ بناکر آدی باسی اور مقامی زندگی کو پیش کیا ہے ، ان میں ایمانداری ہے، جسارت ہے اور ایک نئے عہد کی آواز بھی ہے۔

ط ش: تخلیقی مرحلے میں موضوع اور فن کے ساتھ کن  امور پر خیال رکھنے کی آپ نے کوشش کی ہے؟

ش اختر:۔ میں نے ہمیشہ لکھتے وقت یہ محسوس کیا ہے کہ میں اپنے تخلیقات کے ذریعہ ایک سماجی فریضہ ادا کررہا ہوں، اچھی کتابوں نے مجھے زندگی سے جدو جہد کرنے کا عزم بخشا ہے۔ اچھے مصنفین نے میرے اندر خود اعتمادی اور خودداری پیدا کی ہے اس کے علاوہ جب میرے قارئین نے اچھی رائیں دی ہیں تو میں نے اپنے آپ کو ٹٹولاہے اپنے اندر کے انسان کو بیدار کیا ہے اور عملی زندگی میں ان اقدار کو آگے بڑھایا ہے جو نوع انسانی کی نشو ونما کیلئے مفید ہے۔

ط ش:۔ رانچی یونیورسٹی میں ایک مشفق استاد کی حیثیت سے وابستہ رہے پھر آپ یونیورسٹی میں وائس چانسلر بھی مقرر ہوئے وائس چانسلر رہتے ہوتے آپ نے کون کونسا نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے؟

ش اختر:۔ وائس جانسلر کے عہدے پر رہتے ہوئے میں کرسی پر بیٹھا نہیں رہا بلکہ وہاں بھی محنت کرتا رہا اور وہاں میں نے کئی نمایاں کارنامہ انجام دیا مثلا رانچی یونیورسٹی میں مولانا آزاد کے نام سے سینیٹ ہال بنوایا۔ سنٹرل لائبریری میں فارمنگ آرٹ اینڈ کلچر کے لئے ایک قدیم ہال کی تجدید کروائی۔ یونیورسٹی کی جمہوری اکائیوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ بیس برسوں کے بعد سینیٹ کا انتخاب عمل میں آیا اور اس کی پہلی یادگار مجلس ہوئی۔ وکیشنل کورس کی تعلیم ، تدریس اور امتحانات کے مسائل حل ہوئے۔

ط ش: جھارکھنڈ کی راجدھانی آپ کی کرم بھومی بھی رہی ہے اور آپ کے ادبی سفر کی آماجگاہ بھی، اسی دوران یہاں کے تجربات اور یہاں کے ادباء شعراء اور تنقید نگاروں کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیجئے؟

ش اختر: جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی ترقی پسند تحریک کی ایک بے حد فعال کرم بھومی رہی ہے اور میرے ادبی سفر کی مضبوط آماجگاہ بھی ہے ، یہاں ہندو پاک کے بہت بڑے مشہور فنکار رہ چکے ہیں، ان میں اختر پیامی ، انور راہی ، معصوم رضا، پرکاش فکری، صدیق مجیبی، وہاب دانش ، امرہندی، وہاب اشرفی، انور عظیم، کلام حیدری، غیاث احمد ، الیاس احمد گدی، وحید الحسن، احمد عظیم آبادی ، شاہد احمد شعیب ، اختر یوسف جیسے باکمال فنکار اس سرزمین سے وابستہ رہے ۔ ان کے بعد کی نسل نے بھی صاف ستھرے ادبی بی مذاق کو زندہ رکھا ہے۔

ط ش : آپ کی تخلیقات میں آدی باسی اور مقامی ادب کی جھلک کافی زیادہ ہے اس کی کیا وجہ ہے؟

ش اختر: زمانہ طالب علمی سے ہی میں چھوٹا ناگپور کے اس علاقے میں رہتا چلا آرہا ہوں جسے اب جھارکھنڈ کہاجاتا ہے۔ میرا بچپن بھی اسی علاقہ میں گذر ا  اس وقت یہ ایک غیر آباد علاقہ تھا۔ میری پرورش آدی باسی اور مقامی باشندے کے ماحول میں ہوئی ہے خصوصاً آدی باسی عوام کا بد ترین استحصال ہوتا ہو ا میں نے قریب سے دیکھا یہی وجہ ہے کہ آدی باسیوں کے روز مرہ کے مسائل ان کی زندگی ، ان کے رسوم ورواج اور ان کی روایتی سادگی میری زندگی کا حصہ بن گئی۔ میںنے جیل کی تنہائیوں او رکال کوٹھریوں میں ان کے ساتھ انقلاب کے خواب دیکھے اور پتھریلی پکدنڈیوں پر ان کے بازؤں کی مچھلیوں نے مجھ میں انسان دوستی کی تاب وتوانائی عطا کی۔

ط ش: آپ کی تخلیقات ، تحقیقات او رتنقیدات میں رومانیت اور ترقی پسند کے عناصر واضح طورپر نظر آتے ہیں شعوری اور لاشعوری طورپر آپ کن کن شخصیتوں اور ادیبوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے؟

ش اختر:۔ میں فنون لطیفہ کی تمام صنفوں کیلئے رومان کو متحرک تخلیقی قدر کی حیثیت تصور کرتا ہوں اور جمالیاتی تقاضوں کو برتنے کے لئے فنکارانہ شعور کا ایک روشن نقطۂ نظر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہاہوں کیونکہ میرے خیال میں ترقی پسند تحریک ہندوستان کی ایک عظیم ادبی اور تہذیبی تحریک تھی، جس نے غیر معمولی ادب تخلیق کیا بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ  بہتر ہو گا کہ اس نے پہلی بار ہمیں ادبی شعور بخشا۔ مقصدی ادب کی اہمیت اس سے نہیں کے برابر تھی اور شاید وانبساط کی حدوں سے ادب یک گونہ آگے نہیں بڑھی تھی، ترقی پسند تحریک نے ہمیں ایک ایسا ادبی، سماجی اور سیاسی شعور بخشا جس کی روشنی میں انسان دوستی کا جذبہ ہمارے ادب پر غالب آگیا۔ یہ ایک ایسی عظیم ادبی تحریک تھی جس نے صدیوں کی ادبی روایات کو پس پشت ڈال کر ایک نئی دنیا تخلیق کی، ایک نئی روش پر چلنے کے لئے فنکاروں کو آمادہ کیا۔اس تحریک نے بہتر معاشرے کی تشکیل کا خواب دیکھا، ایک ایسا خواب جہاں سماج میں نا انصافیوں او رنابرابر یوں کا وجود نہیں ، جہاں استحصال کا خاتمہ ہو اور جہاں انسان اپنی اعلی ٰ  ترین خداداد صلاحیتوں سے فطرت کے سارے طلسم کوبے نقاب کرنے کا اہل ہوجائے اس مرحلے میں جن صاحب کمالات شخصیتوں سے میںنے استفادہ کیا اور واسطہ وبلا واسطہ میرے شعور اور لاشعور کا حصہ بنے ان میں گوتم بدھ، کرشن، حضرت علی ، امام حسین کی ذات اقدس شامل ہیں اس طرح ادیبوں اور فنکاروں میں کرشن چندر، پریم چند ، وکٹیر ہیوگو، پوروفوک، وڈرزورتھ کارل مارکس اور فرائد جیسے فنکاروں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

ط ش: آپ ترقی پسند ادیبوں میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں آج جبکہ اس تنظیم نے تقریباً دم توڑ دیا ہے۔ کیا آپ کی نظر میں یہ تحریک باقی ہے۔ میں یہ سوال اس پس منظر میں کررہا ہوں کہ ایک بار مجنوں گورکھپوری نے کہا تھا کہ ترقی پسند تحریک قیام پاکستان کے بعد ختم ہو گئی اور یہ واقعہ گذرے کچھ سال بیت گئے ہیں؟

ش اختر:۔ ترقی پسند تحریک کے زوال کے کئی اسباب ہیں ۔ میں اس وقت ان پر روشنی ڈالنا نہیں چاہتا صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ ہندوستان میں بھی دوسرے ملکوں کی طرح ترقی پسند تحریک کے کئی پہلو نمایاں ہوئے۔ شاخیں ہوئیں ، گروپ بندیاں ہوئیں اور یہ ایک فطری عمل تھا کیونکہ دنیا کی کوئی شئے برابر اپنی اصلیت پر قائم نہیں ہے۔ ہر لمحہ اس میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ ترقی پسند تحریک ایک عالمی تحریک تھی۔ ہندوستان میں اس نے تمام زبانوں کے ادیبوں کو متاثر کیا، مگر اردو میں اس تحریک کے لا زوال کارنامے ہیں جو ہماری تہذیب اور ادب میں ایک کلاسیکس کی حیثیت رکھتے ہیں، نئی ترقی پسند تحریک نیا خون چاہتی ہے ، یقینا نیا فنکار اس تحریک کو تقویت پہنچائے گا۔

ط ش: آج اردو زبان کو مسلمانوں سے وابستہ کردیا گیا ہے بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو والے فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور غیر مسلم تخلیق کاروں کی قدر نہیں کرتے آپ اسے کس ناحیہ سے دیکھتے ہیں جبکہ آپ ایڈمنسٹریشن میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں؟

ش اختر: اردو ادب ہندوستان کا واحد ادب ہے جس میں انگریز، ہندو، فرانسیسی، ایرانی، پر تگالی اور چینی تمام افراد نے اپنی اپنی گرانقدر تخلیقات پیش کی ہیں ۔ ایک گارساں دی تاسی کی مثال ہی کافی ہے۔ یہ نام اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو والے نے کبھی بھی لسانی تعصب کی طرف پیش قدمی نہیں کی ہے ۔ اس زبان کا ادب ہماری جمہوری روایت کا بہترین نمونہ ہے ۔ ہندوستان کی آزادی میں اس زبان کا ایک اہم جمہوری رول رہا ہے۔ اس نے ہندوستان میں قومی آزادی کا حوصلہ عام کیا اور انقلابی ترانے بخشے۔ رنگ ، نسل اور ذات کی تفریق کے خلاف زندگی کے ہر موڑ میں آواز بلند کی ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی شعبدہ بازی کی وجہ سے اردو زبان کو مسلمانوں سے وابستہ کر دیا جارہا ہے۔

ط ش: قومی یکجہتی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیونکہ گاہے بگاہے ہمارے ملک میں ہندو مسلم فسادات رونما ہوتے رہتے ہیں اور آپسی رنجش وفرقہ پرستی نمودار ہو جاتی ہے؟

ش اختر: ترقی پسند فنکاروں نے ابتداء سے ہی فرقہ پرستی ، تنگ نظری ، علاقائی عصبیت اور مذہبی بد دیانت داری کے خلاف آوازیں بلند کی تھیں اور یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان مختلف زبانوں کے فن کار ایک پلیٹ فارم جمع ہو چکے تھے۔ آج بھی جب تحریک کے کارکن اور حمایتی ایک منتشر شیرازے کو سمیٹنے کی کوشش میں لگتے ہیں تو وہ اس تلخ حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ فسادات کے بدترین دنوں میں بھی غیر اردو داں اور خصوصیت سے ہندی ادیبوں اور دانشوروں کی طرف سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ اردو کے ترقی پسند ادیب وشاعر نے قومی یکجہتی کے تصور کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا ہے۔

ط ش: انسان خواہشات سے لبریز رہتا ہے خصوصاً عزت ، دولت اور شہرت کی خواہش تو ہر دل میں ہوتی ہے ظاہر ہے کہ یہ ساری خواہش آپ کے حصہ میں بھی آئی ہیں آپ بحیثیت ادیب وناقد خود کو کیسا محسوس کرتے ہیں ؟

ش اختر: یہ صحیح ہے کہ خواہشیں لا محدود ہوتی ہیں اور یہ زندگی کے آخری لمحے تک باقی رہتی ہیں۔ دوخواہشیں میرے حصے میں بھی ایسی آئی ہیں جو برابر مجھے اکساتی رہتی ہیں کچھ کرنے کیلئے ، کچھ لکھنے کیلئے، عوام کی خدمت حصوصیت سے عورتوں کی یہ میری زندگی  کا روشن پہلو رہا ہے ۔ آج بھی میں کسی نہ کسی روپ میں انہیں اپنا ہمدرد ، دوست اور رفیق سفر تصور کرتا ہوں۔

ط ش: یہ کہا جاتا ہے آپ اپنی تخلیقات میں جنس کو کافی ترجیح دیا ہے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ش اختر: جنس کو میں فنون لطیفہ کی تمام صنفوں کے لئے متحرک اور تخلیقی قدر کی حیثیت تصور کرتاہوں، زندگی کتنی ہی الم ناک کیوں نہ ہو جنس روز ازل سے ہی سکون وراحت کے باعث ہے یہی وجہ ہے کہ جنس پیٹ کے بھوک کے بعد دوسری سب سے بڑی بھوک ہے ۔ وہ پہلا آدمی ہے جس نے یہ پھل کھایا، وہ اس وقت کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ میرے نزدیک یہ دنیا کی سب سے اہم ضرورت ہے اور میں اس کے بغیر اپنے وجود کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا میں اسے بڑی اہمیت دیتاہوں اور اپنی تخلیقات کا عظیم محرک مانتا ہوں۔

ط ش: ایک تخلیق کار کو اپنی سبھی تخلیقات عزیز ہو تے ہیں وہ کسی بھی تخلیق کو کم تر نہیں سمجھتا آپ اپنے کو کس قدر تخلیق کار تسلیم کرتے ہیں؟

ش اختر:۔ میں ادب میں رومانیت اور ترقی پسند یت کا قائل  ہوں اس لئے مجھے کرشن چندر اور پریم چند دونوں پسند ہے، ایک رومانی اور حقیقی فنکار نئے خیالات ، نئی دنیا اور عوامی ادب کو تراشتا ہے ۔ زندگی کو سمجھنے ، دیکھنے اور برتنے کا ایک نیا نظریہ ہوتا ہے اور وہ تخیل اور حقیقت کا بادشاہ ہوتاہے اسی لئے ایسا ادب تخلیق کرنا چاہتا ہے جو وقت گذرنے کے بعد بھی زندہ اور توانا رہتا ہے۔

ط ش: عہد حاضر میں تنقید کی صورت حال کے پیش نظر موجودہ تنقید کو آپ کیسا پاتے ہیں؟

ش اختر: میں نے اپنی کتاب ’’نئی ترقی پسند تنقید‘‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے میرا یہ ماننا ہے کہ تنقید تبصرہ اور جائزہ نہیں ہو تی ہے یہ ایک حکیمانہ عمل ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ تنقید حکمت ودانائی کا ایک فلسفیانہ اظہار ہے۔

ط ش: آپ نے آئندہ نسلوں سے کیا توقعات وابستہ کر رکھی ہے اور آپ کو کیا امکانات نظر آتے ہیں؟

ش اختر: میںنے ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھا ہے جو ہر قسم کے استحصال سے پاک ہو ۔ ابھی یہ دنیا عالم وجود میں نہیں آئی ہے لیکن آئے  گی ضرور وہ انسان بھی جنم لے گا جس کے سامنے ملکوں کی سرحدیں بے معنی ہو جائیں گے میں اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کے لئے زندہ نہیں رہو نگا لیکن میری آرزوئیں ، میرے خواب ، میرے تخلیقات گرد راہ بن کر اس انسان کے قدم چومیںگے جس کے اشاروں پر خواہشوں کی تکمیل ہوا کرے گی اس لئے میں آنے والی نسلوں سے صرف ایک ہی بات کی توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے اور اپنے عوام کے تئیں ایماندار رہیں اور عوامی مفادات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔

***

سوانحی کوئف

نام:              سید صابر حسین

قلمی نام:          ش اختر

تاریخ پیدائش:     25  دسمبر   1938

مقام پیدائش:     گیا ،بہار۔

تاریخ وفات:       ۱ ؍مئی 2021

 مقام وفات:       رانچی، جھارکھنڈ

تعلیم:             ایم اے اردو ، پی ، ایچ ، ڈی۔

ملازمت: پروفیسر شعبہ اردو رانچی یونیورسٹی ، پروائس چانسلر اور وائس چانسلر رانچی یونیورسٹی ، جھارکھنڈ۔

کتابیں:۔٭زنداں کی ایک رات (افسانوی مجموعہ) 1964 ٭چھوٹا ناگپوری کی کہانیاں (افسانوی مجموعہ) 1077 ٭عدسہ  (تنقید) 1968 ٭ خوں بہا (ناولٹ) 1977 ٭اردو افسانوں میں بس بین ازم (تنقید) 1977 ٭ شناخت (تنقید)1981 ٭شہر نامہ (تحقیق) 1995 ٭ باغی کی وراثت (تاریخی تحقیق) 1996٭سوفو کلیز (تنقید) 2000٭ وناش یاترا (شاعری) 2002 ٭ تحقیق کا طریقۂ کار (تحقیق) 2010 ٭ شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید (تنقید) 2012 ٭ جھارکھنڈ میں اردو تنقید (تنقید) 2012٭جھارکھنڈ کے نظم کو شعراء (تنقید) 2014٭ نئی ترقی پسند تنقید (تنقید) 2015

صحافت  مدیر:ہم لوگ رانچی (پندرہ روزہ)

اعزاز وانعام:۔ میر اکیڈمی لکھنو اترپردیش، اترپردیش اردو اکاڈمی کی جانب ’’ سوفوکلیز‘‘ کیلئے انعام، فخر الدین علی احمد غالب انعام برائے ا ردو تحقیق وتنقید 2018 ۔

ش اختر ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں وہ نہ صرف ایک باصلاحیت استاد کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی بلکہ  وہ ایک مشفق وائس چانسلر بھی ہوئے ۔ موصوف بنیادی طور پر مارکسی نظریہ پر کار بند اور ترقی پسند فنکار ہیں، انکا طرہ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے شاعری بھی کی ہے،  ناولٹ وافسانے بھی لکھا ہے اور تحقیق وتنقید میں بڑا کام کیا ہے۔ ان کی ہمہ گیر شخصیت کے گہرے نقوش شہر رانچی ، جھارکھنڈ کے ادبی ، سماجی، علمی اور سیاسی زندگی میں رواں دواں ہیں ان کا انتقال ۱؍مئی ۲۰۲۱م رانچی جھارکھنڈ میں ہوا ہے  پیش ہیں ان سے لئے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔

***

Leave a Reply