You are currently viewing پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کی کتاب ’اسالیب فکر‘ کا اجمالی جائزہ

پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کی کتاب ’اسالیب فکر‘ کا اجمالی جائزہ

 ڈاکٹر شیخ محمد سراج الدین ،حیدرآباد

پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کی کتاب ’اسالیب فکر‘ کا اجمالی جائزہ

         انسان کی فطرت میں نئی چیز کے متعلق جاننا اور معلومات حاصل کرنا شامل ہے۔تجسس اور شوق کی تکمیل کے لیے معلومات میں اضافے کے لیے تحقیق دراصل اہم مقصد ہوتا ہے۔تحقیق سے مراد شئے کی حقیقت کا اثبات،حقائق کی بازیافت،حق کی تلاش،حق کی جستجو،شک کو دور کرنا، یقین کو حاصل کرنا بار بار تلاش وہ جستجو کرنا تاکہ حقیقت یا حق واضح ہو جائے۔ مواد جمع کرنا ہی تحقیق نہیں بلکہ جمع شدہ مواد سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا تحقیق کہلاتا ہے۔حقائق کی تلاش کے لیے جو بھی کوشش کی جائے اسے تحقیق کہتے ہیں۔

         اس حوالے سے ڈاکٹر عندلیب شادانی یوں رقمطراز ہیں۔

’’تحقیق میں یا تو کوئی نئی بات دریافت کی جائے یا کسی پرانی بات کے لیے نئے گوشے نمود کیے جائیں‘‘

 (عبدالودود قاضی،اصول تحقیق،مشمولہ،تحقیق و تدوین جلد اول مرتب محمد ہاشم، علی گڑھ 1974 ص 32)

         اردو ادب میں تحقیق کا ایک وسیع پس منظر موجود ہے اردو تحقیق کی روایت زیادہ تر قدیم تو نہیں لیکن نامور محققین نے شب و روز کی محنت سے اردو تحقیق میں اضافے کیے اور اج اردو تحقیق کی ایک مضبوط اور مستند روایت ہمارے سامنے ہے۔ہندوستان میں جن محققین نے تحقیقی روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے،  ان میں پروفیسرگیان جین،  پروفیسر انور الدین،  پروفیسر خواجہ اکرام الدین، پروفیسر ارتضی کریم،پروفیسر مجید بیدار، پروفیسر فضل اللہ مکرم،ڈاکٹر افتاب عالم آفاقی و پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔پروفیسر ضیا الرحمن صدیقی کا نام بھی اردو تحقیق کا ایک معتبر نام ہے۔انہوں نے لسانیات پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ موصوف بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق،نقاد و مترجم بھی ہیں۔ملکی وہ غیر ملکی رسائل، جرائد و تحقیقی کتب میں مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کی تحقیقی کتب ملکی و بین الاقوامی شناخت بن چکی ہیں۔

         پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کی تحقیقی کتاب اسالیب فکر اس کا بہترین نمونہ ہے۔پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی  نے اس کتب میں اردو اصناف ادب و اہم ادبی شخصیات  کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کی تحقیقی نگارشات تعصب اور جانبداری سے پاک ہیں۔۔اس کتب میں پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کے موضوعات بھی کسی خاص دائرہ کار میں محدود نہیں ہیں۔انہوں نے متنوع جہتوں میں تحقیق کر کے نہ صرف اپنے ذوقِ تحقیق کی تکمیل کی ہے بلکہ میدان تحقیق کو بھی وسیع کر دیا ہے۔

         پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کے فن و شخصیت پر ڈاکٹر عذرا شیریں جاگیردار نے اپنا اظہار خیال یوں پیش کیا ہے۔

  ’’پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کے بارے میں میرا جو ذاتی تاثر قائم ہوا،وہ یہ کہ اپ ایک ایسے صاحبِ طرز ادیب ہیں جن کے علم میں گہرائی ہے،  مطالعے میں وسعت،اظہار کی جرات،تجزیے میں اعتدال، تنقید واضح و سخت اعتراف میں انصاف اور نظر حقیقت پسند ہے۔راقمہ نے نہ اپ سے روبرو گفتگو کی اور نام ملاقات ، لیکن اپ کے بارے میں اہل دانش وہ بینش سے بہت بار سنا ہے۔حالیہ چند دنوں سے میں آپ کی تصانیف،تراجم تنقید اور تحقیقی کار جمیل سے مستفید ہو رہی ہوں۔‘‘

(ڈاکٹر عذرا شیرین ورثہ جلد نمبر 4 شمار نمبر 11 اپریل تا جون 2024 ص 7)

         پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کی تحقیقی شاہکار اسالیب فکر تخلیق کار پبلشرز نئی دلی سے 2015 میں شائع ہوئی جن میں جملہ 16 مضامین ہیں جن کے عناوین مندرجہ ذیل ہیں۔

اثارالصنادید: (1)آثاریات پر ایک نادر دستاویز  (2) اقبال اور تصوف  (3) غالب کی حکیمانہ دانش اور فہیم و فراست  (4) پریم چند کی کہانیوں میں سماجی شعور  ( 5) فیض کے نثری افکار  (6) جوش کا فن  (7)جوش کی نظموں میں رومانیت  (8) قائم شناسی ایک تجزیہ  (9)شاد عظیم آبادی شخصیت و سوانح(10) قاضی عبدالغفار(11) اقبال سہیل کا فن(12) اوپرا نگاری(13) اردو شاعری میں پیکر تراشی(14) ہندوستانی زبانوں کا مرکزی ادارہ (15)ہماچل میں اردو ایک جائزہ(16) تحریک ازادی اور اردو صحافت۔

         پروفیسر ضیاء الرحمن اسالیب فکر کے مضامین کے متعلق یوں لکھتے ہیں۔

 ’’’زیر نظر کتاب اسالیب فکر خاکسار کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا انتخاب ہے۔ یہ انتخاب بالترتیب 16 مختلف النوع مضامین پر مشتمل ہے ان میں سے بعض ریڈیائی تقریریں مختلف سمیناروں کیلئے لکھے گئے مقالات اور توسیع خطبات بھی شامل ہیں چند مضامین ایسے بھی ہیں جو موضوع سے ذاتی دلچسپی کی بنا پر ضبط تحریر میں لائے گئے‘‘

(پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی فکر تخلیق کار پبلشرز دہلی 2015 ص 12)

         پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی نے آثار الصنادید کے عنوان سے ایک مفصل اور جامع مضمون قلمبند کیا ہے۔ اس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس مضمون میں موصوف نے آثار الصنادید کی مختلف اشاعتوں کا تذکرہ کیا ہے اس کی تاریخی اہمیت وہ قدر و قیمت پر مفصل بحث کے علاوہ سر سید احمد خان کی زبان اسلوب پر تنقیدی نظریہ پیش کیا ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

’’سر سید نے نثر لکھتے وقت اصل وجہ تسمیہ کی بجائے بات کو شاعرانہ اور خیالی انداز میں بیان کیا ہے ان کے یہاں کہیں کہیں واقعہ نگاری اور حصہ نگاری کے نمونے بھی مل جاتے ہیں نیز الفاظ کی نگرانی میں طنز بھی چھپا ہوا دکھائی دیتا ہے۔‘‘

(پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی اسالیب فکر تخلیق کار پبلشرز دہلی 2015 ص 22)

         پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی محقق نقاد مترجم اور شاعر کے علاوہ ذہین ادیب بھی ہیں ان کی تخلیقات میں ایک نئی چیز نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ موصوف کا انداز منفرد،اسلوب نرالہ و عمدہ پیشکش ہے۔یہ فن سے وہ بخوبی واقف ہیں۔پروفیسر صاحب کسی عنوان کے لیے جب قلم اٹھاتے ہیں تو مندرجہ بالا خوبیاں موجود ہوتی ہیں اسالیب فکر کا دوسرا مضمون اخبار اور تصوف ہے اس مضمون میں پروفیسر صاحب نے بڑی عمدگی سے شاعر مشرق علامہ اقبال کے نزدیک تصوف کی حیثیت کیا ہے؟ اسلام میں تصوف کا معیار و مقام کو عیاں کیا ہے اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔۔

 ’’اسلام کی اصل بنیاد قران اور سنت پر ہے جس جس فکر کی تائید ان دونوں سے ہوتی ہے دراصل وہی اسلام ہے دراصل وہی اسلام ہے. اپ نے ایک خط میں اقبال تصوف کو غیر اسلامی تصور کرتے ہیں…۔۔۔۔”مسلمانوں میں یہ مذہب حراں کے عیسائیوں کے تراجم کے ذریعے پھیلا اور رفتہ رفتہ مغرب اسلام کا ایک جز بن گیا میرے نزدیک یہ تعلیم غیر اسلامی ہے اور قرآن کریم کے فلسفے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تصوف کی عمارت اسی یونانی بہبودگی پر تعمیر کی گئی۔‘‘

(پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی اسالی بے فکر تخلیق کار پبلشرز دہلی 2015 ص 25)

         پریم چند کی کہانیوں میں سماجی شعور مضمون میں پروفیسر صاحب نے پریم چند کے اسلوب،افکار،طرز تحریر، امیدیں،انقلابی پیغام وغیرہ کو پیش کیا ہے۔ پریم چند غریب کسان طبقہ و دلتوں کا مسیحا ہے۔ اس کی تحریروں میں سماجی مسائل و بغاوت وغیرہ کے پہلو نظر آتے ہیں پریم چند نے اپنی تحریروں کے ذریعے سماج میں ایک انقلاب برپا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے ان پہلوؤں کو جا کر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں حق تلفی ہو رہی تھی ظلم و بربریت کا ماحول برپا ہو رہا تھا ان کو پریم چند نے اپنے قلم کے ذریعے عیاں کرنے کوشش کی۔۔۔۔

پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی نے اپنا مضمون فیض کے نثری افکار ایک عمدہ تحقیق ہے اب تک ہم نے فیض احمد فیض کی شاعری کے متعلق پڑھا لکھا اور سمجھا۔ لیکن اس ایک نئی تحقیق سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ فیض ایک ادیب بھی ہیں فیض بیسویں صدی کے شعرا میں نمایاں نام رکھتے ہیں۔ فیض کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ”میزان” میں تنقیدی پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے۔اصل بے اسالیب فکر میں پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی نے جوش ملیح آبادی پر دو مضامین لکھے ہیں۔ ایک جوش کا فن اور دوسرا جوش کی شاعری میں رومانیت۔۔

         جوش کی پہچان و شناخت شاعر انقلاب،شاعر شباب و شاعر رومان ہے۔ میر انیس و اقبال کے بعد جوش کے یہاں لفظیات کا سب سے بڑا ذخیرہ ملتا ہے موخذالذکر میں پروفیسر صاحب نے جوش کی نظموں میں رومانیت کے حوالے سے عمدہ بحث کی ہے۔قائم چاند پوری میں موصوف نے نئی تحقیق کے ذریعے یہ بات سامنے لائی ہے کہ قائم چاند پوری مثنوی میدان کے بھی اہم شہہ سوار تھے وہ سودا کے شاگرد تھے ان پر ان کے فن پر موصوف نے کھل کر تذکرہ کیا ہے۔پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کی سوچ کے دھارے ادھر ادھر گھوم کر اقبال،غالب، پریم چند،فیض،جوش،قائم،شاد عظیم آبادی تک جا ملتے ہیں۔ ان کی ایک خاص وجہ وہ تہذیبی ادبی و ملی محبت بھی ہے جس کا رنگ ہمیں ان شعرا کے کلام میں نظر آتا ہے۔

         شاد عظیم آبادی شخصیت و فن مضمون میں پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی نے بڑی جانفشانی سے تحقیق کے ذریعے نئے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ اس میں انہوں نے شاعری کے متعلق سوچ کے ذریعے بتایا ہے کہ شاد عظیم آبادی کی شاعری میں نہ صرف موضوعاتی حوالے سے تنوع کی حامل ہے بلکہ فنی حوالوں سے بھی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ ان کے اشعار کی ایک بڑی خوبی سہل ہے ان کے اشعار سادہ رواں بھی ہیں اور معنویت سے بھرپور بھی۔۔ ان کے ہاں سادگی بیان کے ساتھ ساتھ اثر انگیزی بھی پوری طرح موجود ہے۔ ان کی شاعری کے یہ رنگ بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں۔۔

         پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کی تحقیق کا اگر ہم مجموعی طور پر جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں، کہ ان کے تحقیقی نظریات میں خاصی وسعت اور گہرائی ہے۔ انہوں نے مختلف اصناف نظم نثر پر بڑے بھرپور تحقیقی مضامین تحریر کیے ہیں وہ کسی ایک دبستان تحقیق کے مقلدا نہیں بلکہ ان کے ہاں مختلف دبستانوں کے اثرات نظر آتے ہیں۔ انہوں نے جن مختلف شعراء اور نثر نگاروں کی تخلیقات کا جائزہ لیا ہے، اس میں انہوں نے ان تخلیق کاروں کے نمایاں رجحانات اور ان کی تحریروں کے نئی فکر کو بڑی خوبی اور خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔ ان کی تحقیقی آرا بڑی نپی تلی اور بصیرت آمیز و بصیرت افروز ہوتی ہیں اور قاری کے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کرتی ہیں۔

Leave a Reply