You are currently viewing پسِ مرگ

پسِ مرگ

ریاض اکبر

آسٹریلیا

پسِ مرگ

ایک منظر تھا ترے شہر سے جانا جاناں

کاندھوں کاندھوں وہ کہیں دور بہت دور سفر

ایک بیتاب تمتع سے مزین، چپ چاپ

ایک ہیجان سمیٹے ہوئے خاموشی سے

ایک ہی سمت مرتب سے زمینوں پہ نقوش

کئی نسلوں سے کئی اجنبی ناموں کے ہجوم

طنزیہ ہنستے ہوئے زیست کے اندازے پر

چند لمحوں کے لئے خود بھی مجھے ایسے لگا

جیسے کاجل سا بکھرتا ہو کہیں غازے پر

جیسے دیوار سی چن دے کوئی دروازے پر

یا کوئی شام سی محدود ہوئی جاتی ہو

یا کوئی راہ سی مسدود ہوئی جاتی ہو

اور پھر توڑ کے لمحوں کا طلسمی ہالہ

ہمرکابی کے تسلسل کا تحیر جاگا

کوئی آغاز نہ انجام نہ آنا جانا

بے معانی سا لگا وقت گزرنے کا خیال

دیکھ یہ ہم ہی تو ہیں جھیل کنارے بیٹھے

نرم سی گھاس پہ تھامے ہوئے اک دوجے کو

گیلی مٹی سے بھرے جھولتے ننگے پائوں

سبزہ زاروں میں پرندوں کی صدا پر رقصاں

اور وہ ایک پناہ گاہ میں سلگتی ہوئی آگ

وہ جہاں غار میں کچھ ہم نے بنائے تھے نقوش

اور پھر شام اسی آگ کے سائے میں کہیں

ایک دوجے کے بدن رنگ دئے تھے ہم نے

پھر یہی رنگ لئے ایک بسنتی رت میں

ہم نے اک ساتھ ہی کی سرسوَتی کی پوجا

آبلہ آبلہ ہاتھوں میں دعائیں بھر کے

دیکھ کس شوق سے ترشے ہیں یہ ہم نے پتھر

یہ گوبیکلی، یہ اجنتا، یہ ہمارے مندر

اجنبی لفظ تھے، اچھے لگے گھر لے آئے

اپنے آنگن میں رواجوں کے شجر لے آئے

ان رواجوں سے بغاوت بھی ہمیں نے کی ہے

نت نئی سوچ کے رنگین علم تھامے ہوئے

یہاں ٹکشاپ میں میری تری پر جوش بحث

پھر کبھی بات نہ کرنے کی وہ پکی قسمیں

پھر اسی شام سبھی توڑ کے قسمیں رسمیں

اپنا اس طور سے ملنا کہ بچھڑ نہ پائے

اور ہر ماہ وہ میٹنگ کو کہیں اپنا سفر

ذہن الجھا ہوا الفاظ کے انباروں سے

چاندنی جھانکتی بالوں کی کئی تاروں سے

وہی ہاتھوں کا بڑے شوق سے کی بورڈ پہ رقص

وہی پلکوں کو جھپکنے کا تمہارا انداز

اور چہرے پہ وہ کڑوا سا تاثر کہ مجھے

اس ایرلائن کی کافی نہیں اچھی لگتی

جانتا ہوں کہ کئی اور جنم بھی ہونگے

آج جو ہم ہیں ہیں جدا پھر سے بہم بھی ہونگے

پھر سے تحریر میں آئے گا فسانہ جاناں

گو جدائی ہے رفاقت کا بہانہ جاناں

پھر بھی اچھا سا لگا تجھ کو بتانا جاناں

ایک منظر تھا ترے شہر سے جانا جاناں

***

Leave a Reply