You are currently viewing پشتو اوراردو زبان میں مماثلت

پشتو اوراردو زبان میں مماثلت

پشتو اوراردو زبان میں مماثلت

ڈاکٹر محمد مظہر الحق

ایسوسی ایٹ پروفیسر

جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی

پشتو زبان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے ہے اور ہند آریائی زبانوں میں فارسی اور سنسکرت زبانوں کی بہن بتایی جاتی ہے۔  سنسکرت زبان کے بارے میں اسکالر بتاتے ہیں کہ یہ مذہبی  زبان ہونے کی وجہ سے مذہبی اور دینی عالموں کے درمیان ہی محصور ہوکررہ گئی  اور کبھی بھی عوام کی زبان نہ بن سکی۔  اس کے برعکس فارسی زبان ہمیشہ درباری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی زبان بھی  رہی  اور کافی پھلی پھولی اور ترقی کی، اسی وجہ سے اس کے لہجوں میں بہت سے اختلاف اور کافی اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملتاہے، موجودہ زمانے کی فارسی میں تہرانی لہجہ کچھ ہے تو شیرازی اور اصفہانی لہجہ کچھ اور ہے، افغانستان  کی دری فارسی میں کابلی لہجہ کچھ ہے تو ہراتی لہجہ  کچھ اور ہے ، ہندوستانی فارسی کچھ ہے تو تاجیکی فارسی کچھ اور ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ اس کا وسیع و عریض علاقہ ہے۔

 جیسا کہ اوپر بیان ہوا ،  پشتو زبان ہند آریائی زبانوں کی ایک شاخ ہے،    جس کی قدامت حضرت  عیسیٰ ؑ       سے    کئی  سال قبل بتائی   جاتی  ہے۔   پروفیسر عبدالخالق رشید  کے بقول مشہور سنسکرت گرامرین پانینی کا تعلق بھی اسی زبان سے رہا ہے جوچوتھی صدی قبل مسیح   گندھار اکےمضافات میں زندگی بسر کر رہے تھے۔اس کی کتاب “اشٹادھیائے”  پر بھی  پشتو کے گہرے اثرات بتائے جاتے ہیں۔

افغانستان میں  اسلام آنے کے بعد  پشتو  زبان سامانیوں، غزنویوں، سلجوقیوں اور قاچاریوں   کی سرپرستی سے محروم رہی،  جس کی وجہ سے یہ عوام کی زبان تو رہی مگر اس میں شستگی نہ آ سکی ،  حالانکہ اس زبان  میں بڑے بڑے ادبا  ٔو شعرا  ٔپیدا ہوئے۔ “پٹہ خزانہ “کے مطابق  پشتو زبان کا سب سے پہلا معلوم شاعر امیر فولاد کے بیٹے امیر کڑوڑ  ہیں  جو  ۱۳۹ ھ مطابق ۷۵۶ء میں غور اور سیستان کے بادشاہ تھے، جن کے اشعار آج بھی موجود ہیں۔۱۶ویں صدی عیسوی میں  پیر روشان  اور ارزانی   خیشکی      کا    نا  م سر فہرست ہے    اور ۱۷ہویں صدی میں بابائے پشتو  خوشحال خان خٹک اور پشتو زبان کے صوفی شاعر رحمان بابا  پیدا ہوئے ،جنہوں نے شاعری کے تقریبا ً ہر میدا ن میں طبع آزمائی کی،  جن کی دیوانیں  آ ج بھی پڑھے لکھے  لوگوں  کےکتب خانوں کی زینت بنے ہوءے ہیں، لیکن  ۱۸رہویں صدی عیسوی میں شاہ بابا  احمد شاہ ابدالی کا حکومت میں آنے کے بعد اس  زبان نے اپنا کھویا ہوا مقام پانے میں کامیابی    کی طرف گامزن ہوگئی ، اس کے بعداب  آہستہ آہستہ اپنی ترقی کی راہیں ہموار کرنے میں مشغول ہے۔آ ج یہ افغانستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے، جس کے بولنے والے ۶۰ فیصد سے زیادہ افغان ہیں  ، یہ زبان افغانستان کے علاوہ  پاکستان ،ایران اور اور دنیا کے اور کئی  ملکوں کے ساتھ ساتھ ہندستانی کشمیر کے کچھ علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

ادھر اردو زبان کے بارے میں محققین کی رائے ہے کہ یہ زبان ہند آریائی زبانوں میں سے ایک ہے ،جسے فارسی اور سنسکرت کی بہنو ں میں شمار ہونے کے بجائے اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ شمار کی جاتی ہے،جس کی ابتدا    ہندستان میں بہت بعد میں    ہوئی۔  اردو زبان کی ابتدأ  سے متعلق محققین کی مختلف آراء ہیں، بعض کا خیال ہے کہ اس کی ابتدأ  سب سے پہلے جنوبی ہند  میں عرب تاجروں سے رابطے میں آنے کے بعد ہوئی ، بعض کا ماننا ہے کہ عرب فاتح محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد کے بعد مقامی لوگوں سے ارتباط کے   نتیجے میں ایک نئی  زبان کی ابتدا ٔہوئی ہوگی، جسے ابتدائی اردو کا نام دیا گیا،  اس نظریے کے حامیوں میں  سید سلیما ن ندوی کا  نام سر فہرست ہے ۔کچھ لوگ اردو کے ابتدأکے لئے  محمود غزنوی کا زمانہ قرار دیتے ہیں ۔  حافظ محمود شیرانی نے اپنے تحقیقی مطالعے   کی بنیاد پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ  اردو  زبان کی ابتدا ٔپنجاب سے ہوئی۔  ان کا خیال ہے کہ محمود غزنوی نے   ہندوستان پر  بار بار حملے کئے  ، جس کے نتیجے میں یہاں پنجاب میں ایک آزاد حکومت قائم  ہوئی جو تقریبا ۲سو سال تک دہلی سلطنت  کے قیام سے پہلے تک باقی رہی۔ ان دو سو سالوں میں فارسی اور ترکی بولنے والے فاتحین کا مقامی لوگوں کے رابطے میں آنے کے نتیجے میں ایک نئی زبان  کی ابتداء  ہوئی اور ایک  بنیادی ڈھانچہ  اردو کی شکل میں وجود میں آیا  ، جو بعد میں محمد شہاب الدین غوری  کے ذریعے دہلی میں سلطنت مملوک کے قیام کے  بعد  یہ نو مولود زبان جسے اب بول چال کی حیثیت  حاصل ہوچکی تھی اپنے بولنے والوں کے ساتھ  پنجاب سے دہلی منتقل ہوگئی۔حالانکہ محمد حسین آزاد نے  اس  زبان کی ابتدا کے بارے میں اردو کے رشتے کو برج بھاشا سے قراردیتے ہیں ، لیکن محمود شیرانی کے مذکورہ نظریے کے منظر عام پر آنے کے بعد  محمد حسین آزاد کے نظریے کی تردید ہوجاتی ہے۔

      بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اردو کی ابتدا دہلی اور اس کے گرد و نواح ،خاص طور پر مغربی یوپی  کے میرٹھ میں ہوئی  ، اس نظریے کے ماننے والوں میں  ڈاکٹر مسعود حسین  خان کا نام سر فہرست ہے ۔ لیکن  کچھ محققین کا خیال ہے کہ  دہلی اور میرٹھ کا کردار اردو زبان کے نشو نما اور اس کی ارتقاءمیں تو ہوسکتا ہے مگر  اس کی پیدائش اور ابتدا میں نہیں ہوسکتا۔

ابھی تک اوپر چار زبانوں سنسکرت، فارسی پشتو اور اردو کا ایک مختصر تعارف پیش کیا گیا  تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ یہ سب ایک ہی زبانوں کے خاندان سے   ہیں اور آپس میں  بہنیں ہیں، سنسکرت ، فارسی اور پشتو  زبانیں قدامت کے لحاظ سے  یکساں ہیں ، مگر اردو کی پیدائش ان تینوں زبانو ں کے بہت بعد گیارہویں ، بارہویں صدی عیسوی میں ہوئی ۔  سنسکرت چونکہ عوام کی زبان کبھی نہیں رہی اور اس زبان کا تقابلی مقابلہ کرنا ابھی  مناسب نہیں ہے اور اس کے علاوہ فارسی زبان گرچہ قدیم زبان ہے  مگر یہ زبان اردو اور پشتو کی طرح تذکیر و تانیث سے خالی اور قواعد کے بہت سے اصولوں سے بالکل مختلف ہے  ، لہٰذا اس زبان کا ذکر کرنا بھی خارج از موضوع ہے۔

اگر ہم مماثلت  اور یکسانیت کی بات کرتے ہیں تو نحوی اور صرفی اعتبار سے دیکھنا پڑے گا کہ کون سی زبان   ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہے، اس سلسلے میں اگر غور کیا جائے تو  عام طور پر بہت سی ہندستانی  زبانیں ہیں، جن کے جملوں کی  ساخت فاعل سے شروع ہوتے ہیں اور مفعول کے بعد فعل پر پای تکمیل کو پہنچتے ہیں۔   ان  زبانوں میں پشتو ، ہندی اور اوردو  زبانیں ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں۔

الفبا یا ہجا  کے حروف میں مماثلت:

پشتو زبان کے ہجا میں یہ ټ،ځ،څ، ډ، ړ، ږ،ښ،ڼ آٹھ رٹروفلکس (retroflex)حروف  خاص طور پر بتائے جاتے ہیں جن میں سے ٹ ، ڈ  اور  ڑ  پشتو اور اردو سے مماثلت رکھتے ہیں  ایک حرف   ڼ  ہے جو ہندی  میں بہت زیادہ مستعمل ہے،  لیکن اردو میں نہیں پائے جاتے ،۔مذکورہ پشتو کے یہ آٹھوں ہجا  فارسی ، عربی اور ترکی زبانوں کے ہجا میں بالکل موجود نہیں ہیں، لیکں حسن اتفاق سنسکرت میں  پائے جاتے ہیں۔

قواعد کی رو سے جملوں کی ساخت  میں مماثلت:

اگر ہم دونوں زبانو ں کی ساخت  کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ  ان میں الفاظ کے معنی کے سوا کوئی اور فرق نہیں ہے ، جیسے:

۱ اردو جملہ احمد کے ہاتھ میں کتاب ہے
پشتو جملہ د احمد په لاس کې کتاب دی
۲ اردو جملہ احمد ہر روز کتاب پڑھتا ہے
پشتو جملہ احمد هره ورځ کتاب لولي

مندرجہ بالا جملوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ار دو  اور پشتو کے جملوں میں فاعل ، مفعول اور فعل  ایک دوسری زبانوں میں  اپنی جگہ نحوی اور ساخت کے اعتبار سے مطابقت اور یکسانیت رکھتے ہیں ۔ ان جملوں میں اگر کچھ فرق ہے تو  وہ صرف الفاظ اور معنی کا فرق ہے ورنہ کچھ نہیں ہے۔

پشتو میں اضافت کےحرف  “د”  اور  اردو میں اضافت کے کلمے”کا ، کی، کے  “میں مماثلت:

پشتو زبان میں اضافت کے  لئے  اسم سے پہلے “د” کا استعمال ہوتا ہے جسکا معنی اردو میں ” کا ، کی اور کے ”  ہے۔ جیسے:

پشتو میں : ” د احمد کتاب۔” اردو میں  اسے:   ” احمد کی کتاب ” کہتے ہیں

پشتو میں : ” د حلیمې خور۔”  اردو میں  “حلیمے کی بہن۔” کہتے ہیں ۔

پشتو زبان  کے جملوں میں یہ اضافت کا  “د”   کئی طرح کا کردار ادا کرتا ہے  اور  میں سمجھ تاہوں کہ اردو زبان میں  یہ  اضافت کا ” کا، کی اور کے ” بھی اسی طرح کے کردار ادا کرتےہیں جس طرح پشتو کے اضافت کا “د” ملاحظہ فرمایں:

پشتو زبان میں یہ قاعدہ ہے کہ اگر اسم  تذکیرحرف صحیح پر ختم  ہو اور اس سے پہلے اضافت کا “د”  آجائے تو اسم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی ، لیکں اگر وہی اسم جمع ہو تو اس میں تبدیلی واقع ہوجائے گی۔ اور یہی صورتحال اردو زبان کا بھی ہے ۔   اردو زبان میں بھی یہی  قاعدہ موجود ہے  اگر اسم پر  اضافت کا  “کا، کی،کے”  استعمال ہو تو اسی  طرح تبدیلی ہوگی جس طرح پشتو زبان کے اضافت کے “د”  سے ہوتی ہے، مثلاً

پشتو زبان میں “کتاب ” واحد ہے اور “کتابونه” جمع ہے۔

واحد کی صورت میں :  “د کتاب رنگ”                      اردو زبان میں”   کتاب “واحدکی صورت میں ” کتاب کا رنگ”

جمع کی صورت میں:  ” د کتابونورنگ”                    اردو زبان میں” کتابیں”  جمع کی صورت میں  ” کتابوں کا رنگ”

اگر ان مذکورہ جملون پر غور کریں تو پائیں کے کہ ان پشتو اور اردو کے جملوں میں  رتی برابر بھی فرق نہیں ہے۔ دونوں جملے ساخت اور استعمال کے رو سے بالکل برابر اور  یکساں ہیں، جیسےپشتو میں  “کتابونه” تبدیلی کے بعد” کتابونو” اور اردو میں ” کتابیں”  تبدیلی کے بعد  ” کتابوں ” کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح پشتو میں یہ بھی قاعدہ ہے کہ  اگر اسم تانیث ہو  ، جس کی علامت متعین ہے کہ اسم کا آخری حرف  “ہ” اور اس کی آواز (a)  ہو جیسے  : عائشه، مدینه، حمیده، گوته، سترگه۔  ان سارے کلموں کے آخر میں حرف” ہ”  (a) آیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کلمات تانیث اور واحد ہیں  ۔ اور ان کی جمع بنانے کے لئے اسی “ہ” (a) کو  “ې”  (e)سے بدل دیتے ہیں  جیسے گوتې، سترگې۔یہ دونوں کلمے جمع ہیں اور تانیث ہیں، لیکں عائشه، مدینه، حمیده اسم معرفہ ہیں اس لئے ان کے جمع تو نہیں ہو سکتے ،لیکن ان میں اگر تبدیلی ہوتی ہے تو جمع کی طرح ہوتی ہے، جیسے  عائشې، مدینې، حمیدې

ان کلموں کے ساتھ اگر ہم  مذکورہ جملوں کی طرح اضافت کی ترکیب کریں تو ان کلموں میں زبردست تبدیلی دیکھنے کو ملے گی، جیسے:  واحد کی صورت میں”د عائشې کور”  اردو ” عائشے کا گھر”  ، “د مدینې بازار”،  مدینے کا بازار۔”د حمیدې  بنگري”،  حمیدے کی چوڑی ۔”د گوتې نشان”، انگلی کا نشان ۔  “د سترگې رنگ”، آنکھ کا رنگ۔

اگر یہی کلمے  جمع ہوں تو جملوں کی بناوٹ کچھ اس طرح ہو گی:  د گوتو نشان، انگلیوں کے نشان۔ د سترگو  رنگ، آنکھوں کا رنگ۔

پشتو زبان میں اوپر بتایا گیا کہ اُن   تانیث  کلموں میں تبدیلی آئے گی جن کا آخری حرف “ہ” (a) ہو جیسے : دروازہ،  ښیښه،ھندارہ  یعنی آئینہ وغیرہ، لیکن اگر “الف” (aa)   ہوتو اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی جیسے: امریکا، برېښنا، وینا،وغیرہ۔

لیکن اردو زبان میں کوئی کلمہ خواہ    تذکیر ہو یا  تانیث   اگر   “ہ”  (a) پر ختم ہو یا “الف” (aa) پر تو اس میں تبدیلی واقع ہوگی ، اگر اس پر اضافت کا “کا، کی یا کے ” آجائے جیسے۔ دروازہ،   پٹنہ،  کتا،  گدہا  تو تبدیلی کے بعد یہ کلمے دروازے پٹنے، کتے، گدہے وغیرہ ہونگے  ۔ یہی اگر جمع ہوں تو  دروازوں، کتوں اور کدہوں میں تبدیل ہونگے۔ جیسے دروازے کی چابھی ، پٹنے کا بازار، کتے کا رنگ، ایک کدہے کی سرگذشت ، جمع کی صورت میں  جیسے: دروازوں کی چابھی، کتوں کا رنگ، گدہوں کی سرگذشت۔

فاعل کی تبدیلی میں مماثلت

عام طور پر مشاہدات ہیں کہ  جملہ  اگر حال ہو تو  جملے میں فعل فاعل کے تابع ہوگا ،یعنی فعل فاعل کے حالت   کی رعایت کرےگا۔یہ قاعدہ بیشتر زبانو میں دیکھا گیا ہے، لیکن پشتو ، اردو اور ہندی زبانوں میں  اگر جملہ ماضی ہو اور اس میں استعمال ہونےوالا فعل لازم کے بجائے متعدی ہو تو پھر فعل فاعل کے بجائے مفعول کی رعایت کرےگا ، لیکن اردو اور ہندی زبانوں میں  شرط یہ ہے کہ فاعل کے فورابعد  لفظ “نے”استعمال ہوا ہو۔

پشتو زبان کا قاعدہ ہے کہ ماضی کے جملوں میں خواہ وہ  ماضی مطلق ہو ، قریب ہو یا  ماضی بعید، اگر فعل متعدی استعمال ہوا ہو  تو    اس کے فاعل میں اسی طرح تبدیلی واقع ہوگی جس طرح  پشتو میں اضافت کے   “د”  سےہوتی ہے۔  اور فعل مفعول کے تابع ہوگا   نہ کہ  فاعل کے، اگر مفعول واحد ہوگا  تو فعل بھی واحد ہی  ہوگا  اور اگر جمع ہوگا  تو جمع۔جیسے:

۱ پشتو خلکو (فاعل)   له بازار څخه کتابونه (مفعول) واخیستل. (فعل)
اردو لوگوں نے (فاعل) بازار سے کتابیں (مفعول) خریدیں۔ (فعل)
۲ پشتو ښځې(فاعل) ښوونځي ته خپل ماشوم (مفعول) واستاوه. (فعل)
اردو عورت نے(فاعل) اسکول (کو) اپنا بچہ(مفعول) بھیجا۔(فعل)
۳ پشتو ده (فاعل) دروازې (مفعول) وتړلې (فعل)
اردو اس نے (فاعل) دروازے (مفعول) بند کئے (فعل)

ان دونو مذکورہ  جملوں پر غور کریں تو صاف دکھائی دےگا کہ  دونوں ماضی مطلق جملے ہیں  ، دونو کے فاعل میں تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔ در اصل پشتو میں” خلک”  جمع ہے  اور اردو میں بھی “لوگ” جمع ہے ، اور پہلے ہی بتایا جاچکا ہے کہ اگر کسی لفظ کا اختتام حرف صحیح  پر ہو تو اس کے واحد میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ، لیکن اگر وہی لفظ جمع ہوتو اس میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے، لہذا خلک اور لوگ دونوں کا اختتام لفظ صحیح پر ہوا ہے، لیکن جمع ہونے کی وجہ سے اس میں تبدیلی واقع ہوئی ہےاورپشتو میں یہ “خلک “سے “خلکو” اور اردو میں “لوگ” سے” لوگوں” ہوا ہے۔

اسی  جملے میں فعل مفعول کی پیروی کررہا ہے  جیسے فعل پشتو جملے میں “واخیستل”    جمع استعمال ہوا ہے کیوں کہ مفعول “کتابونه  “جمع ہے، بالکل اسی طرح اردو میں مفعول “کتابیں” جمع  ہونے کی وجہ سے   فعل بھی “خریدیں” جمع استعمال ہوا ہے۔

اگر مذکورہ پشتو اور اردو کے دوسرے جملوں کا جائزہ لیا جائے  تو ان میں بھی فاعل” ښځه” سے “ښځې” واحدتبدیلی کے  ساتھ استعمال ہوا ہے  جس پر پہلے ہی بحث کی جاچکی ہے  اور اردو جملے میں “عورت  “واحد ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے،  اسی جملے میں مفعول “اپنا بچہ”   واحد ہے اور اسی کی پیروی میں فعل  “بھیجا” واحد استعمال ہوا ہے

آخری پشتو اور اردو کے جملوں میں غاعب کا صعغہ استعمال ہوا ہے  ،اس کے فاعل میں واضح تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے،  پشتو میں  ” دی”  کی جگہ “دہ” استعمال ہوا ہے ،اور وہیں اردو جملے میں”  وہ” کی جگہ “اس نے” ا ستعمال ہوا ہے ، اس جملے میں بھی فعل مفعول کی پیروی کر رہا ہے۔ لیکن اگر انہی جملوں میں فعل ماضی متعدی کی جگہ فعل ماضی لازم استعمال ہوا ہوتا  تو  پشتو اور اردو دونو زبانوں میں فعل فاعل کی پیروی کر رہا ہوتا، کیوں کہ فعل لازم کا  فاعل در اصل فعل متعدی کا   مفعول ہوتا ہے۔

جملہ ٔ معروف جس میں فعل متعدی  استعمال ہوتا ہے     جیسے: “اس نے گھر بنایا”  “اس نے” فاعل  “گھر “مفعول اور” بنایا “فعل ماضی ہے۔

جملۂ مجہول جس میں فعل لازم استعمال ہوتا ہے ، جیسے:  “گھر بنایا گیا” ” گھر ” فاعل استعمال ہوا ہے ، در اصل جملۂ معروف میں مفعول تھا  اور “بنایا گیا  ” فعل ماضی ہے۔

مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو اور پشتو میں بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے ، ان دونو زبانوں کے الفاظ میں مندجہ ذیل وجوہات کے سبب تبدیلی واقع ہو تی ہے:

  1. اضافت کے حروف سے مضاف الیہ میں تبدیلی آتی ہے
  2. ما ضی کے جملوں کے فاعل میں  اگر فعل متعدی استعمال ہوا ہو۔ (اردو میں فاعل کے بعد “نے” بھی استعمال ہوا ہو)
  3. جملے کے پہلے مفعول کے بجائےدوسرے مفعول میں شرط یہ ہے کہ اس کے آگے “کا، کی، کے ” میں سے کوئی ایک استعمال ہوا ہو۔جیسے “انہوں نے بچوں کو کتابیں دیں”  اس میں” بچوں کو ” دوسرا مفعول ہے۔
  4. وہ اسم جس پر” حرف جار” آیا ہو، جیسے  کمرے میں،  کلکتے سے دہلی تک،  جانوروں میں ،  گھوڑ ےپر، درینچے سے  وغیرہ۔

اسی طرح اور بھی بہت سے ایسے مقام ہیں جہاں اسم میں کچھ نہ کچھ تبدیلی دیکنے کو ملتی ہے ، لیکن پشتو کےمقابلے  اردو میں  کوئی خاص قاعدہ کلیہ نہیں ہے ۔ پشتو زبان کے کسی لفظ میں اگر مذکورہ بالا چارو ں عوامل میں سے کسی ایک کی وہجہ سے تبدیلی ہوتی ہے تو اسے اسی طرح لکھا جاتا ہے  جیسے لفظ عائیشہ سے عائیسے  ، حلیمہ سے حلیمے ،    دروازہ  سے دروازے ، درینچہ  سے دینچے وغیرہ ،

 سنٹرل یونیورسٹی، کشمیر  میں اردو زبان کے استاد ڈاکٹر پرویز احمد بتا تے ہیں کہ اگر اس طرح کے کلمے آتے ہیں تو اسے  بعض جگہوں پر تو لکھا جائے گا ، لیکن  زیادہ تر جگہوں پر نہیں لکھا جائے گا جیسے اگر” کلمہ “استعمال ہوا ہے تو” کلمے “لکھنے کے بجائے “کلمہ” ہی لکھا جائےگا، الیکن اسے “کلمے” پڑھا جائے گااس کے لئے وہ قاعدہ” امالہ ” کا حوالہ دیتے ہیں ۔

بہر حال مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ دونو زبانوں میں نہ صرف گرامر کی رو سے کافی یکسانیت پائی جاتی ہے   بلکہ ان زبانو کے ساخت اور بناوٹ میں بھی کافی مناسبت ہے۔ اسکے جملوں میں یکسانیت کے ساتھ ساتھ دونو زبانوں میں تذکیر و تانیث کی بھی بڑی حد تک رعایت کی جاتی ہے جبکہ ترکی اور فارسی میں اس کی کوئی اہمیت نہیں سمجھی جاتی، یہی وجہ ہے کہ پشتو زاور اردو زبان جاننے والوں کے لئے کا فی آسان سمجھی جاتی ہے۔ چوں کہ افغانستان میں  پشتو اور دری فارسی  دو لسانی سرکاری زبانیں   ہیں  ، لیکن فارسی والوں کو پشتو  اور پشتو زبان سیکھنے والوں کوفارسی زبان کی ساخت اور گرامر میں غیر ہم آہنگی کی وجہ سے  کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے   ، مگر پشتو زبان سیکھ نے کے لئے اردو اور ہندی جاننے والے اس طرح کی دشواریو ں سے   محفوط سمجھے جاتے ہیں۔

موجودہ مقالہ مصنف کے اپنے تجربات  کا نچوڑ ہے۔

Leave a Reply