جبینہ مغل
پشکر ناتھ بحیثیت افسانہ نگار
جموں وکشمیر میںفن ِ افسانہ نگاری کی روایت میں جن افسانہ نگاروں نے اپنا اہم رول ادا کیا ہے ان میں پشکر ناتھ کا نام ایک منفرد اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے افسانوں کا اسلوب ،منفرد موضوعات کی پیش کش ، نئی نئی تکنیکوں کا استعمال اور ان کے افسانوں کی زبان و بیان اور لہجہ ان کو دوسر افسانہ نگاروں سے منفرد کرتا ہے ۔وہ ریاست جموں و کشمیر کے ان چند افسانہ نگاروں میں گنے جاتے ہیں جن کی تخلیقات نے اردو ادب میں ایک نیا انقلاب لایا ہے خاص کر فن ِ افسانہ نگار کی تحریر میں جدید یعنی عصرِ حاضر کے طریقۂ کار اور ضرورت کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ افسانہ کی ڈیمانڈ کے مطابق اس کو پورا بھی کیا ۔
جموں و کشمیر میں جب ہم اُردو افسانے کاجائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا آغاز ۳۲۔۱۹۳۱ سے ہی ہوا ہے اور پہلے افسانہ نگار پریم ناتھ پر دیسی ہیں جن کے افسانے فن پر کھرے اُترتے دکھائی دیتے ہیں ۔ وہی دوسری طرف برج پریمی محمد الدین فوق ؔ کوریاست کا پہلا افسانہ نگار تسلیم کرتے ہیں مگر ان کے افسانے فنی ،تکنیکی اور ہیتی اعتبار سے فن کی کسوٹی پر کھرے نہیں اُترتے ۔لہذا پریم ناتھ پردیسی کو ریاست جموں و کشمیر کا باقاعدہ پہلا افسانہ نگار تسلیم کرنا چاہیے ۔ اسی سلسلے میں عبدالقادر سروری یوںرقمطراز ہیں :
’’نئے شعور کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی ریاست کے افسانہ نگاروں نے اپنے عصری مسائل کو افسانے کے ذریعے اُبھارنے کی کوشش کی ۔اس کے آثار پریم ناتھ پردیسی کے یہاں نظر آتے ہیں ‘‘۱؎
بحوالہ : کشمیر میں اُردو ۔عبدالقادر سروری ص ۱۶۳
پریم ناتھ پردیسی کی اس روایت کو مزید فروغ بخشنے میں قدرت اللہ شہاب،کرشن چندر ،رامانند ساگر ،پریم ناتھ در ،کشمیری لال ذاکر ،ٹھاکر پونچھی ،نر سنگھ داس نرگس ،کوثر سیمابی ،جگدیش کنول اور سوم ناتھ وغیرہ کے نام آتے ہیں ۔ اب ہم جب ۱۹۵۵ اور ۱۹۶۵ ء کی بات کرتے ہیں تو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ادب میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ ان تبدیلیوں کی وجہ ملک کے سیاسی حالات ،جنگوں کی تباہ کاری ،تقسیم ِ ہند اور اس سے پیدا شدہ مسائل تھے ۔۔ان تبدیلیوں کا براہ ِ راست اثر اُردوافسانے کی فنی ،موضوعاتی ،فکری اور اسلوبیاتی سطح پر ہوتا ہے ۔اس وقت ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی افسانہ نگار سیدھی بات نہیں کر پاتا تھا اور علامتوں کا سہارا لے کر اپنی تخلیقات میں پیش کرتا تھا ۔ ان نئے افسانہ نگاروں کی صف میں پشکر ناتھ کا نام بھی آتا ہے ،جو ریاست کے افسانہ نگاروں میں منفرد مقام رکھتے ہیں ۔
پشکر ناتھ کا پورا نام پشکر ناتھ تکِو ہے جو ۱۹۳۲ء میں سرینگر کے علاقہ عالی کدل میںتارا چند تکو کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ان کا شمار جمّوں و کشمیر کے نمائندہ افسانہ نگاروںمیں ہو تا ہے ۔ان کی ان گنت کہانیاں اور افسانے کشمیر کی سیاسی،سماجی ،اقتصادی اور معاشی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں ۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا تھا ۔ان کی پہلی کہانی’’کہانی پھر ادھوری رہ گئی ‘‘کے عنوان سے ماہنامہ ’’بیسویں صدی ‘‘ میں ۱۹۵۳ء میں منظر ِ عام پر آئی ۔پشکر ناتھ نے تقسیم ِ ہند کے بعد لکھنا شروع کیا ۔لہذا ان کے فن کو اسی پس منظر میں سمجھا جا سکتا ہے ۔ان کے افسانوں میں کشمیر کی وادی ،کشمیر کی عوام کی زندگی میں پیدا شدہ مسائل کو اپنا موضوع بنایا گیا ہے ۔یہاں کے منظر ،پھل پھول ،دریا ،جرنے اور موسموں کا بھی ذکر ملتا ہے ۔
انھوں نے نہ صرف صنف افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کی بلکہ ڈراما اور ناول نگاری میں بھی اپنا نام کمایا ہے کہانی لکھنے کا آغاز اپنے دوست برج پریمی کے چیلنج سے کیا تھا ۔برج پریمی نے کہا تھا کہ اگر ہمت ہے تو کہانی لکھ کے بتاؤ۔بہرحال انھوں ے اس چیلنج کو قبول کیا اور تقریباً تین ہزار سے زائد کہانیاں لکھیں جو ملک کے نامور رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہیں ۔ان کے افسانوں میں راجندر سنگھ بیدی ؔاور علی عباس حسینیؔ کا رنگ نظر آتا ہے ۔
پشکر ناتھ کو دو مرتبہ ریاستی کلچرل اکیڈمی نے( ۶۷۔۱۹۶۲)میں بیسٹ بک ایوارڑ سے نوازہ۔اُتر پردیش اُردو اکیڈمی ایواراڑ ۱۹۸۲ء میں ملا ۔آکاش وانی سالانہ ایوارڈ ۱۹۸۳ء میں ۔شریکا پیڑھ سنھستھاجموں ۲۰۰۰ء جیسے انعامات و اعزازات سے نوازا گیا ۔ان کے افسانوں کا ترجمہ ہندی ،انگریزی ،بنگالی اور پنجابی کی زبانوں میں ہو چکے ہیں ۔ جموں یونیورسٹی کے شعبٔہ اُردو نے ان کے ادبی مرتبے اور مقام کو دیکھتے ہوئے ۱۹۷۹ء میں ’’پشکر ناتھ حیات اور کارنامے‘‘ کے عنوان سے ’’رام دِتہ چاڑک‘‘سے ایم ۔فل کے لئے تحقیقی مقالہ تحریر کروایا جسے اُردو دُنیا میں کافی سراہا گیا ۔ریاستی کلچرل اکیڈمی نے ان کی خدمات کے پیش نظر ’’شیرازہ ‘‘ کا ایک خصوصی شمارہ نکالا جس میں بہت سارے مضامین اور مقالات تحریر کئے گئے ۔ان کے افسانوی مجموعے ’’رنگ بدلتا ہاتھی ‘‘،’’کانچ کی دُنیا ‘‘ ،سات رنگ کا سپنا ‘‘،’’پل نمبر صفر کے گدھ ‘‘ ،’’عشق کا چاند اندھیرا ‘‘ بھی اسی خصوصی شمارے میں شامل ہیں ۔
پشکر ناتھ کے پانچ افسانوی مجموعے ہیں جو ادبی دُنیا میں داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں :
۱۔اندھیرے اُجالے ۱۹۶۱ء
۲۔ڈل کے باسی ۱۹۷۳ء
۳۔عشق کا چاند اندھیرا ۱۹۸۱ء
۴۔سات رنگ کا سپنا ۱۹۸۴ء
۵۔کانچ کی دُنیا ۱۹۸۴ء
۱۔اندھیرے اُجالے ۔ ۱۹۶۱ء
پہلا افسانوی مجموعہ ’’اندھیرے اُجالے۱۹۶۱ء میں پہلی بار شائع ہوا ۔دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۲ء میں منظر ِ عام پر آیا۔یہ افسانوی مجموعہ ۱۵۸ صفحات پر مشتمل ہے ۔پیش لفظ شکیل الرحمن نے لکھا ہے ۔ انتساب وید راہی کے نام اور نو افسانے شامل ہیں :
گلوان ؔ ،گوریؔ،گائثری ، بھونچال ،اندھیرے اُجالے ،جولی ،سود و سودا ،حشت ِ دل کیا کروں اور بُت اور دیوتا وغیرہ شامل ہیں ۔پشکر ناتھ کے افسانوی مجموعہ ’’اندھیرے اجالے‘‘ میں شامل افسانوں میں کشمیر کے حسین مناظر کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کو بڑی فن کاری سے پیش کیا گیا ہے مگر ساتھ ہی میں انھوں نے اس حسین وادی کے دامن میں پنپنے والی غربت اور افلاس کی وجوہات اور غریب عوام کی زبو حالی کو بھی اجاگر کیا ہے ۔اس مجموعے میں شامل افسانے حقیقت نگاری کے قریب تر دکھائی دیتے ہیں ۔اس افسانوی مجموعے پر ریاستی کلچرل اکیڈمی نے اسے بہترین کتاب دے کر پہلے انعام سے نوازا ۔
۲۔ڈل کے باسی ۱۹۶۷ ء
دوسر اافسانوی مجموعہ ’’ڈل کے باسی‘‘ ۱۹۶۷ء میں منظر ِ عام پر آیا ۔اس مجموعے میں شامل افسانے ابابیل ،گلوان گاشری ،آس نراس اور کالے بادل ،سودا ،محرر ِ تحصیل کی داستان خوبصورت اور اہم افسانوں میں آتے ہیں ۔اس افسانوی مجموعے پر بھی ریاستی کلچرل اکیڈمی نے انعام سے نواز کر مصنف کی بھر پور حوصلہ افزائی کی ۔ان افسانوں میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں ،خیا لات کی نیرنگی ،اسلوبِ بیان نکھر کر سامنے آتا ہے ۔
مجموعہ ’’ڈل کے باسی‘‘پر ریاستی کلچرل اکاڈمی انعام ،بہار اردو اکیڈمی اور ہریانہ اکیڈمی انعامات سے بھی
نوازا گیا۔اس افسانوی مجموعے میںجہاں ایک طرف کشمیر کی رومان پرور فضا کی جھلک ملتی ہے وہیں دوسری طرف عوامی زندگی کا درد و کرب بھی ملتا ہے۔ان کی کہانیوں میں ان کا انفرادی یا ذاتی کرب نہیں ہے بلکہ پوری دُنیا کے مسائل کو فنی چابکدستی سے اجاگر کرتے ہیں ۔
۳۔عشق کا چاند اندھیرا ۔ ۱۹۸۲ء
تیسراور عمدہ ا فسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۸۲ء میں منظر ِ عام پر آیا ۔۱۵۱ صفحات پر مشتمل ہے ۔اس افسانوی مجموعے کا انتساب محترم عبدالحکیم خاں صاحب کے نام کیا گیا ہے ۔۱۳ افسانوں پر مشتمل ہے ۔اسی افسانوی مجموعے نے اُردو دُنیا میں تہلکہ مچا دیا ۔افسانے اس طرح ہیں :
۱۔عشق کا چاند اندھیرا ۲۔رقص پاؤں زنجیر
۳۔وحشت ہی سہی ۴۔ایک بوند زہر
۵۔طوفان اور چائے کی پیالی ۶۔میری گلی کا کتا
۷۔بد صورت گلدان ۸۔سات رنگ کا سپنا
۹۔رات اکیلی ہے ۱۰۔جوڑا بابیلوں کا
۱۱۔دوسری منزل ۱۲۔رکھیل
۱۳۔مہکی ہوئی خوشبو
۴۔کانچ کی دُنیا ۔۔۱۹۸۴ء
چھوتا افسانوی مجموعہ ’’کانچ کی دُنیا ‘‘ ۱۹۸۴ء میں منظر عام پر آیا ۔۱۵۸ صفحات پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب دہلی سے چھاپی گئی ہے اور ریاست میں چھپنے والی کتابوں کے برعکس اس میں خوبصورت کتابت کا اہتمام کیا گیا ہے ۔اس مجموعے میں سترہ افسانے شامل ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔رازِ دل ۲۔ غبارے کی واپسی
۳۔اکیلی راہ کا مسافر ۴۔شہر بے چراغ
۵۔ٹراوٹ مچھلی ۶۔اُبال
۷۔تیرا آنچل میرا دامن ۸۔نوری بھی ناری بھی
۹۔برکھا برسے ساری رات ۱۰۔مداوا
۱۱۔شہہ رگ سے دور ۱۲۔دل کی بستی
۱۳۔لوٹ آئے میرے سر بلند ۱۴ ۔درد کا مارا
۱۵۔پل نمبر صفر کے گدھ ۱۶۔بے خواب دریچے
۱۷۔کانچ کی دنیا۔
۵۔سات رنگ کا سپنا ۔
پانچواں افسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۸۴ ء میں منظر ِ عام پر آیا ۔
ان کے نمائندہ ابتدائی افسانے ’’موت کا سوداگر‘‘ ،’’راز ِ دل‘‘،’’پردہ نشین ‘‘،’’گالی‘‘ ،’’نروان‘‘،’’جاہل کمینے‘‘،’’انتقام‘‘،’’اندھیرے اُجالے ‘‘ہیں ۔یہ تمام افسانے درد و کرب، کشمیر کی زندگی سے متعلق روائتی اور سسکتی عوام کے مسائل کو اُبھارتے ہیں ۔انھوں نے علامتی اور تجریدی افسانے بھی تحریر کئے ہیں ۔اس ضمن میں ان کے افسانے ’’غبارے کی واپسی‘‘ ،’’پل نمبر صفر کے گدھ‘‘،’’شہر بے چراغ ‘‘،’’کانچ کی دُنیا ‘‘ ،’’ٹراوٹ مچھلی ‘‘،’’اُبال ‘‘،’’رازِ دل ‘‘ وغیرہ ۔
ان کے رومانی طرز پر لکھے گئے افسانے ’’اکیلی راہ کا مسافر ‘‘،تیرا آنچل میرا دامن ‘‘،’’دل کی بستی‘‘ ،’’بے خواب دریچے‘‘۔ان کے افسانوں میں نہ صرف اُس دور کے حالات کو پیش کیا گیا ہے بلکہ آنے والے وقت کی پیشن گوئی بھی ملتی ہے ۔
ان کے افسانے’’پل نمبر صفر کے گدھ ‘‘ میں مصنف نے دورِ حاضر کے استحصال اور نفسا نفسی کے المیہ کو علامتی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس افسانے میں انھوں نے جمّوں و کشمیر کی تاریخ کو رقم کیا ہے کہ کس طرح انسان کا استحصال صدیوں سے ہوتا آرہا ہے ۔اس افسانے میں چناروں پر بیٹھے ہوئے گدھ اور کشتی کے نکو پر بیٹھے ہوئے بوڑھے اور ملاح کو علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔بوڑھا ملاح دورِ حاضر کی علامت ہے جو خاموشی اور صبر سے ظلم و ستم کو برداشت کر رہا ہے لیکن انسانی قدروں کو پامال نہیں ہونے دیتا ۔اس کے بر عکس گدھ دور ِ حاضر کے اس سماجی طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو آنے والی نسل کی خود غرضی ،مکّاری اور عیّاری ہے یعنی اس نسل کو کسی کی پریشانی سے کوئی سروکار نہیں ہو گا ۔جہاں محنت ،ذہانت اور قابلیت سے کچھ نہیں ملتا بلکہ سفارش اور رشوت سے ملتا ہے ۔انسان کو دوسرے انسان کی کامیابی اور خوشی برداشت نہیں ہوتی ۔افسانہ کا اقتباس اس طرح سے ہے :
’’یہ گدھ ان چناروں کی شاخوں میں کسی اجنبی گدھ کا گزر نہیں ہونے دیتے ۔بظاہر دن بھر ایک دوسرے کو چونچیں مارتے دکھائی دیتے ہیں اور اس قدر شور برپا کردیتے ہیں کہ بنڈ پر چہل قدمی کرنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاح لوٹ جاتے ہیں مگر جو نہی کو ئی اجنبی گدھ غلطی سے اس طرف نکل آتا ہے تو سب کے سب ٹوٹ پڑتے ہیں اور اسے لہو لہان کر دیتے ہیں ۔وقت کے اوراق پر درج ہے کہ اجنبی گدھ بوڑھے ،جوان ،نر ،مادہ وقتاً فوقتاًجان بحق ہو گئے ہیں ‘‘۲؎
پل نمبر صفر کے گدھ ۔ص ۔۱
اس اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح آج کا انسان دوسرے انسان کا دشمن ہے اور دوسرے کو آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔افسانہ نگار نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر دُنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے جو آئے روز دیکھنے کو ملتاہے ۔
پشکر ناتھ ۱۹ ستمبر ۲۰۰۵ء میں اس دُنیا سے رخصت ہوئے ۔ان کی وفات کے بعد ان کی کہانی جس کا عنوان ’’دس نمبری‘‘ پیام اُردو حیدر آباد سے شائع ہوئی ۔انھوں نے انسانی رشتوں کے درد و کرب ،معاشرے کی بے بسی کو اپنی کہانیوں اور افسانوں میں تحریر کیا ہے ۔ان کی بعض کہانیوں میں ناول کی تکنیک میں بعض بیانیہ ،خود کلامی اور شعور کی رَو کا استعمال کیا گیا ہے ۔ان کی کہانیوں میں وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ خیالات بھی بدلتے نظر آتے ہیں ۔بقول نصرت چودھری :
’’پشکر ناتھ ان افسانہ نگاروں میں جنھوں نے اپنے تخلیقی سفر کے دوران ارتقا کی کئی منزلیں طے کی ہیں ۔انھوں نے وقت کے تغیرات کے ساتھ اور نئے رُجحانات کے تحت روائتی حقیقی انداز سے ذرا ہٹ کر زندگی کے تلخ حقائق ،اقدار کی شکست اور زندگی کی معنویت اور بے ستمی کا نوحہ پیش کیا ہے ۔ان کے انداز اور سوچ میں پہلے سے زیادہ فکری گہرائی ملتی ہے ۔جدید عصری مسائل ان کے ہاں ابیامی اور علامتی پیکروں میں سامنے آتے ہیں ۔ان کے ہاں صنعتی اور سائینسی ترقی کے باعث اُبھرتے بحران ،سیاسی استبدایت ،شکست و ریخت میں مبتلا معاشرہ زندگی کی نے معنویت اور بے ستمی کا عکس نمایاں ہے ‘‘۳؎
جموں و کشمیر میں اُردو افسانہ ۔نصرت چودھری۔ص ۔۲۳۱
مجموعی طور پر پشکر ناتھ کے افسانوں کا مطالعہ قاری کو اس حقیقت سے روشناس کراتا ہے کہ تخلیق کار فن اور تکنیک کی تمام نزاکتوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری زیادہ اور تخیل کم دیکھنے کو ملتا ہے۔موضوع اور ہیت کے اعتبار سے پشکر ناتھ اپنے گردوپیش کی زندگی سے وابستہ نظر آتے ہیں ۔جہاں تک فن و تکنیک کی بات کی جائے تو شروع میں خامیاں ہو سکتی ہیں مگر وقت کی رفتار اور تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ان کا فن بھی نکھرتا ہوا نظر آتا ہے ۔
پشکر ناتھ کے افسانوں میں جذبے اور احساس کا ادراک دیکھنے کو ملتا ہے ۔یہ وہ کشمیری ہیں جنھوں نے کشمیر کو صحیح رنگ و رُخ میں دیکھنے اور دوسروں کو دکھانے کی کوشش کی ہے ۔
حوالہ جات :
۱۔ کشمیر میں اُردو ۔عبدالقادر سروری ص ۱۶۳
۲۔پل نمبر صفر کے گدھ ۔ص ۔۱
۳۔جموں و کشمیر میں اُردو افسانہ ۔نصرت چودھری ۔ص ۲۳۱