وسیم احمد علیمی
پلاسٹک کی قبر
(یقینا ہم سب سودائی ہیں، اور جنہیں ہم سودائی سمجھتے ہیں در حقیقت وہی لوگ ہوش میں ہیں۔)
(The Revenger’s Tragedy)
انگریزی ڈراما نگار سائرل ٹارنیور(م 1626)
پچھلے کچھ دنوں سے اس نے ضرورت سے زیادہ عطر لگانا شروع کر دیا ہے، پیرہن کے ساتھ ساتھ اس کی تسبیح کے دانے، کتابیں، تولیہ، تکیے کا غلاف اور جس کمرے میں وہ اکیلا سوتا ہے اس کے درو دیوار سب کو اس نے معطر کر رکھا ہے۔ وہ کوئی مولوی بھی نہیں ہے لیکن آجکل پنج وقتہ نماز کے ساتھ تہجد کا بھی پابند ہے، سرہانے موٹیوشنل کتابوں کا انبار ہے جن میں پاورفل بننے کے نسخے، کم وقت میں غریبی سے باہر نکلنے کے گُر، خود کی عزت کروانے کے طریقے اور خاموش رہنے کے فوائد درج ہوتے ہیں۔ رات اس کی تسبیح و تہلیل میں گزرتی ہے اور صبح منہ اندھیرے بغیر چپل کے ہی کھیتوں اور کھلیانوں کی طرف نکل جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ گھر میں اس کے حصے کا ناشتہ نہیں بنتا لیکن آجکل اس نے گاؤں کے منڈیر پر بنی دو چند دکانوں سے ادھار میں ناشتہ کرنا شروع کردیا ہے اور یہ بات بہت بعد میں معلوم ہوئی ہے ۔
یہ بو بھی کتنی عجیب شئی ہے۔نتھنوں کے راستے حافظے کے دریچے میں گھستی ہے اور پھر اچانک یادوں کا ایک دھواں سا اٹھنے لگتا ہے۔انسان جذباتی طورپر مضبوط نہ ہو تو یہ ایک چیزاس کو پاگل کردینے کے لیے کافی ہے۔بو ذائقے کی ہی ایک قسم ہے جس کی لذت یا کڑواہٹ زبان کی بجائے ناک سے محسوس کی جاتی ہے۔بو خود دوریوں کا سفر کرتی ہے اور دوسروں کو بھی کرا سکتی ہے۔یہاں تک کہ اس کی حسیت ایک لمحے میں ہزاروں لاکھوں برس آگے یا پیچھے لے جانے کے لیے کافی ہے۔بو انسان کے لیے ہمیشہ سے ایک ٹائم مشین کی طرح کام کرتی ہے جس پر سوار ہوکر اس کی گردشِ ایام پیچھے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔بارش کی بوندوں سے اٹھنی والے مٹی کی بو گاؤں کی کچی سڑک پر بچپن میں ننگے بدن دھول دھپہ کی یاد دلاتی ہے،ایک خاص قسم کی عطر میت کے دلسوز مناظر سامنے لاکر کھڑے کر دیتی ہے،کیروسین تیل کی بو قوتِ شامہ تک پہنچتے ہی شام ڈھلنے کا احساس دلاتی ہے کہ بچپن میں ہماری شاموں کا استقبال لالٹین کی دھندلی پیلی روشنی سے ہی ہوا کرتا تھا،کسی کش لگاتے ہوئے معمرشخص کی بیڑی سے اٹھنے والے بادلوں کی بو عمر گزار چکے بوڑھے کرداروں کی یاد تازہ کر دیتی ہے تونئے کپڑوں کی بو بچپن کی عید یا د دلاتی ہے اور مچھلی کا بساند سونگھ کر وہ ان دنوں میں کھو جاتا ہے جب ندی کنارے سیپی کا جگر چاک کرکے اس کے گودے کو مٹھی میں رکھ کر کیچڑ سے مچھلیاں پکڑ لیا کرتا تھا۔کیا وہ پیدائشی مچھوارہ ہے؟ نہیں یہ تو اس کا وہم ہے۔وہ ماہی گیروں کے خاندان میں پیدا نہیں ہوا، لیکن اسے مچھلیوں کی نسل،انڈے،پانی کی شفافیت اور آلودگی،ندیوں کے نشیب، تیراکی اور کس صدف کے شکم میں قیمتی جوہر پرورش پارہا ہے ان سب کا گہرا علم ضرور ہے۔
اس کی قوت شامہ اور لوگوں سے بہت مختلف ہے،یہ نیر مسعود کے کردار کی طرح بھی نہیں کہ جس کے سینے میں عطریات کے نایاب نسخے محفوظ ہیں اور جس کو عطر کافور سونگھنے پر ویرانی میں کچھ دکھائی دینے لگتاہے اور نہ اس کی ناک منٹو کے افسانہ ’بو‘ کے رندھیر سنگھ سے یکسانیت رکھتی ہے وہ جسے اپنے ہی پسینے کی بو سے سخت نفرت ہے لیکن برسات کے دنوں میں جب کھڑکی سے باہر پیپل کے پتے نہا رہے تھے تب اس نے ایک گھاٹن لڑکی کے جسم کی بو کو عمر بھر کے لیے اپنے ذہن و دماغ میں محفوظ کر لیا تھا۔
وہ گھر میں سب سے چھوٹا تھا عمر میں لیکن خوراک اس کی سب سے ٹائٹ تھی، چاول سے زیادہ گوشت اور روٹی سے زیادہ سبزی کھانا اس کے لیے عام بات تھی لیکن اب اس نے کھانا بھی کم کر دیا تھا۔ دس دس روٹیاں کھانے والا لڑکا مشکل سے دو روٹیاں ہی کھاتا اور اگر گھر کا کوئی فرد اسے مزید کھانے کی تاکید کرتا تو وہ برملا کہہ اٹھتا :
’’کم کھانا اولیائے کرام کا طریقہ ہے۔ دنیا میں موجود ان لاکھوں بھوکے پیاسے انسانوں کے بارے میں سوچیں جنہیں یہ دو روٹیاں بھی میسر نہیں ہیں۔‘‘
آجکل اس کی ہر بات دین فطرت کے عین مطابق ہوتی جیسے کوئی صوفی فقیر دہائیوں کی ریاضت کے بعد اپنی زندگی کو شریعت کے آئینے میں ڈھال لیتا ہے۔
جسم و جسمانیات اور ڈیل ڈول سے وہ ہٹا کٹا نوجوان تھا لیکن اس کی شخصیت میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں سے وہ بھیتر سے لاغر ہوتا جا رہا تھا جیسے کسی بہت مضبوط درخت کو دیمکوں کا پورا ایک قبیلہ اندر سے چاٹ رہا ہو ۔
اس کی تعلیم زیادہ نہیں ہوئی تھی۔ بارہویں کا امتحان گھر سے ہی پاس کیا لیکن گریجویشن میں داخلہ کے باوجود کئی برسوں سے مکمل نہیں ہو سکا۔ پڑھنے میں بچپن سے ذہین تھا لیکن اسکول سے بھاگنے کی عادت نے اس کا مستقبل چوپٹ کر دیا۔ بچپن میں ہاسٹل سے بھاگتا تو گھر بھی نہیں آتا، گاؤں میں کسی غریب کے گھر جاکر کھا پی کر سو جاتا۔ امی ہاتھ پیر باندھ کر مارتیں، قمچی توڑ دیتیں لیکن وہ اف تک نہ کرتا۔
کھیل کود میں بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔ کرکٹ کھیلتا تو پہلے اور میں ہی آوٹ ہوجاتا، فیلڈنگ کرتا تو اپنی طرف آتی ہوئی گیند خواہ رفتار والی ہو یا سست براہ راست مشکل سے ہی پکڑ پاتا۔ مجموعی طور پر کہیں تو وہ ایک غبی قسم کا بچہ تھا جو جسمانی طور پر صحت مند تھا لیکن ذہنی طور پر معذور۔ اور کیوں نہ ہو کہ گھر میں ہم چار پانچ بھائی بہنوں کے علاہ چار پانچ پھوپھیوں کے بھی دس بارہ بچے پلتے تھے، میرا گھر ان بچوں کا ننہال تھا تو ان کی غلطیاں بھی اسی پر لاد دی جاتی کیوں کہ وہ سب سے چھوٹا تھا اور ان بچوں نے بلا وجہ اسے بد معاش گھوشت کر رکھا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں نا کھیت کھائے ادا مار کھائے گدھا۔ گھر کے سب بڑے اس کے لیے ویلن تھے، کوئی بھی اس کو تھپڑ لگا دیتا، دادا کے پاکٹ سے پیسے چوری ہوں، لالٹین کا شیشہ پھوٹ جائے، چولہے سے پٹاخہ بر آمد ہو، سائکل کی چین اتری ہوئی ملے، یا کسی بڑے بچے کی کتاب کاپی پھٹی ہوئی ملے ان بچوں کے ہجوم میں بنا کسی تحقیق و تفتیش کے الزام آسانی سے اسی پر ڈال دیا جاتا اور گھر کا کوئی بڑا خود کو جج تصور کرتے ہوئے اسے دوچار طمانچے رسید کر معاملہ رفع دفع کر دیتا۔
ایسا ہی تھا میرا گھر، ایک خیراتی یتیم خانہ کی طرح جہاں سب بچے عیش سے رہتے، کھاتے پیتے، پڑھتے لکھتے کہ یہ ان کے نانا ماموں کا کا گھر تھا اور ہم لوگ اپنے ہی گھر میں یتیم کی طرح ڈرے سہمے گزارا کرتے اگرچہ ہمارے والدین بقید حیات تھے۔ اور اس کی حالت تو آپ جان ہی چکے ہیں کہ وہ اپنے ہی گھر میں کس قدر گھسیٹا رام کی سی زندگی گزار رہا تھا۔
امی تو اللہ میاں کی گائے تھیں جنہیں بس کھونٹے سے بندھا رہنا تھا اور صبح دن نمودار ہونے سے قبل چولہا چوکا میں لگ جانا تھا، یہ ڈیوٹی رات کو ختم ہوتی جب پورا خاندان بھر پیٹ کھا کر مست ہوکر اپنی اپنی خواب گاہ میں لیٹ جاتا۔ مشترکہ خاندان میں بہو کچھ بولے وہ آزادی ابھی گاؤں تک نہیں پہنچی تھی۔ ایسے میں اپنے بچوں کے حقوق کے لیے کچھ بول پانا اوکھلی میں سر رکھنے کے برابر تھا۔ بلکہ کبھی کبھی تو دوسرے بچوں کو خوش رکھنے کے لیے بنا کسی غلطی کے اپنے بچوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے پیٹنا ہوتا تھا۔
اب ایسے ماحول میں جو بچہ پلے بڑھے اس کے جذباتی، نفسیاتی اور سماجی ارتقا کی داستان کون لکھے اور کیسے لکھے؟
ابھی وہ سب بچے پڑھ لکھ کر اپنا اپنا کریئر بنا چکے ہیں، اور وہ بندہ گھنی جوانی میں کپڑوں میں عطر، ہاتھوں میں تسبیح، اور ذہن میں گہری تنہائی لیے کسی روحانی طاقت کو قبضے میں لینے کی تدبیر کر رہا ہے۔
ستمبر کے آخری دن تھے، دھوپ ذرا نرم ہو گئی تھی، آسمان میں بادل اڑ رہے تھے اور کبھی کبھی ذرا ہلکی سی ہوا چل جاتی تھی۔ وہ ظہر کی نماز ادا کرکے مسجد سے گھر نہیں لوٹا، اب تو کچھ دیر میں عصر کی اذان بھی پکار دی جائے گی۔ ہم لوگ اس کی تلاش میں نکلے تو گاؤں کے قریب والے مارکیٹ میں لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ اکٹھی تھی، قریب جا کے دیکھا تو پایا کہ ایک دوکاندار کے ساتھ اس کی کشتی چل رہی ہے، کچی سڑک میں دونوں ایک دوسرے پر دھول، کچڑ، غبار اور دھکڑ سے الٹ پلٹ ہو رہے ہیں۔
چچاجان نے اسے کھینچ کر بائک پر بٹھایا اور کسی طرح بھیڑ سے نکل کر ہم لوگ واپس گھر لوٹے۔ کپڑے پھٹے ہوئے، چہرہ دھول سے لت پت اور باہنوں میں ایک دو جگہ کھرونچ کے نشان۔۔۔وہ غصہ سے لال پیلا ہو رہا تھا اور بڑبڑاتے ہوئے دکانداروں کو گالی دے رہا تھا۔۔۔
’’جو بھی دکاندار پلاسٹک کی بوتل میں پانی، پلاسٹک پیکیجنگ کے ساتھ چپس، کڑکڑے، نمکین، بھجیا بیچے گا سب حرامزادوں کو ایسے ہی جون سینا کی طرح پٹخ پٹخ کے ماروں گا۔۔۔۔
سالوں نے دھرتی کو پلاسٹک سے بانجھ بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔
جہاں دیکھو وہیں پلاسٹک، نہ سڑنے کا نام نہ گلنے کی نیت۔۔۔۔
کوئی بھی پلاسٹک کا کاروباری اب میرے ہاتھ سے نہیں بچے گا۔۔۔۔
واہ راستہ بھر بڑبڑاتا رہا اور ہم لوگ یہ سوچتے رہے کہ اچانک اس کے اندر environmentalist کی روح کیسے بیدار ہوگئی۔ گھر لانے کے بعد نہلا دھلا کر کپڑے بدلوائے اور بالوں کو سو فیصد فطری سرسوں تیل سے بھگو کر درمیانی مانگ نکالی گئی جس سے دیکھنے میں وہ بالکل شریف اور معصوم لگنے لگا۔
رات نے سیاہ چادر زیب تن کر لیا تھا۔ گلی کوچوں میں چند کتے وقفے وقفے سے لمبی ہکار لگا رہے تھے جب موذن نے عشاء کی اذان پکاری۔
اسے کھلا پلا کر اور بہلا پھسلا کر سلایا گیا۔
صبح جب پرندے کھلے آسمانوں میں قطار بند اڑتے چلے جاتے ہیں، خنکی کے ساتھ ہلکی ہلکی ہوا چلتی ہے، زمین پر بڑے چھوٹے پتے اوس میں نہائے ہوتے ہیں اور اندھیرا پوری طرح چھٹ جاتا ہے، اب کہ ہم آنکھ ملتے ہوئے اٹھیں گے اور اپنے کاموں میں لگ جائیں گے اچانک ایک ناقابل برداشت بدبو چاروں طرف ہوا میں پھیل گئی۔ہمارے نتھنوں میں جلن محسوس ہوئی ۔یوں کہ سانس لینا بھی دشوار معلوم ہونے لگا۔ گویا کسی نے ہوا میں زہر گھول دی ہو۔ ہم تیزی سے اپنی اپنی خواب گاہوں سے باہر نکلے کہ دیکھیں تو یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔ گھر کے عقب میں وہ اپنے ہاتھوں میں ایک بڑا سا ڈنڈا لیے جلتی ہوئی ڈھیر کو زور زور سے پیٹ رہا ہے۔ جیسے ندی کے کنارے کسی ضدی لاش کو جلد از جلد جلا کر راکھ کر دینے کی کوشش کی جا رہی ہو۔اس کے لگائے ہوئے الاؤ سے اٹھنے والا دھواں پیچ کھاتے ہوئے بلند ہو رہا ہے، دھواں کے مرغولے سیاہ ہیولوں میں تبدیل ہوکر ہوا سے باتیں کر رہے ہیں ۔
اس نے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا، پلاسٹک سے بنا ہواگھر کا ہر ساز و سامان ہماری آنکھوں کے سامنے آگ اور دھواں کی تیز لپٹ میں تھا۔ پلاسٹک کی کرسیاں، بوتلیں، کچن کے برتن، ڈبے ڈبیاں، پلاسٹک کا قلمدان، مچھر دانی، صابن دانی، موبائل کا غلاف، پلاسٹک کی تھیلیاں، چمچے، خواتین کے سجنے سنورنے کے پلاسٹک کے سبھی آلات، شیمپو کا ڈبہ، پلاسٹک کی کنگھی غرض کے ہماری دنیا پر اپنے طاغوتی پنجے گاڑتی پلاسٹک سے بنی وہ سبھی اشیا جو آجکل ہمارے گھروں کی زینت بنی بیٹھی ہیں سب کو اس نے تہہِ آگ کر دیا تھا۔
اوران جلتی ہوئی اشیا پر غصہ سے ڈنڈا مارتے ہوئے کہتا تھا:
یہ پلاسٹک نہیں،بلاسٹک ہے
یہ بلا کی چھڑی،یہ تباہی کی لڑی
ازل سے آباد دنیا کو
ابد تک کے لیے بانجھ بنانے
کا آلہ ہے یہ سالا
اسے خدا نے نہیں،آدم نے ایجاد کیا
منوں، کنٹلوں پلاسٹک کا کچرا
نغل جائے گا نیچر کے حسن کو
سڑک پر آوارہ پھرتی معصوم گایوں کے تھنوں سے
سمندر میں اٹکھیلیاں کرتی مچھلیوں کے پیٹ تک
نالیوں کے انسداد سے
متلی پر اکسانے والی بدبو تک
یہ کالی گھٹیا روح کی طرح
ہمارے لقمے اور گھونٹ کو
سانس اور خون کے بہاؤ کو
پیشاب کی جھرجھری سے
فضلات کے عناصر تک
سب میں سرایت کر چکی
یہ بلاسٹک، بلا کی چھڑی،
یہ تباہی لڑی
دنیا کو ایک حبس زدہ
قبر میں بدل کر رکھ دیگی
اور دفن ہو جائیں گے اس میں
معکوس سانسوں کے ساتھ
ہمارے مستقبل کے سب خواب
٭
وہ غصے میں غبارے کی طرح بھرا ہوا تھا ایسے میں ہم اسے آگے بڑھ کر روکتے تو وہ ہم پر ہی حملہ آور ہو جاتا۔
دے دنا دن ڈنڈے سے اس نے اپنے ہی لگائے ہوئے بڑے سے الاؤ پر خوب جھماجھم برس رہا تھا۔
پلاسٹک کے خلاف اس کے اس اعلان جنگ پر ہمیں کم تعجب ہوا،حیرانی کی بات تو یہ تھی اس کو یہ میری لکھی نظم ’پلاسٹک کی قبر‘ جو کہ خود مجھے بھی مکمل یاد نہیں ہے وہ کیسے میدان جنگ میں ڈینگ مارتے جنگجو کی طرح رزمیہ انداز میں چیخ چیخ کر پڑھ رہا ہے اور اس بھڑکی ہوئی آگ کو اور ہوا دیتے جا رہا ہے۔
وہ شدید غصے میں تھا، اسے کسی طرح بہلا پھسلا کر گھر لایا گیا۔وہ اب بھی انجان سمت کو منہ گھما گھما کر ڈانٹ رہا تھا۔
’’جو بھی پلاسٹک کا سامان یوز کرے گا اس کا میں یہی حشر کروں گا۔۔۔
جدھر دیکھو ادھر ہی پلاسٹک۔۔۔ایسا لگے ہے دنیا میں اور کوئی کیمیا باقی ہی نہیں رہی۔۔۔
سب کی مت ماری گئی ہے، پلاسٹک کا کروبار کرنے والی کمپنیوں نے بان چلا کر نظر بند کر دی ہے سب کی۔۔۔‘‘
ہم لوگوں کو اس کی ذہنی حالت پر تشویش ہونے لگی۔ خاندان کے افراد نے مشورہ کرکے ماہر نفسیات کے یہاں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ سو ہم اسے ایک بند لگزری کار میں ماہر نفسیات کے یہاں لے گئے۔
گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے کے بعد ہمارا نمبر آیا۔ کمپاونڈر نے مریض کے ساتھ صرف ایک فرد کو ڈاکٹر کے چیمبر میں داخل ہونے کی اجازت دی۔
اس کے ساتھ میں اندر گیا۔
ڈاکٹر صاحب میچیور عمر میں داخل ہو چکے تھے اور شکل و شباہت سے ایک بھرپور زندہ دل انسان لگ رہے تھے۔
داخل ہوتے ہی انہوں نے مریض کا نام لے کر پکارا۔
’’ہاں بھئی بتاؤ کیا پریشانی ہے؟‘‘
’’سر! اسے پلاسٹک سے الرجی ہو گئی ہے، بہت غصہ کرتا ہے اور عجیب و غریب حرکتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
میں مزید علامات بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ڈاکٹر نے ایک ناگوار اشارہ کے ساتھ مجھے روک دیا۔
’’مریض کون ہے؟‘‘
ڈاکٹر نے برہم ہو کر پوچھا۔
’’وہ ہے سر!‘‘
میں نے مریض کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
’’تو اسے بولنے دو بھئی۔۔۔تم کیوں بول رہے ہو؟ وہ گونگا ہے کیا؟‘‘
’’چلو بتاؤ جناب!۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اسے بولنے کا موقع دیا۔
’’سر! میں کیا بولوں، بولنے سے یہ لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں‘‘۔
’’تم بولو تو سہی کیا پریشانی ہے، میں ہوں نا؟‘‘ ڈاکٹر نے ہمت افزائی کی۔
’’سر! کیا یہ سہی نہیں ہے کہ مائکرو پلاسٹک کی زیادہ مقدار انسانی خلیوںمیں حلول کر کینسر، دل کی بیماری اور جنین کی خراب نشو نما سمیت صحت کے مسائل پیدا کر سکتی ہے؟
کیا یہ درست نہیں ہے کہ غذا کے نام پر ہم طرح طرح کی چیزوں میں حلول شدہ مائکرو پلاسٹک کھا پی رہے ہیں؟
ماحول کو آلودہ کون کر رہا ہے، پلاسٹک کے شاپنگ بیگ یا میں؟
سمندری جانوروں کی آنتوں تک پلاسٹک کے ذرات کس نے پہنچائے؟ میں نے؟‘‘
وہ جیسے جیسے بول رہا تھا اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے, شلیک کیڑے کی طرح اس کے منہ سے رال ٹپک رہی تھی اور آنکھیں سرخ ہوتی جا رہی تھیں گویا کوئی سائیکو مریض عدالت میں بلا تامل اقبال جرم کر رہا ہو کیوں اس کی اپنی دلیلوں کے مطابق وہ سب کچھ درست ہے جو اس نے آج تک کیا۔
’’تم کرتے کیا ہو؟‘‘
ڈاکٹر نے اس کے کیمیائی علم سے متاثر ہوکر دریافت کیا۔
’’سر میں گاؤں میں بارہویں کے طلبہ کو ٹیوشن پڑھاتا تھا لیکن اب ان لوگوں نے میری پلاسٹک کے خلاف اعلان جنگ کو پاگل پن سمجھ لیا ہے، مجھے جانور کی طرح کھونٹے سے باندھ کر رکھتے ہیں، بڑی سی تھالی میں کھانا رکھ کر میری طرف پیر سے ٹھکیل دیتے ہیں،جیسے کہ میں انسان نہیں کوئی آدم خور درندہ جانور ہوں۔
اب آپ ہی بتائیے سر کیا میں پاگل ہوں؟ پاگل ہوں میں؟ کیا میر مت ماری گئی ہے؟ کیا میں دیوانہ ہو گیا ہوں؟ سودائی ہوں میں؟‘‘
یہ سب کہتے ہوئے وہ بہت زور سے چیخنے لگا، رگیں پھول گئیں، آنکھیں بڑی بڑی ہو گئیں اور وہ لرزتے ہوئے وہیں کرسی سے بیہوش ہوکر گر پڑا۔
ڈاکٹر نے مریض کو انجکشن لگاتے ہوئے ہماری طرف ناگوار نظروں سے دیکھا اور سترہویں صدی کے مشہور انگریزی ڈراما نگارCyril Tourneur کا یہ قول پڑھا:
”Surely we are all mad people, and they Whom we think are, are not”
(یقینا ہم سب سودائی ہیں، اور جنہیں ہم سودائی سمجھتے ہیں در حقیقت وہی لوگ ہوش میں ہیں۔)
٭٭٭
Wasim Ahmad Alimi
Urdu Translator, (Govt. of Bihar)
Cabinet Secretariat Department,
Block Office, Jalalgarh, Purnia,
Bihar-854327
Mob-7835961294
Email-wasimahmadalimi@gmail.com