طارق شبنم
پچھتاوا
‘‘بے شک تندرستی ہزار نعمت ہے ،انسان کی صحت ٹھیک ہے تو سب ٹھیک ورنہ سب بیکار…… ’’۔
ارشادکلرک ،جس کی صحت کئی ہفتوں سے سخت ناساز تھی ، جمائی لے کر خود کلامی کرتے ہوئے بڑبڑایا اور دل ہی دل میں اللہ سے صحت وتندرستی کی دعائیں کرنے لگا ۔ ارشادکلرک کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا ،دھن دولت ،بنگلہ ،گاڑی،زمینیں ،اولادیں وغیرہ ،غرض اسے کسی چیز کی کمی نہیں تھی لیکن صحت کی نا سازی کے سبب وہ سخت پریشان تھا اور اسے اب سب کچھ بے کار دکھائی دے رہا تھا کیوں کہ کئی مہینوں سے وہ کمرے میں قید ہو کر رہ گیا تھا ، کمرے کی چار دیواری زہریلے سانپ بن کر اسے ڈس رہی تھی اور وہ باہر جا کر جی بھر کے گھومنا چاھتا تھا ۔پہلے پہلے ہمسائے اور رشتہ دار تواتر سے اس کی خبر گیری کے لئے آرہے تھے ،لیکن اب اس کی خبر گیری کے لئے بھی کوئی نہیں آرہا تھا یہاں تک کہ اس کی بیوی کے بغیر دیگر افراد خانہ بھی اس کے کمرے کا کم ہی رخ کرتے تھے،جس کا اسے سخت ملال تھا۔ سوچتے سوچتے دفعتاًاس کی نظریں دیوار پر لگی اس کی اپنی ہی بچپن کی تصویر پر پڑی۔یہ تصویر اس دن کی تھی جب ساتویں جماعت میں کلاس میں اول آنے پر اسے انعام سے نوازا گیا تھا ،وہ اس تصویر کو دیکھتے دیکھتے کھو سا گیا ۔یہی وہ دن تھا جب وہ یہ بات سمجھ گیا کہ اصل کامیابی کھلونے جمع کرنا اور کھیلنانہیں بلکہ دل لگا کر تعلیم حاصل کرنا ہے ۔ اسنے سارے کھیل تماشے چھوڑ کر جی جان سے محنت کرنا شروع کردی اور رفتہ رفتہ تعلیمی میدان میں کامیابیاں صاصل کرتا رہا ۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے روز گار کی فکر ستانے لگی اور اس کے دل میں یہ بات گھر کر گئی کہ اچھا روز گار حاصل کرنا ہی بڑی کامیابی ہے ۔کچھ عرصہ ہاتھ پیر مارنے کے بعد اس کا یہ خواب بھی پورا ہو گیا اوروہ ایک سرکاری دفتر میں جونیر کلرک کے عہدے پر فائیز ہو گیا ،جس کے بعد وہ زیادہ سے زیادہ دھن کمانے کی فکر میں لگ گیا ،ہر جائیز نا جائیز طریقے سے دولت کماتا رہا ،رشو ت خو ر ی چاپلوسی اور جعلسازی کو اپنی چالاکی اور ذہانت سمجھتا رہا ۔
‘‘لیجئے جوس پی لیجے ،صبح سے آپ نے کچھ نہیں کھایا ہے’’ ۔
دفعتاً اس کی گھر والی عرشی مشروب بھرا گلاس اسکے سامنے رکھتے ہوئے بولی ۔
‘‘رکھ لیجئے ،میں پی لوں گا’’ ۔
اس نے مختصر سا جواب دیا۔وہ ساری عمر عیش و عشرت اور لذیز کھانوں کا رسیا رہا تھا لیکن اب خرابی صحت کی وجہ سے اسے کچھ کھانے کی رغبت بھی نہیں رہی تھی ۔اس کا معدہ بڑی مشکل سے جوس او ر بسکٹ ہضم کر پا رہا تھا جس کے سبب اسے کافی نقاہت اور کمزوری بھی محسوس ہو رہی تھی اور وہ بغیر سہارے کے چل پھر بھی نہیں سکتا تھا ۔
‘‘کہاں کھو گئے ہیں آپ ،ابھی تک جوس نہیں پیا’’۔
عرشی کی آواز نے اس کے سوچنے کا طلسم توڑ دیا ،اس نے جوس سے بھرا گلاس اٹھا کر پی لیا اور بغیر کچھ کہے واش روم کی طرف اشارہ کیا ،عرشی سہارا دے کر اسے واش روم تک لے گئی ۔واپس آکر عرشی نے اسے دوائیاں کھلائی کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ کر کسی کام کے سلسلے میں بازار گئی جس کے ساتھ ہی وہ دوبارہ زندگی کے لمبے سفر کو یاد کرتے ہوئے پریشان و منتشر ذہن کی کتاب رفتہ رفتہ الٹنے لگا ۔
روز گار ملنے کے بعد مالی حالت مستحکم ہونے کے ساتھ ہی گھر میں اس کی شادی کی باتیں ہونے لگیں تو وہ بھی شادی کے سنہرے خواب دیکھنے لگا ، اسے یہ احساس ہوگیا کہ کسی اچھے گھرانے کی تعلیم یافتہ اور خوب صورت لڑکی سے شادی کرنا ہی اصل کامیابی ہے اور وہ اسی تک و دو میں لگ گیا۔کئی مہینوں تک ہاتھ پیر مارنے اور کافی سوچ بچار کے بعد آخر اسے عرشی ،جو ایک سکول ٹیچر تھی ،پسند آگئی جس کے بارے میں ہر طرح کے معلومات حاصل کرکے ا ور پوری طرح سے اطمینان کے بعد بڑے ہی دھوم دھام سے اس سے شادی رچائی ۔ عرشی،جو رعنائیوں سے بھر پور تھی ،تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح اس کی زندگی میں آگئی۔اسے لگا جیسے اس کی زندگی میں نئی بہار آگئی ہو اور کچھ عرصہ وہ اسی بہار کی مستی میں مست رہا ۔ پھر جب بچے ہوئے تو ان کی پرورش میں لگنے کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں میں اس کی دلچسپی بڑھنے لگی جیسے نوکری میں ترقی ،نیا بنگلہ ،گا ڑی وغیرہ اور وہ ان ہی چیزوں کو زندگی کی کامیابی کا اصل راز سمجھتا رہا۔ کئی سالوں کی سخت کوشش کے بعد آخر اس نے یہ ساری عیش و عشرت کی چیزیں حاصل کرلیں ،تب تک اس کے بچے بھی بڑے ہو گئے تھے اور اسے ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی فکر ستانے لگی اور وہ دن رات ایک کرکے انہیں تعلیم کے نور سے آراستہ کرتا رہا اسی دوران ترقی کے منازل طئے کرتے کرتے وہ سیکشن آفیسر کے عہدے تک پہنچ کر نوکری سے سبکدوش ہو گیالیکن سب اپنے پرائے اسے ساری عمر ارشاد کلرک کے نام سے ہی پکارتے رہے ۔کچھ عرصہ بعد ہی اس کے بڑے بیٹے کو سرکاری نوکری مل گئی تو اس نے اطمینان کی سا نس لی دوسرے بیٹے نے بھی تعلیم مکمل کرلی اور اسے ان کی شادی کی فکر ستانے لگی اور وہ ان ہی کوششوں میں لگ گیا اور دونوں بچوں کی شادی بھی انجام دی گھر میں افراد خانہ کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی اس نے دوسرا بنگلہ بنانے کی ٹھان لی اور اسی تیاری میں جھٹ گیا لیکن اسی دوران اس کی صحت بگڑ گئی اور وہ بستر پر دراز ہو کر رہ گیا ۔کافی علاج و معالجہ کے با وجود بھی اسے کوئی خاص ا فاقہ نہیں ہو رہا تھا ۔اب وہ دنیا کی ساری آسائیشوں کو بھول کر اور ساری کامیابیوں کو دھوکہ سمجھ کراچھی صحت کو ہی بڑی نعمت اور کامیابی سمجھ رہا تھا ……
‘‘ السلام علیکم …..’’.
وہ گہرے سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ دفعتاً اس کی سماعتوں سے آواز ٹکرائی ۔اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے اس کا دوست سجاد احمد کھڑا تھا ،جسے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر خوشی کا رنگ چڑھ آیا،اس نے نخیف سی آواز میں سلام کا جواب دیا۔
‘‘ اب کیسی صحت ہے تمہاری ؟’’
سجاد نے اس کے سرہانے بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔
‘‘کیا بتاؤں میرے دوست ، اچھے اچھے نامور ڈاکٹروں کے پاس علاج و معالجہ کے باوجود دن بدن میری صحت گرتی ہی جا رہی ہے،سمجھ میں نہیں آرہا ہے کیا کروں’’ ۔
کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔
‘‘ہمت سے کام لو ارشاد، اللہ سب ٹھیک کردے گا’’۔
سجاد نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا اوراس سے باتیں کرنے لگا ۔سجاد اس کا دوست تھا اور وہ دونوں ایک ہی دفتر میں کام کرتے تھے لیکن وہ ایک الگ ہی مزاج کا بندہ تھا دنیاوی لالچ اور ہوس سے بالکل دور۔ دوست ہونے کے ناطے ارشاد کو بھی اکثر اچھی اچھی نصیحتیں کرتا تھا ،لیکن ارشاد کہاں ماننے والا تھا اس پر تو کامیاب اور عیش وعشرت والی زندگی کزارنے کا بھوت بری طرح سوار تھا وہ سجاد کو کم عقل اور دقیانوسی خیالات والا انسان سمجھتا تھا اور اکثر اس کو اس کی کم عقلی پر کوستا تھا ۔
‘‘ اچھا ارشاد اب میں چلتا ہوں ،اللہ تم کو صحت وتندرستی سے نوازے’’ ۔
کچھ وقت ارشاد کے پاس گزار کر سجاد نے اجازت چاہی ۔
‘‘ جاؤ خدا کے حوالے ،میرے لئے دعا کرنا اور آتے رہنا ’’۔
کہتے ہوئے ارشاد کی آنکھوں میں درد کا بیکراں سا امڈ آیا اور چہرے پر بے بسی اور لاچاری کی لکیریں ارقص کرنے لگیں جب کہ سجاد کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں ۔
‘‘ہاں ہاں کیوں نہیں ،تم تو میرے دوست ہو ’’۔
کہہ کر سجاد چلا گیا اور ارشاد کے ذہن کے پردوں پر سجاد کی کہی ہوئی باتیں فلم کے سینوں کی طرح چلنے لگیں …..
‘‘ارشاد …… تم کیوں مال وزرکمانے کے لئے اپنا ایمان خراب کررہے ہو؟’’
سجاد اکثر ارشاد سے کہتا تھا ۔
‘‘اس دنیا میں رہنا ہے تو شان سے رہنا چاہیے ’’۔
ارشاد مغرور سے لہجے میں جواب دیتا ۔
‘‘ میرے بھائی،یہ دنیا ایک خوب صورت دھوکہ ہے ہم یہاں تھوڑی رہنے آئے ہیں ،ہم تو یہاں سے گزر رہے ہیں ،منزل کئی اور ہے’’ ۔
سجاد عاجزی سے کہتا لیکن ارشاد ،جس پر مادیت کا غلبہ سوار تھا ،کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ ابھی اتنی زندگی پڑی ہے دیکھ لیں گے۔
غرض اسنے کبھی سجاد کی کسی بات کو خاطر میں نہیں لایا نہ اپنی خرکتوں سے باز آیا۔وہ ان ہی پریشان سوچوں کی بھول بھلیوں میں
کھویا ہوا تھا کہ اس کی بیوی ڈاکٹر کو لے کر آگئی ۔
‘‘آپ بالکل پریشان نہ ہو جائیں ،اللہ نے چاہا تو آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے ’’۔
ڈاکٹر نے اس کا تفصیلی طبعی معائینہ کرنے کے بعد روکھے سے لہجے میں کہا اور قلم اٹھا کر نسخہ لکھنے لگا۔اسی لمحے ارشاد کو حاجت بشری کے لئے واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی جو کمرے کے ساتھ ہی منسلک تھا ،بیوی نے اسے سہارا دیا اور واش روم کے دوازے تک لے گئی اور وہی کھڑی رہ کر اس کا انتظار کرنے لگی ……
‘‘مجھے افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ درد اب کافی بڑھ چکا ہے اور یہ صرف چند دنوں کے مہمان ہیں ،اس لئے جی جان سے ان کی خدمت کریں …..’’۔
وہ جونہی واپس نکلنے کے لئے دروازے پر پہنچا تو ڈاکٹر کے یہ الفاظ اس کی سماعتوں سے ٹکرائے جس کے ساتھ ہی اس کے عقل کے طوطے اڑ گئے ۔
‘‘یہ دنیا ایک خوب صورت دھوکہ ہے ،ہم یہاں تھوڑی رہنے آئے ہیں ،ہم تو یہاں سے گزر رہے ہیں ،منزل کئی اور ہے’’ ۔
سجاد کے یہ یہ الفاظ ارشاد کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندنے لگے ۔اس کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیااور وہ اوپر سے نیچے تک پسینے میں شرابور ہو گیا .۔وہ بڑی مشکل سے دروازہ کھول پایا اور اور بیوی نے اسے سہارا دیکر بستر پر بٹھایا ۔
اب سمجھ گئے اصل کامیابی کیا ہے؟زندگی کیسے غفلت کی دلفریب چادر اوڑھے ہاتھ سے سرکتے ریت کی طرح گزر گئی…..؟
اس کے اندر سے آواز آئی۔ اسنے ایک گہری سانس لی اور آنکھیں بند کرکے نہ جانے کن سوچوں میں غلطاں و پیچاں ہوگیا ۔ اس کے چہرے سے پسینے کی قطروں کی طرح ٹپکتا کرب و اضطراب ا ور پچھتاوا صاف نظر آرہا تھا ۔
٭٭٭
ای میل …..tariqs709@gmail.com