اعجاز انجم
مانسہرہ,خیبر پختونخوا, پاکستان
چاند سے مکالمہ
تجھی سے ہے گردوں کی ہر زیب و زینت
مری ہر شب تار میں میرے ہمدم
میں خوش ہوں کہ تیری رفاقت کی چند ساعتیں ہیں
مجھے بھی میسر
اگر تو نہ ہوتا تو کس سے میں کرتا
بیاں اپنے درماندہ دل کی
کہانی کہ جس میں مرے ہم نفس کے رویے
وہ لہجے
وہ تلخی
کہ جس کو اگر بحر شیریں میں ڈالوں تو
کڑواہٹ اس کی
بخارات بن کر
ڈھلے کالے بادل کی صورت میں پھر
مجھ پہ ہی برسے.
اے دوست!
ترا اک پڑوسی …..
اسی کوچے سے وہ کزرتا ہے ہر روز
مگر میں نے اک بار بھی اس کی نظروں سے نظریں
ملانے کی جرات نہیں کی
یا شاید اسی کی اجازت نہیں ہے…
وہ تھک ہار کر جب گلی کے اس اگلے کنارے
پہ مڑ کر
مجھے دیکھتا ہے تو اس وقت
میرے خیالات
اور حسرت دید پہ شام کے وہ مہیب اور دلگیر سائے
محافظ کی مانند استادہ
نظریں اٹھانے نہیں دیتے پھر بھی
میں دن کی تمازت
غرور
انا اور جوش
کے اس اک ہنگامے اور آخر کی خاموش تصویر سے
یہ سمجھتا ہوں
وہ بھی حقیقت میں اک آگ میں جل رہا ہے…
اسی درد دل کا فسانہ سناتا ہے لیکن
لب و لہجے میں ہے وہ شدت
وہ جوش اور جذبہ
کہ ہر اک میں سننے کی ہمت نہیں ہے
مرے دوست!
مری تار راتوں کے ساتھی…..
بتا ہے ترے پاس بھی آج میرے
کسی اک پڑوسی کی ایسی کہانی؟؟؟؟؟
نہیں نا!!!!!!!
تری سرد رونق مرے دل کی آتش بجھا تو نہیں سکتی پھر بھی
ملاقات کی ایک عادت بنی ہے….
چلو پھر ملیں گے
مرے ہم سفر… میرے ہمدم
چلو پھر ملیں گے.
***