سدرہ کرن
ریسرچ اسکالر،سیالکوٹ ،پاکستان
چرخی فانوس
آدھی رات کا وقت تھا۔آسمان تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
گھڑی پر رات کے بارہ بج رہے تھے۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔کئی دستکوں کے بعد جب دروازہ نہ کھلا تو مسٹر سالار اپنے بوڑھے بدن اور کانپتی ٹانگوں سے باہری دروازے تک پہنچے ۔کانپتے ہاتھوں سے چٹخی الگ کی ۔
چٹخی کے گرتے ہی برہان اندر کی طرف داخل ہوا۔
سب سو گئے ہیں کیا؟ برہان نے دیمی آواز میں پوچھا۔
مسٹر سالار اپنے کمرے کی طرف لوٹ رہے تھے ۔
برہان مزید کچھ پوچھے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔احتیاط سے دروازہ کا پٹ الگ کیا ۔اندر داخل ہوا ۔آہستگی سے پٹ کو بھیڑ دیا ۔
برہان سالار کا بڑا بیٹا ہے ۔جو رات گئے گھر واپس لوٹتا ہے ۔خاموشی سے کمرے میں گھستا اور سرگوشی کیے بنا نیند کی وادیوں میں اتر جاتا ہے ۔
برہان کے کمرے کی تاریکی اکثر سالار کو اپنے کمرے کی چہچاہٹ اور رونق پر پہنچا دیتی تھی۔
برہان کی صبح بھی گہما گہمی میں گزرتی تھی ۔گرمی ،سردی خزاں ہر طرح کے موسم میں وہ اپنی زندگی میں مصروف رہتا ۔صبح چھے بجے کی گاڑی میں اسے جانا ہوتا ہے ۔اس لیے پانچ ساڑھے پانچ بجے تک ہر حالت میں گھر سے نکلتا ہے ۔سردی کے موسم میں اسے بہت سی مُشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا۔
شدید سردی کے موسم میں برہان کو گھر سے جاتا دیکھ کرمسٹر سالار کے دانت کڑکڑانے لگتے ہیں ۔
سالار کو اپنا زمانہ یاد آتا ہے۔نو دس بجے سے پہلے گھر سے نہیں نکلتے تھے ۔سردی کے موسم میں جب تک سورج نہ نکلتا لحاف میں چھپے رہتے تھے. نل کے تازہ اور شفاف پانی سے نہاتے اور اچھی طرح ناشتہ کرنے کے بعد ملازمت کو جاتے ۔
رات کے وقت گھر والوں کے ساتھ آگ کے الاو کے پاس بیٹھتے جہاں گاؤں کے تمام چھوٹے بڑوں کے حالات معلوم ہو جایا کرتے ۔
اچانک کسی کے کھانسے کی آواز آتی ہے ۔
کھانسے کی آواز سن کر اس کمرے کی طرف رخ موڑتے ہیں ۔یہ کھانسی ان کی بہو روہا کی ہے ۔
روہا برہان کی بیوی ہے ۔اسٹیٹ لائف میں ملازمت کررہی ہے ۔اور زونل ہیڈ کے عہدے پر فائز ہے ۔معمول کے مطابق نیند کے خمار اور بدن کی کی تھکن کے باوجود بستر سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔
کھانے کی میز پر پہنچ کر اخبار پڑھتی ہے ۔
بھاری زوردار آواز سے ملازمہ کو مخاطب کرتی ہے.
اور کچھ ہدایات کرنے کے بعد دفتر کے لیے چلی جاتی ہے ۔
ایک زوردار آواز سے دروازہ بند ہوتا ہے ۔
مسٹر سالار کھانے کی میز پر بیٹھے خاموشی کے عالم میں سب دیکھتے رہ گئے ۔
سالار نے کئی بار سوچا کہ روہا کو کہیں کہ نوکری چھور دے ۔اپنے گھر اور بچوں پر توجہ دے ۔روہا کے گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے گھر کا نظام خراب ہو رہا ہے ۔مگر کچھ بھی نہیں کہہ پاتے البتہ جب اس طرح کی خواہش ابھرتی تو ماضی میں چلے جاتے ہیں ۔
“عورتیں سورج طلوع ہونے سے قبل جاگ اٹھتی تھیں ۔ہاتھ سے گھومنے والی پتھر کی چکی سے گندم اور جوار پستی تھیں ۔دودھ سے مکھن اور دہی بناتیں،تندور اور پتھر کی بنی ہوئی تھوبی پر تازہ اور گرم روٹیاں تیار کرتیں ۔گھر کے تمام چھوٹے بڑے پتھاری پر بیٹھ کر جم کر ناشتہ کرتے ۔سارا سارا دن چرخہ کاٹتی تھیں “۔
روہا دن بدن کمزورہوتی جا رہی تھی ۔روہا کے پیچکے گال ۔سیاہ دھبے ،آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ،کمزور جسم اور ابتر حالت کو دیکھ کر سالار غمگین ہوتے ہیں ۔
مسٹر سالار نے روہان سے کہا کہ۔۔۔ بہو کو کسی اچھے ڈاکٹر کو کیوں نہیں دیکھاتے ؟
اچھے ہسپتال دکھانے کی فرصت کہاں ہے بابا۔
ایک ڈاکٹر سے اس نے دوا منگوا لی ہے ۔کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائے گی ۔
برہان کا جواب سن کر سالار سوچتے ہیں کہ ہم اپنے والد کے ہر حکم کی تکمیل کرتے تھے ۔
بابو جی نے کہا سالار !پڑوس میں شادی ہے ۔شادی میں تم کو جانا ہوگا۔پانچ
کلو چاول ،پانچ کلو چینی بھی ساتھ جائے گا ۔۔
تمہاری ماں کی دوا ختم ہو گئی ہے ۔آتے وقت ڈاکٹر سے مشورہ کر کے لیتے آنا ۔””
“عظمت کا شوہر بیمار ہے ۔اس کی تیمارداری کے لیے جانا ہوگا ۔کچھ پیسے رکھ لینا ۔اس کو ضرورت ہوگی ۔”
بہو بھی کمزور دکھائی دے رہی ہے اس کے لیے دوا اور فروٹ لیتے آنا ۔””
بابو جی کی ایک ایک بات کو توجہ سے سنتے ہوئے ہر حکم کی تکمیل کرتے تھے ۔
مسٹر سالار اپنے کمرے میں واپس لوٹ آتے ہیں ۔اپنے بستر پر لیٹ کر چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں ۔
بوڑھے باپ کے کان بیٹے اور بہو کے کمرے میں چہچاہٹ اور ہنسی کی آوازیں سننے کے ممتنی ہیں جو کہ معمول کے مطابق آج بھی قبرستان بنا ہوا ہے ۔
ایک زوردار قہقہ لگتا ہے ۔
سالار قہقے کی آواز سن کر اس طرف بڑھتے ہیں تو یہ آواز برہان کے بیٹے حدید کے کمرے سے سنائی دیتی ہے ۔
حدید ایم اے انگریزی کا طالب علم ہے ۔ دن بھر کمرے میں بند رہتا ہے ۔اوررات بھر
گھر واپس نہیں لوٹتا ۔
وہ نوجوان ہے مگر سالار کی طرح چہرے پر ضعیفی کے آثار نظر آنے لگے ہیں ۔اس نے بال بڑھا رکھے ہیں ۔داڑھی بڑھی ہوئی ہے ۔اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے بھی پڑ گئے ہیں ۔
اس کے کچھ دوست جو ظاہری شکل و صورت سے ماڈرن نظر آتے ہیں ۔حدید سے ملنے گھر آتے ہیں ۔وہ سب کوک شاستر کے رنگین اوراق سے کھیلتے ہیں ۔گھنٹوں اجنبی زبان میں گفتگو کرتے ہیں ۔اس کی زبان سے روزمرہ زندگی میں بھی اجنبی الفاظ نکلتے ہیں ۔وہ فلسفیوں کی طرح گنجلک اور الجھی باتیں کرتا ہے ۔
سالار حدید سے کہتے ہیں کیا تم وقت پر گھر واپس نہیں آ سکتے ؟
حدید جنجھلاتے ہوئے بولا ۔
داداجان گھر میں تنہا کیا کروں ۔اکیلے رہنے سے زندگی بے معنی محسوس ہوتی ہے ۔
سالار حدید کے جواب پر سوچ میں پڑ گئے کہ گھر میں ماں ،باپ ،دادا
اور آس پاس میں دوست احباب سبھی تو ہیں تو پھر وہ کیوں خود کو تنہا محسوس کر رہا ہے ۔؟ کیوں خود کو بیگانہ سمجھتا ہے ؟ زندگی کو بے معنی کیوں کہنے لگا ہے ؟ ۔
اور ان گنت سوالات ان کے دماغ میں آنے لگے ۔
مگر کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا ۔
***