You are currently viewing چنگو اور منگو کی دوستی

چنگو اور منگو کی دوستی

ملک منظور

 کولگام جموں وکشمیر انڈیا

چنگو اور منگو کی دوستی

ایک چوہا تھا جس کا نام چنگو تھا۔ وہ مٹھائیوں کی ایک دکان میں رہتا تھا۔ دکان میں مختلف قسم کی مٹھائیاں موجود تھیں، لہذا چنگو کو روزانہ تازہ اور گرم مٹھائیاں کھانے کو ملتی تھیں۔ وہ دل بھر کر مٹھائیاں کھاتا، مستی کرتا، اور ادھر اُدھر دوڑتا پھرتا تھا۔ اس کی زندگی خوشحال تھی۔

ایک دن زلزلہ آیا جس سے کئی مکان زمین بوس ہوگئے، اور کئی میں دراڑیں پڑ گئیں۔ مٹھائیوں کی دکان بھی متاثر ہوئی، اور مالک نے دکان کہیں اور منتقل کر دی۔ کچھ دن چنگو کو بچی ہوئی مٹھائیاں ملتی رہیں، لیکن پھر وہ بھی ختم ہو گئیں۔

چنگو بھوک سے بے حال ہو گیا اور مجبوراً دکان سے باہر نکلا۔ وہاں اس کی ملاقات ایک بڑے چوہے منگو سے ہوئی۔

’’چنگو! تم اتنے کمزور کیوں لگ رہے ہو؟‘‘ منگو نے حیرانی سے پوچھا۔

’’میں نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا۔ بھوک نے نڈھال کر دیا ہے،‘‘ چنگو نے جواب دیا۔

’’اچھا، تو گلی میں جو چاول کے دانے پڑے ہیں، وہ کھا لو،‘‘ منگو نے مشورہ دیا۔

’’وہ گندے ہوں گے، اور ان میں خوشبو بھی نہیں ہوگی،‘‘ چنگو نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔

’’لگتا ہے تم منہ میں چاندی کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہو۔ زندگی ہمیشہ آسان نہیں ہوتی،‘‘ منگو نے طنزیہ انداز میں کہا۔

’’ایسا نہیں ہے،‘‘ چنگو نے مدافعت کی۔

’’چلو، میرے ساتھ کھیت میں چلتے ہیں۔ وہاں صاف اور مزیدار دانے ملیں گے،‘‘ منگو نے پیشکش کی۔

دونوں کھیت کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں واقعی دانے موجود تھے۔ چنگو نے ایک دانہ منہ میں رکھا اور بولا، ’’یہ تو بہت سخت ہے۔ میرے دانت ٹوٹ جائیں گے!‘‘

منگو کو ہنسی آگئی۔ اسی لمحے ایک بڑا سانپ رینگتا ہوا ان کی طرف بڑھنے لگا۔

’’بھاگو! بھاگو!‘‘ منگو نے چنگو کو خبردار کیا۔

چنگو نے سوال کیا، ’’کیوں بھاگوں؟‘‘

’’وہ سانپ ہمیں زندہ نگل جائے گا!‘‘ منگو نے چنگو کو کھینچتے ہوئے کہا۔

دونوں بھاگتے ہوئے ایک سڑک پر پہنچے۔ چنگو نے جلد بازی میں سڑک پار کرنے کی کوشش کی، لیکن منگو نے اسے روک لیا۔

’’رکو! گاڑی آ رہی ہے، اگر بے دھیانی میں سڑک پار کی تو کچھ نہیں بچے گا!‘‘ منگو نے چنگو کو سمجھایا۔

سڑک پار کرنے کے بعد وہ ایک گھر میں داخل ہوئے اور وہاں ایک بل میں رہنے لگے۔ ایک دن چنگو نے کچن میں ایک پلیٹ میں رکھا ہوا کیک دیکھا اور کھانے کے لیے دوڑا۔ لیکن عین وقت پر مالکن نے جھاڑو سے مارا، اور وہ بال بال بچا۔

رات کو خوراک کی تلاش میں نکلے تو چنگو نے ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہ دیکھو، شہد والی روٹی! چلو، کھاتے ہیں۔‘‘

’’ہرگز نہیں! وہ چوہے پکڑنے کا جال ہے، جہاں جاؤ گے پھنس جاؤ گے،‘‘ منگو نے خبردار کیا۔

صبح کے وقت چنگو دھوپ سینکنے کے لیے چھت پر چلا گیا، جہاں ایک بلی بھی موجود تھی۔ منگو نے بلی دیکھ کر چنگو کو بھاگنے کا کہا، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ بلی نے اچانک چھلانگ لگائی، لیکن چنگو خوش قسمتی سے بچ گیا۔

’’شکریہ منگو، تم نے میری جان بچائی،اب میں بل میں ہی بیٹھوں گا ۔‘‘ چنگو نے شرمندگی سے کہا۔

منگو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’یہ دنیا خطرات سے بھری ہوئی ہے۔ ہمیں دوست اور دشمن میں فرق کرنا سیکھنا ہوگا۔ یہ پہچان ہمیں زندگی کے تجربات، بڑوں کی نصیحت، اور علم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ تمہیں اپنی دنیا محدود رکھنے کے بجائے علم حاصل کرنا چاہیے۔‘‘

’’ علم کیسے حاصل ہوگا؟‘‘ چنگو نے پوچھا

’’ اسکول جانے سے ۔‘‘ منگو نے کہا

چنگو نے معصومیت سے پوچھا، ’’لیکن میں وہاں کھاؤں گا کیا؟‘‘

منگو نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’علم کی بھوک مٹھائیوں سے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو ردی کاغذ ہی کھا لینا، لیکن علم ضرور حاصل کرنا۔‘‘

یوں چنگو نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی محدود دنیا سے نکل کر زندگی کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔

Leave a Reply