رشدہ شاہین
ریسرچ اسکالر
یونی ورسٹی آف حیدرآباد،حیدرآباد
چیخ
ڈاکٹر۔۔۔ڈاکٹر۔۔۔ جلدی آئیے روشنی کی طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے، ماریہ تقریباً چیختے ہوئے ڈاکٹر کے روم کی طرف بھاگی۔
کیا ہوا؟ آپ کیوں گھبرا رہی ہیں؟
ڈاکٹر جلدی کریں روشنی کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں۔۔۔
اوہ!نرس کہاں ہو جلدی چلو، وہ سب بھاگتے ہوئے آئی سی یوکی طرف لپکے۔ نرس نے ماریہ کو باہر ہی روک دیا تھا۔وہ اور ڈاکٹر اندر جا چکے تھے ماریہ باہر لگی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے روشنی کوہوش آیا تھااس نے ماریہ کو بلوایا وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سانس اکھڑنے لگی۔ یا الٰہی اسے شفا دے دے۔۔۔ ماریہ کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا، کیا ہوا،وہ کیسی ہے؟ماریہ ڈاکٹر کی طرف لپکی۔
آئی ایم سوری ہم اس کو نہیں بچا سکے۔۔۔ قدرت کو یہی منظور تھا۔ اتنا سننا تھا کہ وہ زمین پر بیٹھ گئی۔
حوصلہ کریں ۔۔۔ڈاکٹر نے تسلی دی۔
میں روشنی کو کہاں لے جائوں یہاں تو اس کا کوئی نہیں ہے۔ اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔ماریہ نے اپنے گھر والوں کو فون کیا ، تھوڑی دیر بعد وہ اسپتال پہنچ گئے اور روشنی کو ساتھ لے گئے۔ میت کے پاس این جی او کی کچھ عورتیں اور ماریہ کے گھر والے موجود تھے۔ روشنی کا اس شہر میں کوئی نہیں تھا۔
روشنی کتنے اطمینان سے سوئی ہو۔۔۔ تم کو دیکھ کے ایسا لگ رہا ہے کہ کتنے سالوں بعد تمہیں سکون ملا ہے۔۔۔ تم نے تو بہت جلدی ہار مان لی۔۔۔ کچھ دن اور رُک جاتی ہم تمہیں کم سے کم انصاف دلا دیتے۔۔۔ ماریہ سوچے جا رہی تھی ۔
اسے اچھی سے یاد تھا کہ روشنی کچھ مہینے پہلے روڈ پر بد حواسی کی حالت میں ملی تھی۔ ماریہ این جی او جانے کے لیے جیسے ہی گھر سے نکل کر روڈ پر آئی، وہ زور سے ایک لڑکی سے ٹکرائی جو روڈ پر بھاگے جا رہی تھی اوربار بار پیچھے مُڑ کر دیکھ رہی تھی، وہ لڑکی بہت ڈری ہوئی تھی ، ماریہ کے سامنے آتے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کے التجا کرنے لگی باجی خدارا مجھے ان لوگوں سے بچا لو۔۔۔ اس لڑکی نے اپنا چہرہ دوپٹے سے چھپا رکھا تھا۔
کون ہو تم؟ کیا ہوا؟
میرا نام روشنی ہے۔خداراآپ میری مدد کر دیں۔اس کے ہاتھ زخمی تھے آنکھوں کے پاس نیل پڑا تھا ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے بڑی بے رحمی سے مارا ہے۔
یہ زخم کیسے آئے؟ماریہ کو تجسس ہوا۔
میں آپ کو سب کچھ بتاؤںگی پہلے آپ مجھے یہاں سے کہیں لے چلیںورنہ وہ لوگ ڈھونڈتے ہوئے آجائیں گے بڑی مشکل سے ان کے چنگل سے آزاد ہوئی ہوں۔
کیا ہوا ہے؟ کچھ تو بولو۔۔۔ ماریہ کو اس کی حالت پر رحم آیا،تم میرے ساتھ آؤ، ماریہ نے اپنی چادر اُسے اچھی سے اوڑھائی تاکہ اس کے دشمن پہچان نہ سکیں، آٹو کیا اور اسے اپنے ساتھ این جی او لے آئی۔
ماریہ ایک این جی او کی انچارج تھی ۔اس این جی او کے ذریعہ غریب اور مجبور لڑکیوںکی پڑھائی اور شادی کرائی جاتی تھی اس کے علاوہ یتیم اور بے سہارا بچوں کی مدد بھی کی جاتی تھی۔ بہرحال این جی او پہنچتے ہی ماریہ نے روشنی کو ایک کمرے میں بٹھایا۔
تم یہاں میرا انتظار کرو میں کچھ ضروری کا م ہے نپٹا کے آتی ہوں، یہ لو پانی پیو اور آرام سے بیٹھ جائو گھبرانا نہیں تم یہاں محفوظ ہو۔۔۔
باجی مجھے کچھ کھانے کو مل سکتا ہے میں دو دن سے کھانا نہیں کھائی ہوں۔۔۔ روشنی نے منت کی۔
کھانا؟؟؟اچھاایک کام کرو ابھی یہ لو میرا لنچ باکس ۔۔۔ ۔ اچھا میں چلتی ہوں ۔ اس کے جاتے ہی روشنی نے کھانا شروع کیا اورکھانے کے بعد کمرے کا جائزہ لینے لگی۔ سامنے کی دیوار پہ بنی الماری میں بے شمار کتابیں قرینے سے رکھی گئی تھیں ۔ دائیں جانب بڑی سی ٹیبل اور اس کے اطراف کرسیاں لگی تھیں۔ بائیں جانب ایک صوفہ لگا ہواتھا روشنی اٹھی اور صوفے پر جا کے لیٹ گئی، لیٹتے ہی اسے نیند آگئی۔
ماریہ جب اپنا کام ختم کر کے کمرے میں آئی، تو اسے صوفے پر دراز پایا ، وہ حیران ہوئی،آہستہ سے اس کے قریب گئی، وہ بے خبر سو رہی تھی۔ اس کی حیرانی اس وقت اور زیادہ بڑھ گئی جب اس نے دیکھا کہ روشنی کے چہرے پر جگہ جگہ نیل پڑے ہوئے تھے، ہونٹ بھی ایک سائیڈ سے کٹا ہوا تھا، ماتھے پر خون جماتھا، ہاتھوں کے زخم وہ پہلے ہی دیکھ چکی تھی۔اس نے اس کا بغور جائزہ لیا ۔ کس درندے نے اس کی یہ حالت کی ہے؟ روشنی روشنی۔۔۔ ماریہ نے اسے آوا زدی لیکن وہ گہری نیند میں تھی ، پھر اس نے ہلکے سے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چیختے ہو ئے اٹھ بیٹھی۔
ارے !تم ڈرو نہیں ، تم یہاں بالکل محفوظ ہو ،ہم تمہاری مدد کریں گے، بتاؤ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے؟ تمہاری یہ حالت کیسے ہوئی؟ اتنا سننا تھا روشنی رونے لگی، ماریہ نے حوصلہ دیااور بڑی مشکل سے اُسے سنبھالا۔
باجی میرا نام روشنی ہے، میں ایک چھوٹے سے گائوں کی رہنے والی ہوں، میری عمر اس وقت پچیس سال ہے، میرے گھر والے مجھے اپناتے نہیں۔وہ پھر سے رونے لگی۔
چپ ہو جاؤ ، ہمت سے کام لو اور مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟ کیوں گھر والے نکال دیے ہیں؟ میں تمہاری جتنا ہو سکے گا مدد کروں گی۔ اچھا رکو!!! تم پہلے مجھے یہ خون اور زخم صاف کرنے دو۔ اتنا کہتے ہوئے ماریہ روم سے نکل گئی اور تھوڑی دیر بعد فرست ایڈ باکس اپنے ساتھ لے آئی، اس کے زخموں کو صاف کر کے مرہم پٹی کی۔ روشنی سنو! یہ ایک این جی او ہے جس کے ذریعے ہم غریب اور مجبور لڑکیوں کی مدد کرتے ہیں، میں یہاں کی انچارج ہوں، اچھا ہوا کہ تم مجھے مل گئی، اس لیے بالکل مت گھبراؤ اور مجھے سب بتاؤ کیا ہوا ہے؟ یہ سن کر روشنی کی کچھ ہمت بڑھی، پھر اس نے بولنا شروع کیا۔
میری اس حالت کے ذمہ دار میرے گھر والے اور میرے اپنے لوگ ہیں۔ میں ایک غریب گھر کی بڑی بیٹی ہوں، مجھ سے چھوٹے سات بھائی بہن ہیں، ابّابازار میں پھل اور سبزیاں بیچتے تھے، اماں سلائی کڑھائی کرتی تھیں، جس سے گھر کا خرچ بہت مشکل سے نکلتا تھا۔ میں اور میرے دو بھائی سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے، باقی ابھی چھوٹے تھے،اماں ابا کو ہماری پرورش کے ساتھ شادی کی بہت فکر تھی۔ جب میں ہائی اسکول میں تھی تو اماں نے اپنے رشتہ داروں میں شادی کرانے کی بات کی۔ میرے دور کے رشتہ میں ایک ماموںہیں جو گاؤں سے دور کسی بڑے شہر میں نوکری کرتے تھے انہوں نے اماں سے کہا کہ روشنی کی شادی میں کراؤں گا جس کے بدلے آپ لوگ کو اچھی خاصی رقم ملے گی ،اس سے غریبی بھی دور ہو گی اور باقی بچوں کی پڑھائی بھی ہو جائے گی۔ اماں تھوڑی لالچی تھیںاور غریبی کی وجہ سے وہ ماموں کی باتوں میں آگئیں لیکن ابامجھے گھر سے دوربھیجنا نہیں چاہتے تھے۔ کچھ دن بعد اماں نے ابا کو منا لیا۔ جب میراہائی اسکول کا امتحان ہونے والا تھا ،تو وہ ماموں میرے گھر آئے اور اماں سے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی بات کی ۔ اماں کو لگتا تھا کہ گاؤں میں ہی شادی ہوگی اس لیے وہ تھوڑا پریشان ہوئیں لیکن ماموں نے ان کو سمجھایا کہ تم فکر مت کرو، شہر میں ایک اچھا رشتہ ہے، میں جانتا ہوں لڑکا امیر گھر سے تعلق رکھتا ہے میں نے وہاں بات کر لی ہے، وہ لوگ تیار ہیں اور اس شادی کے بدلے بڑی رقم بھی ادا کریں گے،لڑکا عمر میں تھوڑا بڑا ہے تو کیا ہوا اتنی بڑی رقم بھی تو مل رہی اور آگے بھی روشنی مدد کرتی رہے گی جس سے آپ لوگوں کی غریبی دور ہو جائے گی۔ اماں اپنی لا لچ و غریبی اور ابا نے اپنی مجبوری کے تحت مجھے لے جانے کی اجازت دے دی۔ تب ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے ،ابا اماں نے ماموں پر بھروسہ کیاتھا۔
مجھے بہلا پھسلا کر شہر لے گئے اور ایک ہوٹل میں رکھا۔ کچھ دن بعد کمرے میں انجانے لوگ آتے اور مجھے دیکھ کے چلے جاتے۔ ایک دن صبح ایک پاگل جیسا میری ابا سے بھی زیادہ عمر کاآدمی آیااس نے نہ جانے ماموں کے کان میں کیا بولا وہ دونوں باہر چلے گئے دوپہر کا کھانا لے کر جب ماموں آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا، مجھے دیتے ہوئے بولے کہ شام میں اسے پہن کر تیار ہو جانا آج تمہاری شادی ہے ۔ میں پریشان ہوئی کہ کس سے میری شادی کر ا رہے ،اس وقت میری عمر چودہ سال تھی، شام میں میرا نکاح اسی پاگل شخص سے کرا دیا گیا۔ وہ مجھے اسی ہوٹل میں کچھ دن رکھنے کے بعد اپنے ساتھ سات سمندر پار لے گیاوہاں بھی اس نے مجھے ہوٹل میںرکھاتھا، پاگلوں جیسا سلوک کرتارہا، بہت مارتا تھا اپنی ہوس پوری کرتا اور چلا جاتا۔ میں درد سے چیختی تو منھ پر کپڑا باندھ دیتا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ ہم گھر کب جائیں گے تو اس نے بولا کون سا گھر؟ تمہاری شادی مجھ سے معاہدے پر ہوئی ہے اس شادی کے بدلے میں نے تمہارے گھر والو ں کو بڑی رقم ادا کی ہے۔ میں جیسا چاہتا ہوں ویسا کرو ورنہ بے موت ماری جاؤگی۔ میں اس وقت کچھ سمجھ نہیں پائی تھی بس اتنا جان سکی تھی کہ مجھے خریدا گیا ہے،موت کے نام سے میں بہت ڈر گئی تھی۔وہ مجھے روزانہ رات میں کوئی نشیلی دوا دیتا جس سے مجھ پر بے ہوشی طاری ہو جاتی تھی جب ہوش آتا تو کمرے میں کئی مردوں کو پاتی اور میرے جسم پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا،ایسے ہی کئی مہینوں تک چلتا رہا۔ اسی دوران میں ایک بچے کی ماں بھی بن گئی ۔ میں نے اپنے شوہر سے منتیں کیں کہ مجھے گھر پہنچا دو ، اس نے پہلے تو منع کر دیاپھر میری گزارش پر بولا کہ بچے کو چھوڑ کر جائو اس طرح کچھ دن بعد میں اپنے گھر آگئی ۔ میں نے اپنی ماں سے ساری بات بتائی ، لیکن میری ماں نے کہا کہ وہ تمہارا شوہر ہے ، بیٹیاں اپنے گھرمیں ہی اچھی لگتی ہیں، ہم غریب ہیں ،پہلے ہی اتنی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے ہیں، تمہارے شوہر سے ملی رقم سے گھر کی حالت ٹھیک ہوئی ہے، وہ اکثر رقم بھیجتا ہے جو تمہارا ماموں لا کے دے دیتا ہے جس سے تمہارے بھائی بہن پڑھ رہے ہیں، گھر کا خرچہ نکل رہا ہے، تم کیوں ہمیں بھوکا مارنا چاہتی ہو؟
ماں کی یہ بات سن کر میں بہت پریشان ہوئی،اب میں کیا کروں کیوں کہ میں اس جہنم جیسی زندگی میں دوبارہ نہیں جانا چاہتی تھی، کچھ دن گھر میں رہی لیکن مجھے اپنے بچے کی بہت یاد آتی تھی اس لیے واپس لوٹ گئی لیکن وہی ظلم و ستم پھر سے شروع ہوا، میں جب بھی گھر بات کرنا چاہتی تو ماموں بات کر کے رکھ دیتے تھے، میں ان سے کہتی رہی کہ میرا طلاق کروا دیں ، پہلے تو وہ نہیں مان رہے تھے لیکن بعد میں مان گئے،اس طرح پہلی شادی کو ابھی ڈیڑھ سال بھی نہیں ہوا تھا کہ طلاق ہو گئی، عدت ختم ہونے تک مجھے ایک ہوٹل میں رکھا گیا، جیسے ہی عدت ختم ہوئی ماموں نے میری دوسری شادی ایک اور بڈھے سے کرا دی یہ بھی شادی صرف ایک معاہدے پر ہوئی تھی، ایک ہفتہ بعد اس نے بھی طلاق دے دی، اسی طرح ماموں نے کانٹریکٹ پر لگاتار میری 19بار شادی کرائی جو کہ کچھ ہفتوں کے بعد ٹوٹ جاتی اور جب عدت ختم ہو جاتی تو دوسری شادی کرا دیتے، مطلب ایک سال میں دو دو شادیاں کرائی گئیں جو کہ صرف معاہدے پر ہوتی تھیں جس سے ایک بڑی رقم ماموں کے ساتھ میرے گھر والوں کو ملتی تھی۔ ابااماں کو لگتا تھا کہ یہ رقم میرا پہلا شوہر دیتا رہا ہے ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ماموں ایک بروکر ہیں۔ جو غریب گھر کی کم سن بچیوںکو ایک بڑی رقم کے عوض کسی رئیس بوڑھے سے شادی کراتے تھے جس کے بدلے ان کو بھی ایک موٹی رقم ملتی تھی۔یہ شادیاں مستقل نا ہوکر عارضی ہوتی تھیں۔روشنی لگاتار بولے جا رہی تھی ، ماریہ کو اس کی آپ بیتی سن کر دھچکا لگا۔
تم پریشان مت ہو ، ہم مل کر تمہاری مدد کریں گے اب تم محفوظ ہو۔
باجی! میں علاج کرانا چاہتی ہوں مجھے کئی بیماریوں نے گھیر رکھا ہے۔
کیسی بیماری؟ کیا ہوا ہے؟
مجھے سرویکل کینسر ہو گیا ہے، چھوٹی عمر میں ہی کئی لوگوں کی جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھنے کی وجہ سے اس موذی مرض میں مبتلا ہو گئی ہوں۔ اس بیماری میںبھی میری شادی او ر طلاق ہوتی رہی، میں اپنے گھر اور بھائی بہنوں کی زندگی بنا کر خود موت کے منھ میں آگئی ہوں۔ آج میری بیسویں شادی ہونے والی تھی کہ بڑی مشکل سے وہاں سے بھاگی ہوں۔ وہ رو رہی تھی ، ماریہ کی آنکھ میں بھی آنسو آگئے۔
نہیں تم کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ تم بالکل ٹھیک ہو جاؤگی ۔۔۔ ہم تمہارا علاج کرائیں گے۔روشنی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی،ماریہ نے اُسے گلے سے لگا لیا ۔یہ درندے صفت انسان کہاں سے آتے ہیں جن کو صرف اپنی ہوس اور جنسی لذت عزیز ہوتی ہے۔ پیسوں کے بل پر دوسروں کی زندگی حرام کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔۔۔۔ماریہ ان کو دل ہی دل میںبددعائیں دینے لگی۔
اس نے روشنی کو اپنے ساتھ لیااوراین جی او کے گرلزہاسٹل لے آئی۔ اُس ہاسٹل میں بہت سی مجبور اور بے بس لڑکیا ں رہتی تھیں۔ ہاسٹل انچارج کو ضروری ہدایات سمجھا کر روشنی کو ایک کمرہ دلایااور اپنے گھر آ گئی۔ دو تین دن بعد ماریہ اسے اسپتال لے گئی جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ اس بیماری نے جڑ پکڑ لیا ہے۔ بچہ دانی یا رحم کے کینسر کے علاوہ اس کے پرائیویٹ پارٹس بھی متاثر ہو چکے ہیں۔ کچھ دوائیں دے رہاہوںجن سے ان کو وقتی راحت مل سکتی ہے لیکن مکمل طور پر ٹھیک ہونا نا ممکن ہے اب کوئی معجزہ ہی ان کو زندگی دے سکتا ہے۔
یہ سن کر ماریہ بہت اداس ہوئی ، کیا کروں؟اس خوبصورت معصوم کلی کو نا جانے کتنے وحشی لوگوں نے مسل کر مُرجھا دیا اوراب وہ زندگی و موت سے لڑ رہی ہے۔ حیوانیت اتنی کہ اس حالت میں بھی اس کی شادی کرانے جا رہے تھے۔ یا اللہ! ماریہ نے گہری سانس لی اور دوائیں لینے کے بعد روشنی کو لے کرہاسٹل آگئی۔ روشنی یہ دوائیں تم پابندی سے لینا ،وقت پر کھانا کھانا ، میں تم کو شام میں کچھ پھل لا کر دیتی ہوں۔ تم سے ملنے آتی رہوں گی۔ تم کو یہا ں کوئی پریشانی نہیں ہوگی ، کچھ بھی ضرورت ہو تو یہاں میڈم کو بتا سکتی ہو یا ان سے کہہ کر مجھ سے بات کر سکتی ہو۔
کچھ دن بعد ماریہ نے روشنی کے گھر والوں کا پتہ لگانا شروع کیا ۔ کافی کوششوں کے بعد بالآخروہ ان کے گھر پہنچ ہی گئی۔جہاں اسے معلوم ہوا کہ باقی بھائی بہنوں کی بھی شادی ہو گئی ہے اور سب خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔باپ کا انتقال ہو گیا تھا۔روشنی کے والد حساس طبیعت کے مالک تھے ان کو اپنی بیٹی پر ٹوٹے ظلم کا پتہ نہیں تھا وہ بس اتنا جانتے تھے کہ کسی امیر بوڑھے سے اس کی شادی ہوئی ہے۔ لیکن دو تین سال بعد روشنی کا کچھ پتہ نہیں چلا تو وہ سمجھ گئے تھے کہ بیٹی پر کیا گزر رہی ہے ۔ آخر کار جب ان کو سچائی کا پتہ چلا تو وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے اور ان کو ہارٹ اٹیک آگیا ۔ جس دن روشنی کے والد کی موت ہوئی تھی اس دن اس کی گیارہویں شادی ہو رہی تھی۔ اسے اپنے باپ کی موت کا بھی نہیں بتایا گیا۔ ایک طرف جنازہ اٹھ رہا تھا تو دوسری طرف بیٹی کی ڈولی۔۔۔ ماریہ نے اس کی ماں کو ساری بات بتائی اور ان سے پوچھا کہ آپ لوگ اس سے کیوں منھ موڑ لیے ہیں؟
ہم مجبور ہیں ایک شادی شدہ بیٹی کو گھر میں بٹھاتے تو باقی بچوں کی شادی نہیں ہو پاتی اوپر سے اس کی کئی شادیاں ہو چکی تھیں ، بعد میں ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہیں رہا ۔ جب بھی اس کے ماموں سے پوچھتی تو وہ یہی کہتا کہ وہ بہت خوش ہے ہمیں کیا پتہ تھا کہ اس کو ایسی بیماری ہو گئی ہے لیکن اس کے باپ کو سمجھ آگیا تھا اور وہ صدمہ نہ سہہ سکا۔ اتنا کہہ کے وہ رونے لگیں۔ میڈم اب اسے یہاں اگر لے آئیں تو ہم لوگوں کو کیا بولیں گے؟ماریہ نے کوئی جواب نہیں دیا وہاں سے اٹھی اورواپس ہو گئی کیوں کہ ان کی باتیں سننے کے بعد ان سے کوئی توقع کرنا فضول تھا۔
واپس آنے کے بعد ماریہ نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک ایساگورکھ دھندا ہے جو بڑی چالاکی اور جرأت مندی کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ اسے ایسی کئی لڑکیا ں ملیں جن کی معاہدے کے تحت شادی ہوتی رہی اور جب وہ کسی لائق نہیں ہوتیں یا بیماریوں نے ان کو گھیر لیا ہوتا تو ان کو انڈیا لا کر چھوڑ دیا جاتا ۔ آخر کار یہ لڑکیاں کہیں کی نہیں رہتیں ، ان میں سے کچھ تو خودکشی کر لیتی ہیں یا پھر موت ہی ان کو گلے لگا لیتی ہے۔ وہ لڑکیاں کم سن معصوم ہوتی ہیں جن کی عمر تقریباً بارہ سے چودہ سال تک کی ہوتی ہے ۔ ابھی ان کا لڑکپن ختم نہیں ہوتا کہ یہ وحشی درندے ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ نہ جانے کتنی لڑکیاںروشنی کی طرح چیخی ہوں گی ، نا جانے کتنی چیخیں وقت اور حالات کے ساتھ دب گئیں۔ ان چیخوں کو کسی نے نہیں سُنا،اور نہ ہی ان کی تکلیف کو وہ انسان کے روپ میں بھیڑیے سمجھ سکے۔
ماریہ کا دماغ گھومنے لگا تھا وہ پریشان ہو گئی تھی ۔ کیسے اس جرم اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی جائے؟ کس طرح ان لڑکیوں کی مدد کی جائے؟ جو اپنے ہی لوگوں کی لالچ کا شکا ر ہو رہی ہیں اور سب سے بڑی ستم ظریفی یہ کہ گھر والے بھی غریبی اور مجبوری کے آگے چند پیسوں کے لیے اپنی معصوم بیٹیوں کا بیاہ بوڑھوں سے کر دیتے ہیں جو انسان کی شکل میں جانور ہوتے ہیں۔ اب گھر والوں کو بھی یہ کہاں پتہ ہوتا ہے کہ وہ بوڑھا شخص اس کی بیٹی کے ساتھ کیا کرتاہوگا یا جس نے شادی کرائی ہوتی ہے اس کی منشا کیا ہے۔ ان کو تو یہی لگتا ہے کہ ان کی بیٹی کی شادی ایک امیر گھر میں ہوئی ہے اب لڑکے کی عمر کچھ بھی ہو کم سے کم ان کی بیٹی تو غریبی سے بچ جائے گی۔ لیکن جو بیچ میں پڑکر شادی کرواتے ہیں وہ تو چند پیسوں کے لیے لڑکی کا سودا کر دیتے ہیں اور یہ شادی بھی عارضی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ اس لڑکی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔وہ سوچے جا رہی تھی کہ تب ہی فون کی گھنٹی سے ماریہ چونک گئی ۔
ہاسٹل سے فون تھا۔ میڈم روشنی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ آپ جلدی آ جا ئیے۔
ماریہ فوراً ہاسٹل پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ روشنی بستر پر ادھمری پڑی ہے اور پورا بستر خون سے رنگا ہوا ہے۔ وہ اسے لے کراسپتال بھاگی۔ ڈاکٹروں نے اس کا علاج شروع کیا،اسے آئی سی یو میں رکھا گیا۔خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔روشنی با ر بار بے ہوش ہو رہی تھی جب بھی تھوڑا ہوش آتا ماریہ کو بلاتی لیکن کچھ بول نہیں پاتی ۔آخر کار آج وہ زندگی کی جنگ ہار گئی۔
جنازے کا وقت ہو رہا ہے۔۔۔کسی نے آواز دی توماریہ چونکی ،روشنی کو تدفین کے لیے لے جانے لگے اس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ روشنی سے بہت مانوس ہو گئی تھی، اس کا درد انہیں اپنا لگتا تھا۔ روشنی کو لے جا چکے تھے ماریہ زاروقطار رو رہی تھی۔ روشنی اپنے گھر کے اندھیرے کو روشن کرکے خودلوگوں کے ہاتھوںبُجھ گئی تھی۔
***