You are currently viewing ڈاکٹرمحمد مشرف حسین انجم کی نعتیہ شاعری: اجمالی جائزہ

ڈاکٹرمحمد مشرف حسین انجم کی نعتیہ شاعری: اجمالی جائزہ

کومل شہزادی

ڈاکٹرمحمد مشرف حسین انجم کی نعتیہ شاعری: اجمالی جائزہ

 

ڈاکٹر مشرف حسین انجم سرگودھا کا روشن ستارہ ہےجنہوں نے اس فضا کو اپنی حمدونعت کی تخلیقات سے روشن کررکھا ہے۔ان کی شخصیت میں عاجزی وانکساری ، ادب سے شغف اوررسول ﷺ کی محبت سے لبریز دل ان کا پہلا حوالہ ہے۔طبیعت میں انکسار کے ساتھ ان کی زندگی کے کئی روپ ہیں یہ اچھے نعتیہ شاعربھی ہیں اورادب شناس بھی ہیں۔جو صفت ان کی شخصیت کا سنگھار ہے وہ تہذیب ہے۔یہ ادب دوست ہی نہیں ادب شناس بھی ہیں۔

مشرف حسین انجم نے اپنا سخن میں میدان حمد ونعت کو چنا اورتاعمر اسی میں طبع آزمائی کی اور چالیس سے زائد کتب تخلیق کرڈالیں جو ان کے لیے سعادت کی بات ہے کہ انہیں آقا دوجہاں سے والہانہ عقیدت نے ان سے اتنا کام کروایا۔ان کے نعتیہ کلام پر ڈاکٹر فضیلت بانو رقمطرز ہیں۔

’’ڈاکٹر مشرف حسین انجم دی نعت گوئی اوہناں دے عشق رسولﷺ دا اک زندہ ثبوت اے۔اوہناں دے انگ انگ وچوں نعت دی خوشبو پُھٹ دی اے۔لگدا اے کہ رب سوہنے نے اوہناں نوں مدحت رسولﷺ واسطے ای پیدا کیتا اے۔‘‘

نعت کہنا یا نعت کا پڑھنا مسلمان کی حیثیت سے باعث برکت اور باعث ثواب تصور کیا جاتا ہے۔منعت کہنے والوں کے نعتیہ کلام میں رسولﷺ سے والہانہ محبت وعقیدت کا اظہار نمایاں پایا جاتا ہے۔نعت کی خوبی یہ ہے کہ یہ جب رسولﷺ کی محبت میں ڈوب کرکہی جائے جو کچھ کہا جائے وہ اس کے دل کی آواز ہو ۔

نعت کہناایک مستجاب عمل ہے اور یہ دل کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے۔اگر دل میں عشق رسولﷺ کی شمع روشن ہوتو تواللہ اپنے حبیب کی محبت کواجاگر کیے جاتا ہے۔

نعتیہ اشعار بعض اوقات پڑھنے والے پر اس قدر شدید اثر ڈالتے ہیں کہ وہ اندر سے تڑپ کررہ جاتا ہے۔ اورمحسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ ازخود اپنے آقا ومولا کی شان بیان کررہا ہے ۔ڈاکٹر مشرف نے خوب نعتیہ کلام لکھاہے۔زیر نظر کتاب “سلاماں دی خوشبو ” جس میں حمد نعت اور قطعات شامل ہیں.بہت عقیدت سے آقا دوجہاں پر سلام پیش کرتے ہیں۔ان کا انداز بیان انتہائی سادہ اور محبت سے لبریز ہے۔

سلام اُس مہرباں تے جس دا نورانی قبیلہ اے

سلام اُس مہرباں تے جیہڑا بخشش دا وسیلہ اے

سلام اُس مہرباں تے جس دا احمد نام سوہنا اے

سلام اُس مہرباں تے جس دا ہر اک کام سوہنا اے

سلام اُس مہرباں تے جیہڑا سارے جگ نوں چمکاوے

سلام اُس مہرباں تے جیہڑا سارے جگ نوں مہکاوے

سلام اُس مہرباں تے جیہڑا دل ہے کارواناں دا

سلام اُس مہرباں تے جیہڑا دل ہے کل جہاناں دا

انہوں نے نعتیہ شاعری کے ساتھ حمدیہ شاعری بھی قلمبند کی۔ بندے کی حقیقی بندگی بھی یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم اور بیان کرے ۔خدا سارے جہانوں کا معبود ہے۔اللہ کی ذات وصفات اوراحکام کو ہرذی روح مانتا ہے اورتمام بندے اللہ کو پکارتے ہیں کیونکہ وہی حقیقی معبود ہے وہی ادب کا ہنر بھی عطاکرتا ہے۔موصوف نے حمد باری تعالیٰ کے ساتھ نعتیہ گلدستہ عقیدت بحضور سرورکائنات محمد رسولﷺ میں پیش کیا۔ہمارے پیارے نبی محسن انسانیت ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی سب عظیم نعمت اوربہت بڑا احسان وحی الہی اورروشنی ہیں۔اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے جیسے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھیں اوربصارت عطافرمائی ہے۔موصوف نے بڑے خوبصورت پیرائے میں عقیدت ومحبت کے ساتھ عشق مصطفیٰ اور محبت مصطفیٰ کا مظاہرہ کیا ہے۔

مدینے کی معطر فضا ، اور ٹھنڈی ہوا ہر کسی کو اپنائیت کا ایسا احساس دلاتی ہے کہ کسی کا وہاں سے واپس جانے کو دل ہی نہیں کرتا۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی کی محبت نے اپنے دامن میں یوں بسا لیا ہو کہ بس ساری زندگی وہیں گذار دینے کی تمنا دل میں سما جاتی ہے۔ لیکن دستورِ زمانہ اور دستورِ تقدیر بھی تو ماننے پڑتے ہیں۔موصوف کے دل کی بھی یہی کیفیت ہے ساری زندگی اسی کوچۂ ساقئی کوثر ﷺ میں بیت جائےچودہ سو سال گزرنے کے بعد آج بھی اگر کسی عاشق رسول کے سامنے مدینے کا نام لیا جائے تو تڑپ اٹھتا ہے ۔اشکوں کی جھڑی لگ جاتی ہے ۔آج بھی محراب و منبر سے یہ آوازیں کانوں میں رس گھولتی سنائی دیتی ہیں ۔محمد ۖ کا روضہ قریب آ رہا ہے بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے ۔جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئےمحبت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جس سے محبت کی جائے، اس سے نسبت رکھنے والی چیزوں سے بھی محبت کی جائے اور بالخصوص جس سے محبوب کو محبت ہو،اس سے تو انتہائی محبت و عقیدت رکھی جائے۔ ڈاکٹر مشرف حسین انجم کو مدینے کی سرزمین سے کس قدر محبت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے.کتاب ” خوشبوئے مدینہ” میں ان کی مدینہ سے محبت شدت سے نظر آتی ہے۔مدینہ سے محبت ان کے کلام سے کچھ اس انداز سے جھلکتی ہے۔

دنیا کی ہواؤں میں خوشبوئے مدینہ

رحمت کی گھٹاوں میں ہے خوشبو ئے مدینہ

انجم کی صداوں میں ہے مدحت کی محبت

انجم کی دعاوٴں میں ہے خوشبوِے مدینہ

عظمت انسان دیکھی آپ کے دربار پر

نور کی مسکان دیکھی آپ کے دربار پر

چشم عالم نے عقیدت کی نظر سے آج تک

خوشبوئے قرآن دیکھی آپ کے دربار پر

مری اکھیاں دے وچ رہندا اے جلوہ ساوے روضے دا

میں دنیا دی صبا وچ وی سنہری جالیاں ویکھاں

میں جد وی نعت لکھدا ہاں نظر سرسبز ہوجاندی

میں آقا دی ثنا وچ وی سنہری جالیاں ویکھاں

کتاب ” اکھڑاں وچ خوشبوواں” جس میں حمد کے ساتھ نعتیں اور قطعات شامل ہیں۔خدا کی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں کا اظہار بھی یہ بہت خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔یہ جذبہ محض لکھنے کی حد تک نہیں بلکہ پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دل کو خدا کی تخلیق اور محبت کے لیے ہی چنا گیا ہے جس کا گہرائی سے اظہار خیال کرتے ہیں۔

سدا دل تے تری رحمت دی خوشبو آندی رہندی اے

مری جندڑی ترے نغمے ا زل تُوں گاندی رہندی اے

ان کا اپنے رب پر اس قدر یقین کامل ہے کہ اپنی ہر تکلیف سے چھٹکارا اسی کے کرم سے ہوتا ہے۔موصوف اپنی تمام الجھنوں کو محض سلجھا تا ہے تو وہ خدا کی رحمت سے ہے۔خدا کی رحمت کو اپنی زیست میں ان کا کامل یقین ہی ان کی اصل کامیابی کا ضامن ہے۔

مری تکلیف تے دُکھاں دی ساری دُھند چھٹ جاندی

تری رحمت مری الجھن دامکھ سلجھاندی رہندی اے

اگر درود شریف کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر کھل کے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اپنے معنوں اور حقیقت دونوں کے اعتبار سے ایک دعا ہے. ایک ایسی دعا جس میں ہم رب کائنات سے یہ التجا کرتے ہیں کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مزید رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں.درود شریف کی برکت و فضیلت کے تاریخ میں بہت سے واقعات رقم ہیں فقیروں سے لے کر بادشاہوں تک ہزاروں لوگ درودشریف کی برکات سے فیض یاب ہوئے بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام خوش بختی کی علامت ہے۔درود پاک پر اظہار خیال اس انداز میں کرتے ہیں۔

دروداں دی فضا وچ جیہڑا ہر ویلے مہک دااے

بشراوہ دل دے وچ پاوے نبی دے دردی رشنائی

ان کی نعتیہ شاعری سادگی انتہائی درد مندی اور سلاست سے مملو ہے۔ان کے کلام میں جذب وکیف کی منزلیں بھی کوثر وسبیل کی روانی بھی واقعاتی جدت بھی ہےاور جذبوں کی جدت بھی ہے۔جب انسان اپنا ماضی الضمیر منتقل کرنے کااہل ہوجائے توضمیر کوبیدار کرنے کی سعادت سے بہرہور ہوتا ہے اورجب ضمیر بیدار ہوجائے توخلافت اللہ کا حقدار یہ انسان واقعی خالق کی نیابت کا حق ادا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔میری دعا ہے کہ ان کی رسول ﷺ سے عقیدت سے لبریز خیالات زندہ وتابندہ رہیں ایک قلم کار ایک نظریہ ہوتا ہے اور نظریہ ہی انسانیت کی معراج ہے۔ دعاگو ہوں کہ اللہ انہیں اسی توانائی اورجذبے سے ہمیشہ معمور رکھے ۔

ڈاکٹر احسان اللہ طاہر ان کی نعت نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’ڈاکٹر مشرف حسین انجم ہوراں دی نعت دی سادگی ہی اوہناں داتازہ پن اے اتے ایہو تازگی اوہناں دی نعت نوں پنجابی ادب وچ اک اچیراتے وکھرامقام عطاکردی اے‘‘۔

Leave a Reply