ڈاکٹر مہوش نور
ڈاکٹر بلند اقبال(کناڈا): بحیثیت افسانہ نگار
کناڈامیں مقیم ڈاکٹر بلند اقبال اردوکے مشہور شاعر حمایت علی شاعر کے صاحبزادے ہیں۔ حمایت علی شاعر اور نگ آباد، حیدرآباد، دکن، برٹش انڈیا میں 14؍ جولائی 1926 میں پیدا ہوئے۔حمایت علی شاعر اپنی ادبی خدمات اور منفردشخصیت کی وجہ سے اردو ادب میں قدر کی نگار سے دیکھے جاتے ہیں۔موصوف کی والدہ محض تین برس کی عمر میں داغ مفارقت دے گئیں اور تیرہ برس کی عمر میں والد سے نظریاتی اختلافات اور بحث و مباحثے کی وجہ سے الگ ہوگئے۔حمایت علی شاعر نے سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ موصوف نے 2002 میں پاکستان کے صدر سے اردو ادب میں ادبی خدمات کے لیے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ (Pride of Performance Award, in 2002) حاصل کیا۔ 1962اور 1963میں پاکستانی فلم’’ آنچل ‘‘(1962)،اور’’دامن‘‘ (1963)میں بہترین نغموں کے لیے دو بار’’نگار ایوارڈ ‘‘سے بھی سرفراز کیے گئے۔اس کے علاوہ مخدوم محی الدین انٹر نیشنل ایوارڈ دہلی، ہندستان، 1989،لائف اچیومنٹ ایوارڈ،واشنگٹن، 2001 ،علامہ اقبال ایوارڈاور نقوش ایوارڈ سے آپ کی عزت افزائی کی گئی۔
حمایت علی شاعر کی شادی 1949میں معراج نسیم سے ہوئی۔شادی شدہ زندگی تقریباً باون(52) برس تک برقرار رہی۔ موصوف کی بیوی ایک مہلک بیماری یعنی کینسر کے سبب ٹورنٹومیں انتقال کر گئیں۔ حماعت علی شاعر نے اپنا زیادہ تر وقت پاکستان اور کناڈا میںمقیم اپنے بچوں کے ساتھ گزارا۔ اکثروبیشتر اپنوں سے ملنے ہندستان بھی آتے رہے۔16؍ جولائی 2019 کی شام 93برس کی عمر میں ٹورنٹو، اونٹاریو، کناڈا میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
آپ کی تصنیفات میں ’’آگ میں پھول‘‘ (شعری مجموعہ) 1956ـ’’ان کہی‘‘ (افسانہ)، ’’شکست آروز‘‘، ’’مٹی کا قرض‘‘ (شعری مجموعہ)، تشنگی کا سفر‘‘، ’’حرف حرف روشنی‘‘ (شعری مجموعہ) قابل ذکر ہیں۔حمایت علی شاعر کے نغموں نے پاکستان کی بے شمار فلموں کوشہرت و مقبولیت عطا کی۔ آنچل(1962)،جب سے دیکھا ہے تمہیں 1962،دامن1963،دل نے تجھے مان لیا، ایک تیرا سہارا 1963، کنیز 1965،مجاہد 1965 ،تصویر1966 ،ولی عہد1967 وغیرہ فلموں کے نغمے کافی مشہور ومعروف ہوئے۔
مشہور و معروف اور اسم با مسمیٰ حمایت علی شاعر جن کی تمام عمر اردو زبان و ادب کی خدمت اور فروغ و ارتقا میں گزری تو ظاہر ہے ایسے تناور اور سایہ دار درخت کی آغوش میں پروان چڑھنے والی اولاد پر اثر ہونا لازمی تھا۔اس تناور درخت کے سائے میں پروان چڑھے ڈاکٹر بلند اقبال کی شخصیت اردو ادب کے مہجری ادیبوں میں سر فہرست ہے ۔ہمہ جہت شخصیت کے مالک ڈاکٹر بلند اقبال بیک وقت افسانہ نگار، ناول نویس،ڈرامہ نگار، کالم نگار اور ٹی وی اینکر بھی ہیں۔ اعلیٰ ترین ملکی وغیر ملکی یونیورسٹیز سے آپ نے تعلیم حاصل کی۔ آپ نے میڈیسن میں گریجویشن ڈائو میڈیکل کالج،کراچی،پوسٹ گریجویشن نیو یارک میڈیکل کالج اور فیلو شپ کی ڈگری اریگن ہیلتھ سائینزیونیورسٹی، امریکہ سے حاصل کی۔ آپ کینیڈا میں میڈیکل اسپیشلسٹ کے طور پر کئی اسپتالوں سے منسلک ہیں۔ بلند اقبال کے دو بھائی ہیں روشن خیال اور اوج کمال۔ بلند اقبال کی شریک حیات کا نام شجعیہ ہے اوربچوں میں زیر، علائنا، ژویر اور ایشل ہیں۔
مہجری ادیبوں میں بلند اقبال کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ گزشتہ دس پندرہ برسوں سے ہندوپاک کے معتبر اور مستند رسائل و جرائد میں آپ کے افسانے برابر شائع ہورہے ہیں۔ آپ کی اب تک کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان میں ’’فرشتے کے آنسو(افسانوی مجموعہ)، ’’میری اکیاون کہانیاں‘‘ (افسانوی مجموعہ)خاص طور پر قابل ذکرہے۔مذکورہ دونوں افسانوی مجموعے میں بلند اقبال نے تخلیقی ادب کا عمدہ نمونہ پیش کیا ہے۔بلند اقبال کا ایک افسانہ ’’بھینٹ‘‘ بہت ہی دل چسپ اور منفرد موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔
بلند اقبال نے افسانہ ’’بھینٹ‘‘میں ایک نئے اور منفرد موضوع کو قلم بند کیاہے۔ یہ افسانہ ان لوگوں کی درد ناک داستان بیان کرتا ہے جو اپنی منت اورمراد کے لیے دیوی دیوتائوں پر اپنے بچوں کی قربانی پیش کردیا کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس قربانی سے ان کے دیوی دیوتاخوش ہو جائیںگے ۔ وہ ان سے راضی ہو جائیںگے اور ان کی مرادیں پوری ہو جائیںگی۔ یہ لوگ بھینٹ اور قربانی کے بھنور میں اس قدر پھنسے ہوئے تھے کہ معصوم اور چھوٹے بچوں کی صورت پر بھی رحم نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان بے گناہوں کی فلک شگاف چیخیں ایسا کرنے سے انہیں روک پا رہی تھیں۔ اس کہانی میں ایسے دیوتائوں کا ذکر کیا گیاہے جنہیں راضی کرنے کے لیے اور اپنی منتیں پوری کرنے کے لیے لوگ اپنے چھوٹے اور معصوم بچے کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے۔ ان کے نام شاہ دولہ، مولک کا بت (قربانی کا دیوتا)، ٹوناتھ دیوتا ہے۔
شاہ دولہ کے پاس اکثر لوگ اولاد کی دعا کے لیے حاضر ہوا کرتے تھے اور منتیں پوری ہو جانے کے بعد والدین کو پہلے بچے کی قربانی دینی پڑتی تھی۔ شاہ دولہ کا انتقال 1075میں ہوا اور اس کا مزار گجرات میں ہے لیکن نو سو سال گزر جانے کے باوجود بھی ضعیف اعتقادات رکھنے والے والدین آج بھی اپنے پہلے بچے کو شاہ دولہ کے مزار پر بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔اس افسانے کا اختتامی حصہ پیش ہے جہاں شاہ دولہ کا ذکر کیاگیا ہے اور ساتھ ہی ان لوگوں کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اپنی منتیں پوری کرنے کے لیے قربانی دیتے تھے:
’’مجمع پھر سے ڈھول بجانے لگا باجے زور زور سے بجنے لگے، تالیاں بھی پٹنے لگیں۔ ایک من چلا کہیں سے گلاب موتیوں کے ہار اٹھا لایا اور ناچتے شاہ دولہ کے گلے میں ڈال کر حق اللہ، حق اللہ کے نعرے لگانے لگا۔ سارا مجمع ناچنے لگا۔ ہو مرادیں پوری، ہومنتیں پوری… حق اللہ …حق اللہ۔ اچانک پھر کوئی من چلا اپنی کھولی میں بھاگا اور تھالی میں کچھ گوشت کی بوٹیاں لے آیا اور شاہ دولہ سے منت کرنے لگا… ایک بوٹی کھالے۔ ایک بوٹی کھالے قربانی کی ہے۔‘‘
ان تینوں دیوتائوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اور افسانے میں پیش کیے گیے شاہ دولہ کے چوہے اور حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر بلند اقبال کے افسانے کی قرأت ناگزیر ہے جہاں افسانہ نگار نے کہانی کے اختتام کے بعد قاری کو ان دیوتائوں سے متعارف کرایا ہے کہ یہ دیوتا کون تھے؟ وہ قوم کون تھی جو اس رسم و رواج پر آنکھ بند کرکے یقین کرتی تھی اور ننھے معصوم بچوں کی قربانیاںدیتی تھی، اور انسانوں کی اس طرح قربانی دینے کا وقت کیاتھا؟
ایک فرسودہ روایات کی تکمیل کے لیے عجیب و غریب رسم و رواج اس قوم کی سب سے بڑی بد قسمتی اور بربادی کا سامان ہے۔ شاہ دولہ کے پس منظر میں برصغیر کی پوری تاریخ نظروں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہے۔ مشرکانہ عمل کی بجاآوری قوم مسلم کا سب سے مستحسن فعل قرار دیا جاتا ہے۔مزارات جو کہ اللہ کے نیک بندوں کی آماجگاہ ہیں۔ ان آماجگاہ پر اس طرح کے غیر ضروری عمل کہاں تک مناسب ہے؟ یہ ایک سب سے بڑا سوال ہے۔ اندھی تقلید نے مسلم قوم کا بیڑا غرق کر رکھا ہے۔ بھوت، پریت، جھاڑ پھونک، اگربتی، دھواںیہ سب عمل سائنٹفک ہے ہی نہیںچہ جائیکہ کسی قوم کے لیے سکون اور اطمینان کا سامان مہیا کرے۔ باطل اور فرسودہ نظریات کی تقلید کسی بھی مہذب سماج کے لیے کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے۔ مزارات پر چند ڈھونگیوں کے بہکاوے میں آکر شب و روز ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ اس دقیانوس روایات کے خاتمے کے لیے کوئی ضروری اقدامات کیے جائیں ورنہ مزارات کے ساتھ صاحب مزار بھی اپنا تقدس کھوبیٹھیں گے۔بلند اقبال نے مزارات پر ہورہے اس گورکھ دھندہ سے پردہ اٹھایا ہے جس کے پیچھے بے شمار افراد برباد ہورہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کے تعلیم یافتہ اور مہذب سماج اس گورکھ دھندہ کی کارستانی پر سنجیدگی سے غورو فکر کرے تا کہ اللہ کے نیک بندوں کی توہین نہ ہو اور کاروباری لوگوں کا صفایا ممکن ہوسکے۔
نئی ہیئت، نئے موضوع پرلکھے گیے اس افسانے کی زبان شستہ، صاف اور رواں ہے۔ نئے نئے استعاروں کے استعمال نے اس افسانے کو اور عمدہ بنا دیا ہے۔ قربانی کے ان تینوں دیوتائوں کو اتنے مدلل اور اختصار کے ساتھ کہانی کے پیراہن میں ڈھال کر قاری کے سامنے پیش کرنا یہ فن صرف اور صرف بلند اقبال کا ہی ہو سکتا ہے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا کوئی بلند اقبال سے سیکھے۔ موضوع چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس موضوع پر ایک سے دو صفحات میں دلچسپ کہانی قلم بند کرنابلند اقبال کا سب سے منفرد فن اور خصوصیت ہے۔
بلند اقبال کا ایک دوسرا افسانہ ’’بے بی کیئر سینٹر‘‘ ہے۔ آج کل جس طرح اولڈ ایج ہوم کا کلچر عام ہوتا جا رہا ہے ویسے ہی بے بی کیئر سینٹر کا کلچر بھی عام ہوتا جارہا ہے جہاں شب و روز کے کاموں میں مصروف والدین اپنے بچوں کو سینٹر کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس کہانی میں اسی بے بی کیئر سینٹر کے عام ہوتے کلچر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بی بی اس کہانی کی مرکزی کردار ہے۔ جس نے اس بے بی کیئر سینٹر کی عمارت تعمیر کرائی ہے۔ اور اپنی نگرانی میں اس سینٹر کورکھ کر اسے آگے بڑھایا اور دھیرے دھیرے ان کا سینٹر کافی مقبول ہو گیا۔ اور ہوتا بھی کیوں نہیں بی بی منتظم بہت اچھی تھیں۔ وہ ہر کام نہایت باریک بینی اور وضاحت سے کرتیں اور یہی وجہ تھی کہ ان کا سینٹر بہت مثالی سینٹر بن گیا۔ بی بی اور ان کے سینٹر کی کامیابی کی ایک مثال یہ ہے کہ لوگ دور دور سے ان کے سینٹر میں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو جمع کرا دیتے اور بے فکر ہو کر شب وروز کے کاموں میں مگن ہو جاتے، شاید ہی دن کے کسی حصے میں انہیں یاد آتا کہ ان کا بچہ انہیں یاد کر رہاہوگا۔ ان والدین کو اس بات پر یقین کامل تھا کہ بی بی کی ممتا بھری طبیعت اور سلیقہ مندی ان کے بچوں کو اعلیٰ تربیت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ بی بی کسر چھوڑتیں بھی کیسے انہیں بچوں سے اتنی محبت جو تھی۔
بہرکیف بی بی کا سینٹر جو کل تک آٹھ بچوں پر مشتمل تھا۔ اب ان کی تعداد راتوں رات 80ہو گئی۔ اس کی وجہ صرف اور صرف اس سینٹر میں بچوں کی صحیح اور درست پرورش و پرداخت تھی۔ بی بی کے لیے تنہا اس سینٹر کو چلانا مشکل ہو رہا تھا اس لیے انہوںنے 80بچوں کو سنبھالنے کے لیے اپنے ہی سینٹر کے کچھ بڑی عمر کے چھ بچوں کو ذمہ داری سونپ دی۔ ساتھ ہی بی بی اپنی تربیت کا نتیجہ بھی دیکھنا چاہتی تھیں۔ وہ نتائج کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں کہ یہ بچے ان کی امید سے بڑھ کر نکلے۔ ڈے کیئر سینٹر کا ماحول تہذیب و تمدن کا اعلیٰ نمونہ بنتا چلا گیا۔ سارے بچے بی بی کے سینٹر کے بنائے گیے اصولوں کے مطابق پروان چڑھ رہے تھے۔ جہاں نہ کوئی شرارت تھی، نہ ہنسی، اور نہ ہی دوڑ بھاگ۔ بس ایک تہذیب اور اصول کا ماحول تھا جہاں بچوں کی شرارتوں ہنسی اور کھیل کود کا کوئی گزر نہیں تھا۔ بی بی اپنے سینٹر کے اس تہذیب یافتہ ماحول کو دیکھ کر بہت خوش تھیں اور رہ رہ کر انہیں اپنی تربیت پر ناز بھی ہوتا۔ لیکن ڈے کیئر میں آنے والے نئے بچوں نے بی بی کے اس تہذیب یافتہ ماحول میں ہلچل مچا دی۔ یہ چھ سات بچے کھل کر زور زور سے ہنستے، کھیل میں اندھا دھند ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے، ایک دوسرے کا منھ چڑاتے، کپڑے کھینچتے، راتوں رات بی بی کے سینٹر کا ڈرا سہما تہذیب یافتہ ماحول زندگی کی چمکتی دمکتی فضائوں میں جھومنے لگا۔بی بی سمجھدار تھیں چند ہی لمحوں میں انہیں کئی سالوں کا نہ سمجھ آنے والا سبق سمجھ میں آگیا کہ بچوں پر لگائی جانے والی بے جا پابندیاں ان کی نشو و نما میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ بچوں کی پرورش کے لیے بے جا پابندیوں اور بندشوں سے آزاد فضا درکار ہوتی ہے یعنی ان ننھے پھولوں کو کھلنے کے لیے تازہ اور آزاد ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔
بلند اقبال نے ان کے علاوہ اور بھی کئی نئے اور منفرد موضوعات پر افسانے لکھا ہے۔ ان کے افسانوں کے نام اتنے دلچسپ اور پراسرار ہوتے ہیں کہ قارئین کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیںاور ان کے افسانوںکے عنوان کی پر اسراریت قارئین کے اندر تجسس پیدا کرتی ہے۔ پر تجسس اور پر اسرار افسانے کا عنوان قاری کو ایک ہی نشست میں افسانہ ختم کرنے پرمجبور کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’لفظ جو طوائف بن گئے، دھورا کافر،اکیسویں صدی کی موت، فرشتے کے آنسو، پر اسرار مسکراہٹ‘‘ وغیرہ بلند اقبال کے یہ وہ افسانے ہیں جن کے عناوین قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔بلند اقبال روایتی انداز اور روایتی موضوعات سے بالکل ہٹ کر نئے اور منفرد موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹرخالد سہیل (کناڈا)رقمطراز ہیں:
’’جب بلند اقبال کے افسانے محفلوں میں پیش کیے جاتے ہیں تو ان پر ادبی اور فنی تنقید سے زیادہ سماجی ثقافتی اور مذہبی تنقید ہوتی ہے۔ چونکہ وہ روایتی انداز سے روایتی موضوعات کے بارے میں نہیں لکھتے، اس لیے روایتی قارئین پریشان ہو جاتے ہیں جہاں موضوعات (Theme)کے حوالے سے بلند کا منٹو سے تعلق ہے، ہیئت (Form)کے حوالے سے ان کا تعلق انور سجاد اور مظہر الاسلام جیسے جدید افسانہ نگاروں سے ہے جن سے محظوظ ہونے کے لیے قاری کوتخلیقی طور پر (Inolve)ہونا پڑتا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ ’’سارے ہی محبت نامے مرے‘‘ (مضامین، خطوط ، تبصرے)، ’’ٹوٹی ہوئی دیوار‘‘ (ناول)۔ٹوٹی ہوئی دیوار دراصل دو ہمسایہ ملک یعنی پاکستان اور افغانستان میں عام وبا کی داستان ہے۔ دونوں ملک میں مذہبی تشدد کا بول بالا ہے۔ اس تشدد اور دہشت گردی سے عام لوگوں کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ گویا یہ ناول عام انسانوںکے نازک جذبات و احساسات کی ترجمان بھی ہے۔ ٹکراؤ اور آپسی خلش نے ایک خوب صورت داستان یعنی عشقیہ پہلو کو بھی اجاگر کیاہے۔ عشقیہ احساسات پاکستان ، افغانستان اور کناڈا میںدربدی پر مجبور ہے ۔ آخر کار ایک منطقی انجام کے ساتھ ناول اختتام کو پہنچتا ہے جس میں ایک ان کہی کہانی روپوش ہے۔ اس ان کہی کہانی میں بہت سارے سوالات ہیں۔ جواب کا انتظار پوری نسل کو ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید آج کی صبح کچھ بہتر خوش خبری پیش کردے جس سے انسانیت چین و سکون کی سانس لینے میں عافیت محسوس کرسکے۔بلند اقبال کی کہانیاں مہجری ادب کا بیش بہا خزانہ ہے ۔ بلند اقبال مسلسل لکھ رہے ہیں ۔تخلیقی فن پر گرفت ایک بہتر مستقبل کی نشانی ہے۔
ان سب کے علاوہ بلند اقبال کے ڈراموں کا مجموعہ’’ یہی سے اٹھے گا شور محشر‘‘ اور کالموں کا مجموعہ ’’کبھی دامن یزداں چاک‘‘اشاعت کے قریب ہے۔ بلند اقبال اپنے مخصوص علمی ٹی وی پروگرامز کی وجہ سے بھی علمی و ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ آپ کا مشہور ٹی وی شو’’ پاسورڈ‘‘ ایشیائی ٹی وی چینل کناڈاکے ساتھ ہندستان، پاکستان اور نارتھ امریکہ میں خاصا مقبول رہا ہے۔ بلند اقبال کے دو مشہور ٹی وی پروگرامز ’’دانائی کی تلاش میں‘‘ ، ’’دی لائبریری وتھ ڈاکٹر بلند اقبال‘‘ غیر معمولی علمی نشریات ہیں ۔ کینیڈا ون ٹی وی جس پر بلند اقبال کا شو ’’دی لائبریری وتھ ڈاکٹر بلند اقبال‘‘ نشر کیا جاتا ہے۔ بلند اقبال اپنے اس پروگرام میں دنیا بھر کے مختلف موضوعات سے متعلق مختلف مصنفین کی کتابوں پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ کتابوں کے علاوہ دوسرے متفرق موضوعات مثلاً کرونا وائرس،ٹی وی ڈراما وغیرہ پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ بلند اقبال کے افسانوں پر لاہور کے ایک کالج میںتحقیقی مقالہ بھی لکھا جا چکا ہے۔ آپ کے افسانوی مجموعے ’’میری اکیاون کہانیاں‘‘ میں شامل افسانہ ’’لال چونا‘‘ کی ڈرامائی تشکیل پر نیشنل کالج آف آرٹ، لاہور کی ایک طالبہ نے بی اے کی سند کے لیے مقالہ لکھا ہے۔ بلند اقبال کے افسانوں اور ناول پر ہندو پاک کے کئی ادبی رسائل و جرائد نے خصوصی شمارہ شائع کیاہے۔ ہندستانی کلچر، اتر پردیش ، انڈیا بزم اردو، ہوسٹن کی طرف سے بھی ایوارڈ سے سرفراز کیے جاچکے ہیں۔ ٹی وی کے علمی پروگرامز کوبہتر طریقے اور خوبصورت انداز بیان کے ساتھ پیش کرنے کی وجہ سے آپ کو کینیڈین سائوتھ ایشین چینلز کی طرف سے بیسٹ ٹی وی پر یزینٹزاور کینیڈین امیگریشن و سیٹیزن شپ منسٹر مائکل کٹائو کی طرف سے ایوارڈ اور تہنیتی اصناف سے عزت افزائی کی گئی۔ان سب کے علاوہ آپ پیشہ ورانہ طور پر بھی بہت متحرک و فعال ہیں۔ بلند اقبال مہجری افسانہ نگاروں میں ایک منفرد رنگ و آہنگ کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
Mahwash Noor
Room No 142, Shipra Hostel, JNU
New Delhi-110067
mahwahsjnu10@gmail.com