You are currently viewing اردو نعت گوئی میں غیر مسلم شعرا کا حصہ:  ا یک جائزہ

اردو نعت گوئی میں غیر مسلم شعرا کا حصہ:  ا یک جائزہ

ڈاکٹر حامد رضا صدیقی

شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

اردو نعت گوئی میں غیر مسلم شعرا کا حصہ:  ا یک جائزہ

          نعت گوئی ایک مشکل فن ہے اس کا موضوع بظاہر آسان، عام فہم اور سادہ سا لگتا ہے، لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے اردو شاعری کی صنف میں سب سے مشکل فن نعت گوئی ہے۔ اس میں ذرّہ بھر کوتاہی اور لغزش نعت گو کے تمام اعمال کو ختم کر دیتی ہے اور نعت گو ضلالت و گمراہی کے زمرے میں چلا جاتا ہے۔ عرفی جیسے عظیم شاعر نے اس راستے کو بہت مشکل کہا ہے۔ بقول عرفی    ؎

اقبال کرم می گزد ارباب ہمم را

ہمت نخورد نیشتر لا و نعم را

عرفی مشتاب ایں رہ نعت ست نہ صحرا

آہستہ کہ رہ بردم تیغ ست قدم را

          فن نعت گوئی کے مرد مجاہد مولانا احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ کے نزدیک بھی نعت گوئی ایک انتہائی مشکل اور دقت طلب فن ہے اگرچہ سرزمین ہند میں فن نعت گوئی میں مولانا نے گلہائے رنگا رنگ پیش کیے ہیں۔ رسالت مآبﷺ کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت کو کفر میں داخل کر دیتی ہے اور ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل دیتی ہے اور ذرا سا شاعرانہ غلو سے ضلالت کے زمرے میں آجاتا ہے۔ جہاں تک نعت کے آداب کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ نعت گوئی جس قدر والہانہ مؤدبانہ عقیدت و شیفتگی کا تقاضا کرتی ہے اسی قدر ادب و احترام کی بھی متقاضی ہے۔ ’با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘ ایک کا میاب نعت گو شعرا کے لیے جہاں سوز و گداز، تڑپ، دیوانگی، عشق اور سرشاری کی ضرورت ہے وہاں حد درجہ محتاط، حفظ مراتب اور شریعت کی پاسداری کی بھی ضرورت ہے۔

ادب گا ہیست زیر آسمان از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا

          میرے نزدیک نعت گوئی کا سب سے بڑا تقاضا وہ ادب و احترام ہے جو نبی کریمﷺ کی ذات ستودہ صفات کے لیے مخصوص ہے جس کی تاکید قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کی ہے۔ ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ‘‘،اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو(الحجرات : ۴۹)

          بارگاہ رسالت مآب ﷺ کا ادب و احترام ہمارے ایمان کا خاصہ ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ نعت گوئی اور اس کی پیش کش میں ادب رسول کو با تمام و کمال ملحوظ خاطر رکھا جائے کیوں کہ حضور اکرم کے ادب میں ذرا سی بے احتیاطی نعت گوکے افکار و خیالات تو کیا اس کے ایمان و عقائد اور اس کے تمام اعمال کو ضائع کر دیتی ہے۔

ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست

          دکن میں جس طرح سے اردو ادب کو فروغ حاصل ہوا ہے اس سے کسی کو اعتراض نہیں ہے دکن کے تقریباً تمام شعرا نے نعت گوئی کے میدان میں طبع آزمائی کی ہے۔ ولی دکنی سے لے کر امیر مینائی تک اردو شعرا کی ایک طویل فہرست ہے نعت گوئی میں صرف مسلم شعراء ہی نہیں بلکہ غیر مسلم شعراء نے بھی ذات اقدس میں خراجِ عقیدت پیش کیے ہیں۔ ان غیر مسلم شعرا کی بھی ایک طویل فہرست ہے جن میں چند اہم نام مہاراجہ کشن پرساد، سرور جہاں آبادی، جگن ناتھ آزاد، فراق گورکھ پوری، منشی شنکر لال ساقی، ہری چند اختر، کنور مہندر سنگھ بیدی، عرش ملسیانی، آنند موہن، اشونی کمار اشرف، روما شنکر شاداں، امرناتھ آشفتہ دہلوی، برج نرائن کیفی، بھگوت رائے راحت کا کوروی، بہادر برق، تلوک چند محروم، پیارے لال رونق ، تربھون ناتھ دہلوی، رویندر جین، چندر بھان خیال، چندر پرکاش جوہر بجنوری، درگا سہائے سرور، دیا شنکر نسیم لکھنوی، شیو پرساد وہبی لکھنوی، گلزار دہلوی، لکشمی نرائن سخا، مکھن لال مکھن کے ہیں۔

          منشی شنکر لال کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے آپ غالب مومن کے ہم عصر تھے۔ فارسی اور اردو دونوں میں آپ کو قوت مدرکہ حاصل تھا۔ آپ نے رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس میں کئی مشہور نعت خراج عقیدت کے طور پر پیش کیے ہیں۔ چند شعر ملاحظہ ہوں   ؎ـ

تھی شب معراج میں سارے فلک پر چاندنی

نور محبوب خدا سے تھی منور چاندنی

کھل گئی جاتے ہوئے جب کا کل عنبر فشاں

ہو گئی فیضان نکہت سے معطر چاندنی

جیتے جی روضہ اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا

روح جنت میں بھی ہوگی تو ترستی ہوگی

نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے

کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہوگی

          در گا سہائے سرور جہاں آبادی کی بھی شخصیت اردو ادب میں بہت اہم ہے۔ انہوں نے نئی نظم کو موضوعاتی اور اسلوبیاتی لحاظ سے ثروت مند بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، ان کی ولادت دسمبر ۱۸۷۳ء؁ میں جہاں آباد ضلع پیلی بھیت میں ہوئی۔ آپ  فارسی اور اردو دونوں میں باقاعدہ شاعری کرتے تھے، آپ کی نظمیں اور غزلیں ادیب اور مخزن میں متواتر شائع ہوتی تھیں۔ آپ نعت گوئی کی دنیا میں بھی ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’پرچہ درشان محمد مصطفی‘‘ جو ۱۹۰۵ میں منظر عام پر آئی ہے اس کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

دل بے تاب کو سینے سے لگانے آجا

کہ سنبھلتا نہیں کم بخت سنبھالے آجا

خواب میں زلف کو مکھڑے سے لگانے آجا

بے نقاب آج تو اے گیسوؤں والے آجا

          فراق گورکھ پوری اردو ادب کے ایک نامور ادیب، مصنف، ناقد اور شاعر تھے۔ آپ کا شمار بیسویں صدی کے اردو زبان کے صف اول کے شعرا میں ہوتا تھا۔ آپ کا اصلی نام رگھو پتی سہائے ہے۔ آپ نے رسول کریم ﷺ سے اپنی والہانہ و عاشقانہ عقیدت مندی کا اظہار کیا ہے نعت کے بڑے شاہکار اشعار خلق کیے ہیں دیکھئے   ؎

انوار بے شمار معدود نہیں

رحمت کے شاہراہ مسدود نہیں

معلوم ہے کچھ تم کو محمد کا مقام

وہ امت اسلام میں محدود نہیں

          تلوک چند محروم اعلیٰ پائے کے شاعر، معروف صحافی تھے انسان دوست، ملنسار وسیع القلب انسان تھے۔ صلح کل ان کا مشرب تھا انہوں نے تمام مذاہب کے علما، صوفیا اور پیشواوںک ے لیے خراج عقیدت پیش کی ہے بلا تفرق مذہب و ملت وہ تاریخ ساز ہستیوں سے عقیدت رکھتے تھے۔ ان کی نظمیں سیتا جی کی فریاد، مہاتما بدھ،خواب جہانگیر، نور جہاں کا مزار اس کی گواہ ہیں۔ آپ نے حضور اکرم سے والہانہ وابستگی کا اظہار نعت گوئی کی شکل میں کیا ہے شعر دیکھیں۔

مبارک پیشوا جس کی ہے شفقت دوست دشمن پر

مبارک پیش رو جس کا ہے سینہ صاف کینے سے

انہی اوصاف کی خوشبو ابھی اطراف عالم میں

شمیم جانفزا لائی ہے مکے اور مدینے سے

          مہاراجہ کشن پرساد کا بھی اردو نعت گوئی میں ایک بلند مقام ہے۔ آپ نے نعت رسول کے اشعار کثرت سے کہے ہیں آپ کو عربی فارسی انگریزی اور اردو زبان میں مہارت حاصل تھی۔ مذہب و تصوف ہندوستانی اقدار و روایات سے خصوصی لگا ؤ تھا۔ آپ کی زبان بہت صاف شستہ اور شگفتہ ہے۔ آپ کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ آپ کا نعتیہ کلام ’’ہدیہ شاد‘‘ کے نام سے منصہ شہور پر آچکا ہے۔

          آپ کو رسول اکرم سے بہت عقیدت تھی انہوں نے اپنی نعتیہ شاعری میں اوصاف حضور ﷺ کو دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

کان عرب سے لعل نکل کر سرتاج بنا سرداروں کا

نام محمد اپنا رکھا سلطان بنا سرکاروں کا

روپ ہے تیرا رتی رتی نور ہے تیرا پتی پتی

مہر و مہ کو تجھ سے رونق بنا سیاروں کا

          مادھو رام آرزو سہارنپوری نے بھی رسالت مآب سے اپنی عقیدت مندی کا اظہار کیا ہے اور اس ذات مقدسہ کے لیے نعتیہ اشعار کے لعل و گوہر کی پیش کیے ہیں اور ہدیۂ عقیدت ان کی رسول سے محبت کی ضمانت ہے۔

ازل ہی سے محمد کی ثنا خواں ہے زباں میری

بیاض صبح ہستی پر لکھی ہے داستاں میری

مرے محبوب کی مدح و ثنا مقصود ہے مجھ کو

دھلا دے آپ کو تر سے کوئی یارب زباں میری

          جگن ناتھ آزاد کو شعر و شاعری کا شغف ورثے میں ملا تھا ان کے والد تلوک چند محروم بڑے شاعر اور صحافی تھے۔ آزاد کا علمی گھرانہ تھا وہ ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے اور یہ پنجاب میں ’’رفاقت تحریک‘‘ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کافی کوشاں تھے۔ ماہنامہ آجکل کے ایڈیٹر رہے۔ اقبال اور جوش سے بہت متأثر تھے۔ بیکراں ان کا پہلا مجموعۂ کلام ہے۔ ’’وطن میں اجنبی‘‘ اور ’’کہکشاں‘‘ اس کے بعد شائع ہوئے۔ جگن ناتھ آزاد ادبی حلقوں کی ایک معروف شخصیت ہے۔ اپ نے نعت میں کئی عمدہ اور مستند اشعار کہے ہیں    ؎

مجھے لکھنا ہے اک انسانیت کا باب تابندہ

منور جس کے ہوں الفاظ مصرعے جس کے رخشندہ

مجھے اک محسن انسانیت کا ذکر کرنا ہے

مجھے رنگ عقیدت فکر کے خاکے میں بھرنا ہے

سلام اس ذات اقدس پر سلام اس فخر دوراں پر

ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر

سلام اس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا

رہا جو بے کسوں کا آسرا مشفق غریبوں کا

          آنند پنڈت جگن ناتھپرشاد نے حضور ﷺسے عقیدت مندی کے لیے کچھ گلہائے عقیدت کے اشعار پیش کیے ہیں ، دیکھئے    ؎

مدح حسن مصطفی ہے ایک بحر بے کراں

اس کے ساحل تک کوئی شیریں بیاں پہنچا نہیں

نیک و بد کی ہے خبر تو واقف کونین ہے

ہے پہنچ تیری جہاں وہم و گماں پہنچا نہیں

          پنڈت ہرچ چند اختر اردو کے ایک نامور شاعر ہیں، حفیظ جالندھری کے شاگرد رشید ہیں۔ ہری چند کا شمار طنز و مزاح کے ممتاز شاعروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے سنجیدہ شاعری بھی کی ہے۔ آپ آزاد طبیعت کے مالک تھے اپنی زندگی میں اپنا شعری مجموعہ بھی نہیں شائع کر ایا۔ وفات کے بعد ان کے دوست عرش ملسیانی نے ان کے منتشر کلام کو جمع کر کے ’’کفر و ایمان‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ آپ نے شان رسالت مآب ﷺ پر کئی خوبصورت اشعار کہے ہیں ملاحظہ ہوں   ؎

کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کردیا

کس نے ذروں کو اُٹھایا اور صحرا کردیا

کس کی حکمت نے یتیموں کوکیا در یتیم

اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کردیا

          رادھا کشن آزاد سونی پتی، بھگوان داس برق، کرپال سنگھ بیدار، راجہ پرشو رام پرساد، تارا چند لاہور، گنگہا سہائے تمیز لکھنوی، چندر پرکاش جوہر بجنوری، دھرمیندر ناتھ، دھنپت رائے راز لائل پوری، کالی داس گپتا رضا اوم پرکاش ساحر ہوشیار پوری وغیرہ نے مختلف رنگ و ہیئت میں شان رسول میں نعت پاک کے نذرانے پیش کیے ہیں۔

فروغ دین و ایمان عظمت شان رسالت ہے

اسی کی ذات سے روشن جہاں میں شمع و حدت ہے

اسی کی دم سے دنیا میں عروج آدمیت ہے

محمد مصطفی سے مجھ کو بھی دل سے عقیدت ہے

(رادھا کشن آزاد)

تری خاک پائے مقدس کو پہنچے نہ دارا نہ خسرو نہ جم یا محمد

ترا حسن سیرت جو تحریر کردے کہاں سے وہ لاؤں قلم یا محمد

(بھگوان داس برق)

اے کہ تجھ سے صبح عالم کو درخشانی ملی

ساغر خورشید کو صہبائے نورانی ملی

حاکم و محکوم کو تونے برابر کردیا

ذرہ نا چیز کو ہم دوش اختر کردیا

(کرپال سنگھ بیدار)

جس دن سے نگاہوں میں تصویر محمد ہے

پنہاں دل مضطر میں تنویر محمد ہے

ہم نے تو یہ سمجھا ہے ہم نے تو یہ جانا ہے

قرآن حقیت میں تفسیر محمد ہے

(راجہ پرشو رام)

          غیر مسلم نعت گو شعرا کی ایک طویل فہرست ہے جن کا بالاستیعاب جائزہ لینا یہاں ممکن نہیں ہے مختصراً کچھ شعرا کے کلام کو پیش کردیا گیا ہے تاکہ ان شعراء سے لوگوں کی واقفیت ہو جائے۔ ہندوستان میں جہاں کی مشترکہ تہذیب اپنی ثقافتی لسانیاتی ادبی اور تہذیبی رویے کی وجہ سے بہت ہی مستحکم ہے وہاں ان شعرا نے نعت گوئی کے حوالے سے ہندو مسلم کے درمیان اخوت و محبت ، یکسانیت و یگانکت کی فضاء قائم کی ہے۔ یہاں پر تمام شعرا کے کلام کی مثال دینا ان پر تفصیلی گفتگو ممکن نہیں ہے ان غیر مسلم نعت گو شعرا ء نے اپنی فہم و فراست، ذہانت و لیاقت کے اعتبار سے نعت پاک کو رسول اکرم کی شان میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

Leave a Reply