You are currently viewing ڈاکٹر حمید اللہ خان:کھولوں کوئی کتاب تیری داستاں ملے( خاکہ)

ڈاکٹر حمید اللہ خان:کھولوں کوئی کتاب تیری داستاں ملے( خاکہ)

ڈاکٹر سہیم الدین خلیل الدین صدیقی

اسسٹنٹ پروفیسر،سوامی را مانند تیرتھ مہاودیالیہ امبہ جوگائی،ضلع بیڑ، مہاراشٹر

ڈاکٹر حمید اللہ خان:کھولوں کوئی کتاب تیری داستاں ملے(خاکہ)

صبح صادق کا ذکر ہے ۔شہر مومن آباد(امبا جوگائی) کی مسجد’’مسجد نوارنی ‘‘میں،میں نے فریضہ فجر ادا کیا ،صلاۃ و سلام اور تلاوت قرآن کے بعدشہر کے کشدہ گلیوں میں کُچھ دیر ٹہلنے نکلا۔ لوٹ کے جب در خانہ پہنچا کہ یک بہ یک برقی موصلات کے ذریعہ قریب ساڑے نو بجے مرحوم پروفیسر و ڈاکٹر حمید اللہ خان صاحب کے شاگرد عزیز ڈاکٹر محمد اقبال جاوید سے یہ خبر غم موصول ہوئی، جس میں لکھا تھا:

’’خبر غم: یہ اطلاع دیتے ہوئے بہت افسوس وہ غم ہو رہا ہے کہ اردو ادب کی سرزمین مہاراشٹر کی مشہور و معروف شخصیت پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ خان اس دنیا میں نہیں رہے وہ دار فانی کوچ کر گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون آج علی صبح پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ خان کے اس دار فانی سے کوچ کر جانے کی اطلاع موصول ہوئی۔ ان کے اس جانے سے اردو ادب کی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے اللہ تعالی ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ محترم کی نماز جنازہ آج ۳۱دسمبر ۲۰۲۴بعد نماز ظہر مسجد قادر آباد پلاٹ پربھنی میں اور تدفین متصل قبرستان میں عمل میں آئے گی۔‘‘

          یہ خبر پڑھتے ہی مجھ پر کچھ دیر کے لیے سکتے کا عالم طاری ہوگیا۔ کب؟ کہاں؟ اور کیسے؟ کے سوالات سے اُلجھ کر باہر نکلا تو بیک وقت ماضی کے گردش ایام میں کھوگیا۔اب مجھے یکے بعد دیگرے ڈاکٹر حمید اللہ خان صاحب کے ساتھ ہوئی ساری ملاقاتیں یاد آنے لگی۔

          اُن ملاقاتوں میں پہلی ملاقات 18 مئی 2022 ء بروز بدھ سب سے زیادہ یاد آئی چونکہ اس روز میرا پی ایچ ڈی کا آن لائن وائیوا اوسی تھا جس میں اُستاد محترم پروفیسر و ڈاکٹر حمیداللہ خان صاحب سابق صدر شعبہ اردو ڈی ایس ایم کالج پربھنی ، مہاراشٹر سے جوائن ہوئے تھے اُس مُلاقات کو میں بہ محاورہ یوں کہو تو کوئی بے جاں نہ ہوگا کہ ’’ایں دکتر حمید ما شما را ندیدہ ایم و نشنیدہ ایم‘‘ یعنی یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی، اس سے قبل میں اُن سے کبھی نہیں ملا تھا اور نہ انہیں کبھی دیکھا تھا نہ، سنا تھا، اور نہ ہی وہ میری خصوصی توجہ کاکبھی مرکز بنے تھے۔ لیکن پی ایچ ڈی وائیوا کا دن میرے لیے کسی تاریخی واقعہ سے کم نہیںتھا۔ البتہ میری اور عالی جناب ڈاکٹر حمید اللہ خان کی ملاقات بذریعہ میرے نگراں و اُستاد ڈاکٹر عتیق احمد صاحب کہ تواصل سے ہوئی تھی۔ میں اُس دن ایک ایسا متواصل تھا، جو ایک جانب اپنی سندی تحقیق کا امتحان دے رہاتھا تو دوسری جانب بڑے بڑے علمائے اُردو ادب، محققین و ناقدین سے براہ راست مل بھی رہا تھا۔ جب میں اپنے تحقیقی مقالے کی تلخیص پیش کر چُکا تو صاحب موصوف یعنی انجہانی پروفیسروڈاکٹر صاحب نے ادب اور اقدار کے باہمی تعلق و زوال سے متعلق کوئی سوال کیا تو میری نگاہ اُن پہ جاٹھہری۔ بعداز ان سے چھوٹی بڑی متعداد ملاقاتوںکا سلسلہ شروع ہوگیا اور جب ملاقات نہ بھی ہوتی تو ان کا ذکراکثرہوتا۔ یہ معاملہ اس وقت عروج پر تھا جب میں شیواجی کالج ہنگولی کے شعبہ اردو میں بطورعارضی اسسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دے رہا تھا چونکہ وہاں کے شعبۂ اردو کے صدر شعبۂ پروفیسرڈاکٹر اقبال جاوید، پروفیسر حمیداللہ خان کے شاگرد وعزیزوں میں سے تھے۔ جن کے بابت ان کے لبوں پر مرحوم پروفیسر صاحب کا ذکر اکثر آجاتا۔کیونکہ میرا تکیہ کلام’’مسئلہ‘‘ اس وقت عروج پر تھا جو کہ پروفیسرحمیداللہ خان کے محو گفتگوآنے والا’’مسئلہ‘‘ میرے ’’مسئلہ‘‘ پرغالب آتا تھا۔ایسا ڈاکٹر اقبال جاوید مجھ سے ہمہ اوقات کہا کرتے تھے ۔پھر مرحوم پروفیسر حمید اللہ خان صاحب کا ذکرشروع ہوجا تا اور مجھ پران کے نئے نئے گوشے عیاں ہونے لگتے اور میں ان کی باتوں سے محظوظ ہوتا اور جب میں کالج سے اپنی آرام گاہ پر پہونچتا میرے ذہن میں ڈاکٹراقبال جاوید کی باتیںرقص کرنے لگتی۔اور پروفیسرصاحب کی یادیں،اختر شیرانی کہ شعرکے ذریعہ باہرآنی شروع ہوجاتی اور میں یہ شعر گنگنانے لگتا:

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا

تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

          لہٰذا اب میرے ذہن کے کینوس پرخراماں۔خراماں صاحب مرحوم کی دھندلی تصویر بننے لگی ۔ اب ان سے ملنے کی جستجو مزید پروان چڑھی۔ میں اس جستجو کو خاطر خواں لانے کی کوشش کرنے لگا۔ پھرمُجھے ناندیڑکی بین الا اقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے اوراپنا ریسرچ پیپر’’اردو ناولٹ میں بدلتی قدریں:آزادی کے بعد‘‘پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔میں پروفیسر صاحب سے ملنے کی خواہش میں ناندیڑ چلاگیا۔ لیکن کوئی اُمیدبر نہ لائی وہ کسی نجی معاملات کے باعث اُس کانفرنس میں آنے سے قاصررہے۔ البتہ مجھے مزید انتظار کرنا پڑا اورکم و بیش چھ ،سات ماہ کے بعد میں بتاریخ 06 /نومبر 2023 ء کو پروفیسر حمید اللہ خان صاحب سے ملا۔ وہ اپنی دُختر کے ساتھ یشودھا گرلس کالج ناگپور مہاراشٹرمیں آئے ہوئے تھے۔ جہاں میں (ڈاکٹر سہیم الدین) اورڈاکٹرشیخ اصغر ایک انٹرویو کے سلسلے میں وہاں گئے ہوئے تھے جہاں اُن سے ہماری ملاقات ہوئی، جو ہماری  اُن سے طویل ملاقات تھی۔ بعد از اُن سے چار پانچ ملاقاتیں ہوئیں لیکن اتنی طویل نہ تھی۔اس ملاقات میں مُجھے انھیں بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم ہوا۔ جس میں، میں اُن کے ظاہر و باطن دونوں سے اچھی طرح واقف ہوا۔

          گندمی رنگ، لمبی ستواں ناک، کالی آنکھیں جس پر سنہرے رنگ کی عینک لگی ہوئی تھی، عینک کے اوپرنیم دائرہ آبرویں،ان آبروں سے جوڑی ضرورت سے زیادہ کشدہ جبیں،اس جبیں سے لگا ہواکچھ کالے اور کچھ سفید نیم مکمل بالوں سے لبالب سر، نیزکتابی چہرہ پہ خوبصورت دہدان، دہدان میں سفیدو شفاف ہموار دندان، ان سفید دندانوں سے باہر، گلابی ہونٹ،متوسط ٹھوڈی، اور ٹھوڈی سے نیچے سراحی دار گردن، مضبوط ہاتھ، ہاتھ میں سلور رنگ کی گھڑی جو کچھ دیر کے لیے ناظرین کے سامنے آتی پھر کبھی براون اور کبھی کالے سوٹ کے آستین میں چھپ جاتی۔ سوٹ اورٹائی میں وہ اکثررہتے جو ان کا پسندیدہ لباس تھا۔ اُن کا قد بہت زیادہ لمبا اور نہ ہی بہت کم تھا بلکہ میانہ درجہ کا تھا۔ جو انھیں سر تا پا ادب کے روشن و بالا مینار کا درجہ دیتا تھا۔ پیروں میں ہمیشہ کالے رنگ کا پالش کیا ہوا شوز چمکتا۔ وہ جب بھی محو گفتگو ہوتے انتہائی خوبصورت سلیقے سے بات کرتے نیز مخاتبین و ناظرین سے محبت و ہمدردی سے پیش آتے بعض مرتبہ عربی و فارسی کے اصطلاحات کی مدد سے اپنی گفتگو کو دلچسپ بناتے۔ جو اُن کی اپنی انفرادیت کو عیاں کرتا ۔مجھے اچھی سے طرح یاد آرہی ہے کہ ان سے آخری ملاقات گذشتہ سال ۲۰۲۴ء؁ میں مراٹھواڑہ کی جنت خلد آباد ( اورنگ آباد) کے چشتیہ آرٹس، سائنس اور کامرس کالج کے نیشنل کانفرنس میں ہوئی تھی، جس میںوہ بطور مہمان خصوصی تشریف لائیںتھے۔جس میں انھوں نے دکن کے کلاسیکی ادب سے متعلق پرمغز مقالہ پڑھا تھا۔اوراپنے مقالے کے ذریعہ اردو زبان وادب کے نئے لکھنے والے نو مشق ادباء ، شعراء واساتذہ کومتحریک کیاتھا۔ شاید اِسی موقع کے لیے غیر مسلم شاعر سیا سچدیو نے کس گہرائی سے کہا تھا کہ:

تیرا ہی ذکر ہرسو ترا ہی بیاں ملے           کھولوں کوئی کتاب تیری داستاں ملے

          پروفیسر حمیداللہ خاں اپنے عہد کی ایک ایسی کتاب داستان تھے، جن کے متعلق جتنا کہاجائے اتنا کم ہے ۔انکے یوں اچانک دار فانی کوچ کر جانے سے ادب اردو کے بیش بہا سرمایہ میں نقصان کی لہرپھوٹ پڑی۔جس کو بھرنے کے لئے ناجانے کتنے سال و کتنی صدیاں درکار ہوگی۔شاید علامہ اقبال نے اسی موقع کے لئے کہا تھا کہ :

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے       بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

٭٭٭

Dr. Sahimoddin Khaliloddin Siddiqui (Aurangabad Deccan)

Asst. Prof. Dept. of Urdu

Swami Ramanand Teerth  Mahavidyalaya, Ambajogai, Dist. Beed.

Maharashtra: 431517

Mob: 8087933863

Leave a Reply