ڈاکٹر شاہ فیصل
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری: شخصیت اور ادبی جہات
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری اردو میں فکشن اور تنقید کا ایک معتبر حوالہ بن چکے ہیں’خصوصاََ جموں وکشمیر کے عصری منظرنامے کے تعلق سے ریاض توحیدی ایک فعال ادبی شخصیت کے بطور جانے جاتے ہیں۔آپ تقریباََ دو دہائیوں سے فکشن’تنقید اور اقبالیات کے میدان میں اپنے منفرد فکشن اسلوب اور تخلیقی وتنقیدی صلاحیتوں کے جدت طرازتجربوں سے شائقین ادب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتے آئے ہیں’ جس کی وجہ سے آپ نے ملک و بیرون ملک کے ادبی حلقوں میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا ہے۔انہوں نے ادب کی مختلف جہتوں میں اپنے قلم کا زور آزمایا۔افسانوی ادب ہو یا افسانوی تنقید،اقبال شناسی ہویا تبصرہ نگاری ہر میدان میں انہوں نے منفرد ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ان کا قلم ہر رنگ میں رنگا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ان کے قلم میں تخلیقی رنگ جگہ جگہ نظرآتا ہے۔ ان کی تحریروں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ادبی دنیا’ انسانی نفسیات، سماجی حقیقتوں، ثقافتی رنگوں اورادبی’ اخلاقی وفکری رویوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کیاہے’جو کہ ان کے افسانوں’ تنقیدی تحریروں اور سماجی واصلاحی نوعیت کے کالموں سے واضح ہوجاتاہے۔ ریاض توحیدی کے شخصی’علمی وادبی موضوع پر مزید گفتگو کرنے سے پہلے آئیے دیکھیں کہ زندگی کے وہ کون سے مراحل ہیں جو ریاض توحیدی کی علمی’ادبی اور تنقیدی بصیرت کو جلا بخشنے میں نمایاں رول ادا کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی کا پورا نام ریاض احمد بٹ ہے۔ آپ یکم دسمبر 1973 ء میں ضلع کپواڑہ کے علاقہ راجوار’خرمن وڑی پورہ’ تحصیل ہندوارہ میں پیدا ہوئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول وڑی پورہ میں حاصل کی۔اس کے بعد گورنمنٹ ہائرا سکنڈری ا سکول ہندوارہ سے بارہویں کا امتحان پاس کیا۔بی۔ اے گورنمنٹ ڈگری کالج ہندوارہ سے کرنے کے بعداعلیٰ تعلیم کے لیے کشمیر یونیورسٹی کا رُخ کیا۔جہاں 2001 میں ایم۔ اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد تحقیق کے ادبی سفر پر نکلے اور اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی سے اقبالیات میں 2004 میں ایم۔فل اور 2007 میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی نے 2007ء میں ایک مضمون بعنوان”ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبالؔ شناس” لکھ کر اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ اُن کا یہ مضمون اردو اکادمی دہلی کے ماہنامہ مجلہ’ایوانِ اردو’ کے جون ۷۰۰۲ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا جو کہ اس زمانے میں کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اگرچہ اس سے پہلے ان کے افسانے اور مضامین مقامی اخبارات میں آتے رہتے تھے۔تب سے اُن کا قلم مسلسل چلتا رہاہے اور آج تک دوسو سے زائد مضامین اور قریباََپچاس افسانے منظر عام پر آچکے ہیں’ جن میں بیشتر ہندوپاک اور دوسرے چند ممالک کے معیاری رسائل و جرائد کی زینت بن چکے ہیں۔
جہاں تک کتابوں کا تعلق ہے تواب تک ریاض توحیدی کی مندرجہ ذیل کتابیں منظر عام پر آکر داد وتحسین حاصل کرچکی ہیں:
تصانیف :
1۔ جہان اقبالؔ(تحقیق،تنقید) 2010’میزان پبلیشرس سرینگر کشمیر
2۔کالے پیڑوں کا جنگل(افسانے)۔2011 میزان پبلیشرس کشمیر
3۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبالؔ شناس (تحقیق وتنقید) 2013 میزان پبلیشرس کشمیر
4۔کالے دیوؤں کا سایہ(افسانے)۔2014 میزان پبلیشرس کشمیر
5۔معاصر اردو افسانہ (تفہیم وتجزیہ)جلد اول 2018 ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی
6۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبالؔ شناس (دوسرا ایڈیشن)عکس پبلیکشنز لاہور
7۔کالے پیڑوں کا جنگل’کالے دیوؤں کا سایہ (دوسرا ایڈیشن) میزان پبلیشرز سرینگر
8۔معاصر اردو افسانہ تفہیم وتجزیہ۔جلد اول(دوسرا ایڈیشن)کتابی دنیا پاکستان
9۔معاصر اردو افسانہ جلد دوم عرشیہ پبلی کیشنز دہلی. 2023
10۔ زندگی کا بازار(افسانے)۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی2024
11۔جہان افسانہ…فنی و تخلیقی تجزیہ(تخلیقی تنقید کے آئینے میں) عرشیہ پبلی کیشنز دہلی 2025
اس کے علاوہ ریاض توحیدی کے کئی مضامین اور افسانے رسالوں اور جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں’ جو ابھی کتابی صورت میں آنے باقی ہیں۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی کو اب تک علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں مندرجہ ذیل انعامات سے نوازا گیاہے۔
1۔ایوارڈ۔۔ بیسٹ اسکالر ایوارڈ(اقبالیات)کشمیر یونیورسٹی 2009.
2۔بلے شاہ گولڈمیڈل (پاکستان) 2024
3۔آندھرا پردیش اردو اکاڈمی ایوارڈ 2020
4۔نگینہ انٹرنیشنل ایوارڈ 2021
5۔حامدی کاشمیری ایوارڈ برائے فکشن اور تنقید2023
2008 میں ریاض توحیدی نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اورمحکمہ ایجوکیشن میں بحیثیت لیکچرر مقرر ہوئے۔ اس وقت وہ محکمہ اسکول ایجوکیشن میں سینئر لیکچرر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ اپنے طالب علموں کے ساتھ حوصلہ افزا رویہ رکھتے ہیں۔ آپ کا ماننا ہے کہ استاد کا کردار صرف تدریسی کارگزاری تک محدود نہیں ہے بلکہ طلباء کی فکری وذہنی نشوونما اور ترقی کے لئے بھی اہم ہے۔ وہ کلاس روم میں دوران تدریس نصابی سر گرمیوں کے علاوہ طلباء کی ذہنی استعداد اور خود اعتمادی کو تقویت پہنچانے کی ہروقت کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ:
“ڈاکٹر توحیدی سر کا تدریسی انداز بے حد حوصلہ افزا اور دل چسپ ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیں اپنے خیالات اور سوالات کو کھل کر پیش کرنے کا موقع دیتے ہیں۔جس سے ہم اپنی سوچ کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا رویہ ہمیں نئے نظریات اور تصورات پر سوچنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔جس سے ہمارے اندر خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ کلاس کا ہر لمحہ کچھ نیا سیکھنے کا تجربہ ہوتا ہے، اور ان کی رہنمائی نے ہماری فکری افق کو وسیع کیااور سیکھنے کا نیا جذبہ پیدا کیا۔ وہ ہفتے میں ایک دن ادبی محفل کااہتمام کرتے ہیں اور طالب علم اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔”
ریاض توحیدی کے دوست و احباب کی فہرست کافی بہت طویل ہے۔جو ملک کے ساتھ ساتھ دُنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔جس کا اندازہ ان کی فیس بک وال پر ہوتا ہے۔کہ جب بھی ان کی کوئی تحریر یا پوسٹ شیئر ہوجاتی ہے تو عمدہ کمنٹس آتے ہیں۔ریاض توحیدی ایک شریف فطرت انسان ہیں۔وہ ہمیشہ صبر و تحمل سے ہر بات کا جواب دیتے ہیں اور جذباتیت سے خود کو دُور رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ مخالفین کے ساتھ بھی وہ بڑی شائستگی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ توحیدی اپنے چاہنے والوں کو اپنے انداز فکر اور نقطہئ نظرسے اظہار کی آزادی دیتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر خوش اسلوبی اورمسکراتے ہوئے دلچسپ مباحثہ بھی چھیڑ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر توحیدی کی علمی وادبی شخصیت کااحاط کرتے ہوئے ڈاکٹر شمس کمال انجم (پروفیسر شعبہ عربی غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری) لکھتے ہیں۔
“میرے دوست ڈاکٹر ریاض توحیدی خالص علمی وادبی مزاج کے انسان ہیں۔ ملاقات ہو یا فون پر بات ہو بس گفتگو کا رُخ علمی وادبی موضوعات کی طرف خود بخود مڑ جاتا ہے اور ہماری برادری میں ایسے انسان کم ملیں گے۔۔۔ ایک نستعلیق شخصیت، ایک خوش مزاج انسان، ایک خوش فکر ادیب، ایک مشہور افسانہ نگار، ایک ماہر نقاد، ایک عالم، وہ انسان جن سے مل کر طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کے علمی وادبی جلال وجمال کو مزید رونق بخشے۔”
ریاض توحیدی کو ابتدا سے ہی مطالعہ کرنے کا شوق تھاجو کہ انہیں اپنے والد محترم غلام احمد بٹ کی طرف سے نصیب ہوا اور یہ اُن کی فکری اور تخلیقی نشوونما کا بنیادی سبب بنا۔ اسی مطالعے کے سبب وہ مختلف نظریات اور افکار کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک بار میں نے مطالعہ کرنے کے بارے میں پوچھا تو میں سن کر حیران ہوا کہ وہ مہینے میں اردو اور انگریزی کے دس پندرہ افسانے پڑھتے ہیں۔ تنقیدی کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں خصوصاََ جدید موضوعات پر۔اُن کامطالعہ صرف ادب تک محدود نہیں بلکہ مذہب’ فلسفہ، تاریخ اور سماجی علوم کا بھی گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔ان کا کتب خانہ ان موضوعات کی کتابوں سے بھرا پڑا ہے۔چار پانچ تفاسیر سے متعلق بتایا کہ یہ کالج کے دنوں میں لائے تھے اور پڑھے بھی ہیں۔ ریاض توحیدی کے ایک دیرینہ ددست اور ہم جماعت ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کا کہناہے کہ:
ُُ”ڈاکٹر ریاض توحیدی اردو کے معروف فکشن نگار اور ناقد ہیں۔ بچپن سے ہی دینیات اور ادبیات کا مطالعہ کرتے آئے ہیں۔پڑھنے کے زمانے میں ان کی راتیں مطالعہ میں گزرجاتی تھیں اور پھر تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد متعلمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ادب کا رسیا بنانے میں ہمیشہ مصروف نظرآتے ہیں۔ان کے لیے علم محض معلومات کا ذریعہ نہیں بلکہ مختلف نظریات اور افکار سے آشنا ہونے کا وسیلہ بھی ہے۔ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ اور فلسفے کابھی کا مطالعہ کرتے ہیں۔یہی مطالعہ ان کی تخلیقیت کو نکھارنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوا ہے۔ اور میں اس بات کا شاہد ہوں کہ توحیدی رات دیر تک لکھنے پڑھنے میں مشغول ہوتے ہیں۔”
ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کے اس دعوے کی تصدیق اُن کے ایک کالج کے ہم جماعتی’محمد مقبول’سے راقم الحروف کی دوران گفتگو بھی ہوئی:
“ریاض صاحب ایک پتلا سا لڑکا تھا۔ہمیشہ کتابوں میں غرق رہتا تھا۔چونکہ ہم کالج پڑھنے کم اورگھومنے زیادہ آتے تھے۔لہذا ایسے طلباء کو ہم خاطر میں نہیں لاتے تھے۔کالج سے فراغت کے بعد میں جب بھی اخبار کا مطالعہ کرتا تھا’ تو ریاض توحیدی کے مضامین اکثر پڑھنے کو ملتے’ ایک روز فاروق نامی ایک ہم جماعتی سے پتہ چلا یہ ریاض توحیدی وہی ‘ریاض’ہے جو ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔واقعی ریاض کالج پڑھنے آتا تھا اور اس کی پڑھائی رنگ لائی ہے۔”
ڈاکٹر ریاض توحیدی نے سوشل میڈیا کے بہترین استعمال سے اپنے فن کو نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پھیلایا اور پذیرائی پائی’ یہی پلیٹ فارم ان کی تحریریں دنیا بھر کے قارئین اور ادیبوں تک پہنچانے میں اہم وسیلہ ثابت ہوا۔ جس سے ان کی ادبی حیثیت مزید مستحکم ہوئی۔اس پلیٹ فارم نے ان کے لیے ایک ایسا عالمگیر دروازہ کھولا جس کے ذریعے ریاض توحیدی نہ صرف مقامی سطح کی بلکہ عالمی سطح کی ادبی تنظیموں سے جڑے رہے۔اور وہ عالمی سطح پر مختلف ادیبوں اور ناقدوں کے ساتھ خیالات کاتبادلہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جس سے انہیں عالمی سطح پر ایک پہچان ملی اور اپنے تخلیقات کو نئے افق تک پہنچانے میں مدد ملی۔ ڈاکٹر فیض قاضی آبادی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
“ڈاکٹر ریاض توحیدی سوشل میڈیا پر کافی زیادہ ایکٹو ہیں اور اس کا بھرپور فائدہ وہ نئے لکھنے والوں کو دیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ نوجوان ادیبوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ان کی تحریروں پر توجہ دیتے ہیں اور ان کی تصحیح کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔اُن کی یہ رہنمائی اور دوستانہ رویہ ادب کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس سے ادب کی دنیا میں ایک نئی اُمید اور تبدیلی آ رہی ہے۔”
ریاض توحیدی اپنی ہر پوسٹ کے آخر میں ‘مسکراہٹ’ کا لفظ لکھ کر ایک مثبت پیغام دیتے ہیں، جو دوسروں کے دلوں میں سکون اور خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے۔یہ مسکراہٹ ریاض توحیدی کی ایک ایسی پہچان بن چکی ہے جو ان کی ہر گفتگو کا حصہ ہے۔یہ مسکراہٹ نہ صرف ان کے چہرے کی زیبائش ہے بلکہ ان کی شخصیت کا ایک روشن پہلو بھی ہے، جو ان کے نرم مزاج اور دوستانہ رویے کی غمازی کرتا ہے۔ان کے لیے مسکراہٹ محض ایک جسمانی اظہار نہیں، بلکہ ایک زبان ہے جو محبت اور حسنِ سلوک کا پیغام دیتی ہے۔ان کی مسکراہٹ اب اتنی مشہور ہوچکی ہے کہ کئی مضامین اسی پر آئے ہیں جیسا کہ منور پاشاہ ساحل تماپوری(سعودی عرب) اپنے مضمون”ادب میں مسکراہٹ کاموجد:ڈ اکٹر ریاض توحیدی کشمیری” جو کہ شامل کتاب بھی ہے’ میں لکھتے ہیں:
“ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب کا اردو ادب کو بخشا ہوا مسکراہٹ کا یہ تحفہ ایک دن مقبول ترین پذیرائی اور اظہاررائے کا محبانہ ذریعہ بن جائے گا۔ویسے اب کئی احباب اپنے کمنٹس میں مسکراہٹ کا خوب استعمال کرتے نظر آرہے اور لکھتے وقت لکھتے بھی ہیں ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کی مستعار مسکراہٹ کے ساتھ۔ جیسے سبھی دوست اب سمجھنے لگے ہیں۔”
ڈاکٹر ریاض توحیدی اپنی پوری قوت سے افسانوی دنیا میں وارد ہوئے اور کالے پیڑوں کا جنگل’کالے دیوؤں کا سایہ’ تاج محل اور گؤ شالہ’ تیسری جنگ عظیم سے قبل جیسے مشہور افسانوں سے قارئین تو حیرت زدہ کردیا۔اُن کے افسانے مختلف موضوعات پر محیط ہوتے ہیں، جن میں سماجی ناانصافی، مذہبی منافرت، تہذیبی تصادم’ طبقاتی کشمکش اورکشمیر کے مسائل شامل ہیں’تاہم ان کے افسانوں کا موضوعاتی دائرہ عالمی سطح کے مسائل و موضوعات تک پھیلا ہوا ہے جیسے افسانہ سفید ہاتھی(سپر پاورس کی اجارہ داری)’ ہائی جیک اور سفید تابوت’ زندگی کا بازار’تاج محل اور گؤ شالہ وغیرہ۔ یہ موضوعات معاشرتی حقیقتوں کو گہرائی سے پیش کرتے ہیں اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ریاض توحیدی کے مشہور افسانے”کالے پیڑ’کاجنگل’ اور”کالے دیوؤں کا سایہ”کشمیر کی سماجی اور سیاسی حقیقتوں کو نہایت فکرانگیز اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں، مصنف نے کالے جنگل اور کالے دیوؤں کی علامتی تمثیل کے ذریعے ظلم، ناانصافی اور عوامی جدوجہد کو اُجاگر کیا ہے۔ افسانے میں درخت ایک علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جو انسانی جذبات، معاشرتی مسائل اور انصاف کی تلاش کو ظاہر کرتا ہے۔اور کالے دیو ظالم و ظابر کی علامت میں۔ ریاض توحیدی اپنے افسانوں میں الفاظ اور تمثیل کا عمدہ استعمال کرتے ہوئے انسانی احساسات کی گہرائی کو بہترین انداز میں سموتے ہیں۔ ریاض توحیدی کی افسانہ نگاری کااحاطہ کرتے ہوئے معروف ناقدپروفیسرقدوس جاوید صاحب لکھتے ہیں:
“ڈاکٹرریاض تو حیدی ؔکشمیری کے افسانوں میں بھی کشمیر کے عصری حالات و حقائق کو عمدہ فنی اور جمالیاتی دروبست کے ساتھ جینے کا عمل ملتا ہے۔تاہم ریاض توحیدیؔ کی فکشن نگاری کا یہ پہلو بھی قابل ستائش ہے کہ ایک صاحب بصیرت (Visionary) افسانہ نگاراور باشعور ناقد ہونے کی وجہ سے ان کے افسانوں میں صرف مقامی موضوعات کی کہانیاں نہیں ملتی ہیں بلکہ ان کے بیشتر افسانوں کا کینوس اتنا پھیلا ہوا ہے کہ ان میں عالمی سطح کے موضوعات و مسائل کو بڑی فنکاری اور دانشورانہ انداز سے موضوعِ گفتگو بنایاگیا ہے۔”
تخلیق کار کی شخصیت پر اس کے ماحول کا اثر ضرور پڑتا ہے۔ریاض توحیدی کا بچپن اور جوانی کشمیر کے پُرآشوب دور سے گزری ہے۔انہوں نے جب لکھنا شروع کیا تو ان حالات کا اثر ان کی تخلیقات میں بھی نمایاں نظرآتا ہے۔اس دور میں کشمیر گن اور گولی کی زد پر تھا اور ہر شام شام غریباں کا منظر پیش کرتی تھیں۔ان کے افسانے ان کربناک حالات کی دلدوز کہانیاں سامنے لاتے ہیں۔’انہوں نے ان حالات کی سچائیوں اور حقیقتوں کو اپنے افسانوں میں اس طرح پیش کیا کہ وہ افسانہ ہو نے کے باوجود ان کرب ریزحالات کی سچائی کا آئینہ بن گیا ہے’۔توحیدی نے اپنے خاص انداز اور نقطہ نظر سے اس داخلی اور خارجی اضطراب کو اپنے افسانوں میں اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری کو احساس نہیں ہوتا کہ وہ کہانی پڑھ رہا ہے بلکہ وہ خود کوان حالات کی لہر وں میں موجود پاتا ہے۔ ملاحظہ ہو ان کے افسانے”سنگ باز” کا یہ اقتباس:
“پندرہ برس کا طالب علم گلستان خان جب بھی اس شبِ سُر خاب کی طوفانی طغیانی میں اپنی غمگین سوچ کو نیند کے تلخ سمندر میں ڈبونا چاہتا تھا تو ان ہی کرب زدہ لمحوں میں ان ستیزہ ئ چشم بھگت باز درندوں کی آگ برساتی گولیوں کا وہ دہشت ناک خونین منظر زلزلہ بن کر اُس کے نازک ذہن کی نازک سوچوں اور اس کے شیشہئ دل کے حسین سپنوں کوچکناچور کر کے رکھ دیتا تھا، جس میں اس کے سامنے، دن کے اُجالے میں، اُس کے سولہا برس کے معصوم دوست بوستان شاہ کے نرم و نازک گلابی بدن کو سیاہ پوش درندوں کی زہر یلی گولیوں نے پرزہ پرزہ کر کے رکھ دیا تھا اوراُس کا معصوم دوست موت کی گولیاں کھاتے کھاتے خون آلودہ ہاتھوں سے اپنے اسکولی بیگ سے کتابیں دکھا دکھا کر ان سنگ دل جلادوں کو اپنی بے گناہی کا ناکام وشواس دلا رہا تھا……!”
ان کی افسانہ نگاری میں کشمیر کے مناظر، یہاں کی تہذیب، رسم و رواج اور لوگوں کے مسائل، موجودہ حالات اور حقائق کی عمدہ فنی عکاسی نظرآتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا جوخاص وصف ہے وہ صرف مقامی موضوعات پر ہی نہیں لکھتے بلکہ عالمی مسائل پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں “کالے پیڑوں کا جنگل””کالے دیوں کا سایہ” اور نئے مجموعے “زندگی کا بازار”میں کئی ایسے افسانے ہیں جو ملکی اورعالمی سطح کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں، جیسے”سفید ہاتھی”،”سفید تابوت”،”احتسابی جزیرہ”، “تیسری جنگ عظیم سے قبل” “ہائی جیک””کالی دھند اور سفید کبوتر””تاج محل اور گؤ شالہ””جنت کی چابی”وغیرہ۔ ان افسانوں میں مقامی مسائل کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل کو بھی فنی مہارت اور دانشورانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ توحیدی کے بیشتر افسانوں میں مابعد جدید دور کے موضوعات کی گہری چھاپ نظر آتی ہے، جس کی بنا پر ریاض توحیدی مابعدجدیددور کے ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر قدوس لکھتے ہیں:
“ان افسانوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے موضوعات’کشمیر کی خوں آشام صورتحال سے لیکرعالمی سطح کے خونچکاں واقعات پر مشتمل ہیں اور سبھی افسانوں کا مرکز توجہ ظالم وجابرہاتھوں کے کالے کارنامے ہیں۔اور مجموعوں کے ناموں میں کالے لفظوں کی معنویت یوں بھی اجاگر ہوتی ہے کہ قریباََ سبھی افسانوں میں کسی نہ کسی صورت کوئی نہ کوئی کالا کردار موجود ہے’جس سے افسانہ نگارکی فنی اور لسانی اختراع سازی کی خوبی بھی سامنے آتی ہے’جیسے ‘گلوبل جھوٹ’سفید ہاتھی’تیسری جنگ عطیم سے قبل’ناکہ بندی’جشن قبرستان’کالے دیوؤں کا سایہ’کالاچوہا وغیرہ افسانوں میں مقامی سطح سے لیکرعالمی سطح تک کی طاقتوں کا غاصبانہ کردار اور کالے کرتوت کی افسانوی منظر کشی۔”
ڈاکٹر ریاض توحیدی کی افسانہ نگاری کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ ان کے افسانے فنی اور موضوعاتی دونوں سطح پر معیاری ہوتے ہیں۔ ان کی اسلوبیاتی مہارت میں کہیں سیدھی سادگی ملتی ہے تو کہیں علامتی اسلوب کی دلکشی، جو قاری کو ایک خاص فنی لطف دیتی ہے۔ ڈاکٹر توحیدی کا انداز یہ ہے کہ وہ روایتی یا تجریدی علامتوں کا سہارا لینے کی بجائے خود نئی علامتیں تخلیق کرتے ہیں اور ان علامتوں کو افسانے کے پلاٹ میں فنی طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کی علامتوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ گہری معنویت رکھتی ہیں اور جب افسانہ ختم ہوجاتا ہے تو قاری ان علامتوں کو اچھی طرح سمجھ پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بعض علامتی افسانے بہت مشہور ہو گئے۔ ان کے بیشتر افسانے علامتی اسلوب کے حامل ہیں لیکن وہ علامت کو اس طرح افسانے میں برتتے ہیں کہ فن کا خیال بھی رکھتے ہیں اور موضوع کی ترسیک کا بھی اور قاری بھی ان علامتوں سے محظوظ ہوکر سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔ان کی علامت نگاری کے تعلق سے معروف افسانہ نگار دیپک بدکی اپنے مضمون”ریاض توحیدی کی افسانوی دنیا”میں لکھتے ہیں:
“جہاں تک علامتوں کا سوال ہے، افسانہ نگار کالے، سفید اور سبز رنگوں کو بطور علامت پیش کرتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ اور علامتیں مثلاًسفید ہاتھی،کالے دیو’سفید تابوت، کالے ناگ، چیونٹیاں، بھیانک اندھیرے، خوفناک سائے، جنگل، دیو وغیر ہ بھی متن میں جابجا ملتی ہیں۔جو کہ توحیدی کی خوداخترع تخلیقی علامتیں ہیں اور ان کو وہ افسانوں میں برتنے میں کامیاب نظرآتے ہیں۔”
ڈاکٹرتوحیدی کی ا فسانہ نگاری اور تنقید نگاری کا اعتراف ہر جگہ ہورہا ہے۔پاکستان سے شائع شدہ افسانوی انسائیکلوپیڈیا میں بھی ان کے افسانے شامل کئے گئے ہیں اس کے علاوہ ملکی سطح کے کئی افسانوی انتخابات اور امریکہ سے ایک افسانوی انتخاب میں بھی ان کے افسانے شامل ہیں۔
ڈاکٹرریاض توحیدی کی ادبی شخصیت کادوسرا ایک پہلو تنقید ہے۔ وہ اگرچہ فکشن اور شاعری دونوں پر تنقیدی مضامین لکھتے ہیں تاہم وہ افسانوی تنقید کے میدان میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔اس بات کا عملی ثبوت ان کی فکشن تنقید کی تصنیف “معاصر اردو افسانہ: تفہیم و تجزیہ” کی دو جلدیں ہیں جس کے ذریعے انہوں نے اردو افسانے کی تنقید میں نیازاویہ متعارف کرایا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف افسانے کے فنی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ کتابیں تکنیک اور اسلوب کے تجزیے کے ساتھ ساتھ افسانے کو تخلیقی تنقید کے دائرے میں لاکر اس کی متنوع جہات کو کھول کر رکھ دیتی ہیں اور معنی و مطالب کی نئی روشنی فراہم کرتی ہیں۔ کتاب کی پہلی جلد ایجوکیشن پبلشنگ ہاس دہلی سے شائع ہوئی ہے، جبکہ دوسری جلد کو عرشیہ پبلشنگ ہاس دہلی نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کی تنقیدی اہمیت اور قدر کو مدنظر رکھتے ہوئے، دونوں جلدوں کو پاکستان میں بھی شائع کیا گیا ہے، جہاں ان کتابوں نے افسانوی تنقید کے حوالے سے نہ صرف ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کی بلکہ اردو ادب میں افسانے کی تخلیق اور تجزیے کے حوالے سے نئے امکانات کا بھی در کھولا ہے۔ ملکی سطح کے علاوہ پاکستان کے ادبی حلقوں میں اس کتاب کو سراہا جارہا ہے۔جیسے فکشن نقاد ڈاکٹر عامر سہیل نے(3جنوری2024)اپنے فیس بک پیج پر توحیدی کی شخصیت اوران کے کام کو سراہتے ہوئے لکھا ہے:
“ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیر کی متحرک ادبی شخصیت کا نام ہے۔ آپ نہ صرف پاک وہند کے ایک سنجیدہ اقبال شناس ہیں بلکہ اردو افسانہ نگاری پر کئی قابل قدر کام کر رکھے ہیں جن میں زیر نظر کتاب”معاصر اردو افسانہ…تفہیم و تجزیہ” محض ایک حوالہ ہے۔اس کتاب کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ معاصر افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو موضوع بنایا گیا ہے۔کتاب کا ابتدائی حصہ فن افسانہ نگاری پر بڑے اچھے مطالعات پیش کرتا ہے جس میں افسانے کی تکنیک،فنی رموز،تخلیقی مضمرات، مائیکروفکشن،فکشن شعریات اور ادبی تھیوری جیسے اہم امور پر تفصیلی گفتگو شامل ہے۔کتاب کا اختصاص یہ ہے کہ معاصر افسانہ نگاروں کی تخلیقات کے متن پر پوری توجہ صرف کی گئی ہے اور ان تمام غیر متعلقہ مباحث سے اجتناب برتا گیا ہے جنھیں ہمارے جید نقاد بہت عزیز رکھتے ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ تمام افسانوں کے مجموعی اوصاف کا اظہار ہو گیا ہے۔یہ کتاب دور حاضر کے نقادوں اور افسانہ نگاروں کو ضرور پڑھنی چاہے۔ تاکہ وہ اس صنف کے امکانات سے سرشار ہو سکیں۔میں ذاتی طور پر اس کتاب کو اردو فکشن میں ایک اہم اور نادر اضافہ خیال کرتا ہوں۔
توحیدی صاحب کو بہت بہت مبارک باد اور مسکراہٹ”
اسی طرح ناروے میں مقیم افسانہ نگار فیصل نواز چودھری توحیدی کے بارے میں لکھتے ہیں:
“ترقیوں کی دوڑ میں اسی کا زور چل گیا
بنا کے اپنا راستہ جو بھیڑ سے نکل گیا
جب میں ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کی علمی وادبی خدمات پر نظر دوڑاتا ہوں تو ان کی شخصیت نعیم اختر برہانپوری کے مذکورہ شعر کامعنوی آئینہ معلوم ہوتی ہے۔ان کی شخصیت تنقید اور تخلیق کاایک ایسا آئینہ ہے جو ادب کے کئی جلوئے دکھاتا ہے۔ان کی افسانہ نگاری اور تنقیدنگاری کی خوبیوں اور صلاحیتوں کااعتراف مقامی سطح سے لیکر عالمی اردو بستیوں تک ہوتارہتا ہے۔”
اس کے ساتھ ہی کتاب کے ایک اہم تنقیدی مضمون میں کشمیر کے معاصراردو افسانوں کے تخلیقی رویوں کا تجزیہ کیا گیا ہے جوکہ کشمیر میں مذاحمتی فکشن کے حوالے سے ان فسانوں کی گہرائی کو سامنے لاتاہے۔ انہوں نے کشمیر کے متعدد افسانہ نگاروں کے کاموں کا تفصیل سے بھی جائزہ لیا، جن میں عمر مجید، نور شاہ منصور احمد منصور،وحشی سعید، ترنم ریاض’ مشتاق مہدی’ غلام نبی شاہد’ زاہد مختار’شیخ بشیر احمد’دیپک کنول’جان محمد آزاد’راجہ یوسف، طارق شبنم، پرویز مانوس، ایثار کشمیری وغیرہ جیسے افسانہ نگار شامل ہیں۔ ان افسانہ نگاروں کی تخلیقی جہتوں پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر توحیدی نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ان کے افسانوں میں کشمیر کی سیاسی اور سماجی صورتحال کافنی احوال پایا جاتا ہے، اور ان کے کاموں میں ایک گہری نفسیاتی کشمکش کی جھلک ملتی ہے۔
“مائکرو فکشن”کے عنوان سے مصنف نے مائکروفکشن فکشن کی اہمیت اور اس کی تکنیکی اور ساختیاتی پہلو پر بحث کی ہے۔ مائکرو فکشن ایک خاص قسم کی فنی مہارت کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ اس میں افسانے کو محدود الفاظ میں مکمل اور گہرا پیغام دینا ہوتا ہے۔ یہ مضمون مائکرو فکشن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ان کی ادبی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
اس کے بعد مصنف نے دو اہم تنقیدی کتابوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے