You are currently viewing    ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کی افسانچہ نگاری

   ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کی افسانچہ نگاری

ڈاکٹر گلزار احمد وانی

ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کی افسانچہ نگاری

 جموں و کشمیر میں افسانچہ نگاری کی صنف  اگر چہ بہت زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن اتنی نئی بھی نہیں ہے کہ اسے نو زائد صنف کے بطور گردانیں۔  پر اس مدت میں زیادہ تر افسانہ نگار اس کی طرف مراجعت کرنے میں کتراتے ہی رہے ۔ اس کے کئی وجوہات ہیں پہلا یہ کہ اس میں پھیلاؤ کی گنجائش بہت ہی کم و قلیل ہے اور دوئم  کہ یہ صنف بھی اپنی وہ شناخت قائم کرنے میں اس قدر کامیاب نہ ہوئی جس سے اس کا پھیلاؤ اور زیادہ ہو پاتا۔ اس سے متعلق کچھ لوگ سریحا انکار کرتے ہیں ۔دراصل صنف  افسانچہ بھی متضاد نظریوں کی شکار بہت حد تک  رہی ہے۔ اور زیادہ زور اس کے اختصار پر دیا جاتا ہے۔  سرور غزالی اپنے مضمون میں افسانچہ نگاری کا جائزہ پیش کرتے ہیں معا تکنیک پر بھی بات کرتے ہیں ۔ انہوں نے اس میں لکھا ہے کہ :
” افسانچہ لکھنا بڑے گردے کی بات ہے ۔ افسانچہ لکھنا کبھی بھی دانستہ یا شعوری عمل ٬ یعنی اسے بنانا نہیں ہوتا ۔ بس خیالات کے پنچھی آئے ٬ کچھ دیر ٹھہرے اور پھر پھر ۔ بعد میں تخلیق کار سوچتا ہے یہ کیا تھا۔ اتنی جلدی سب پر جھاڑ کر اڑ گئے۔” ماخوذ  افسانچہ کا فن: مرتب محمد علیم اسماعیل
اسی طرح ارشد عبدل حمید کا مضمون ” افسانہ اور افسانچے کا فرق۔” میں وہ یوں رقمطراز ہیں :
” افسانچہ افسانے کی تصغیر ہے یعنی بہت  چھوٹا سا افسانہ۔ ہمیں علم ہے کہ افسانہ زندگی کے کسی ایک پہلو کی کسی چھوٹی سی بات کا اظہار کرتا ہے اس سے زیادہ کی گنجائش اس میں نہیں تو  اندازہ لگائیں کہ افسانچہ میں کتنی زندگی سما سکتی ہے۔
ماخوذ افسانچہ کا فن۔۔۔۔۔۔ محمد علیم اسماعیل ص نمبر ۱۳
مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ افسانچہ نگاری کا فن اتنا آسان بھی نہیں ہے جتنا لوگ اسے سمجھتے ہیں۔ اگر ہم جموں و کشمیر  میں افسانچہ  نگاری کی بات کریں تو یہاں صورت حال بقیہ ریاستوں کے مقابلے میں قدرے بہتر نظر آتی ہے اور نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ مذکورہ صنف کی جانب اپنی توبہ مبذول کرا  رہی ہے ۔ ان تخلیق کاروں میں ڈاکٹر  فیض قاضی آبادی بھی دوش دوش شامل ہیں ان کا ابھی تک  افسانچوں کاایک مجموعہ منصۂ شہود پر آچکا ہے جو”  آدمی مسافر ہے ” کے نام سے ۲۰۲۴ میں شایع ہوا ہے۔
فیض قاضی آبادی جموں و کشمیر کے ضلع کپوارہ کے قاضی آباد میں ۱۶ مارچ ۱۹۷۵ میں  پیدا ہوئے۔ان کی ابتدائی تعلیم ان کے  آبائی گاؤں میں ہی ہوئی اور ایم اے  اردو کی تعلیم کے لئے انہیں کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں داخلہ لینا پڑا۔ اس کے بعد  ڈاکٹریٹ کی ڈگری” اقبال  انسان اور خدا “کے موضوع پر  بھی اسی شعبے سے پائیہ تکمیل تک پہنچائی۔ فیض کی عادتیں پڑھنے لکھنے سے مانوس تھیں۔ ابتدا میں اردو نظمیں بھی لکھتے تھے بعد میں اس شغل کو تقریبا تقریبا متروک ہی کر دیا۔ اور ان کے ادبی ذوق وشوق  میں افسانوں کی طرف کافی رغبت رہی اور افسانوں کے ساتھ ساتھ انہیں اردو افسانچہ نگاری کی طرف خاص توجہ مرکوز رہی۔اور بقول ان کے کہ وہ” پچیس برس  سے افسانچہ لکھ رہے ہیں”  ۔اس بات سے یہ اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر افسانچہ نگاری کی صنف  ان کے احساسات میں رچ بس چکی ہے جس کا ثبوت ان کا پہلا افسانچہ مجموعہ ” آدمی مسافر ہے ” میں بخوب ملتا ہے۔ اس دوران ان  کے افسانچے ملک کے مقتدر رسائل کی زینت بن گئے۔ سہہ ماہی ” پنج آب” میں ان کا خصوصی گوشہ شایع ہوا۔ یہاں کے مقامی روزناموں کے ادب ناموں میں چھائے رہے۔ اور کئی کتابوں کے مصنف رہ چکے ہیں۔جن میں صحبت صالحین ٬ تفہیم اقبال ٬ لفظ لفظ خوشبو ٬ آہ سحر گاہی ٬ مدارس اور اردو ٬ اور پروفیسر بشیر احمد نحوی : قدم قدم ٬ نظر بہ نظر شامل ہیں ۔  اور فی الوقت آپ اسسٹنٹ پروفیسر ( اردو) ہائر ایجوکیشن جموں و کشمیر کے گورنمنٹ ڈ ُگری کالج بارہ مولہ میں اردو ادب کی خدمت کا  کام کر رہے ہیں۔ انہیں کئی انعامات سے بھی نوازا گیا جن میں جوگندر پال ایوارڈ ٬ بھی شامل ہے۔
فیض قاضی آبادی  افسانہ نگار٬ محقق ٬ تنقید نگار اور
شاعر بھی رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کے شوق میں افسانچہ نگاری بھی رچی بسی ہوئی ہے۔اور ان کے افسانچے ملک کے مقتدر رسالوں ٬ جرائد اور اخبارات کی بھی زینت بنے ہوئے ہیں ۔ اور  آپ ان افسانچہ نگاروں میں شامل ہو رہے ہیں جنہوں نے اس فن کو قبول کیا اور سماج میں بدلے ہوئے رویوں کے تئیں اپنا ردعمل بھی دکھایا ہے۔
فیض ملک کے افسانچہ نگاروں کے دوش بہ دوش اپنا سفر آگے لے جا رہے ہیں جنہیں افسانچہ بننے کا فن خوب آتا ہے ان میں انور مرزا٬ ایم مبین ٬ عباس خان ٬ فاروق ارگلی ٬ اقبال نیازی ٬ عاطف مرزا٬ شازیہ ستار٬ اشتیاق سعید ٬ رخسانہ نازنین٬ منظور وقار ٬ رفیع الدین مجاہد ٬ یاسمین اختر ٬ اسداللہ شریف ٬کرن صدیقی٬ محمد علی صدیقی٬ ارشد منیم٬ ڈاکٹر ذاکر فیضی ٬ محمد علیم اسماعیل٬ سالک جمیل براڈ٬ تنویر اختر رومانی٬ اور اشفاق حمید انصاری وغیرہ اسی طرح  زندگی کے گونا گوں مسائل پر ان تخلیق کاروں  کے افسانچے ابھی تک تخلیق ہوئے ہیں ٬ جس سے یہی عندیہ ہمیں  ملتا ہے کہ انہوں  نے ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔
فیض کے  افسانچوں میں تحیر ٬ تجسس کی کیفیات پوشیدہ ہیں جن کے اندر احساس و ادراک کی دبی دبی سی  چنگاریاں موجود  ہیں جنہیں ایک عام قاری بھی محسوس کر سکتا ہے۔انہوں نے اپنی جی ہوئی زندگی میں جو بھی تجربات اور مشاہدات دیکھے ہیں ان سب کا اپنے منفرد اسلوب میں بیاں کرنے کی سعئ کی ہے اور اس میں آپ کما حقہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر  فیض قاضی آبادی  کی افسانچہ نگاری میں سماجی و معاشرتی موضوعات یوں رچ بس گئے ہیں کہ ہر ایک موضوع غیر معمولی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے ۔ اس میں انہوں نے اپنے تجربات و محسوسات کو لفظوں کے سانچے میں ایسے ڈھالا ہے کہ موضوع کی قدروقیمت خود بہ خود بن گئی  ہے۔ اور افسانچے کی جب بات ہوتی ہے تو اس میں انہوں نے کم لفظوں میں ان مسائل پر بات کی ہے جن کے لئے لفظوں کے انبار ضرورت تھے پر اختصار ہی افسانچے کی خوبی درشاتا ہے اور ان افسانچوں کا خاتمہ بھی افسانچہ نگار کے یہاں نہیں بلکہ ایک قاری کے یہاں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس اختصار کا اندازہ موصوف کے بہت سارے افسانچوں میں نظر آجاتا ہے مثلا ” سپوت ” افسانچہ کو ملاحظہ کیجئے:
” ملازم بننے کے بعد امجد نے اپنے والدین کو حج کرایا۔ لیکن امجد کے اکثر رشتہ دار اس سے ناراض ہوئے٬ کیونکہ یہ کرایہ کے مکان میں رہتا تھا۔ کچھ نے تو اسے پاگل اور بے وقوف تک کہا۔ایک دفعہ میں نے امجد سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے یوں جواب دیا۔” مکان میری ضرورت ہے۔۔۔۔۔ لیکن حج بیت اللہ کرنا میرے معمر والدین کی دیرینہ تمنا تھی۔ میرے ضمیر نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی کہ میں اپنی ضرورت کو والدین کی جائز خواہش پر ترجیح دے دوں۔”
۔  کہیں کہیں افسانچہ نگار ان افسانچوں میں خود ایک کردار کے بطور بھی نظر آتے ہیں ۔افسانچہ”  سپوت” میں افسانچہ نگار یہ کہتا ہے کہ ایک دن میں نے خود امجد سے اس کی وجہ پوچھی؟ اس طرح کے جملے کہانی کے ادھورے پن کو آگے بڑھا کر تکمیل کی دہلیز تک پہنچا دیتے ہیں۔
فیض کے مشاہدات٬ تجربات اور خیالات انہیں مذکورہ صنف میں اظہار کرنے کے لئے اکساتے ہیں ان کے شعور میں جو سماج و معاشرے کے تئیں فکر اور ادراک ہے اسے من و عن صفحۂ قرطاس پر بکھیرنے پر مجبور ہیں۔
ان کے افسانچوں میں سماجی طنز بھی کہیں کہیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ اسلم جمشید پوری ایک جگہ لکھتے ہیں:
” افسانچہ کھیل تماشا نہیں ہے اور نہ ہی لطیفہ بازی بلکہ افسانچہ کا موضوع بھر پور مواد کا تقاضا کرتا ہے ۔ افسانچوں میں اضافی خوبی کے طور پر طنز کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے ۔”
افسانچہ کا فن ۔۔۔۔صفحہ نمبر ۱۷
فیض کے افسانچوں میں زندگی کے کسی نہ کسی  پہلو کی تصویر کشی  ایک مکمل کہانی کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ اور جس سے وہ مکمل کہانی قاری کے ذہن میں بھی گھر کر لیتی ہے۔ فیض اپنی بات لفظوں کے غلاف میں ایسے بیان کرتا ہے کہ انسان تحیر زدہ کیفیات کے پس منظر میں جا کر کئی پہلوؤں سے آگہی پاتا ہے۔ افسانچہ ” اغوا ” میں بھی یہی کیفیت ایک قاری پر مرتسم ہو جاتی ہے۔
”  مرغی کی اکیس دنوں کی مسلسل قربانی رنگ لائی ۔ فضلی آپا کے صحن میں گیارہ خوب صورت چوزے چیں چیں کرتے ہوئے مرغی کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔فضلی آپا بہت خوش تھی ٬ جیسے اس کو کوئی خزانہ مل گیا ہو۔
اچانک کہیں سے چیل نے جھپٹا مارا اورایک چوزے کو اپنے پنجوں میں دبا کر لے اڑی۔ دوسرے چوزے چیں چیں کرتے ہوئے ادھر ادھر بکھر گئے۔ مرغی نے چوزے کو بچانے کی بے حد کوشش کی مگر کوشش رایئگاں ہو گئی۔ فضلی آپا اس وقت صحن میں ہی تھی اس نے بھی چوزے کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن فضلی  آپا ثاقب ثاقب کرتے ہوئے بے ہوش ہو کر گر گئی ۔ اسے بیس سال کا اپنا خوبصورت بیٹا ثاقب یاد آگیا جو اسی صحن سے ایک سال پہلے کوئی اغوا کر کے لے گیا اور اب تک اس کا کوئی پتہ نہیں ”
افسانچہ ” اغوا”
افسانچہ  نگاری کے فن میں افسانچہ کا اختتام بقول رونق جمال کے “خطرناک بم دھماکے کی گونج “کے جیسا ہونا چاہئیے۔ اور یہی افسانچے کی کامیابی ہے۔ اس ذیل میں ڈاکٹر فیض قاضی آبادی  کا افسانچہ ” مسلک” ملاحظہ کیجئے:
” دیکھو بیٹا !۔۔۔۔ آپ کے یہ دوست دوسرے مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کے ساتھ مت کھیلا کرو ۔اگر میں نے پھر آپ کو ان کے ساتھ دیکھا تو مجھ سے بڑا کوئی نہیں ہوگا ۔ ٹھیک ہے ابا جان !۔۔۔۔ صغیر نے جواب دیا۔
صغیر کے والد دوسرے دن اپنے دوستوں کرتار سنگھ ٬ بھوشن ناتھ اور مسٹر جوزف کے ساتھ موریشس ٹیور پر چلے گئے۔”
مذکورہ افسانچے کی آخری سطر ایک قاری کو چونکا دیتا ہے۔ ۔اسی طرح کا افسانچہ”  اصلی چہرہ ” ہے ملاحظہ کریں۔
” اس نے جیب میں دسوں چہرے رکھے تھے اور جہاں بھی جاتا تھا جیب سے نیا چہرہ نکال کر اس مجلس کی زینت بنتا تھا ۔ دفتر ٬ سینما ٬ کسینو ٬ بار ٬ ہوٹل غرض ہر چگہ نیا چہرہ بنا کر جاتا تھا۔ آج وہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے اصلی چہرے کے ساتھ چلا گیا۔
فیض کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ ان کے افسانچے پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ایک طویل افسانہ میں بھی پیش کیا جاسکتا یے۔ یہ اگر چہ ایک طرف قاری کے ذہن میں ایک جھلک دکھا کر ایک مکمل کہانی کا تصور دلاتے ہیں تو وہیں دوسری جانب ایک قاری کوبہت کچھ  سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔
ان افسانچوں میں ایک قاری کو بہت سیے تلخ تجربات کا مشاہدہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جن میں سماج و معاشرے کے تئیں بیداری٬ والدین کے حقوق کی پائمالی ٬ جہیز کا بڑھتا ہوا رجحان ٬ شراب نوشی کی لت ٬ جوا کی بدکاری ٬ جیسی سماجی برائیوں کا اظہار دبا دبا سا ہی سہی پر عندیہ ضرور مل جاتا ہے۔ اور اس میں ایک تخلیق کار کی یہی کوشش رہی ہے کہ معاشرے کے لوگوں کو ان برائیوں کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور اس کے برے اثرات کس قدر معاشرے کو اپنے لپیٹ میں آگ کی طرح لیتے ہیں کا بھی پتہ چلتا ہے۔
فیض کے افسانچے ذہن کی اطرافی جدت سے معمور ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ وہ راہ چلتے ہوئے بھی افسانچے کی تخلیق میں محو رہتے ہیں۔ اور مسائل کا شور محشر جیسا ان کے ادراک میں بسا ہوا ہے ۔ اسی طرح انہوں نے بے روزگاری کے مدعے پر بھی اپنی فکر مرکوز کرکے” امید ” جیسا افسانہ بنا ہے جس میں سیلاب کے آتے ہی سب لوگ محفوظ مقامات کی طرف جانے لگتے ہیں ۔اور سب لوگ اپنے اپنے قیمتی اثاثوں کو لے کر نقل مکانی کرکے دکھایا گیا ہے۔ اور ایسے میں ایک جسمانی لحاظ سے معذور جوان ” سرور ” بھی محفوظ مقام کی طرف بڑھ رہا ہے مگر وہ بھی کسی بقیہ سہارے کے ساتھ۔مگر وہ اپنے دائیں کی جانب ایک فائل سینے سے چپکائے مایوس سا لگ رہا ہے کیونکہ ایک طرف سیلاب کا غم اور حزن تھا۔اور دوسری جانب اوور ایج ہونے میں چند ماہ ہی اب باقی بچے تھے اور میٹرک سے لے کر بقیہ اسناد کو سنبھالے اپنے سفر پر گامزن تھا ۔اس افسانے میں یہی بات افسانچہ نگار ازبر کرانا چاہتا ہے کہ بےروزگاری کسی موذی مرض سے کچھ کم نہیں۔ طارق کھولا پوری ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں :
” ادیب سماج کا ضمیر ہوتا ہے ۔سماج جس کیفیت سے جیسی حالت سے دوچار ہوتا ہے ٬ ادیب اس کیفیت  کے کرب کو پوری شدت سے سہہ کر اپنے فن  کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے ۔ آج ہماری دنیا نفرت ٬ بغض ٬ عداوت ٬ منافقت اور کرپشن کی آگ میں جل رہی ہے ۔ہمارا سماج اس جہنم  کے طبقوں میں بٹ چکا ہے جس جہنم کو خود اس نے دہرایا ہے مجھے جہنم سے آتش پارے مل رہے ہیں۔”
افسانچے کا فن۔۔۔۔۔۔ محمد علیم اسماعیل ص نمبر ۱۰۶
اسی طرح سماج کے اہم و غیر اہم مسائل پر افسانچہ نگار نے قارئین کا رخ پھیر دیا ہے۔
کالونی ایک ایسا افسانچہ ہے جس میں نئے نظام تعلیم پر طنز سے کام لیا گیا ہے وہ یہ کہ آج کے دور میں انسان اپنے بچوں کا ان مدارس میں داخلہ کرا لیتے ہیں جن میں معیشت کے حصولی  کی آڑ میں انسان اپنے بزرگوں اور اپنے والدین کو نظر انداز کر کے انہیں ایک شہر میں بے سہارا  چھوڑ آتے ہیں اور خود عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے کی آڑ میں دوسرے شہروں میں جا بستے ہیں۔جو کہ معاشرے کے لئے سم قاتل بھی ہے٬ کی طرف بھی افساچہ نگار کا دھیان چلا گیا ہے۔پیش ہے یہ اقتباس مذکورہ افسانچے سے:
” نہیں نہیں صدر صاحب ! مجھے اپنے بچوں کو مدرسے میں ہی پڑھانا ہے ۔ کانویٹ میں پٹھیں گے تو بڑے ہو کر آپ لوگوں کی طرح اپنی ماں چھوڑ کر بیوی بچوں کے ساتھ دوسرے شہر کی اس بڑی کالونی میں رہائش اختیار کریں گے”۔ اسی طرح کا ایک اور افسانچہ  “دعا ” ہے جس میں انہیں  جذبات سے ایک ماں مملو دکھائی دے رہی ہے۔ پیش ہے :
” ڈاکٹر امجد نے کالونی کی غریب عورت کو صدقۂ فطر دیتے ہوئے کہا :
اماں جی ٬ ہمارے لئے دعا کیا کرو۔
عورت نے جواب دیا۔
بیٹا!۔۔۔۔۔ اپنی اس اماں جی کی دعا لے لو جسے گاؤں میں چھوڑ کر آپ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ یہاں آئے ہو۔ ویسے ان کی دعا سے ہی تو آپ بڑے ڈاکٹر بن گئے ہو۔
“اسکالر ” افسانچے میں بھی اسی موضوع کو  دہرایا گیا ہے جس میں والدین کو ایک اسکالر زدوکوب کرکے پھر کسی جامعہ میں پی ایچ ڈی کی تحقیق میں مصروف کار ہے۔
” میں نے سنا ہے کہ اس نے اپنے والدین کی پٹائی کرکے انہیں گھر سے نکالا ہے۔
ہاں آپ نے صحیح سنا ہے۔
اچھا وہ آج کل کیا کرتے رہے ہیں۔
وہ جامعہ کوہسار میں اخلاقیات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔” افسانچہ۔۔۔۔۔ اسکالر
ان  جیسے فسانچوں  میں ایک تخلیق کار سماج و معاشرے میں پھیلی ہوئی جنریشن گیپ اور برائیوں کو بے نقاب کرنے کی ایک بے باک کوشش کرتے ہیں تاکہ معاشرے سے اس ناسور کا خاتمہ ہو جائے۔اور اس کے پیچھے جو مقاصد کارفرما ہیں وہ یہی ہیں کہ سماج بری رسومات سے پاک و صاف ہوسکے۔
افسانچہ نگاروں  کی جب بات ہو تو جموں و کشمیر  سے  نور شاہ ٬  ٬ ُڈاکٹر نذیر مشتاق ٬ راجہ یوسف ٬ خالد بشیر تلگامی ٬ ڈاکٹر  ریاض توحیدی ٬ رئیس احمد کمار کے ساتھ ساتھ فیض قاضی آبادی کا نام بھی سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ جنہوں نے افسانچہ نگاری کے فن کق جلا بخشنے میں اپنا اہم رول ادا کیا ہے۔ اب تک جموں و کشمیر  سے جن افسانچہ نگاروں کے افسانچی مجموعے شایع ہو چکے ہیں ان میں” گہرائی ” زینت فردوس زینت ۱۹۷۵ ٬”  مٹھی بھر ریت ” دیپک بدکی ۲۰۱۵٬  “یہ کیسا رشتہ ” دیپک بدکی ۲۰۲۱ ٬  ” تنکے ” نذیر مشتاق۔ ۲۰۲۱ ٬  ” سنگریزے ” حسن ساہو ٬ ” دکھتی رگ “۔۔۔۔ بشیر تلگامی ۲۰۲۱ ٬   “آدمی مسافر ہے ” فیض قاضی آبادی۔
اب رہی جموں و کشمیر  کے ان افسانچہ نگاروں کی بات جنہوں نے افسانچہ باضابطہ طور لکھے ہیں جنہوں نے افسانوں کے مجموعوں میں افسانچے شامل کئے ہیں وہ مندرجہ ذیل میں ان افسانوی مجموعوں کی فہرست دی گئی ہے  ۔ جن میں ادسانوں کے ساتھ ساتھ افسانچے بھی ملتے ہیں۔
گیلے پتھروں کی مہک ۔۔۔۔۔ نور شاہ
کنوارے اکفاظ کا جزیرہ۔۔۔۔۔ وحشی سعید
خاموش صدائیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مقبول احمد
کاغذی پیرہن ۔۔۔۔۔۔ راجہ یوسف
آواز سرگوشیوں کی ۔۔۔۔۔ وریندر پٹواری
شکاری کی موت۔  ۔۔۔۔۔۔۔  پرویز مانوس
اندھا کنواں۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن ساہو
آفتوں کے دور میں۔  ۔۔۔۔۔  وریندر پٹواری
گردش دوراں ۔۔۔۔۔ حسن ساہو
چنار کے برفیلے سائے۔  ۔۔۔۔۔ نیلوفر ناز نحوی
کیسا ہے یہ جنون  ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ نور شاہ اور
نقش فریادی۔  ۔۔۔۔۔ راجہ یوسف۔  وغیرہ
اس فہرست کو  دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر  میں افسانچہ کے لئے راہیں ہموار دکھائی دے رہی ہیں اور اب کوئی بھی افسانچہ نگار اپنی تخلیق کے آب و رنگ  کو اسی راہ پر بے جھجک سجا سکتا ہے۔

Leave a Reply