ڈاکٹرمحمدمحبوب عالم
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
(یہ عربی افسانہ ”الليسانس“ مشہور مصری افسانہ نگار احسان عبد القدوس کا افسانوی مجموعہ ”منتهى الحب“سے ماخوذہے)
ڈگری اور خواہش
اس کے والد اپنے خاندان کاپہلا شخص تھے جنہوں نے حصول تعلیم کی غرض سے گاؤں چھوڑکر قاہرہ کا رخ کیا۔قاہرہ میں اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد انہوں نے وہیں وکالت کا پیشہ اختیار کیااور پھر ترقی کر کے ایڈوائزر ی کے عہدے پرفائز ہو ئے۔
اس کے والد نے اسے تعلیم حاصل کر نے کی پوری آزادی دے دی۔ چوں کہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی تو اس کے والد کی دلی خواہش تھی کہ وہ کبھی انہیں لڑکے کی کمی محسوس نہ ہونے دے اوروہ اسی طرح اسکول آیا جایا کر ے جس طرح ایک لڑکا آیا جایاکر تا۔ اب وہ اسکول کی تعلیم مکمل کر کے یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔
وہ ابھی ڈگری آف لا کے آخر ی مرحلے ہی میں تھی کہ اس کے چچازاد بھائی نے شادی کا پیغام بھیج دیا۔اس کے چچا زاد بھائی نے سینئر سکنڈری کی تعلیم مکمل کیے بغیر ہی تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیا تھا اور وراثت میں ملی زمین کی کاشتکاری کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح فارغ کرلیا تھا۔کا شتکاری سے اسے بہت فائدہ ہوااور اب تو خاندان کی ساری زمین کی کاشت کاری اسی کی زیر نگرانی ہونے لگی تھی۔گردو پیش کا ماحول اس کو اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔شاید کہ اس نے اپنے آپ سے پوچھا بھی ہو گا کہ میرے خاندان میں اور بھی لڑکیاں ہیں مگر اس کی نظر انتخاب مجھ ہی پر کیوں پڑی،حالاں کہ میرے خاندان والوں کو میری اس طرح کی آزادانہ زندگی پسند نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو یہ گواراہے کہ میں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر وں۔
یہ خیال اس کے ذہن و دماغ میں زیادہ دیر تک حاوی نہیں رہا اور نہ ہی اس کے دل میں یہ بات کھٹکی کہ اس کا چچا زاد بھا ئی یونیورسٹی میں زیر تعلیم لڑکی سے شادی کر کے اپنے اندر کی کمیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کر نا چاہتا ہے،کیوں کہ اس نے تو یونیورسٹی کی تعلیم کی اہلیت سے پہلے ہی اپنا تعلیمی سفر منقطع کر دیاتھا۔چنانچہ اس نے اس رشتہ قبول کر لیااور اپنے منگیتر کے سامنے ایک شرط رکھی کہ میری یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہونے تک شادی کو مؤخر کر دیا جائے۔منگیتر نے بھی اس شرط کوبسر و چشم قبول کر لیا کیو ں کہ اب تو اس کی شادی خواہش کے مطابق ایک ڈگری یافتہ لڑکی سے ہونے جا رہی تھی۔
یونیورسٹی میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ شادی کے بندھن میں بند ھ گئی۔
کچھ دنوں بعد اس کو احساس ہوا کہ اب وہ اپنی ڈگری کا کیا کر ے گی؟جو کچھ بھی اس نے یونیورسٹی میں پڑھا اور سیکھا ہے،اس کی توازدواجی زندگی میں چنداں ضرورت نہیں ہے۔اس کا شوہر تو اس کے ساتھ ایک عام بیوی کا ساسلوک کر تا ہے، جس طرح کا سلوک اس کا باپ اس کی ماں کے ساتھ کرتا ہے اور علاقے کے دیگر شوہر بھی اپنی بیویوں کے ساتھ کر تے ہیں۔اس کواپنے شوہر کے بر تاؤپر ذرہ بر ابر بھی اعتراض نہیں تھا لیکن صرف اس بات کی فکراسے کھائے جارہی تھی کہ اس کی ڈگری یوں ہی رائیگاں نہ جائے،بلکہ جو کچھ بھی اس نے سیکھا ہے اس سے بھر پور فائدہ اٹھائے۔اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اسے اپنے علم و معرفت کاصحیح استعمال شوہر کی ذہنی بلندی اور معاملات کی ترقی میں کر نا چاہیے لیکن اس کے شوہر کو کبھی اپنی ذہنیت میں کسی طرح کی کمی اور اپنے تصرفات و اختیارات میں کسی کجی کا احساس نہیں ہوابلکہ اب توخود اسے یقین ہونے لگا تھا کہ اس کا شوہر اپنے گر دو پیش کے ماحول کے مطابق ایک مکمل انسان ہے،اس کے اندر نہ ہی کسی طرح کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی اسے بیوی کی علم و معرفت کی کوئی ضرورت ہے۔
شادی کے ایک عرصے کے بعد،بچے کی دلادت سے اس کے دل میں یہ آرزوپیدا ہوئی کہ اب اسے اپنے علم و معرفت کو استعمال کرنے کا صحیح موقع ملے گا اور وہ اپنی ڈگری سے بھی بھرپور فائدہ اٹھا سکے گی۔اب وہ اپنے علم و معرفت اور ڈگری کا استعمال اپنے بچے کی پرورش اور تر بیت کے لیے کر ے گی اور اس کے ذہن و دماغ کے دریچے کھول کر اس کو ایک وسیع وعریض دنیا میں لے جائے گی جو دنیا اس شہر سے کہیں زیادہ وسیع ہو گی۔چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کی دنیا سے باہر نکال کر اسے بڑی بڑی آرزوؤں و تمناؤں کی دنیا میں لے جائے گی۔وہ بچے کی تربیت اور نشو نما میں پوری طرح مصروف ہو گئی اور اپنی تمام امنگیں اس کے کانوں میں ڈالنے لگی اور اس کوذہن نشیں کرانے لگی۔اس نے اپنے علم و معرفت اورتجربات کو بچے کے لیے مکمل طور پر وقف کر دیا کیوں کہ وہ اپنے بچے کو بڑا ہو کر ایک مہذب وشائستہ اور بلند خیال کے حامل انسان کی صورت میں دیکھنا چاہتی تھی۔اس کی خواہش تھی کہ اس کا بچہ بھی بڑا ہوکر اپنی ماں کی طرح ڈگری یافتہ ہو اورپھر وہ اس ڈگری کے ذریعے آسمان کی اس بلند ی پر پہنچ جائے جہاں اس کی ماں نہیں پہنچ سکی۔
بچہ اب آہستہ آہستہ سن شعور کو پہنچ رہا تھا اور بیشتر اوقات اپنے والد کے ساتھ گزارنے لگا تھا۔چوں کہ ماں ہی نے اسے بتایا تھا کہ وہ اپنے والد سے محبت کرے اور ان کی عزت و احترام بجالائے کیوں کہ یہی وہ بنیادی تعلیمات ہیں جو بچوں کی اچھی تربیت کے لیے ناگزیر ہیں……کچھ حد تک تو بچے کا یہ معاملہ ٹھیک تھا لیکن جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی گئی اس کی والد سے قربت ومحبت بھی بڑھتی گئی۔والد ہی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ”پاکٹ ناول“ پڑھتااور ان کے ساتھ کھیتوں پر بھی جایا کرتا۔والد ہی کی طرح انگلیوں سے کھاتا اور وہی زبان بولتا جو اس کے والد بولتے ،یہاں تک کہ والد ہی کی طرح کسانوں کو بھی سب وشتم اور برا بھلا کہنے لگا۔
جب ہائی اسکو ل کے امتحانات میں بار بار فیل ہونے لگا تو اس کی ماں نے بڑی عاجزی و انکساری کے ساتھ کہا:اے میرے لخت جگر!
”میری دلی خواہش ہے کہ تم بڑے ہو کر تعلیم یافتہ بنو اور ڈگری حاصل کرو“۔ لیکن لڑکے نے درشت لہجے میں جواب دیا:
”ڈگری حاصل کر کے بھلا میں اس کا کیا کر وں گا،مجھے تو اپنے باپ کے نقش قدم پرہی چلنا ہے“۔
Email: mahboobjnu@gmail.com
Mobile: 9871805262