You are currently viewing کانسے کا سورج سونے کا چاند

کانسے کا سورج سونے کا چاند

تبصرہ

ڈاکٹر شگفتہ یاسمین

کانسے کا سورج سونے کا چاند

مصنف – نسیم نقوی

صفحات- 116

قیمت- 200 روپے

مطبع- عرشیہ پبلی کیشنز، دھلی

نسیم نقوی دنیائے صحافت کی ایک معروف شخصیت ہیں۔  ایک فعال وسر کردہ براڈکاسٹر جو بہ یک وقت اردو ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں پر گہرا عبور رکھتے ہیں اور تینوں ہی زبانوں کے شعبہ صحافت پر نسیم نقوی نے اپنی منفرد شناخت  ثبت کی ہے۔  دشتِ صحافت کی سیّاحی، صدور، وزرائے اعظم اور  دیگر اعلی عہدیداروں کے ساتھ ملکی وغیرہ ملکی اسفار نے تیس سالہ صحافتی تجربے کے دوران جس دروں بینی اور احساس و ادراک سے روشناس کرایا اس نے ان کی فکر و نظر میں وہ عمق پیدا کیا جو بہ یک وقت ادب و صحافت دونوں کے لیے قدرِ مشترک ہے۔ اس جہاں میں سرسری گزر جانا تو بیشتر کو آتا ہے لیکن کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو ہر جا جہانِ دیگر کو دیکھ اور سمجھ پاتے ہیں۔

ادبی ذوق والدہ سے ورثے میں ملا لیکن مہم جو طبیعت نے وہ شعبہ چنا جس کے لئے حق گوئی اور بے باکی لازمی عنصر ہے۔  بقول والٹیر

“To hold a pen is to be at war۔”

-Voltaire

اندیشہ ہائے دور دراز بھی ہوں اور فکر و نظر، اظہار و ابلاغ پر پہرے بھی تو بات کہنی اتنی آسان نہیں ہوتی لیکن اگر سلیقہ اظہار ہو تو ترسیل پابندِ سلاسل نہیں رہتی۔  نخلِ صحافت ایک عمر میں برگ و بار لاتا ہے۔  اس مجموعے کا ہر  افسانہ اسی حقیقت کا غماز ہے کہ آبلہ پائی اور خون جگر کی روشنائ سے ہی سفاک حقیقتوں کی ترجمانی ممکن ہے۔ بحرِ صحافت کے تلاطم و تھپیڑوں کا اندازہ ساحل کے تماشائی کیا جانیں! گہرائی دریا کی ہو یا عشق کی ڈوبنا تو پڑتا ہے اور بقول خسرو جو ڈوبا سو پار…! آج تیس برس دشت صحافت کی سیاحی کے بعد زمانے کی بدلتی کروٹوں، آسمان کے بدلتے رنگ، گردشِ لیل و نہار اور زندگی کی تلخ اور سفاک حقیقتوں کو مختلف کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے انہوں نے قارءین کی نذر کر دیا۔

  اس مجموعے کی خوبی یہ ہے کہ مواد و موضوع کے اعتبار سے تنوع و رنگا رنگی ہر جگہ نظر آتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے پیشے کے تعلق سے صرف دو ہی کہانیاں ‘گنوار’ اور ‘ایکسکلوسیو’  اس مجموعے میں شامل کی ہیں۔  باقی تمام کہانیاں سماجی، نفسیاتی، اخلاقی اور تہذیبی مسائل و موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔

‘میرا جسم میری مرضی۔۔! ‘

یہ نعرہ بہت سرخیوں میں رہا اور اس کی وضاحت میں افراط و تفریط سے بھی کام لیا گیا اور مختلف و متضاد بیانات و آرا بھی منظر عام پر آئے  لیکن جتنی خوبصورتی سے اس بنیادی حق کی تشریح و توضیح تمام اخلاقی اور تہذیبی قدروں کی پاسداری کے ساتھ افسانے ‘کانسے کا سورج سونے کے چاند’ میں ملتی ہے وہ شاید ہی کسی اور جگہ دیکھنے کو ملے۔ کسی نظریے یا ازم  سے متاثر ہوئے بغیر مصن٘ف نے بڑے استدلال سے اپنی بات کہی اور اس خوبی سے کہی کہ اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایک مضبوط وِژن کے تحت  تحریر کردہ یہ  افسانہ معاصر رویوں، انوکھی  پیشکش اور اچھوتے موضوع کے سبب اتنا پراثر اور جاندار ہے کہ افسانوی مجموعہ اسی عنوان کے تحت منظر عام پر آیا ہے۔

 دیگر کہانیاں بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہیں۔ ٹوٹتے بکھرتے رشتے، خاندانی نظام کا بکھرتا شیرازہ، اخلاقی قدروں کا زوال، زمینداری کا خاتمہ، مصنوعی زندگی کی چکاچوند، فرد کی تنہائی، بے بسی اور لاچاری، فرقہ واریت کا زہر سب کچھ ان افسانوں میں سمٹ آیا ہے۔

 عشق و روما ن کی مصنوعی اور تخی٘لی دنیا سے دور تمام کہانیاں زندگی کی حقیقتوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کراتی ہیں۔ زبان سہل اور رواں ہے لیکن ادب کی چاشنی اور بیان کی شگفتگی ہر جگہ دلچسپی برقرار رکھتی ہے۔ بیانیہ بہت مضبوط ہے اور قاری حرفِ اول سے سطرِ آخر تک خود کو ہر جگہ راوی کے ساتھ ساتھ پاتا ہے۔ مکالمےبےحد جاندار ہیں بلکہ شاید یہ خوبصورت اور جاندار مکالموں کا جادو ہی ہے جس نے بیانیہ کی دلکشی کو دو چند کر دیا ہے۔

 چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

“بے روزگاری کے دور کی دوستی بڑی مضبوط ہوتی ہے لہذا یہ بھی ہو گئی۔

(گنوار)

 بچہ ایک بار پیدا ہوتا ہے اور اس کے اپڈیٹس زندگی بھر چلتے ہیں۔”

 (کا نسے  کا سورج سونے کا چاند)

 “میری آنکھ میں سور کا بال ہے۔ امتحان میں مجھ سے کسی مدد کی امید نہ رکھنا۔”

(الٹی ناوُ)

وغیرہ وغیرہ

مسائل و موضوعات کے تنوع میں ایک رنگ اور نمایاں ہے کہ تقریبا چھ کہانیاں صنفِ نسواں کی نفسیات اور اس کی ذات سے وابستہ مسائل اور موضوعات کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ عورت  کی نفسیات کا اتنا گہرا ادراک اور ژرف نگاہی اکثر قاری کو چونکاتی بھی ہے  اور داد و توصیف کے ننھے ننھے شبنم کے قطرے زیست کی تاریکیوں میں زخمی روح کی ٹیسوں پر مرہم کا کام بھی کرتے ہیں۔   یہ اقتباس دیکھیے۔

 “کہتے ہیں کہ عورت کو کوئی سمجھ نہیں پایا مگر عورت تو کھلی کتاب ہوتی ہے۔  بس ہم پڑھ نہیں پاتے یا ہمیں پڑھنا نہیں آتا۔ یا  ہم اتنا ہی پڑھتے ہیں جتنا ہم پڑھنا چاہتے ہیں اور اس کا بھی وہی مطلب نکالتے ہیں جو نکالنا چاہتے ہیں، اپنی ضرورت اور حساب کے مطابق اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔”

 یہاں صاحب کتاب صحافی اور ادیب   ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات بھی دکھائی دیتے ہیں اور ایسا بیشتر مقامات پر ہوا ہے جہاں انہوں نے بڑی مشّاقی سے فرد کی نفسیات کی الجھی گرہوں کو سلجھانے اور پیچیدہ پرتوں کو منکشف کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں انہیں کامیابی بھی ملی ہے۔ الغرض مصنف کی ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ ساتھ یہ افسانوی مجموعہ ہمہ رنگ  بھی ہے۔ پڑھ کر دیکھیے داد دیے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔

دابطہ مصنف: naseem.naqvi@gmail.com

رابطہ تجزیہ نگار: Fwd: shaguftayasmeenoffice@gmail.com

Leave a Reply