ڈاکٹرگلشن عبداللہ
فراش گنڈ بڈگام کشمیر
کشمیر کی یوگنی :لل دید
لل دید کا نام سُنتے ہی ( یا ان کا اپنی زبان پر نام لیتے وقت) ہم ایک پاک دامن اور دانشور عورت کا تصور اپنے دل و دماغ میں کرتے ہیں۔ یہ آج کی بات نہیں ہے ،جب ہم تا نیثیت اور ترقی نسواں کی بات کرتے ہیں، بلکہ یہ یوگنی پچھلے سات سو برسوں سے ہمارے علم و ادب اور فکر و دانش پر راج کرتی آئی ہے اور اس کا کردار آج بھی ہمارے لئے Ideal حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکی سیرت اور اسکے فکر و فلسفے کو کشمیر سے باہر بھی متعارف کروایا جائے۔
کشمیر برسوں تک شیوازم کا مرکز رہا۔ یہاں اسقدر مقدار اور معیار میں فارسی لڑیچر لکھا گیا کہ کشمیر کو “ایرانِ صغیر” کا درجہ حاصل ہوا۔ اس طرح اگر ہم کہیں گے کہ یہاں یہی مقام سنسکرت ادب کی تاریخ میں بھی ہمیں ملنا چاہیے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ سنسکرت کے بعد ہم نے کشمیری زبان میں بھی لڑیچر لکھنا شروع کیا ور ہمارے ابتدائی لکھنے والوں میں ششی کنٹھ ( مہانے پرکاش) کے بعد لل دید کا نام آتا ہے۔ اُس وقت کشمیری زبان کیلئے سنسکرت کا ہی رسم الخط مقررتھا۔ جسے “شاِدار”رسم الخط کہتے ہیں۔ لل دید یا ہمارا ابتدائی کشمیری ادب ہمیں اسی رسم الخط میں ملتا ہے۔
لل دید کے متعلق ہمیں کشمیر کی مختلف تاریخوں میں مواد بہت کم ملتاہے، کیونکہ اکثر مورخوں نے زیادہ تر بادشاہوں اور انکے درباروں سے ہی متعلق لکھا ہے۔ چونکہ لل دید کا تعلق عوام سے تھا نہ کہ کسی دربار سے، اس لئے عوام نے انکے کلام اور ان سے متعلق مختلف باتوں کو روایت بنا کر اپنے دلوں میں محفوظ کر لیا اور اسطرح یہ سلسلہ برسوں تک سینہ در سینہ چلتا رہا اور کشمیر میں علم و ادب کی روشنی پھیلتے ہی مختلف مورخوں، تذکرہ نویسوں اور ادبی مورخوں نے انہیں اچھّی خاصی جگہ دے دی۔ اور لل دید اب باضابط طور پر The greatest daughter of VITASTA. کہلائی جاتی ہے۔
لل دید کی پیدائش 1301ء ( پیر غلام حسن شاہ کھویہامی)، 1334-35ء(خواجہ محمد اعظم دید مری)، 1234-35 ء ( مسکین) وغیرہ بتائی جاتی ہے، لیکن جے لال کول نے انکی سنہ پیدائش 1317ء اور 1320 ء کے درمیان مقرر کر لی اور انکی وفات کی تاریخ 1372 ء بتائی۔ جبکہ اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک لل دید کے زندہ رہنے کی شہادتیں موجود ہیں!
لل دید کا جنم پانپور( جہاں زعفران/کیسری اُگائی جاتی ہے) کے نزدیک سیمپورہ نامی گائوں میں ایک برہمن گھر میں ہوا۔ انہیں روایتی طرز پر تعلیم دے دی گئی۔ ان کا روحانی گرو سدھ شری کنٹھ( عرف سدِھ مول) تھا۔ مگر زندگی کے ابتدائی ایّام میں ہی ان پر استغراق کی کیفیت طاری ہوئی تھی۔ ان کی شادی پانپور میں بہت کم عمر ( بارہ برس) میں ہی کی گئی۔ درنگہ بل پانپور( قدیم نام پدم پور) میں بچہ بھٹ کے لڑکے سے انکی شادی ہوئی۔ روایت کے مطابق سسرال والوں نے اسے اپنا نام پدماوتی رکھا۔ لیکن وہ گھر گرہستی کی قید میں نہیں رہنا چاہتی تھی۔ کیونکہ اسے اپنے محبوب حقیقی کا بلاوا آیا اور وہ راہ حق کی تلاش میں نکلی۔ اسی لئے خود کہا۔
گورو نے مجھے صرف ایک زوسبد سے آگاہ کیا کہ
بیرون کو چھوڑ کر دروں کی تھاہ لے
اے لل! اپنا دھیان اپنی آتما پرمرکوز کر
گوروکی یہی ایک بات میں نے دل پر نقش کر لی۔
اسی لئے تو میں برہنہ محورقص ہوں ( ترجمہ موتی لا ل ساقی)
بتایا جاتا ہے کہ وہ تقریباً بارہ برس تک سسرال میں رہی اور وہاں ساس و دیگر لوگوں کا ظلم سہتی رہی۔ کیونکہ سماج ہمیشہ شریف اور سنجیدہ لوگوں کے ساتھ ظلم کرتا ہے اور عورت دنیا کے کونے کونے میں ہمیشہ یہ ظلم برداشت کرتی رہی اور حیرت کن بات یہ ہے کہ زیادہ تر عورت پر ایک عورت ہی ظلم کرتی ہے۔ کبھی ساس کی صورت میں کبھی نند کے روپ میں اور کبھی نوکری میں عورت کے مسائل ایک عورت ہی نہیں سمجھتی ہے!
خیر یہی ظلم لل دید جیسی شریف النفس اور پاک دامن مریمؑ، سیتا ما تا جیسی عورت نے بھی سہا۔ لل دید/پدماوتی کو معمولی باتوں پر ساس کی طرف سے پر ڈانٹ ڈپٹ ملتی تھی۔ اسکے چرخہ کاتنے میں نقص نکالا جاتا تھا۔ پدماوتی یہ سب کچھ برداشت کر کے اپنی زبان پر اُف تک نہیں لاتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انکی ساس انہیں پیٹ بھر کے کھانا بھی نہیں دیتی تھی۔ اور لل دید کو ستانے کیلئے یہ حربہ اختیار کیا کہ جس تھالی میں اس کے لئے کھانا ( کشمیری بھات مطلب پکے ہوئے چاول)رکھا جاتا تھا۔ بھات کے نیچے ایک موسل ( پتھر کا چھوٹا سلینڈر شیپ میں ٹکڑا) رکھا جاتا تھا!
لل دید چپ چاپ یہ تھوڑا سا کھانا کھاتی تھی اور اس پتھر کو دھو کر اپنے باورچی خانے میں رکھ دیتی تھی تاکہ انکی ظالم ساس کو اس کیلئے نیا پتھر نہیں لانا پڑے گا! یہ بات اسطرح فاش ہوئی کہ ایک روز انکے گھر میں ایک خاص دعوت کا اہتمام کیا گیا، تو لل دید کی سہیلیوں نے انہیں گھاٹ پر پانی بھرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کے ہاں آج اچھی خاصی دعوت تھی، لل دید نے جواب دیا:
“وہ مینڈھے کو زبح کریں یا بھیڑ کو لل کی قسمت میں پتھر ہی لکھا ہے” پھریہ بات کشمیر میں ضرب الا مثال بن گئی اور آج بھی کشمیر میں حسبِ موقع کہی جاتی ہے۔ لل دید کا شوہر بھی ہمیشہ اس سے ناراض ہی رہتا تھا۔ وہ علی الصبح پانی لینے کے بہانے گھر سے دُور نکلتی تھی اور انکے گائوں کے پاس ہی دریائے جہلم بہتی ہے، اسکو پیدل چل کر (کرامات کی وجہ سے) پار کرتی تھی، یہاں تک کہ اسکے پائوں بھی نہیں بھیگ جاتے تھے اور زنی پورہ نامی گائوں میں واقع نٹ کیشو بھیرو کے استھاپن پر جاکر عبادت کرتی تھی۔
ایک روز انکے نالائق شوہر نے اپنی ماں کے بہکائوے میں آکر اپنی بیوی پر سخت غصّہ کیا اور جوں ہی لل دید پانی کا گھڑا لے کر اپنے گھر آنگن میں داخل ہو گئی، تو شوہر نے اس پر ایک زور دار ڈنڈا مارا، مٹی ( ٹھیکری) کا یہ گھڑا ٹوٹ کو چُور چُور ہو گیا اور اس میں موجود پانی لل دید کے سر پر ہی معلق رہا۔ انکے گھر کے سارے برتن پانی سے بھر گئے اور باقی ماندہ پانی نے ایک تالاب کی شکل اختیار کر لی۔ یہ تالاب اس جگہ آج بھی “لل تراگ” کے نام سے موجود ہے، مگر بد قسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے اس میں موجود گندگی/ کوڑا کرکٹ اور لوگوں کی لالچ، حکومت کی عدم تو جہی کی وجہ سے یہ متبرک تا لاب سکڑ گیا!
لل دید اس یوگنی کا نام کیوں پڑ گیا۔ اس کے بارے میں بھی بہت سارے مباحث کھڑے ہو سکتے ہیں، عام طور پر یہی مانا جاتا ہے کہ ‘لل’ کشمیری زبان میں جسم کے اس حصّے کو کہتے ہیں، جو کسیِ وجہ سے اُبھر گیا ہو۔ چونکہ لل دید راہ حق کی تلاش میں مجزوب برہنہ گھومتی پھرتی تھی اور کرامات الہیٰ کی وجہ سے اس کی ناف کا نچلا حصّہ اُبھر کر آویزان ہو گیا اورپھر وہی اسکی ستر پوشی کا موجب بھی بنا ،تو اسطرح لوگ ( عقیدت مند) اسے لل دید( دید کا مطلب کشمیری میں بڑی ماں/ماتا ہے) کہنے لگے۔۔۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ‘لل’کا لفظ کشمیری زبان میں لیلایا Love کو بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسطرح پیاری ماں اس کا مطلب بنتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے خود بھی اپنے اشعار ( واکھوں) میں لل کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جب وہ مجذوب یا برہنہ حالت میں نہیں گھومتی تھی البتہ شادی کے بندھن میں بھی تھی۔
لل دید مذہب کی ظاہر داری کے علاوہ مورتی پوچا کی بھی قائل نہیں تھی اور وحدانیت کا پرچار کرتی تھی۔وہ اپنے خدا کو ‘شوِ’ کے نام سے پکارتی تھی۔ وہ جسم کی پاکی سے زیادہ باطن کی پاکی پر زور دیتی تھی۔ ان چیزوں کا عملی ثبوت ایسی بہت ساری کہانیوں میں ملتا ہے، جو ان سے منسوب ہیں یا ان کے کلام سے بھی یہ باتیں صاف طور پر ظاہرہوتی ہیں جیسے:
٭ اے ناداں!نیک عملی کا علاقہ
فاقہ کشی اور رسم و رواج کے ساتھ کچھ بھی نہیں
مورتی بھی ایک پتھر ہے
اور یہ مندر بھی کیا پتھر ہی ہے
بام سے بنیاد تک تو دیکھ لے
٭ تیرتھوں پر یا ترا کرنے گئے
اس تصور سے کہ وہ اس کے درشن کریں
جو کہ ان کے دل کے اندر جا گزیں ہے۔
(ترجمہ موتی لال ساقی)
لل دید کا ہم عصر صوفی شیخ نورالدین نورانی ؒ (1377-1438 ء)تھا۔ جسکا استھان( جہاں 1995 ء میں مست گل کا واقعہ پیش آیا) چرار شریف بڈگام کشمیر میں واقع ہے اور ان دونوں کا کلام ہر کشمیری کی زبان پر ہے۔ اور دونوں کیلئے کشمیر یوں کے دِلوں میں برابر محبت ہے۔ حضرت شیخـ ؒ عمر میں ان سے چھوٹے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت شیخ پیدا ہوئے، تو کچھ دنوں تک اپنی ماں کا دُودھ نہیں پیتے تھے۔ انکے والدین بہت پریشان تھے۔ کہ اسی اثنا میں وہاں سے لل دید کا گزر ہوا۔ شیخ کے والدین نے لل دید سے التجا کہ کہ ان کا نوزائد بچہّ دوُدھ نہیں پیتا ہے۔ لل دید نے ان پر اپنا نظر عنایت دوڑا کر سوال کیا:
“پیو بابا پیو! جب آپ اس دنیا میں آنے سے نہیں شرمائے، تو دودھ پینے سے کیوں کتراتے ہو؟”
دراصل یہ بچہ اِسی دیدار کا منتظر تھا اور حکم کاطلب گار تھا،تو وہ یکدم اپنی ماں کی چھاتیاں چُوسنے لگا۔ پھر ان کا یہ روحانی سلسلہ تا عمر چلتا رہا۔ اس سلسلے میں ان کا درج ذیل مکالمہ بھی ملاحظ فرمائیے:
لل دید: روشنی سورج کی توبے جوڑ ہے
گنگ سے بڑھ کر نہیں تیرتھ کوئی
رشتہ داری میں بھیا انمول ہے
سب سکھوں سے بالا سکھ بیوی کا ہے
شیخ العالم: روشنی آنکھوں کی تو سرتاج ہے
بڑھ کے ٹانگوں سے نہیں تیرتھ کوئی
جیب اپنی ہی تو رشتہ دار ہے
سکھ جو لوئی کا ہے اس کا توڑ کیا
لل دید: روشنی عرفانِ حق کی بے مثال
عشق حق جیسا نہیں کوئی تیرتھ
حق کی یاری کا نہیں کوئی جواب
خوفِ اللہ کے برابر سکھ کہاں ( ترجمہ موتی لال ساقی)
لل دیدکا دور کشمیر میں امن اور خوشحالی کا دور تھا اور اسی دور میں وسط ایشا( ایران) سے لداخ کے یخ بستہ پہاڑوں کو پیدل عبور کرتے ہوئے حضرت میر سیّد علی ہمدانی ؒ (1341 ء تا 1385ء) بھی یہاں دین اسلام کا پرچم لیکر آئے اور بغیر کسِی جنگ و جدل اور خون خرابہ کے اسلام پھیلا یا۔ اسطرح لل دید حضرت شیخ العالم ؒ اور میر سید علی ہمدانی ؒ تینوں کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھی اور وہ لوگ اپنے اپنے روحانی کمالات کا بھر پور مظاہرہ کرتے تھے۔
لل دید اور حضرت میر سیدّ علی ہمدانی ؒ کی پہلی ملاقات کا واقعہ بھی یہاں بہت مشہور ہے۔ لل دید ایک سڑک پر برہنہ تھی اور جوں ہی انہیں باطنی طور پر ایک مرد قلندر کے آنے کی خبر ملی، تو انہوں نے اپنے آپ کو چھپانے کیلئے بنئے کی دکان میں گھسنا چاہا، مگر بنئے نے انہیں دھتکارا، وہ دوڑتے دوڑتے ایک نانبائی کی دکان میں گھس گئی اور بے خطر دھکتے ہوئے تنور میں چھلانگ ماری۔ نانبائی نے ڈر کے مارے تنور کا ڈھکن ڈھانب لیا۔میر سیّد کو بھی روحانی طور پر لل دید کی موجودگی کا پتہ چلا اور وہ نانبائی کی دکان میں داخل ہوئے۔ انھوں نے لل دید کو آواز دی:
اتنے میں لل عارفہ خوش نما پوشاک میں ملبوس اس جلتے ہوئے تنور سے باہر تشریف لائی اور اسطرح انکی ملاقات ہوئی۔
آخر لل دید کیا تھی؟ اور کن کی تھی؟ جیسے آج ہم معمولی چیزوں پر لڑتے اور جھگڑتے ہیں! جس طرح سنت کبیر (1440-1518) کو سبھی دھرموں کے لوگ یکسان طور پر مانتے ہیں، اسی طرح کشمیر میں ہر کوئی لل دید (Common Name)لل عارفہ ( مسلمانوں کیلئے) لل ایشوری ( ہند ئوں کیلئے) کو برابر مانتا ہے۔ اس کا موازنہ سنت کبیر/کبیر شاہ سے کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ دونوں کے فلسفے پر Ph.D کیا، ایک بڑا پروجکٹ تیار کیا جا سکتا ہے!
لل دید ساری عمر حق کی تلاش میں سر گرداں رہی۔ اس لئے انہوں نے اپنے محبوب بر حق کی محبت میں غرق ہو کر راہبانہ زندگی بسر کی۔ انہوں نے کہا:
“شوِ کو آپ چاروں طرف ڈھونڈ سکتے ہیں”
وہ ظاہرداری نہیں، بلکہ داخلی تلاش اور روحانی تکمیل کیلئے اپنے آپ سے لڑ رہی تھی۔ ان کے سامنے انسان ایک انسان ہے اور ہندو کیا مسلمان کیا اسی لئے فرمایا:
“آپ ہندو اور مسلمان میں تمیز کیسے کر سکتے ہیں جبکہ اُوپر والا آپ دونوں کو تاک رہا ہے۔ آپ کی غلطیاں نوٹ کرتا ہے۔۔۔۔”
انکی زندگی اور ان کا فلسفہ بس روحانیت کی اعلاقدروں، انسانی بھلائی، انسان کی پاکیزگی، خدمت خلق اور انسانوں میں محبت کا جذبہ پیدا کرنے کے ارد گرد گھومتا ہے۔
ان کا انتقال بھی بڑا چونکا دینے والا ہے۔ کشمیر کے سب سے بڑے مورخ محمد الدین فوقؔ کا بھی ماننا ہے کہ بیجبہاڑہ اننت ناگ کشمیر ( جہاں مفتی محمد سعید کا گھر واقع ہے) کی جامع مسجد کے صحن میں وہ ایک بڑے مٹی کے بنے ہوئے ٹب میں بیٹھ گئی اور خود ہی اس پر دوسرا ٹب رکھ لیا۔ لوگ اسکو بچانے کیلئے دوڑے اور انہوں نے اُوپر والا ٹب ہٹا لیا۔ مگر وہاں سے ایک بڑا سا نور کا شعلہ اُٹھ کر آسمان کی جانب پرواز کر گیا۔ اسطرح نہ انکی کوئی سمادھی بنی اور نہ ان کا کوئی مقبرہ بنا!
مرنے سے پہلے یہ اشعار کہے۔
ایک ہے میرے لئے موت و حیات
موت بھی شرین مجھے زندگی شیرین ہے۔
میں نے کب ماتم کیا
میرا ماتم کیوں کریں؟ ( ترجمہ ساقی)
یہ ہے کشمیر اور کشمیر یت جس سے آپ جنّت بے نظیر کہیں گے یا صوفی سنتوں کی وادی یا آجکل سیاست کا اکھاڑا۔۔۔!
اس چیز کو آج سوچنے اور سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ کشمیر یات جسے کہتے ہیں۔ اسکے بنیادی ستون لل دید اور شیخ العالم ہیں۔ شیخ العالم پر کبھی بات ہوگی۔ فی الحال لل دید کے بارے میں آخر پر اتنا ہی میں کہنا چاہتی ہوں کہ لل دید نے ہم کو کیا دیا، وہ تو سب کچھ عیاں ہے، مگر ہم انہیں کس حد تک یاد کر رہے ہیں، وہ ایک سوالیہ نشان ضرور پیدا کرتا ہے؟
ہزاروں انقلابات آئیں گے، لوگوں کے ہاتھوں میں کتنے کمپوٹرس ہوں، مگر لل دید کے کلام کی اہمیت روز بہ روز بڑھتی جاتی ہے۔ آج سے سو سال پہلے یورپی نقادوں نے کلام لل دید کے بارے میں یوں لکھا:
“The collection of songs edited in the present volume possesses a two fold interest. composed so long ago as the fourteenth century A.D, it claims the attention not only of the philologist as the oldest known specimen of the Kashmiri language, but also and still more, that of the student of religions……..
The Importance of her songs consists in the fact that they are not a systematic espose of CEAIVISM on the lines laid down by the theologians who preceded her, but illustrate the religion on its popular side. What we have here is not a mere book-rellgion as as evolved in the minds of great.
Thinkers and idealists, but a picture of the actual hopes and fears of the common folk that nominally followed the teaching of these wise men whom they had accepted as their guides”
اسطرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے کلام اور انکے فکرو فلسفے کو سمجھنے اورا س پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ہم نے لل دید کے نام پر حضوری باغ سرینگر میں عورتوں کی زچہ گی کیلئے ایک ہسپتال بناد یا، جسکا نام اب صرف LDکہا جاتا ہے! یہاں کسِی بھی لڑکیوں کے کالج کو لل عارفہ/ ایشوری کالج نام نہیں رکھا گیا ہے!
یہاں کی یونیورسٹیوں میں ان کے نام پر کوئی بھی شعبئہ یا ریسرچ سنٹر نہیں ہے! حالانکہ جہاں شیخ العالم، علامہ اقبال۔۔۔۔ وغیرہ پر یہاں مختلف ادارے قائم کر کے ان پر مسلسل ریسرچ کروائی جارہی ہے،وہاں لل دید کے فکر و فلسفے میں کون سی کمی ہے کہ ان پر علوم انسانی Humanities دینیات Theology میں ڈھیر ساری ریسرچ نہیں ہو پائے گی؟
جارج ابراہم گریسن (1851-1941)اور Lionel Barnett. نے کشمیر میں رہ کر سب سے پہلے ان پر یاد گار کام کر کے انکے کلام کو بیسوی صدی کی دوسری دھائی میں انگریزی میں منتقل کر کے اسکی کچھ تفسیر بھی کی۔ ساہتہ اکادمی نے جے لال کول سے 1985ء میں ان پر انگریزی زبان میںایک موٹو گراف تیار کروایا۔
جے اینڈ کے اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لنگویجز نے بھی ‘لل دید’ کا کلیات ( کشمیری) صفحات 388 پروفیسر جیا لال کول سے ترتیب دلوایا
اور اس میں کچھ واکھوں کا اُردو ترجمہ پروفیسر نند لال کول طالب کا شامل کیا گیا۔ پروفیسرشفیع شوق نے بھی انگریزی زبان میں ان پر ایک اہم کتاب لکھی۔
چند برس پہلے آرمی نے لل دید کی ایک تصویر بنواکر مختلف شاہراوں پر آویزان کروائی، جس سے عام لوگوں میں لل عارفہ کا غلط تاثر پیدا
ہوا۔ اسکے برعکس اگر وہ لوگ اسکولر ازم کے متعلق انکے چند اشعار ( جنہیں کشمیری میں واکھ کہتے ہیں جو کہ ایک الگ صنف ہے، رباعی، قطعہ یا نظم کے ایک بند کی صورت میں ہوتے ہیں) کی اس طرح painting’s اور سائن بورڑس کے ذریعے تشہیر کرتے، جس سے انسانیت کی ایک بہت بڑی خدمت ہو جاتی ہے!
جان کرانجان تو بنتا ہے اے دل کس لئے۔ سبزآئے گی نظر جب دُور سے دیکھے گاگھاس
روشنی اندر کی کر دی میں نے باہر آشکار۔ اور پکڑا اپنے اندر اسکو محکم اسطرح ہاتھ سے جانے دیا اس کو نہ ہرگز پھر کبھی
میل میں نے من کا سارا دھو لیا۔ خواہشاتِ دل کو بھی قابو کیا
مست ہو کر دامن عجز و نیاز۔ اس کے آگے شوق سے پھیلا دیا
ہو گئی مشہور لل نزیک و دُور ( ترجمہ طالب)
کتابیات
۱۔ لل دید۔ جے لال کول۔ ساہتہ اکادمی نئی دہلی 1985ء ( ترجمہ موتی لا ل ساقی)
۲۔ لل دید۔ ترتیب پروفیسر جیالال کول۔ جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز سرینگر ۱۹۸۴ء
۳۔ Lalla Vakyani-George A Grierson Lionel D Barnett Gulshan Books, Srinagar Kmr 2013۔
۴۔ A History of kashmiri Literature. Trilokinath Raina, Sahitya Akademi New Delhi 2002.
۵۔ ریڈیو کشمیر سرینگر سے نشرہوئے لل دید سے متعلق بہت سارے پروگراموں سے استفادہ۔
۶۔ ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری سے ذاتی طور پر مختلف ادبی ڈسکشنز سے استفادہ۔
***