اخلاق آہنؔ
قبلہ
امامِ قبلہ نے اعلان کر دیا، سن لو!
کہ اہلِ قبلہ ہوں تیار حکم ہیں رب کے
اگرچہ قبلہ ترا پنج وقتہ کا ہے وہی
مگر ہے قبلۂِ شام و سحر کہیں اب کے
جو پوچھا ہم نے کہ کیا کہہ رہے ہیں؟ اے قبلہ!
خدا کرے کہ نہ الفاظ نکلیں، اب لب کے
کہا یہ کان میں میرے کہ کوئی سن نا لے:
’’ضمیر میرا بھی لعنت کرے ہے ہاں جب کے
زبان میری ہے پر حرف ان میں ان کے ہیں،
رہے جو منبعِ شر اور سارے کرتب کے‘‘
فلسطین
جب سے ہم نے سنبھالا ہے ہوش و خرد
آہ و نالے فلسطیں کے کانوں میں ہیں
اور ہم ہی نہیں ہم سے پہلے بھی سب
ان کی چیخیں، کراہیں بھی سنتے رہے
ساری ملّت جہاں کے سبھی اِنس و جِن
ہائے مظلومیت! ظلم دیکھا کیے
بحث و تمحیص، جلسے جلوسوں میں سب
یہ نہیں، وہ نہیں، کہتے سنتے رہے
ایک مدّت ہوئی کتنی نسلیں مٹیں
جو ہوئیں خاک میں دفن، مظلوم تھیں
تم جو دیکھو اگر عدل کی چشم سے
اور جو دل کہے گا وہ سن لو ابھی
ظلم کی سب سے بنیادی بنیاد تم
ملّتِ شصت کشور غلامانِ خم
جن کی نامردی و بزدلی سے ستم
ظلم و اجبار کے بھیڑئیے پل رہے
نا خلف ہو تمھاری یہ تقصیر ہے
اور گردن میں ذلّت کی زنجیر ہے
***