عزہ معین
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی دہلی
نام کتاب۔ کلیات دل تاج محلی
مرتب۔ ڈاکٹر شعیب رضا خان
ضخامت۔ 591 صفحات
قیمت۔ 700/-
سال اشاعت ۔ 2023
مطبع ۔ باجی پرنٹرز انصاری اسٹریٹ ترکمان گیٹ دہلی 6
نثر اور نظم کا یہ مجموعہ ڈاکٹر شعیب رضا خان نے ترتیب دیا ہے یہ دل تاج محلی کی کلیات ہے جس میں ان تمام رشحات قلم کو شامل کیا گیا ہے جو بھی دل تاج محلی نے صفحہ قرطاس پہ سجا کر پیش کئے ہیں۔ اس میں شاعری ہے نظم نعت سلام غزل دوہے اور نثر میں اصلاح معاشرہ کے لئے لکھے گئے مضامین ڈرامے اور افسانے بھی ہیں ۔ سب سے آخر میں ادبی شخصیات کی تحریروں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو دل تاج محلی کے فن پر لکھی گئی ہیں۔ اس میں بہت سے اہم ادیب و شعراء کے نام شامل ہیں۔ اخترالواسع جیسا معتبر نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ دل تاج محلی نے شعر و شاعری میں کئی طرح کے تجربے کئے ہیں ۔
تاج محل سے انھیں خاص لگاؤ ہے۔ ان کی تحریروں میں تاج محل ایک عقیدہ بن کر ابھرتا ہے ۔ کتاب کی ابتداء میں چشمہ فاروقی کے ذریعے لیا گیا انٹرویو شامل ہے۔ اس مکالمے سے ان کی زندگی کے کئی اہم ابواب اجاگر ہوتے ہیں۔ افسانے کی بات کریں تو ہمیں مختلف موضوعات پر لکھے گئے افسانوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جیسے شاہجہاں اور ممتاز محل کے تاج محل کی تفریح کرنے کی روداد سننے کو ملی اور پھر قارئین پولیس والوں کی ذہنیت و کارکردگی کی مثالوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جس میں شاہجہاں اور ان کی ملکہ نورجہاں کے خوبصورت جوڑے کو میڈیا کے طمطراق جھوٹے سچ دکھانے والے اعلی پائے کے چینلوں پر , خبروں کی سرخیوں میں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ انجام کار دو محبت میں سرشار دلوں کو قید خانے میں بند کر دیتے ہیں۔ ایک کہانی جس نے مجھے متاثر کیا ان کے دوست انور کی کہانی ہے ۔ نوجوانوں کے لئے اس کہانی میں ایک پیغام ہے جس کو مصنف نے پر اثر انداز میں تحریر کیا ہے۔ نوجوانی کے نشے میں کبھی کبھی اولاد سب کچھ نظر انداز کرکے اپنی زندگی کا عذاب گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں میں ہی یہ رجحان پایا جاتا ہے ۔ والدین کو پرانی نسل کہہ کر اپنے فیصلوں میں شامل نہیں کرتے اور جب تک عقل کی کنجی ہاتھ میں آتی ہے وقت اتنا پیچھے گزر جاتا ہے کہ کچھ بھی پلے نہیں رہتا ۔ یہ اولادیں اپنے محبت کے جھانسے میں والدین کی بے لوث محبت سینے میں دفن کردیتے ہیں۔ انور بھی انھیں میں سے تھا جس نے زندگی کو جھنم بنا لیا اور سب سے زیادہ اپنا بڑھاپا ۔ ان حالات کو پہنچنے کا ذمہ دار وہ خود تھا۔
اس کتاب میں تنقیدی و تحقیقی مضامین اور ڈرامے بھی ہیں جس سے شائقین ادب کو مختلف ڈائقوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ سامر کھتری , نظیر اکبر آبادی, علامہ اقبال کے کلام پر تنقید یا تنقیص جیسے مضامین ان کی بصیرت کے غماز ہیں۔
علامه اقبال)
ایک طویل عرصے سے یہ پڑھنے میں آرہا ہے کہ کچھ اہل قلم حضرات نے اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے حضرت مولانا حالی ، ڈاکٹر اقبال، سر سید احمد خاں جیسے معماران قوم پر تنقید کرنے کی بجائے تنقیص کی راہ اختیار کر لی ہے۔ نیز اخبارات و رسائل کے قیمتی اور اق ور ذرائع ابلاغ کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا طرز تحریر نہ تو ان کے لیے سود مند ہے اور نہ ہی قارئین کے لیے مناسب ہے۔ بلکہ بھولے بھالے عوام کو گمراہ کر رہا ہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کی شاعری پر تنقید کرتے کرتے کچھ لوگ ان کی ذات پر تنقیص کر رہے ہیں۔ راقم نہایت افسوس کے ساتھ اس تحریر کو قلم بند کر رہا ہے۔ امید کہ متعلقہ حضرات معافی فرمائیں گے اور ضروری اصلاح کے لیے خود اپنی تحریر پر غور فرمائیں گے۔
(ص 232)
اس کتاب میں دوسرا حصہ شاعری کے لئے مختص ہے ۔ اس میں انھوں نے زندگی کے گوناگوں تجربات اشعار کی صورت پیش کئے ہیں۔ اشعار میں موضوعات کی انفرادیت قاری کو اکتاہٹ سے محفوظ رکھتی ہے۔ محبوب کے التفات کی باتیں گلابی دھوپ کا مزہ دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دل تاج محلی نے گزرے اوقات کی یادوں کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ کچھ اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں۔
بہتا تھا چشمِ نم سے لہو پیشتر نہیں
پہلے بھی دل کو غم تھا مگر اس قدر نہیں
بکھرے ہوئے جو طور کے جلوے سمیٹ لے
بیشک اُسے ضرورت شام و سحر نہیں
در پردہ اس میں کچھ تیرے جلوں کا ہاتھ ہے
بے ساختہ اُٹھے یہ مجال نظر نہیں
جس میں بیگانہ نگاہی کا کہیں نام نہ ہو
ایسا ماحول بنائیں تو بنائیں کیسے
دفن ہے اپنی تباہی کا یہاں سرمایہ
ہم تری را بگذر چھوڑ کے جائیں کیسے
پہلے ہم نے ہی سنواری تھی تری راہ گذر
ہم ہی گزرے تھے تری راہ گزر سے پہلے
کہہ رہے ہیں یہ تری راہ کے دھندلے سے نقوش
اور کچھ لوگ بھی گزرے ہیں ادھر سے پہلے
سب کی نظر سے بچ کے سرِ بزم
بارہا ہ دیکھتی ہے تمہاری نظر مجھے
اس آخری امید پر کا کاٹی شب فراق
شاید کہ راس آئے نسیم سحر مجھے
کتاب کا آخری حصہ ادبی ہستیوں کے تقریظی کلمات و مضامین سے مزین ہے ۔ اس میں پروفیسر اخترالواسع, کالی داس گپتا رضا, مجروح سلطان پوری اور ہند و پاک کے بہت سے پروفیسر حضرات کی آراء ان کے کلام کی پختگی کی اور اشارہ کرتی ہیں۔ محترمہ سلمی صنم اپنی سوانح نگاری کے لئے آجکل ادبی حلقوں میں خوب پہچانی جارہی ہیں ان کی تحریر “دل تاج محلی آگرہ کے معروف شاعر اور ادیب” عنوان کے تحت کتاب کی افادیت کو معتبر بناتی ہے۔ لکھتی ہیں۔
“ان کی شاعری ذات پات سے بہت اوپر اٹھ کر شکستہ دل کی ایک پر وقار اعلیٰ معیار کی شاعری ہے۔ زندگی ایک نعمت ہے، اور موت اس کی حقیقت زندگی کے فلسفہ کو سمجھنے میں دل صاحب اس کی حقیقت کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں۔ چونکہ جس نے زندگی کے فلسفہ کو حقیقت کو ذہن نشین کر لیا اس کی زندگی ہی کارساز ہے۔”(ص 551)
سب سے آخر میں دل تاج محلی کی کائنات کل کی تصاویر سے ہم کلام ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ اور کچھ معروف قلم کاروں کی توشیحی نظمیں بھی پڑھنے ملتی ہیں۔ حالانکہ میں اس چھوٹے سے تبصرے میں مکمل انصاف نہیں کر پائی ہوں مجھے اپنی کم علمی کا ادراک ہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہنر و قابلیت کسی تعریف یا تنقیص کا محتاج نہیں ہے۔ اگر کسی کتاب میں شائع شدہ مواد ادبیت کے پیمانوں پر پورا اترتا ہے تو جلد یا بدیر لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اس لئے کسی بھی قد کا اندازہ آپ ایک آدھ مضمون سے نہیں کرسکتے بہر حال میں مرتب اور مصنف دونوں کو بہت مبارکباد دیتی ہوں۔
***