فاروق رجل
موریشس
نوٹ: موریشس میں مقیم اردو کے نامور شاعر کی یہ نظمیں کورونا پر لکھی گئی ہیں ۔ اس لیے ان کو ایک ساتھ شائع کی جارہی ہیں
کورونا
’کوورنا‘ کے بارے میں کہتے ہیں لوگ بہت ہے خطرناک و مہلک یہ روگ
یہ دنیا کے ہر گوشے میں چھا یا ہے ہمیں غور کرنے پہ اکسایا ہے
کہ ہم کیا ہماری ہے اوقات کیا ہیں مجبور ، لاچار اور بات کیا
عقلمندی ساری دھری رہ گئی سبھی کیمیائی پڑی رہ گئی
طبیبوں کے اوساں خطا ہو گئے کہ عقل و فہم سب ہو ا ہو گئے
ہوئے جاں بحق یاں ہزاروں بشر بچے جو ، وہ ہیں بسترِ مرگ پر
قوانین کے ایسے پابند ہوئے خود اپنے ہی گھر میں نظر بند ہوئے
شہر ، جو زمانے سے سوئے نہ تھے چراغ ان کی گلیوں کے بجھتے نہ تھے
انہیں پر ’ کورونا ‘ ہے بھاڑی پڑا انہیں نیند میں ڈوبنا ہی پڑا
جنہیں ناز تھا جنگی آلات پر ترس آتا ہے ان کے حالات پر
حفاظت کا کوئی بھی سایہ نہیں کوئی اسلحہَ کام آیا نہیں
مگر اہلِ ایماں کا ایمان ہے کہ اللہ رحیم اور رحمٰن ہے
دعا مانگو تم اور توبہ کرو نا کہ ٹل جائے سر سے عذابِ کورونا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
احسان
کورونا سے دنیا پریشان ہے مگر اس کا مجھ پر کچھ احسان ہے
میں بزنس میں الجھا رہا اس قدر کہ مدت سے لی تھی نہ گھر کی خبر
مرا بیٹا کیسے بڑا ہو گیا وہ کب جانے چھ سال کا ہو گیا
پنپتے ہوئے اس کو دیکھا نہیں یوں بڑھتے ہوئے اس کو دیکھا نہیں
مگر آج کل بیٹھا ہوں اس کے ساتھ لیے ہاتھ میں اس کے ننّے سے ہاتھ
وہ پیئینٹنگ ، کھلونے ، کتابیں سبھی دکھاتا ہے خوش ہو کے چیزیں سبھی
عبارت کتابوں سے پڑھتا ہے وہ پہاڑے بھی گن کر سناتا ہے وہ
اک عرصے سے تھپکی نہ دی تھی جسے تھپک کر سلاتا ہوں اب میں اسے
یہ لمحے میسر کورونا سے ہیں یہ پُر لطف موقعے کورونا سے ہیں
میرے گھر میں ہے میر ی بیمار ماں انہیں روز دیکھوں یہ فرصت کہاں
کبھی آتے جاتے نظر پڑتی تھی سلامت ہیں وہ یہ تسلّی بھی تھی
اک آیا تھی مخصوص ان کے لیے کمی کچھ نہ تھی گھر میں ان کے لیے
میں بزنس کی دنیا میں مسرور تھا پر اپنی ہی اماں سے کچھ دور تھا
مگر آج اماں کے نزدیک بیٹھے بڑی دیر تک پاؤں ان کے دبائے
پھر ان کے سرہانے میں بیٹھا رہا سکوں سے سر ان کا دباتا رہا
تو اماں نے میری بلائیں بھی لیں دبے لفظوں میں پھر دعائیں بھی دیں
کرشمہ یہ سارا کورونا کا ہے مہربانی مجھ پر کورونا کا ہے
مجھے یہ گماں تھا کہ بیوی مری ہے خوش حال اور زندگی سے بھری
کسی بات پر مجھ سے لڑتی نہیں کبھی اپنے دکھڑے سناتی نہیں
میں ہفتے سے گھر میں نظر بند ہوا تو پھر بھید یہ مجھ پہ آخر کھلا
وہ وقتِ سحر سے ہی چل پڑتی ہے عشاء بعد تک چلتی ہی رہتی ہے
وہ شوہر ہو بچے ہوں یا پھر ہو ساس وہ رکھتی ہے سب کی ضرورت کا پاس
طلب پوری سب کی ہی کرتی ہے وہ سبھی کو کھلا کر ہی کھاتی ہے وہ
جنہیں لوگ کہتے خاتونِ خانہ انہیں عورتوں سے ہے قائم زمانہ
چلو اب سے بیوی کی عزت کرونا سبق یہ سکھایا ہے ہم کو کورونا
کورونا کا سب پر ہی احسان ہے مگر اس سے دنیا پریشان ہے
عید اور کوید
عید ہو سب کو مبارک کیسے میں کہہ دوں بھلا
چار سو پھیلی ہوئی ہے ایک مہلک سی وبا
ایک عالم ہے پریشاں ، لاش کے انبار ہیں
ہوش اڑے ہیں حکم راں کے ، ہیں ہراساں ڈاکٹر
کیمیائی حکمتیں ناکام ہیں ، بے کار ہیں
ہوش کھو کے گر رہا ہے راستے میں آدمی
مرض کا یلغار ہے کوئی دوا ملتی نہیں
بدحواسی میں شفا خانے کا رخ کرتا تو ہے
ہسپتالوں میں بھی لیکن کچھ شفا ملتی نہیں
موت کا ایسا نظارہ آنکھوں نے دیکھا نہیں
دسیوں موتیں ہو رہی ہیں ایک پل اک آن میں
پنڈتوں کی عقل ہے ڈنگ ، گورکن مشکل میں ہے
بھیڑ ہے شمسان میں ، ہے بھیڑ گورستان میں
جو کبھی منکر تھے وہ بھی اب دعا کرنے لگے
کرتے ہیں توبہ زباں سے پر اثر ہوتا نہیں
چسمِ تر کافی نہیں ہے قلب کو تر کیجئے
دل سے توبہ کر کے دیکھیں ، کیا اثر ہوگا نہیں؟
دور ہو جائے گی ساری مشکلیں ، سب آفتیں
ایک پل کو گر خدا سن لے ہماری التجا
پر گناہوں کے گھنے بادل ہیں چھائے راہ میں
آسمانوں تک پہنچتی ہی نہیں اپنی دعا
جب پڑوسی نے دی دستک دل میں آیا یہ خیال
پھر کورونا کا کسی کنبہ پہ حملہ ہو گیا
پھر کوئی بیوہ ہوئی یا ہوگیا کوئی یتیم
پھر کوئی اپنا کہیں اللہ کو پیارا ہو گیا
پر بڑی نرمی سے اس مردِ خدا نے یہ کہا
ہو مبارک عید تم کو ، چاند آیا ہے نظر
اس کو میں تکتا رہا اور وہ مجھے تکتا رہا
ایسی خوشیاں لے کے ہم جائیں تو پھر جائیں کدھر
عیدِ کوید بن گئی امسال بھی عیدِ سعید
بے بسی ، لاچارگی میں دل ہے یہ ڈوبا ہوا
ارتھیوں کی اور جنازوں کی قطاروں میں کھڑے
عید ہو سب کو مبارک کیسے میں کہہ دوں بھلا
****
گھر پہ رہا کرو
پھیلا ہوا کورونا ہے گھر پہ رہا کرو
خود کو تمہیں بچانا ہے گھر پہ رہا کرو
جاتے ہیں لوگ ملنے ملانے کے واسطے
یہ رسم ترک کرنا ہے گھر پہ رہا کرو
اب چھوڑ بھی دو کوچہ و بازار کے پھیرے
باہر نہیں نکلنا ہے گھر پہ رہا کرو
طوفان زلزلہ ہو تو چھپ جاتے ہو کہیں
گھر ہی ترا ٹھکانہ ہے گھر پہ رہا کرو
شریعت کا ہے قول ، حکومت بھی کہتی ہے
آفت سے دور رہنا ہے گھر پہ رہا کرو
ہر کوئی تندرست ہو صحت نہ ہو خراب
اس کا خیال رکھنا ہے گھر پہ رہا کرو
پوشیدہ جراثیم یہ ، ناپدیدہ یہ بیری
دشمن ہی غائبانہ ہے گھر پہ رہا کرو
باہر نہ جاؤ گے تو یہ اندر نہ آئے گا
اس کا احاطہ کرنا ہے گھر پہ رہا کرو
***