طلعت فاطمہ
ریسرچ اسکالر (پی ایچ ڈی)
شعبۂ اردو ،عالیہ یونیورسٹی،کولکاتا،مغربی بنگال
کٹی پتنگ
وہ خوبصورت نقش و نگار والی پتنگ جسے ُاس کے تخلیق کار نے حسین رنگوں سے مزین کیا تھا اور اس کی ساخت و ہیئت کی دلکشی کا بھرپور خیال رکھا تھا آج بے مایہ اور ارزانی کا شکار ہوکر شکستہ سی پیڑ کی سب سے اونچی شاخ پہ بے بس سی جھول رہی تھی۔طوفانی بارشیں اور دھوپ کی تمازت نے اس کے حسین پیکر کو بے رنگ اور بدہیئت کر دیا تھا۔آج اس کی طرف دیکھنے والا، اسے پانے کے لیے جان کی بازی لگانے والا، اسے حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہنے والا اور سب سے بڑھ کر اس کا وہ شیدائی وپرستار جس نے اسے اس کے تخلیق کار سے سب سے انمول قیمت پہ اپنی ملکیت بنایا تھا آج وہ سب اس سے منہ موڑ چکے تھے کیوں کہ اب وہ بے مول ہوچکی تھی، بے توقیر ہوچکی تھی، اس کی خوبصورتی زائل ہوگئی تھی،اس کے جسم پہ لکڑی کی جو باریک باریک مضبوط تیلیاں تھیں وہ بھی جگہ جگہ سے شکستہ ہوچکی تھیں اور سب سے بڑھ کر وہ ایک ایسے منجدھار میں پھنس گئی تھی جہاں نہ اسے موت کا ازلی سکون مل پا رہا تھا اور نہ ہی زندگی کی سرشاری۔
اُس پیڑ کی شاخ پہ کٹی پتنگ کا خطاب لیے اب وہ اپنی باقی ماندہ زندگی گزارنے کے لیے اپنے اُس خوبصورت دور کی حسین یادوں میں جینے لگی جب وہ ایک بہت پُر کشش پتنگ ہوا کرتی تھی۔اپنے تخلیق کار کے ہاتھوں سے جب وہ اپنے پرستار کے ہاتھوں میں آئی تو اس کی اپنے لیے حد درجہ محبت اور رفاقت پہ نازاں آسمان کی بلندیوں پہ اٹھکھیلیاں کرتی پرواز میں محو رہتی اور اس سے بندھی ڈور اس کے پرستار کے ہاتھوں میں ہوتی جو اپنی مرضی کے مطابق اسے جنبش دیتا رہتا اور وہ اس کی خوشی میں اپنی خوشی محسوس کرتے ہوئے اس کے ہر ایک اشارے پہ اسی جانب مائل بہ پرواز ہوتی جہاں وہ اسے لے جانا چاہتا۔جب وہ اس کی ڈور کو ڈھیل دیتا تو وہ خوش رنگ پنکھ لگائے مسرور سی آسمان کی بلندیوں پہ رقص کرتی اور جب وہ ڈور کو کھینچتا تو گرچہ اس کے جسم میں درد کی ہلکی سی ٹیس اٹھتی لیکن یہ درد بھی اسے عزیز تھا کہ یہ اس کے محبوب کی عطا تھی۔اپنے پرستار کی اب وہ بھی پرستش کرنے لگی تھی اور اس بات پہ ہی حسین مسکان اس کے لبوں کا احاطہ کرلیتی کہ وہ اسے ہمہ وقت اپنی نظروں کے حصار میں رکھتا تھا اورگو کہ ا سے کھلی فضاؤں میں پرواز کے لیے آزادانہ چھوڑ دیتا لیکن ایک مضبوط ڈور سے تھام کر اسے خود سے منسلک رکھ کر اپنی بے تحاشہ محبت کا ثبوت بھی دیتا۔
ابتدائی مراحل میں ُاسے یہ پرواز بہت لطف دیتی رہی لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ آزادی نہیں دراصل ایک مقابلہ بازی کی جنگ ہے جہاں اس کی کئی ہمجولیاں نیلی، پیلی، دھانی، سرخ، سفید اور زرد پتنگیں بھی آسمان پہ محوِ رقص ہوتی تھیں اور ان سب کے پرستار بھی انہیں اپنی مضبوط ڈور سے باندھے انہیں اپنے مطابق جُنبش دیتے رہتے۔آسمان پہ اُڑتے ہوئے اس کی اپنی ہم صنف سے اچھی دوستی ہوگئی تھی وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پرواز کا لطف لینا چاہتی تھیں لیکن تب ان پہ یہ تلخ حقیقت آشکار ہوئی کہ ان کے پرستار نے انہیں ان کی محبت میں آزاد نہیں چھوڑا بلکہ اپنی فتح کے لیے دوسری پتنگوں کی ڈور کاٹنے کے واسطے وہ اُن کے لیے بس ایک ذریعہ تھیں ۔وہ محض ان کے ظاہری حسن کے شیدائی تھے۔انہیں ان سے کوئی جذباتی وابستگی اور قلبی لگاؤ نہیں تھا اور اس بات نے اس کے ساتھ ساتھ ان دیگر پتنگوں کو بھی شدید تکلیف پہنچائی اور محبت کے حسین اور پُرکیف جذبے پہ ایک کاری ضرب لگی۔نہ چاہتے ہوئے بھی اب وہ اپنی ہم صنف پتنگوں کی ڈور کاٹنے پہ مجبور ہوگئی کیوں کہ اپنی ڈور تو پہلے ہی اس نے اپنے پرستار کی محبت پہ ایمان لاتے ہوئے تھما دی تھی۔ہر کٹنے والی پتنگ کی دل خراش چیخیں اس کی آنکھوں سے آنسو کی بوند بن کر ٹپکتی اور سوکھی بنجر زمین پہ پہنچنے سے قبل ہی معدوم ہوجاتی۔پھر ان کٹی پتنگوں کو لُوٹنے کی غرض سے ٍدوڑنے والے بچے و نوجوان جس طرح ان کا استحصال کرتے یہ دیکھ کر اس کی روح کانپ جاتی اور یہ تصور کہ ایک دن وہ بھی اسی بے مائیگی کا شکار ہوجائے گی ،اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگتیں۔اپنے ارد گرد مسرور سی اُڑنے والی پتنگوں کو کبھی اپنی ڈور سے کٹتے تو کبھی دوسری ڈور سے کٹتے دیکھنے کی عادی تو وہ ہونے لگی تھی لیکن دوبارہ ان کٹی پتنگوں کو لُوٹ کر اپنی ملکیت بنانے والوں کے ہاتھوں پھر سے کٹھ پُتلی بن کر اُڑتے ہوئے دیکھ کر ایک گہری اداسی اس کے وجود میں سرایت کرتی چلی گئی۔اب ان میں سے وہ کٹی پتنگیں جو کسی اور کے حصے میں چلی گئی تھیں گرچہ اب پھر سے آسمان میں اُڑ رہی تھیں لیکن اب ان کی پرواز میں وہ خوشی نہیں جھلکتی تھی جو اولین روز میں ہوا کرتی تھی۔ اب وہ محض جن ہاتھوں کی ڈورسے بندھی تھیں ان کے اشارے پہ ناچتی رہتی تھیں اور جب تھک جاتیں تو پھر کوئی ڈور انہیں اپنا شکار بنا لیتی اور پھر یا تو وہ کسی پیڑ کی شاخ پہ پھنس کر مشکل بھری زندگی کے ایام گزار دیتیں یا ان کا مرکز و محور یونہی دست بہ دست بدلتا رہتا۔وہ اب تک خوش نصیب تھی کہ اس کی ڈور کسی نے نہیں کاٹی تھی کیوں کہ اس کو چلانے والے ماہرانہ ہاتھ اسے ہر کاٹ سے بچا لیتے لیکن اب اسے اپنے پرستار کی ڈھیل نہ خوشی دیتی اور نہ ہی اس کی کھینچ سے ملنے والا درد لطف پہنچاتا تھا۔وہ سمجھ چکی تھی کہ جس کی توجہ کو وہ محبت کا سرمایہ سمجھ بیٹھی تھی وہ تو دراصل اُس کی وقتی دلچسپی اور دل بہلانے کا بہانہ تھا۔کئی کٹی پتنگوں کو لُوٹ کر اس کے پرستار نے بھی اب اپنی ملکیت بنائی ہوئی تھی اور وہ جو ابتدا میں اپنی وحدانی محبت پہ سرشار سی رہتی تھی ،اس اشتراک پہ اور یوں اپنے وجود کے استعمال پہ بے قرار ہوگئی۔اس کے ذریعہ کئی خوش رنگ پتنگیں کٹ کر گری تھیں اور ہر گرنے والی پتنگ کے ساتھ اس کا اپنا وجود بھی کسی کھائی میں گرتا محسوس ہوتا تھا۔جلد ہی اس کی خوبصورتی اور اسے اڑانے والے ہاتھوں کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔لوگ جوق در جوق ان کی مجبوریوں کو کھیل سمجھ کر تماش بین کی طرح دیکھتے اور اس کے مخالفین اس کی ڈور کو کاٹنے اور اپنی ملکیت بنانے کے لیے بے چین و بے تاب رہتے۔وہ بھی اب پوری جان سے اس کھیل میں بنی رہنا چاہتی تھی کیوں کہ یہ کٹھ پُتلی کی زندگی اسے اس استحصال سے کم از کم بہتر نظر آتی تھی جو دوسری پتنگوں کا مقدر بنتے ہوئے اس نے دیکھا تھا لیکن اسے بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ پتنگ کی قسمت میں کٹ کر بے مایہ ہونا ہی لکھا ہے سو اس کی باری بھی آگئی اور ایک مضبوط ڈور والی توانا پتنگ نے بالآخر اس کی ڈور کو کاٹ ہی دیا اور تب اسے اپنا آپ اتنا ہلکا محسوس ہوا کہ وہ ہواؤں کے تھپیڑوں سے جوجھتی ہوئی غشی کے عالم میں زمین پہ آتی چلی گئی اور شکاریوں کا بڑھتا ہوا شور اس کے وجود پہ کپکپی طاری کرنے لگا تبھی دفعتاً تیز ہواؤں کے زور پہ وہ زمین پہ گرنے سے قبل ہی پھر اُڑنے لگی اور جاکر ایک پیڑ کی اونچی شاخ پہ جھول گئی۔گرچہ وہ انسانی استحصال سے بچ گئی لیکن قدرتی آفات نے پے در پے اس کے دلکش وجود کی ساری رعنائیاں چھین لیں لیکن پھر بھی وہ کسی قدر مطمئن تھی کہ موسموں کی مار سے محض اس کاجسم چھلنی ہورہا ہے اور یہ اس کے لیے ایک کرم تھا کہ اسے روح کی شکستگی کا کرب اپنی دیگر ہم جولیوں کی طرح نہیں جھیلنا پڑا تھا۔گرچہ اب دھیرے دھیرے اس کی سانسیں ٹوٹ رہی تھیں لیکن اس آخری وقت میں بھی وہ اپنی ذات سے کسی کے خیر کا سبب بن سکی تھی جس کے لیے اس کے وجود کا ایک ایک حصہ شکر گزار تھا۔دراصل جس پیڑ کی شاخ نے اسے خود میں الجھایا تھا اسی پیڑ پہ ننھی چڑیا نے اپنے آشیانے میں چند بچوں کو جنم دیا تھا اور گو کہ اس کے اپنے وجود پہ دھوپ کی تمازت پڑتی تھی لیکن اس کا سایہ ان معصوم بچوں کو موسم کی براہ راست مار سے محفوظ رکھنے کا ضامن بن رہا تھا اور یہ بات اس کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔رفتہ رفتہ وہ بچے بھی بڑے ہوکر اپنی منزل کی جانب گامزن ہوگئے اور وہ بھی اب بہت زیادہ کمزور و نحیف ہوچکی تھی۔
آسمان پہ دلکش و خوش رنگ پتنگیں اب بھی اُڑرہی تھیں اور اس کا وہ پرستار جس کی وہ کبھی مرکزِ توجہ ہوا کرتی تھی، اب اس کے ہاتھوں میں بھی ایک نئی خوش نما پتنگ مضبوط ڈورسے بندھی مسرور و نازاں سی آسمان کی اونچائیو ں کو چھونے کے لیے پر تول رہی تھی۔ان مسرور و مغرور اور مجبور و محصور پتنگوں کی پرواز یونہی قائم تھی اور پھر کٹی پتنگوں کو لُوٹنے کے لیے لوگوں کا ہجوم یونہی دیوانہ وار بھاگتا رہتا تھا اور کچھ کٹی پتنگیں اسی کی طرح پیڑوں کی شاخوں پہ جھولتے ہوئے زندگی کی بازی ہار جایا کرتی تھیں۔ ان سب حالات نے اس پہ دنیا کی رنگینی اور بے ثباتی کو بخوبی آشکار کر دیا ۔اس کی زندگی کی لو بھی اب بجھنے لگی اور ایک رات زبردست طوفانی بارش نے اس کی زیست کی مدھم روشنی کو ہمیشہ کے لیے بجھا دیا اور بالآخرباد و باراں نے اس کی ٹوٹی تیلیوں اور منتشر وجود کو نرم مٹی میں دفن کر کے اُسے ہمیشہ کے لیے پُرسکون نیند کا تحفہ عنایت کر دیا۔
٭٭٭