You are currently viewing ہیئت و مواد کے رشتے کی وضاحت

ہیئت و مواد کے رشتے کی وضاحت

ڈاکٹر محمد نورالحق

شعبۂ اردو،بریلی کالج، بریلی

ہیئت و مواد کے رشتے کی وضاحت

ہیئت و مواد میں ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ صرف یہی نہیں کہ ایک کا تصور دوسرے  کے بغیر ممکن ہیں بلکہ دونوں جسم و روح کی طرح ہیں جسم بغیر روح کے مٹی کے ڈھیر کی طرح ہوتی ہے اور روح کی موجودگی کے لیے کسی قالب کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ہیئت اورمواد ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ کسی بھی فن پارے میں ہیئت و مواد ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ ایک کا رشتہ دوسرے سے مقطع نہیں کیا جاسکتی اور نہ ہی ایک کو دوسرے کے بغیر سمجھا جاسکتا ہے ۔ افہام و تفہیم کے لیے ذہنی سطح پر انہیں الگ ضرور کیا جاسکتا ہے لیکن عملاً ان کی جدائی ممکن نہیں۔

ہیئت ومواد کے باہمی تعلقات کی وضاحت ایک پیچیدہ مسئلے ہے۔ خاص طور سے ادب میں جہاں کوئی ایسا نظریہ موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر ادب اور اس کے مختلف اصناف کے سلسلے میں کوئی منفرد یا واحد اصول وضاحت طلب ہے جبکے بقول ریاض احمد ’’ہیئت کا مسئلہ ادب کے انالجھے ہوئے مسائل میں سے ہے جن کے متعلق کوئی حتمی فیصلے تودرکنار سرے سے یہ کہنا ہی مشکل ہے کہ اس مسئلے کی نوعیت کیا ہے۔‘‘ ہیئت و مواد کے رشتے کے سلسلے میں مختلف قسم کے نظریات، مختلف تصورات پیش کرتے ہیں۔ ’فن برائے فن‘ اور ’فن برائے زندگی‘ کے مختلف نقطہ ہائے نظر نے ہیئت و مواد کے رشتے کو خاصہ پریشان کن بنا دیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ ہیئت و مواد کو دو عینی یا نظریاتی قطب (Idealised Poles) کی طرح کھڑا کر دیا گیا ہے اور ان کے بیچ کی موہوم یا غیر مادی تفریق کو اس حد تک بتا دیا گیا ہے کہ ہیئت و مواد ایک دوسرے کے باالکل مخالف اور متضاد ہیں۔

ہیئت و مواد کے رشتے کی توضیح کے  لیے ضروری ہے کہ ہم اس پر غور کرتے چلیں کہ ادب میں مواد و ہیئت سے مراد کیا لیا جاتا ہے؟ ادب کے مواد کے سلسلے میں یوں تو بہت ساری باتیں کہی جاسکتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ادب کا مواد کائنات اور کائنات میں رچنے بسنے والے انسانوں اور اشیاؤوں کے متعلق کسی ادیب یا فنکار کے احساسات و خیالات ہیں جس میں اس کے جذبات بھی شامل ہوتے ہیں ۔ بیک بنس بھی ’’انسان کی زندگی ، افکار اور جذبات کو ادب کا مواد بتاتا ہے‘‘۔

 عارف عبدالمتین لکھتے ہیں کہ ’’موضوع ( مواد) جس کے  لئے بالعموم انگریزی کا لفظ  Content بروئے کار لایا جا تا ہے وہ خیال (بشمول جذبہ ) ہے جس کی ہم دوسروں تک ترسیل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

1صف؁ ۴۹ امکانات

اور ہیئت  کسی ادیب کا اپنے احساسات و خیالات کو کسی صنف ادب میں موزوں الفاظ کی مخصوص ترتیب و تنظیم کر کے منفردطرز اظہار کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے ۔ لیکن یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ یہ ہیئت ومواد کی صرف تجریدی تفہیم ہے۔ نظریاتی سطح پر ہیئت یا مواد کی یہ تفہیم  دونوں کو الگ الگ خانوں میں منقسم ضرور کر دیتی ہے۔ لیکن عملی سطح بینی تخلیقی سطح پر ہیئت و مواد کی یہ دوئی غیر مادی اور موہوم ہوجاتی ہے۔

چنانچہ تخلیقی سطح پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ ادب ہیئت و مواد دونوں کے امتزاج و اتحاد سے ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ ادب تخلیق کرنے میں ادیب ذہنی طور پر مواد و ہیئت کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے، بلکہ ہیئت و مواد ایک اکائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں (واضح رہے کہ تخلیقی عمل کئی  مراحل میں منظر عام پر آتا ہے) ادیب کے ذہن میں خیال خلا میں پیدا نہیں ہوتے الفاظ کے سہارے ہی ان خیالات کو ادیب اپنے ذہن میں منتقل کر پاتا ہے اور منتقل شده خیالات و تجربات اور مشاہدات کو جو بکھرے ہوئے اور گڈمڈ حالات میں  ہوتے ہیں ۔ مرتب و منظم کر کے کوئی ہیئت عائد کرتا ہے۔

در اصل ہیئت و مواد کے رشتے کی پیچیدگی کا مسئلہ ادب اور ا سکے ذریعہ اظہار کا مسئلہ ہے۔ ادب کی تشکیل زبان یعنی الفاظ سے ہوتی ہے۔ الفاظ مواد اور ہیئت دونوں ہی کی بنیاد یا بنیادی مواد ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مواد اور ہیئت دونوں ہی کا ذریعہ الفاظ ہیں ۔ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو مواد کا مفہوم ادا کرتے ہیں اور الفاظ ہی کے ذریعےکسی مواد پر ہیئت کا اطلاق کر کے ان کا اظہار ممکن ہو پاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مواد اور ہیئت دو چیزیں ہیں جنہیں خیال اور اظبار (Vision and Expoession) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے لیکن ادب میں خیال اور اظہار کے درمیان مکمل ہم آہنگی (The Perfect fusion of vision and expression)  اگر پیدا نہ ہوتو ادب پیدا نہیں ہوسکتا۔ لہذا ہیئت و مواد کے رشتےکی تمام بحثیں الفاظ یعنی زبان سے متعلق ہو جاتی ہیں چاہے وہ مواد کی صورت میں ہوں یا اظہار کی صورت میں ۔ اظہار کی صورت میں اسلوب کو بھی لازمی طور پرمد نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہاں اس بات کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مواد، ہیئت ، اسلوب اور اظہار میں زبردست فرق ہے جبکہ یہ چاروں کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے متعلق اور منسلک ہیں ۔ مواد وہ ہے جس سے جوئی چیز بنائی جاتی ہے۔ ہیئت یہ طے کرتی ہے واقعتاً وہ مواد کیا چیز بن گیا ہے، اسلوب کسی چیز کو وضع کرنے کے طریقہ کار ی فیشن سے تعلق ہے جبکہ اظہارکسی چیز کی ترسیل سے تعلق رکھتا ہے۔

ہیئت و مواد کے رشتے کی افہام وتفہیم کا سلسلہ قدیم زمانے سے ہی چلا آرہا ہے ارسطو کے نظام فکر میں بھی ہیئت و موادکی وحدت اور دوئی پرخاصے تفصیلات ملتے ہیں جہاں فنکاری ارو ہیئت کوتر جیح دی جاتی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مواد کونظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس نظام فکر کی ہیئت ومواد کے رشتے کو ’’ کلاسیکی دوئی‘‘ ’’Classic dichotomy‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ شپلے نے ہیئت و مواد پر بحث کرتے ہوئے ارسطو کے نظام فکر کے تصورات کو واضح کرتے ہوئےلکھا ہے کہ:

’’یہ سوال کہ اس چیز میں ماده ( مواد ) کیا ہے جس سے کوئی چیز بنائی گئی ہے اور وہ کیا ہے جواس مواد سے بنایا گیا ہے‘‘

“What in this thing, is material of which something is made,

and what is that which is made of this materiál ?

اس پہلو پرغور کرتے ہوئے شپلے لکھتا ہے کہ پہلے سوال کا جواب معروضی تجزئے  (Objective analysis) کے ذریعے یہ ہوگا کہ ادبی تخلیق میں ماده ( مواد ) جس سے کوئی چیز بنتی ہے وہ زبان ہے جیسا کہ میلارمے(Mallarme) نے ڈیگاس (Degas) سے کہا تھا۔ شپلے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتا ہے کہ ماده با مواد جس سے شاعر اپنی نظم کی تخلیق کرتا ہے وہ زبان ہے جو اس کے زمانے اور علاقے میں موجود ہوتی ہے۔ جب کوئی شاعر یافنکار زبان کے ساتھ عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ کسی بھی طرح سے بغیر ہیئت کے نہیں ہوتی ۔ زبان فن بذاتِ خود بہتر یا بد تر فن کی پیداوار ہے جسے مدتوں تک انسانی دنیا نے کسی مادے پرہیئت کا اطلاق کر کے بنایا ہے۔ زبان کا بنیادی مادہ آواز کےہے جسے انتخاب، اخلاق، تشکیل ، وضع ، تر کیب ، ارکان، ۔۔۔۔۔۔ یعنی قواعدی ترتیب کے ذریعے ہیئت عطا کی جاتی ہے۔ اس لئے جب کوئی ادیب تخلیقی عمل کی ابتدا کرتا ہے تو اس کا مواد پہلے سے ہی بہت سارے ہیئتی عناصر سے پُر ہوتا ہے۔ لیکن بی یہ ہیئتی عناصر اسکے مواد کاوه حصہ ہوتے ہیں جن کی وہ ترسیل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی تخلیق کی ہیئت جسے وہ ان مجموعی ہیئتوں اور خالص مواد پر عائد کرتا ہے وہ مجموعی طور پر ایک ساخت اور اسکے خود کی متعینہ معنی کیلئے ہوتی ہے۔ جونئی ہیئت وہ زبان پر عائد کرتا ہے وہ کسی چیز کے بیان یا بنانے کا تصور ہوتا ہے جسے وہ اپنے ذہن میں تھوڑا بہت سمجھے رکھتا ہے، جس کا نہ کوئی اشارہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا ترجمہ وتشرتح ممکن ہے۔ وہ کسی شئے کا تصور محض نہیں بلکے کسی وجود پذیر شئے کا قوت متخیلہ ہیں اور ان کی ظاہری شکل صرف کسی شے کو بنانے کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے اس سے جو ذہن میں حرکت پیدا ہوتی ہے وہ اظہار کی نہیں ہوتی بلکہ کسی شئے کو بنانے اور تخلیق کرنے کی ہوتی ہے۔ شپلے پال ویلیری (Paul Vallery) کے خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ کسی شئے کو بنانے اور کسی خیال کے اظہار میں فرق ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ کیا اور کیسے؟ (What is expressed and what expresses it ) یہ محض اتفاقی طور پر کسی بیان کی تشکیل کے دوران وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی نظم میں مواد کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ لیکن شپلے یہ بھی کہتا ہے کہ یہ تسلیم کر لینا کہ سی نظم یا کسی بیان کا مواد اس کے اظہار میں پایا جا سکتا ہے کسی نامکمل تجزئے کیلئے ایک آسان عمل ہے کیونکہ کسی تکمیل شده یا تخلیق شدہ شئے اورکسی شئے کےتخلیقی طریقۂ  کار میں فرق ہے طریقہ کار اورتخلیق شدہ میں جو متعلقہ گڈمڈ (Confusion) ہے جہاں لوگ الجھ جاتے ہیں اس کی وضاحت کرتے ہوئے تخلیقی عمل یا طریقہ کار کے مراحل کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے اور ہیئت کو دوسرے مرحلے کاعمل قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ کوئی ادیب اپنے فکر (مواد) پر ہیئت و ترتیب عائد کر کے ہی زبان میں اس کا اظہار کرتا ہے۔ کسی اظہار میں خیال یا موادصرف تعیناتی ساخت کی صورت میں موجود ہوتے ہیں ۔ مواد کا اظہار بغیر کسی ہیئت کے عائد کئے ہوئے نہیں کیا جاسکتا۔ اظہارپن بھی ایک ہیئتی عنصر ہے اسلئے کسی شئے میں اظہار پن کی خصوصیت کو ہیئت کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے لیکن کسی خیال کے اظہار کے طریقہ کار اور کسی مواد پر ہیئت کے عائد کرنے میں کم سے کم تجریدی تفریق لازمی ہے، کیو نکہ کیا کہا گیا ہے؟ اور کیسے کہا گیا ہے؟ دونوں کی مماثلت ناممکنہ ہے چو نکہ  ان کے درمیان تضاد ہے۔ اگر کیا اور کیسے ایک ہی ہو جائیں تو کسی چیز کا اظہا نہیں ہو پائے گا بلکہ بذات خودوہ چیز ہوگی۔

ہیئت و مواد کے رشتے پر بحث کرتے ہوئے شوکت سبزواری رقمطراز ہیں کہ

’’ہیئت کا مقابل مواد ہے۔ ہیئت اور مواد میں وہی نسبت ہے جوصورت اور مادہ یا طرز اور خیال میں ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ …………… اس ناول کی ہیئت بدنما ہے……………….. تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ …………. ناول کا موادیعنی کردار، پلاٹ ، فلسفہ حیات بے عیب ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کی ترتیب وتہذیب مناسب نہیں۔ ان کو بہتر انداز سے پیش نہیں کیا گیا۔ میں نہیں کہتا کہ ہیئت اور مواد دوجداجدا چیزیں ہیں ……………. ذہنی طور سے ہیئت اور موادکو ایک دوسرے سے الگ کر کے ہم ان میں تفریق کر سکتے ہیں …………….. قدیم زمانے کے ادیبوں نے ہیئت کو مواد سے الگ کر کے ہی ہیئت پر زور دیا اور اسے مواد سے اہم بتایا۔ ان کا خیال تھا کہ فن کا تعلق مواد سے نہیں ہیئت سے ہے۔ مواد فنکار کی دسترس سے باہر تھا فنکار نے تصور کر کے اسے بہترین شکل دی…………….. خیال ہرشخص کے ذہن میں آ سکتا ہے اس میں فنکار کے سحروا عجاز کودخل نہیں۔ خیال کوحیسن اور نگین انداز میں بیان کرنا فن ہے۔ خیال میں جادو نہیں ہوتا ۔ شاعر خیال کوحسین انداز دے کر جادو جگادیتا ہے۔ یونانی فلسفی ہیئت کو علت صوری کہتے تھے اور مادے کوعلت مادی ان کا خیال تھا کہ دو علتوں کے اجتماع سے ایک چیز وجود میں آتی ہے یہ علتیں ہر چیز کی ذات میں داخل ہوتی ہیں ۔ فاعلی اور نمائی خارجی علتیں ہیں اور صوری و مادی داخلی ۔ قدیم یونانی کہتے تھے کہ ویسے تو دونوں داخل علتیں اہم ہیں لیکن کسی چیزکی تکمیل اس کی ہیئت (صورت) سے وابستہ ہے بلکہ ہیئت ہی دراصل چیز ہے۔ جب تک چیزکی تکمیل نہ ہو وہ مو جو نہیں سمجھی جاتی مثلاً گیند کو جو چیز گیند بناتی ہے اس کی گولائی سے گیند کی  صورت ہے۔ گیند کی تکمیل اس وقت ہوئی جب مادے یعنی لکڑی یار بڑنے مدور شکل اختیار کی یایوں کہئے کہ صناع نے جب لکڑی یا ربڑ مدور شکل دی تو گیند وجود میں آئی۔‘‘

(1 صف ۱۳-۱۲ ہیئتی تنقید)

اس طویل اقتباس سے ہیئت و مواد کے رشتے کی وضاحت کی سطحوں پر ہوتی ہے۔ ایک تو یہ فن کے نقطہ نظر سے ہیئت کو مواد پر تفوق حاصل ہے اگرفن کا مقصد حسن پذیری، رنگینی اور لگشی کے ذریے جادو جگانا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی شے  کی تکمیل میں بھی ہیئت کو اسکے مواد پرتفوق حاصل ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بولنا چاہئے کہ تفوق با ترجیح سے رشتے پر جو اثر پڑتا ہے وہ محض درجے کا ہے کیونکہ ہیئت و مواد ایک دوسرے کا  تکملہ ہیں ۔مواد کی عدم موجودگی میں ہیئت یا فنکاری کا تصور ممکن نہیں۔  شوکت سبزواری ہی کے لفظوں میں۔

’’ہیئت مواد کے مقابلے میں ہے اس لئے مواد کو ذہنی طور سے الگ کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ ہیئت ہے۔ مواد ہیئت میں شامل نہیں۔ ہیئت کی حد میں متعین کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے مواد کاتعین ہوجائے اور یہ طے کر لیا جائے کہ نظم ، ناول یا ڈرامے میں وہ کون سی چیز ہے جسے مواد کا درجہ دیا جاسکتا ہے میک نیس انسان کی زندگی کے افکار و جذبات کو ادب کا مواد بتا تا ہے۔ حیات و کائنات سے متعلق ادیب کے تاثرات دراصل ادب کا  مواد ہیں ۔ ان تاثرات کو ادیب الفاظ کے قالب میں ڈھال کر پیش کرتا ہے اس لحاظ سے الفاظ و مواد میں شامل نہیں کرنا چاہئے لیکن یہ طے ہو چکا ہے کہ خیال ذہن میں نہیں ابھرتا جب تک الفاظ اس کے ساتھ نہ ہوں، اس لئے خیال کو ادب کا موادٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ زندہ الفاظ اور ان کا جذباتی مفہوم ادب کا مواد ہے اور ان الفاظ کی مخصوص ترتیب تمثالی پیکر (IMAGE)، آہنگ، لے، موسیقی اور وزن شاعری کی ہیئت ہے‘‘۔

(1صف ۱۵-۱۴ ہیئتی تنقید)

گر چہ شوکت سبزواری نے یہاں ہیئت و مواد میں امتیاز کیا ہے لیکن اس کے باوجود ہیئت و مواد کو لازم و ملزوم (Correlative) کی طرح ہم موزونیت (Fitness) کا نام آتے ہی یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس چیز کا ہر حصہ اپنی جگہ پرٹھیک طریقے سے ہے اور کوئی چیز فالتو نہیں ہے یا کہیں سے گڑ بڑہیں ہے اسی طرح ہیئت کے ہر حصے کا ہونا ضروری ہے۔ ہیئت کامل مواد سے وابستہ ہے اور ادب میں مواد کی چہار دیواری یا ڈبہ میں بند آش یا یخنی(Soup) سے نہیں جس کے قابل دید احاطے ہوتے ہیں اور جو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہے  بلکہ اطلاع باخبر(Information) ہے جو اگر چہ کسی ٹین کے ڈئے یا بوتل میں نہیں تاہم الفاظ، Code،جسم کے حرکات وغیرہ سے پہنچتی  ہے یہاں مواد سے مراد کسی چیز کا اظہار ہے جسے دوسرے تک پہنچنے کے لائق بنایا گیا ہو نہ کہ – مواد کے رشتے پر اے، سی ، بریڈلے نے شاعری برائے شاعری، پر بحث کرتے ہوئے روشنی ڈالی ہے اور مواد اور ہیئت کوعضوی وحدت کا نام دیا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ

’’اگر مواد سے مرادخیال اور پیکر ہے اور ہیئت سے مراد نپی تلی زبان ہے تو یہ ایک نمایاں امتیاز ہے۔ دراصل نظم کی اصلی قدرو قیمت اس کے مواد میں پوشیدہ ہے اگرنظم میں مواد اور ہیئت کے معنی کوئی چیز ہیں جو ایک دوسرے میں پیوست ہیں تو اس دوئی کو ماننے سے وہ عنصر نظر انداز ہو جاتا ہے، جس میں اسکی اصلی قدرو قیمت پنہاں ہے۔ مواد اور ہیئت پر گفتگو کرتے ہوئے ان دونوں کو الگ الگ نہیں سمجھا جاسکتا‘‘۔

 (۲ صف۲۳ اردو شاعری میں ہیئت ہیئت کے تجربے)

ہیئت و مواد کے رشتے کی وضاحت میں کروچے (Croce) کی نظر یہ اظہار یت سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اظہار پن، ایک ہیئتی عنصر ہے۔ اور ارسطو سے لیکر بعد کی آج تک کے نقاد اظبار پن کے اس خصوصیت کے قائل ہیں ۔ کروچ کہتا ہے کہ ’’کسی شاعر کے حقیقی جذبات کو جاننے کیلئے اس کی متبادل صنف (Representative Form) جس میں اس نے اپنے جذبات کی ترجمانی کی ہے اس کے سوا کسی اور چیز کو جانے کی ضرورت نہیں‘‘ ۔ کیونکہ اس کے نذدیک وجدان اظہار کے ساتھ استوار ہوتا ہے۔ اظہار دراصل اس عمل کا نام ہے جب انسان باطنی طور پر مختلف احساسات کے ٹکڑوں کو چن کر ایک وحدت میں ڈھالتا ہے جب محسوسات کے یہ اجزاء ایک وحدت میں ڈھل جاتے ہیں تو اظہار کاعمل پورا ہو جاتا ہے۔ کروچے کی اس نظر یہ اظہاریت پر گفتگو کرتے ہوئے ومسیٹ اور بروکس(WIMSATT and BROOKS) نے لکھا ہے کہ

 “This kind of expressionism resolves the Form Content dichotomy. But with a finality that defends the artist’s imagination or intuition against the kind of analysis charastristic of modern criticism.

(Page 111 Literary criticism. A. short history)

کروچ کا کہنا ہے کہ

’’ماده تجریدی سطح پر صرف میکا نکیت اور انفعالیت ہے جسے انسانی روح سہن تو کرتی ہے۔ لیکن پیدا نہیں کرسکتی۔ اس کے بغیر کوئی انسانی علم یا عمل مکمل نہیں صرف مادیت بہمیت  پیدا کرتی ہے، اور انسان کے وحشی پن اور اس کی اور اضطراری حرکات کو ابھارتی ہے۔ وہ روحانی قلرو پیدا نہیں کرتی جو انسانیت ہے۔ اکثر اوقات ہم پر ایساحال طاری ہوتا ہے جسے ہم سمجھنا چاہتے ہیں ہم اس کی صرف ایک جھلک دیکھ پاتے ہیں لیکن وہ ذہن  کے سامنے معروضی شکل میں تشکل نہیں ہوتا ایسے ہی لمحات میں ہم مادہ اور ہیئت کا گہرافرق مجھ سکتے ہیں یہ ہمارے دو الگ الگ اور ایک بلک دوسرے کے مخالف اعمال ہیں بلکہ ایک ہم سے باہر ہے جو ہم پر حملے  کرتا ہے اور ہمیں سر کے بل گرانا چاہتا ہے۔ اور دوسرا ہمارے اندر ہے ’’جو باہر جو کچھ ہے‘‘ سے جذب کرنے اور اس کے ساتھ ایک ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جب مادہ ہیئت کا لباس پہن لیتا ہے اور اس سے مفتوح ہو جا تا ہے تو ٹھوس ہیئت کو جنم دیتا ہے۔ یہ مادہ یعنی موادی ہے جو ہمارے ایک وجدان کو دوسرے وجدان سے ممیز کرتا ہے۔ ہیئت مستقل ہے، یہ روحانی عمل ہے جب کہ ماده قابل تغیر  ہے۔ مادے کے بغیر یہ روحانی عمل اپنی تجریدیت ترک کر کے ٹھوس  اورحقیقی عمل نہیں بن سکتا نہ روحانی مواد بن سکتا ہے مخصوص وجدان‘‘ ۔ (۲ صف؁ ۱۳۵ ہیئتی تنقید)

یہاں ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہاں ہیئت سے مرادمحض خارجی، میکانکی یا ظاہری شکل وصورت کی ہیئت جسے غیر جمالیاتی ہیئت بھی کہتے ہیں ہرگز مرا نہیں اور نہ ہی ہیئت مواد کے مقابل (Form opposed to contant) ہی مراد ہے بلکہ  باطنی ہیئت مراد ہے جس میں ہیئت و مواد آپس میں بالکل ہم آہنگ ہوتے ہیں جسے دوسرے لفظوں میں عضوی ہیئت کہا جاسکتا ہے۔

ہیئت و مواد کے رشتے کی افہام وتفہیم کا مسئلہ اسلوبیاتی مطالعے کے نظرئے میں بھی ایک قدیم اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہاں ہم اسلوبیاتی مطالعے کے تمام جزئیات سے قطع نظر صرف ان پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے جو ہیئت و مواد کے رشتے کو سمجھنے میں ہمیں مدد پہنچاتے ہیں ۔ اسلوب کے تجزئے میں ہم کسی عبارت کو چیر پھاڑ کر کے اس کی اندرور فی اہمیت اور قابل شناخت و قو کی خصوصیات کے درمیانی رشتے ، زبان کے اندر رسمی یا متحرک کیا ہے؟ اس کے اندر نظر آنے والی اظہاری  ذرائع اور نہ نظر آنے والی زور دار اظہار کے بیچ رشتہ کیا ہے؟ وغیرہ پر زور دیتے ہیں اور جب ایک شخص کسی عبارت کے ٹکڑے کے کچھ حصے کو ایک اہم بیانیہ تفصیل کا سلسلہ سمجھتا ہے اور کچھ حصے کو جملوں کی ساخت کے طور پر اصطلاحوں کی ترتیب وار سلسلے کی حیثیت سے جومخصوص معنی اور عام خصوصیات رکھتے ہیں۔ اور کچھ حصوں کو الفاظ کے سلسلے کی حیثیت سے جن کی بحیثیت الفاظ خاص قدریں ہوتی ہیں اور مخصوص اہم گروہ میں ہوتی ہیں، سمجھتا ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہیئت ، کہاں ہے اور مواد کہاں ہے؟ یعنی ہیئت ومواد کی بحث تو ہے ہی نہیں ۔ ہیئت و مواد کی دوئی کے سلسلے میں کسی شاعران متن کی تنقید کیلئے کئی سطحوں کا انتخاب خاص طور سے کیا جاسکتا ہے۔ جن میں چارا ہم سطحیں  قابل غور  ہیں ۔ (۱) فعلیت Verbalisation)) (۲) تشکیلیت (Formulation) (۳) ارتقا (Development)  (۴) ذہنی شکل یا تصور (Conception) ان میں سے پہلے دو کاتعلق متن کی زبان کے اضافی پہلوؤں سے ہے اور آخری دو کاتعلق نظم کے پلاٹ کی ترتیب، ترثیل یا اظہار سے ہے۔

میری برووف (MARIE BROFE) نے ان چاروں سطحوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

 تشکیلیت (Formulation) کی سطح  اپنے تصوراتی پہلوؤں میں اصطلاحوں اور قواعدی ساخت کی سطح ہے۔ فعلیت  (Verbalization) کی سطح اپنے اندر نہ صرف طرز (Diction) اور کسی مخصوص الفاظ سے متعلق مجوعے کے دائرے کو اپنے اندر سموئے کھتی ہے بلکہ قونیمی  اور بکری (بحر سے متعلق) اورقواعدی ساخت اسلوبیاتی پہلوؤں کو بھی اپنے اندر سموئے رکھتی ہے۔ ارتقاء، تشکیلیت اور فعلیت کو پلاٹ یا تصورات سے اور کسی چیز کو بنانے کی ڈھالنے والے مجموعے کی حیثیت سے ایک دوسرے سے مربوط سمجھا جانا چاہئے ۔ ان کے علاوہ بھی کسی نظم میں ہیئت و مواد کے رشتے کے تجزیاتی پہلو ہو سکتے ہیں جنکا انحصار اس پر ہے کہ متفقہ طور پر کیادائی سمجھاجاتا ہے اور اسے ڈرامائی انداز سے بامعنی جامہ پہنانے کی حیثیت سے کیا مباحث ہوتا ہے۔ غرض مواد کے تصور کے تعلق سے ارتقائی عمل ہیئت ہے’ تشکیلیت‘ یا تو تصوریا ارتقائی عمل کےتعلق سے ہیئت ہے۔ تصور، تشکیل یا ارتقاء کے تعلق سے ’فعلیت ‘، ہیئت ہے۔ اور تصور بذات خودشاعر کے ذہن اور تجربے میں اپنے ذرائع ، اس کے ورثے میں پائے ہوئے ’ادبی روایتوں‘ اپنے زمانے کی زبان کے اظہاری قوتوں کے تعلق سے ہیئت ہے‘‘۔ (761-75 THEORY – Page)

ہیئت و مواد کے رشتے کی معنی خیزی یا اہمیت (Significance) کے متعلق بروف نے کچھ اس طرح کا خیال پیش کیا ہے :

The significance of any form content relationship is an arrow, or better still, a vector or line of force to which the reader responds by grasping its directive import. (Theory 2 Page 77)

اگرچہ بروف نے ہیئت و مواد کے رشتے کی وضاحت کیلئے شاعری کا سہارا لیا ہے جس سے نشری فن پارے پر روشنی نہیں پڑتی۔ اس کے باوجود چو نئے اسلوبیاتی مطالعے میں نظم و نثر میں تفریق کوئی ایسی نہیں ملتی جس میں قواعدی ساخت ، الفاظ کے اصطلاح اور وضعی معنوں میں یا آوازوں کے مختلف تاثرات میں کوئی خط امتیاز کھینچی  جا سکے اور کہے دیا جائے کہ ہیئت و مواد کے رشتے کی وضاحت کیلئے اس طرح کا پیمانہ غیر موزوں ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہیئت و مواد کے رشتے کی بحث نے جس طرح نظم کو متاثر کیا ہے اس طرح نثر کونہیں۔ لیکن ہماراتعلق نثر سے ہے اس لئے اگر ہم کسی ادیب کے ایک جملے کا ہی  اسلویاتی تجزیہ کریں تو اسکے لئے ہمارے پاس کوئی دوسرا پیمانہ نہیں  ہے۔ مثال کے طور پر

’’جمالیات ہیئت اور جذبہ‘‘ میں مشہور مقالہ نگاربیکن (BACON) کا مقالہ ’’موت‘‘ (Of Death) کا ایک جملے کا تجزیہ ہیئت کوملحوظ ر کھتے ہوئے اسلوبیاتی طور پر کچھ اس طرح کیا گیا ہے۔ وہ جملے ہیں

آدمی موت سے ڈرتے ہیں، جس طرح کے بچے اندھیرے میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ اور جیسے بچوں میں اس فطری خوف کو، کہانیوں کے ذریعہ بڑھایا جا تا ہے، ٹھیک وہی حال دوسرے کا ہے۔

Men fear death , as children fear to goe in the Dark: And as that Natural fear in children, is increased with Tales, so is the other. 3 Page 96 Aesthetics, Form and emotion.

بیکن کا یہ جملہ دو حصوں میں کالن (:) کے ذریع منقسم ہے اور دونوں ایک دوسرے کو متوازن کئے ہوئے ہیں ۔ یہ جملہ تین یک رکنی الفاظ سے شروع ہوتا ہے یک رکنی فعل یا اسم  اہمیت یا تا کید کی طرف بلاتے ہیں ت ۔جسے یہ  اس جملے میں علیحدہ علحدہ پاتے ہیں ۔ پھر ہم اس جملے میں ایک ایسی  اکائی پاتے ہیں جو self- Contained (خود پر قابو ہونا ) ہے تین بڑھی ہوئی دھڑکنوں (Heavy beats) کے ساتھ ۔ جس کی وضاحت اس طرح ہوسکتی ہے کہ ’آدمی‘ (Men)، ’بچے‘ (Children)  کے ساتھ تضاد کے ذریعے اپنے ماضی کی روشنی میں تاکید یا اہمیت پا رہا ہے۔ ’خوف‘ سید ھے آگے دہرائے جانے کے ذریعے ۔ اور’ موت‘ اور ’اندھیرا‘ ہیئت و معنی کے نقطہ نظر سے دونوں ایک رکنی میقاتی صنعت  تجنیس    (Alliterating terminal monosyllables)  جملے کے پہلے حصہ پر ایک دوسری آہنگ عائد  کرتے ہیں۔ یہ کافی حد تک نمایاں ہے کہ یہ مختصر ذیلی تقسیم دوسرے  حصے سے تضادبھی کراتی ہے اور توازن بھی جملے کا واسراخاص یا اصل حصہ پہلے حصے کے عام آہنگ کو دہراتا ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ جو آخری ترکیب ہے جسے حماقتی (Throw, away ) کہہ سکتے ہیں وہ ایسا لگتا ہے کہ ایک کمزور، لڑکھڑاتا ہوا اختتامیہ ہے۔ یہ ایک سنجیدہ تردیدی انداز اور  ایک تحقیر کا ہلکا سا اشارہ ہے۔ لارڈ چاسنلر (Lord Chancellor) جیساکہ میرا ماننا ہے  اور صحیح العقیدہ ہونے کے ناطے تحقیر  و پھٹکار میں یقین کرتا  فرانسس بیکن (Francis bncon) مقالہ نگار ہونے کی وجہ سے شک کی گنجائش چھوڑ دیتا ہے۔

فن اور خاص طور سے ادب جو انسانی صنعت گری کی پیداوار ہے میں ہیئت و مواد کے رشتے کی بات کبھی بھی تو بالکل لایعنی طور پر ہوتی ہے۔ کیونکہ ادب کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ اس کا وسیلہ زبان ہے۔ اس میں الفا،ظ تراکیب ، محاورے استعارے تشبیہات وغیرہ سب کے سب کسی نہ کسی چیز کے اظہار کیلئے ہی بنے ہیں ۔ یہی مواد کو بھی عیاں کرتے ہیں اور انہیں سے ہیئت کا تعین بھی ہوتا ہے تو پھر مواد اور ہیئت کے درمیان اختلاف اور اتفاق کی بات ہی نہیں کی ہونی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکاٹ جیمس یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ

’’موادکا  مفہوم یہ ہے کہ کسی مقصد کے تحت برتنے سے ہر وہ مادہ مواد کہلاتا ہے جس سے کوئی چیز بنائی جاتی ہے۔ اس طرح وہ اُون مواد ہے جس سے کپڑے بنتے ہیں مگر وہ کپڑا بھی موادہے جس سے کوٹ بنتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ آواز مواد ہے جس سے لفظ بنتا ہے اور پھر وہ الفاظ بھی مواد ہیں جن سے جملے بنتے ہیں‘‘۔

(The making of literature page 302)

لیکن ہیئت و مواد کے رشتے کی بجث اگر نہ چھڑی ہوتی تو ادب نہ جانے آج کس مقام پر ہو تا ۔ در اصل یہ مسئلہ فنکارانہ اتنا ہیں جتنا نظریاتی ہے۔ نظریاتی طور پر ادب کو جب مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا جانے لگاتو فنکاری طاق پر چلی گئی اور ادب پرو پیگنڈا کی شکل اختیار کر گیا۔ تو ظاہر ہے کہ ایسے میں اس طرح کے نظرئے کی مخالفت لازمی تھی کیونکہ اس کی جگہ صحافت یا اور دوسرے ذرائع کے چکے تھے۔ اس طرح فنکاری کے بہت سارے نظرئے نے جنم لیا جنہیں دو بڑے گروہ میں منقسم کیا گیا۔ ہیئت و مواد کے رشتے کے تعلق سے ہمیں ان پر بھی نگاہ لینا ضروری ہے۔ ’فن برائے فن‘ کے نظرئے نے ادب کو محض جمالیاتی خط حاصل کرنے کا آلہ تصورکر  کے اسے تمام اخلاقی ضابطوں  اور نیکی و صداقت کے بندھنوں سے آزاد کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ مواد و موضوع اور معنی کے اعتبار سے بھی ادب کو موسیقی کی طرح مناسبت سے آزاد کرنے کا نظریہ پیش کیا جانے لگا کہ

’’جس طرح موسیقی میں مختلف سروں کو سنتے ہوئے میں یہ یا نہیں آتا کہ یہ آواز تیتر کی ہے یابٹیر کی ہم صرف انہیں آواز کی حیثیت سے سنتے ہیں اور آوزوں کی حسن ترتیب اور آہنگ سے محظوظ ہوتے ہیں ۔ یہی کیفیت شعر میں بھی ہونی چاہئے شعر پڑھتے ہوئے ہمارا ذہن معنی کی طرف نہ جائے بلکہ آواز ہی سے ہماری پوری تسلی ہو جائے‘‘۔ (1ہیئتی تنقید صف ۳۲)

اس نظریہ کے پیروکاروں میں فلا بیرٹ (FLAUBERT) نے افسانے اور نثرکو معنی سے آزاد کرانے کی کوشش کی تو میلارمے  نے خالص شاعری کا نظریہ پیش کیا اور ورلینؔ نے سب سے زیادہ موسیقی پر زور دیا۔ نتیجے میں مواد و موضوع کی اہمیت کے بجائے تمام زور طرز تحریر پر صرف کی جانے لگی اور کسی فن پارے میں اصل چیز اسلوب یا طریقۂ کار کوتسلیم کیا گیا ۔ یہاں سے نہ صرف ہیئت کی پرستش شروع ہوئی بلکہ  پال ویلیری(Paul Valery) نے یہاں تک کہ ڈالا کہ

’’فن  کار کی جد و جہد کا حاصل طریقۂ کار کی تلاش ہے طریقۂ کارمل جائے تو اس کے بعد اگر فن پارے کی تخلیق بھی کرے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ (۲صف ۳۷ہیئتی تنقید)

اس طرح خالص ہیئت پرستی نے جنم لیا ہے جمالیاتی ہیئت پرستی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ہیئت اور جمالیاتی ہیئت گو کہ ہے ہیئتی (Formlessness) کی مخالفت کرتی ہیں تاہم دونوں کی خصوصیات میں فرق ہے۔

دوسری طرف فن برائے زندگی کے نظرئے نے نہ صرف ادب کو نیکی ، صداقت، حقیقت، اخلاق کی تلقین کرنے کا آلہ اور سماج کے دوسرے علوم کا وسیلہ سمجھا  بلکہ ادب کا مقصد صرف مادی زندگی کی حقیقتوں کی عکاسی بتایا۔ ان تمام عینی نظریات اورحسن و جمالی  کی مخالفت کی جانےلگی جو براہ راست عوام کی زندگی سے لگاؤ رکھتے تھے۔ ساتھ ہی سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جانے لگا کہ ادب میں کیا پیش کیا جا رہا ہے اسے دیکھا جائے موادو موضوع ہی اصل چیز ہے اسے فنکاری سے کوئی تعلق نہیں ۔ جس کے جواز میں طرح طرح کی مثالیں پیش کی گئیں ۔ مثلاً اگر ایک بھی قسم کی میز ہمارے بیٹھنے کے کام آتی ہے تو اس پر فنکارانہ طریقے سے کی گئی نقاشی ہماری افادیت میں کوئی اضافہ نہیں کرتی۔ چرنی شیوکی(Chernyshevsky) نے تو یہاں تک کہ ڈالا کہ

ہیئت و مواد بالکل متضاد اور مخالف چیزیں ہیں فن کا مواد چاہے وہ قدیم اقدار سے کتنی ہی بدصورت ہوصرف حقیقت ہے اور ہیئت کی کون پرواہ کرتا ہے

“Form and content are entirely separate. the content of art is all reality, however ugly by old standard and who cares for form.”

(A history of modern criticism _ P. 240)

روس میں سماجی  حقیقت نگاری نے اتنا زور پڑا کہ خود  لسنؔ  نے اسے نازیبا سماجیت (Vulgar sociologism) کا نام دیا ۔ اسی نازیباسماجیت نے وی شیلیاتی کوف (V. Shalyati kov) سے جوش میں یہ کہلوایا کہ

’’تمام نظریات کو پیداوار کے ذرائع سے جڑا ہونا چاہئے ۔‘‘

جسے  وی فریشے (V. FRITCHE )نے نہ صرف سراہا بلکہ کچھ اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا

“That the creation of the work of art was analogous with material production.” (1.Confluence – P.120)

یہی وجہ ہے کہ روس میں جہاں ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا نظری سب سے مضبوط طریقے سے جڑ پکڑ چکا تھا میں ہیئت پرستی نے بھی خوب گل کھلایا۔

اس طرح خالص جمالیاتی ہیئت پرستی اور خالص مواد پرستی کے رجحان نے جنم لیا ۔ جس سے ایک طرف صوتیاتی ، معنیاتی اور اسلوبیاتی نقطۂ نظر سے فن پارہ کو دیکھا جانے لگا تو دوسری طرف سماجی زندگی کے حالات ،تخلیق کاروں کی سوا نح اور قاری پرفن پارے کے اثرات کے ساتھ ساتھ نظریاتی مواد کو ہی دیکھنے کی باتیں کہی جائے لگیں۔ نتیجے میں فن پاره آواز و الفاظ ، وزن و آہنگ اور موسیقی کے زمرے میں داخل ہوگیا یا پھر پروپر لیٹریٹ طبقے کی آواز بن گیا۔

ہیئت و موادکی اس رسہ کشی نے ایسے مفکروں کو جنم دیا جنہوں نے اس پرغور کرنا شروع کیا کہ کسی فن پارے کے مکمل تجزئے کیلئے اگر ہیئت و مواد دونوں میں سے کوئی بھی الگ الگ اہمیت کا حامل نہیں ہے تو پھر وہ کوئی چیز ہے جس سے کسی فن پارے کا مکمل تجز یہ ممکن ہوسکتا ہے۔

میاسنیکوف (MAYASNIKOV) کے الفاظ میں

It form while being considered outside its nexus with content and content outside its link with from, can bot hot explain the structure of a work of art as a whole, which are the constants which should explain this structure?

(2 P. 129. Confluence histrico-comparative and other literary studies.)

اس مسئلہ کاحل بعض ادیبوں نے مارکس کے اس مشورے میں ڈھونڈنے کی کوشش کی جس میں اس نے کہا تھا کہ کسی معروض (Object) کے جو ہر انہ عجائبات  کا اظہار خود اس معروض کی زبان میں کرنی چاہئے اور کسی معروض  کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جس کا وہ بذات خود متلاشی ہے۔ کیونکہ حقیقی زندگی کو جمالیاتی حقیقت میں تبدیل کرنے کے طریقۂ کار کا ارتقاء معروضی اور موضوعی محرکات کے ایک پیچیدہ امتزاج کا نتیجہ ہے۔

کچھ ایسے فنکار ہوئے جنہوں نے دونوں انتہا پسند نظرئے کو بالائے طاق رکھ کرفن اورفکر دونوں کے امتزاج پر زور دیا اور ہیئت و مواد کے اٹوٹ رشتے کی دہائی ہی نہیں دی بلکہ اس وحدت کوفن پارے کی روح سے تعبیر کیا ۔ چنگیز ایتما طوق (CHINGIZH AITMTOV) کا خیال ہے کہ

“…….. Th content and from are indeed two categories which constitute the essence of a literary work in their organic unity.” (1 Page 130 CONFLUENCE)

کانسٹیٹ فیڈ مین) KONSTANTIN FEDIN) اس طرح سے تقمطراز ہیں

“The thought content of a literary work is constituted by the totality of all the elements of content, While the artistic level of the work is an integral whole of all the elements of its form and content when we try to unravel the intimately interlinked nations of thought-content and artistic parameters, we, in our practical work, encounter an extremely intrinsinc understanding of content and form.” (2 Page 119 CONFLUENCE )

ہیئت و مواد کے رشتے پر مار کسی نقطۂ نظر کے مطابق ڈاکٹر عبدالعلیم کچھ اس طرح روشنی ڈالتے ہیں۔

’’مارکسی نقطۂ نظر کے مطابق موضوع (مواد) اور ہیئت ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ان کو الگ کرکے اچھی طرح سمجھنا مشکل ہے اگر ہیئت کو موضوع سے الگ کر دیں تو اس کی خوبی پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی۔ اسی طرح موضوع کے حسین اظہار کے لیے فنکارانہ ہیئت کا ہونا لازم ہے۔ یہ دونوں عناصر ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘‘ (۳ صف ۲۲۹ تنقیدی نظریات)

مارکس کے نقط نظر کے مطابق ہیئت و مواد میں نامیاتی وحدت پر زور تو ضرور دکھائی دیتا ہے۔ لیکن آج بھی بعض مارکسی نقاد مواد کو ہیئت سے بر تر سمجھتے ہیں۔ عارف عبد اتین کا خیال ہے کہ

’’میرے نزدیک موضوع ( مواد ) کو ہیئت پر بہرحال تفوق میسر ہے۔خیال اپنے پیرایہ اظہار سے بہرکیف برتر ہے اور روح جسم سے بہر طور بلند و بالا ہے‘‘۔(۴صف ۵۵ امکانات)

سیاق وسباق( CONTEXTUALISM) پر زور دینے والوں نے ہیئت و مواد کے اتحاد کا ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس میں آئینہ کو در یچہ  کی حیثیت حاصل ہوجائے مر ے کر یگر (MURRAY KRIEGER) اس کی تائید کرتا ہے۔ ومسیٹ اور بروکس لکھتے ہیں کہ

“Murray krieger insists on the contextnalists miraculous combination of theme and form in the body of the work as the mirror becomes window.”

(1Page 112 WIMSATT & BROOKS)

غرض مندرجہ بالاتفصیلات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہیئت و مواد میں ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ ادب تخلیق میں ان کی حیثیت امتیازی ہونے کے باوجود یہ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں بلکہ ایک کے بغیر دوسرے کے وجود کا تصور ہی مکن نہیں ہے۔ نظریاتی طور پر بھلے ہی ان میں تری وتفوق کوٹل رہے لیکن عملی طور پر ان کا اہم ہونا لازمی ہے۔

***

Leave a Reply